شاہ حسینؒ،مختصرسوانح عمری اور نمونہ کلام
شاہ حسینؒ کی صحیح تاریخ پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے۔بعض روایات کے مطابق 9 153 ء اور تحقیقات چشتی کے مطابق 945ہجری بمطابق 1538ء ہے ۔ آپ شہنشاہ اکبر کے دور میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش اندرون شہر محلہ ٹیکسال دروازہ میں ہوئی۔ اس وقت اس محلے کا نام ٹلہ ہوتا تھا۔ آپ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے آبائواجداد کپڑا بننے کا کام کرتے تھے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم گھر میں اورمسجد میں ہوئی تھی جب آپ کو مولوی محمد ابوبکر کے ہاں قرآن حفظ کرنے کے لیے بھیجا گیا تو اس وقت آپ کے عمر دس سال تھی ۔ شاہ حسین کی سوانح کی کتابوں سے کئی واقعات ملتے ہیں جن سے ان کی کرامات سامنے آئی ہیں ، وہ عربی کے عالم اور صاحب کرامت صوفی تھے۔شاہ حسینؒ کے بارے میں میاں ظفر مقبول نے ایک جگہ لکھا ہے ؛’’شاہ حسین کا تصوف اصل میں مستی کا تصوف تھا جو کہ ذکر خفی اور تصور کی منزلوں سے بہت آگے کی بات ہے تاہم ان کے تصوف میں اخلاق، فلسفہ، خیال، رومانیت اور اس کے جملہ عناصر کے اسرارورموز سبھی کچھ موجود ہیں۔‘‘ شاہ حسین کی وفات ایک ویب سائٹ کے مطابق 1599ء اور تحقیقات چشتی کے مطابق بھی 1599ھ میں ہوئی جبکہ شفقت تنویر مرزا کی تصنیف ’’شاہ حسین دی حیاتی‘‘ کے مطابق ان کی وفات 63سال کی عمر میں 1601ء میں ہوئی۔ شاہ حسین نے اپنے احباب اور عزیز واقارب کو وصیت کی تھی کہ مجھے شاہدرہ میں دفنا یا جائے۔ تیرہ برس بعد میری قبرراوی کے سیلاب سے تباہ ہو جائے گی۔ بعد میں مجھے بابو پورہ حالیہ باغبانپورہ میں دفن کیا جائے لہٰذا ایسا ہی ہوا۔ آج ان کا مزار باغبانپورہ میں موجود ہے۔ شاہ حسین کے کلام کے قلابے انسان کی حقیقت اور انسان کے اگلے پڑائو سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے فکروفن کے ذریعے لوگوں کے دلوں پر حکومت کی۔ شاہ حسین نے پنجابی ادب کو کافی کی صنف سے روشناس کرایا، ان کو کلاسیکل دور کا دوسرا بڑا شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کے کلام میں امن وآشتی ،صلح ومحبت ، پیار واخلاق اور انسانیت کی رہنمائی ہے۔ انہوں نے حق اور سچ کا بول بالا کیا ہے اور اپنے عارفانہ کلام کے ذریعے محبت کا پیغام دیا ہے۔ ان کی تعلیمات اخلاقیات کا درس دیتی ہیں۔ نام ور پنجابی کھوج کار اور لکھاری اقبال قیصر لکھتے ہیِ’’ شاہ حسینؒ،مادھو لال حسین،میلہ چراغاں، میلہ شالامار باغ اور پھر حامد علی بیلا۔یہ تمام حوالے صرف ایک ہی شخصیت کے گرد گھومتے ہیں۔ تو وہ شخصیت ہے’’شاہ حسین‘‘ پنجابی شاعری میں بہت بڑا نام، پنجابی کی شعری صنف کافی کے موجد،صوفیاٗ کے ایک فرقے’’ملامتیہ‘‘ کے نمائندہ’’شاہ حسین‘‘ وہ شاہ حسین جن کو حامد علی بیلا کی آواز میں آپ نے سنا ہو گا۔‘‘مائے نی میں کنہوں آکھاں درد وچھوڑے دا حالنمونہ کلامربا!میرے حال دا محرم توں ربا!میرے حال دا محرم توں اندرتوں ہیں باہر توں ہیں، روم روم وچ توں توں ہیں تانا، توں ہیں بانا ، سبھ کجھ میراں توںکہے حسین فقیر نمانا ، میں ناہیں سبھ توں اردو ترجمہ:اے پالنے والے !میرا حال تو ہی اچھی طرح جانتا ہے۔ میرے اندر اور باہر کی دنیا میں تو ہی جلوہ نما ہے اور میرے لوں لوں میں سمایا ہوا ہے۔ میرا تانا بانا سب کچھ تو ہی ہے۔ میں (شاہ حسین) تو ایک عاجز بے بس فقیر ہوں۔ میری ہستی میں اگر تو نہ ہوتو اس کی بالکل کوئی حیثیت نہیں ہے۔ میری حیثیت کچھ بھی نہیں ہے سب کچھ تو ہی ہے۔ چرخہ میرا رنگڑارنگ لال چرخہ میرا رنگڑارنگ لالجے وڈچرخہ تے وڈ منے ہن کہہ گیا باراںپُنّےسائیں کارن لوئن رُنّےروئے ونجایا حال !جے وڈ چڑخہ تے وڈگھمائنسبھے آئیاں سیس گندائن!کائی نہ آیا حال ونڈئن ہن کائی نہ چلدی نال وچھے کھاہدا گوہڑا واڑاسبھو لڑدا ویہڑا پاڑامیں کیہہ پھیڑیا ویہڑے دانیسبھ پیئاں میرے خیال جے وڈ چرخہ تے وڈ پچھی ماپیاں میرے سرتے رکھی کہے حسین فقیر سائیں دا ہر دم نال سنبھال اردو ترجمہ :اے میرے رب! تو نے میرے اس حقیر سے چرخے (جسمانی ڈھانچے) کو کئی خوبیوں سے نوازا ہے۔ اگر تو نے مجھے یہ بڑائی بخشی ہے تو دوسری جانب مجھ پر بارہ سال پورے کرلینے (بالغ ہونے) کا زمانہ بھی عطا کیا ہے۔ جب میں اپنے اوپر عائد ذمہ داریوں کو دیکھتا ہوں تو میری آنکھیں اشکباررہتی ہیں۔ اگر تو نے مجھے کثرت اسرار ورموز سے آشنا کیا ہے تو مجھے بے شمار ذمہ داریاں پوری کرنے کے فرائض بھی سونپے ہیں۔ مجھے یہ بھی احساس ہے کہ آخرکار کوئی بھی میرا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور نہ ہی کوئی میرا ساتھ دے گا۔ہوس نے نیک اعمال ضائع کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے جبکہ گھروالے اور ہمسائے ان سب کے اپنے اپنے جھگڑے ہیں مگر وہ مجھ سے فضول جھگڑا کرتے ہیں۔ میں نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا مگر پھر بھی زمانہ میرے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ میرے چرخے (جسمانی ڈھانچے) کو جتنی بڑائی دی ہے ذمہ داری بھی اسی قدر بڑھادی ہے ۔ میرے والدین نے بچپن سے ہی یہ سب کچھ سکھانا شروع کیا تھا مگر یہ سب خداتعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوتا رہا ہے۔ شاہ حسین ایک عاجز فقیر کہتا ہے کہ اے بندے! تو ہمیشہ اپنے رب کا نام ورد کیاکر ۔(سلیم اختر کی کتاب ’’مائے نی میں کنہوں آکھاں‘‘ سے انتخاب،ترتیب و ترجمہ، سلیم اختر، پبلشر،بک ہوم،لاہور)