قصہ پارینہ بنتی: ذاتیں اور پیشے

قصہ پارینہ بنتی: ذاتیں اور پیشے

اسپیشل فیچر

تحریر : خاور نیازی


زمانہ قدیم کے انسان نے جب معاشرہ تشکیل دیا تو اسے سب سے پہلے اپنے استعمال کیلئے دو چیزوں کے ذخیرہ کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی ، ایک پانی اور دوسرا اناج۔ یہ وہ دور تھا جب ابھی اس روئے زمین پر دھات ایجاد نہیں ہوئی تھی اور انسان کو صرف مٹی ہی دستیاب تھی، جسے بروئے کار لاکر انسان نے پانی اور اناج کو ذخیرہ کرنے کیلئے کٹورہ نما برتن ایجاد کیا ہو گا۔ شاید یہ اس روئے پر پہلا برتن ہو گا۔ اس کے بعد کے انسان نے شکار کیلئے جس اوزار کو استعمال کیا وہ پتھر سے بنا نوک دار تیر نما ہتھیار تھا۔ بعد ازاں دھات کی ایجاد کے ساتھ ہی انسان نے دھات سے کلہاڑی ، چھری اور اس طرح کے دیگر اوزار اپنی روزمرہ زندگی کی ضرورت کے مطابق بنانا شروع کئے۔
لکڑی کا استعمال بھی انسانی معاشرے کی تشکیل کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا جب انسان نے ایندھن کے علاوہ لکڑی کو تعمیراتی استعمال کے ساتھ ساتھ گھریلو ضرورت کی اشیاء بنانے میں استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ شروع میں لوگ اپنی ضرورت کی اشیا خود بنا لیا کرتے تھے جسے اڑوس پڑوس والے باوقت ضرورت مستعار بھی لے لیا کرتے تھے۔لیکن جب معاشرتی حجم میں اضافہ ہوتا گیا تو انسانی ضروریات بھی بڑھتی چلی گئیں تو ایک فرد یا ایک خاندان کیلئے مختلف انواع کی اشیاء ایک ساتھ بنانا ممکن نہ رہا۔ چنانچہ افراد نے اپنی آسانی کے مطابق یہ کام بانٹ لئے۔ شاید یہی وہ دور تھا جب اس معاشرے میں ہنر کی تقسیم کی بنیاد کے ساتھ ہی انسانی پیشے کے حوالے سے انسانی ذات کی بھی بنیاد پڑی۔
دراصل ''ذات‘‘ بنیادی طور پر ایک سماجی رابط کا نام ہے جو اسے اپنے پیشے ، ثقافت ، تہذیب اور وراثت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔یوں لکڑی کے ہنرمند کو '' ترکھان‘‘ ، لوہے کے کاریگر کو '' لوہار‘‘ ، اعلیٰ ہذا القیاس موچی ، جولاہا ، کمہار وغیرہ کی ذاتیں معرض وجود میں آتی چلی گئیں۔ ان پیشوں کی شناخت انیسویں صدی عیسوی میں اس وقت اور بھی نمایاں ہو گئی جب پنجاب کے دیہاتوں میں بالخصوص سکھ شاہی کے دور میں اپنی روزمرہ زندگی کے دوران سرداروں اور وڈیروں کو اپنے لئے کمیوں کی ضرورت شدت سے محسوس ہونے لگی۔جہاں یہ لوگ زراعت کیلئے ہل، درانتی اور دیگر اوزار بنانے کے ساتھ ساتھ کپڑا بننے،رنگنے ، جوتیاں بنانے ، لکڑی سے فرنیچر اور روزمرہ ضرورت کی اشیاء بنانے میں مصروف رہتے تھے اور یوں یہ ''کردار‘‘ ہمارے معاشرے کا جزو لاینفک بن کے رہ گئے۔ ذیل میں ہم ان میں سے چند کرداروں کا فرداً فرداً تعارف کراتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہو چکے ہیں یا معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔
کمہار
کمہار ، مٹی کے برتن بنانے والے کو کہتے ہیں۔ یہ پیشہ انسانی تہذیب کا سب سے پرانا پیشہ یوں ہے کہ انسان نے جب معاشرے کو تشکیل دیا تو سب سے پہلے اس نے مٹی کے برتنوں کو رواج دیا ۔اس کے بعد قدیم ترین تہذیبوں سے انسانی اور جانوروں کی شکل میں کچھ مورتیاں بھی ملی تھیں جو چوبیس ہزار سال قبل مسیح کے دور کی بتائی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ چودہ ہزار سال قبل مسیح میں میسو پیٹیمیا ( موجودہ عراق )سے مٹی کی بنی اینٹیں بھی ملی ہیں۔
ایک وہ دور تھا جب مٹی سے بنے پانی کے کٹورے سے لے کر ہانڈی تک روزمرہ ضرورت کی بیشتر اشیاء کمہاروں کی کاریگری کا پیش خیمہ ہوتی تھیں۔ وقت گزرنے ساتھ ساتھ مٹی کے برتنوں کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ دھات ، پلاسٹک اور چائنا مٹی کے بننے والے برتنوں کی تیاری ہے۔جس کے باعث اب گھروں میں مٹی کے برتنوں کا استعمال قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ نتیجتاً اس قدیم فن کے روح رواں دن بدن مالی مسائل کا شکار ہوتے جا رہے ہیں جس کے سبب وہ اپنی نئی نسل کو اس فن سے دور رکھنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور یوں صدیوں پرانا یہ فن اپنی بقا کی جنگ لڑتے لڑتے اب آخری سانس لینے پر مجبور ہو چکا ہے۔
لوہار

کسی دانشور نے ایک موقع پر کیا خوب کہا تھا کہ ''کاشتکاری ، لوہار کے بغیر ایسے ہی جیسے پانی کے بغیر کاشتکاری‘‘۔ اگر بات پنجاب کی، کی جائے تو پنجاب میں صدیوں سے زراعت کا شعبہ نمایاں رہا ہے جس کی وجہ سے ایک بڑی تعداد کاشتکاری کی غرض سے دیہاتوں میں آباد کہنا کرتی تھی۔ کاشتکاری چونکہ ایک ''ٹیم ورک‘‘ کا نام ہے اس لئے دیہاتوں میں اس ٹیم کو ''کامے‘‘ یا ''کمی‘‘ کہا جاتا تھا۔ زراعت میں ان افراد کی حیثیت بنیادی ہوتی تھی اس لئے ان کے بغیر کاشتکاری یا زرعی نظام کا چلنا ناممکن ہوتا تھا۔یہ کامے جو لوہار ،ترکھان ، نائی ، مصلی، جولاہوں وغیرہ پر مشتمل ہوتے تھے، انہیں معاشرے میں نیچ سمجھا جاتا تھا۔لوہار ایسا پیشہ تھا جو زراعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ زرعی اوزار بنانا اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے تھا۔چنانچہ یہی وجہ تھی کہ لوہار ، کمی طبقے کا سب سے معزز کردار سمجھا جاتا تھا ۔
اب وقت بدل گیا ہے کیونکہ بیلوں کی جوڑی کے ساتھ لوہار کے بنے ہلوں کی جگہ اب ٹریکٹر نے لے لی ہے ، لکڑیاں کاٹنے والے آلات کی جگہ الیکٹرک آرے نے لے لی حتی کہ فضل کی بیجائی سے لے کر کٹائی تک کے تمام مراحل اب جدید مشینوں نے سنبھال لئے ہیں۔ایسے میں اب لوہار کا وجود صرف چھوٹی چھوٹی چھریوں، درانتیوں اور کچھ دیگر اوزاروں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے جس کے سبب یہ اپنی اگلی نسل کو اپنا موروثی پیشہ منتقل کرنے پر تیار نہیں ہے ۔
موچی
موچی کو عام طور پر ''چمار‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ گئے دنوں میں موچی کو دیہی علاقوں بالخصوص پنجاب کے دیہاتوں میں ایک منفرد حیثیت حاصل ہوا کرتی تھی۔ موچی کا کام ویسے تو دیہی علاقوں میں جوتیاں بنانا، مرمت کرنا، بیل گاڑیوں اور دیگر جانوروں کے چھانٹے بنانا اور چمڑے کے دوسرے متفرق کام کرنا ہوتا تھا لیکن دیہاتوں میں موچی سے فصلوں کی بیجائی سے لے کر کٹائی تک اور محنت مزدوری کے دوسرے کام بھی لئے جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ موچی کا کام جوتے بنانے تک ہی محدود ہو کر رہ گیا۔ دیگر پیشوں بالخصوص زرعی پیشے میں مشینی انقلاب نے ہنر مندوں کی ہنر مندی کو مشینوں کے تابع لا کھڑا کیا۔ نتیجتاًجفت ساز (موچی )تیزی سے بے روزگار ہونے لگے اور اب یہ پیشہ صرف جوتا مرمت تک محدود ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ مشینوں پر تیار جوتے باآسانی دستیاب ہو چکے ہیں جس کے سبب ان کی نئی نسل اب تیزی سے اس خاندانی پیشہ سے کنارہ کشی اختیار کرتی جارہی ہے۔
جولاہا
اب سے لگ بھگ چار، پانچ عشرے پہلے تک ''جولاہا‘‘ جسے پنجاب کے بیشتر علاقوں میں ''پاولی‘‘بھی کہا جاتا ہے ،پنجاب کی ثقافت اور سماجی زندگی کا ایک اہم کردار ہوا کرتا تھا۔ پنجاب کے ہر گاؤں میں جہاں نائی ، کمہار ، موچی ،تیلی، کمہار اور ترکھان ہوا کرتے تھے وہیں کم از کم ایک یا دو گھر ایسے ضرور ہوا کرتے تھے جن کے ایک کمرے میں کھڈیاں لگا کر کھیس ، کھدر اور دریاں وغیرہ بنائی جا رہی ہوتی تھیں، اور یہ گھر کسی جولاہے کا ہوتا تھا۔ اپنے ہی گاوں کی کپاس سے کھڈیوں پر تیار کردہ کپڑے گاؤں کے باسیوں کا پہناوا اور ان جولاہوں کا ذریعہ معاش ہوا کرتا تھا۔
جولاہا بڑے مزے میں تھا کہ اچانک حکومت کو '' ترقی‘‘ کی سوجھی اور قرار پایا کی دیسی کپاس کی کاشت ملک کیلئے شجر ممنوعہ ہے، اس کی جگہ امریکن کپاس نے لے لی اور کھڈیوں کی جگہ ٹیکسٹائل ملوں نے۔ جولاہا حیران پریشان کہ اب وہ کرے تو کیا کرے ؟ پیٹ کا ایندھن بھرنے کیلئے وہ انہی ملوں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہو گیا۔یوں ماضی کا ایک اہم کردار ہمیشہ کیلئے گمنامی کے اندھیروں میں کھو گیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ ماضی کے ایسے ہی لاتعداد کردار جن میں چوہڑے (خاکروب )، ماچھی ، ماشکی ،مصلی، ملاح، دھوبی ، قصاب ، ترکھان اور ایسے ہی بہت سارے مزید طبقات بھی شامل تھے اب رفتہ رفتہ وقت کی بھینٹ چڑھتے چڑھتے قصہ پارینہ بن گئے ہیں۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
مالی سلطنت  کو زوال کیوں آیا؟

مالی سلطنت کو زوال کیوں آیا؟

افریقی ملک مالی آج ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ بہت سے لوگ شاید اس ملک سے واقف بھی نہ ہوں مگر کسی زمانے میں یہ ملک کرہ ارض کی ایک امیر اور رومیو کی طرح پھیلی ہوئی وسیع سلطنت ہوا کرتا تھا۔ جیسے رومی اپنی سلطنت کو سنبھال نہ سکے،عظیم الشان مصری سلطنت کو فرعونیت لے ڈوبی، اسی طرح مالی کے سنجاتا کیتا خاندان کے بادشاہ اپنی بادشاہت کو دوام دینے میں ناکام رہے ۔ دنیا کے امیر ترین آدمی مانسا موساکا تعلق بھی اسی ملک (مالی)سے رہا ہے۔یہ وہی مانسا موسا ہے جس نے مالی کے عوام کو حج کرنا سکھایا۔ ورنہ اس سے پہلے اہل افریقہ سعودی عرب کے راستے میں ہی بھٹک جایا کرتے تھے۔ سنجاتا کیتا( Sunjata Keita) اسی کی نسل سے تھا۔ سنجاتا کیتاکے کئی نام ہیں، اسے بہت سے القابات سے بھی نوازا گیا۔وہ بھی اپنے ملک کا شیر تھا،اس کا انتخابی نشان ہی شیر نہ تھا وہ خود بھی شیر تھا۔اسے ''شیر مالی‘‘بھی کہا جاتا ہے۔سنجاتا،مالیینز کے کئی ہیروز میں سے ایک ہیرو ہے۔ جرأت و شجاعت کے نغموں میں اس کے نام کے بغیر کوئی چاشنی نہیں۔ افریقہ کی تاریخ اس کے بغیر ادھوری ہے۔ یہ تو ٹھیک طرح سے معلوم نہیں کہ بادشاہ کے اس بیٹے کو اجاڑ ویران جنگل میں کیوں جلا وطن ہونا پڑا۔ اسے سندیاتامیندنگو بھی کہا جاتا ہے،اس کے دوسرے نام( Mandinka) اورمیلنکے (Malinke ) ہیں۔اس کا دور 1217تا 1255ہے۔وہ جس علاقے میں پیدا ہوا وہ گینیا کہلاتا ہے۔مراکشی سیاح محمد ابن بطوطہ اورتیونس کے مورخابو زیدعبدالرحمانابن محمد ابن خلدون الہزرانی (1332-1406ء)نے سنجاتا کی وفات کے بعد مالی کا سفر کیا تھا۔ انہوں نے اس کی تاریخ پر کچھ روشنی ڈالی ہے،اس کے قبیلے کے نامعلوم شاعر نے اپنی شہرہ آفاق نظم (Epic of Sundiata) میں اسے خراج تحسین پیش کیا ہے۔قلعہ کی رانی پدما وتی کی طرح یہ نظم بھی مننکا قبائل میںنسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔ سنجاتا کو کئی خوبیوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے ،اوّلین طور پر تو وہ مالی سلطنت کا بانی وہی ہے۔ جس نے درجن بھر ریاستیں اور قبائل اکٹھے کر کے مالی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ یہی نہیں اس نے ایک ایسا روڈ میپ دیا جو ان تمام پسماندہ قبائل کو ترقی اور خوشحالی کی جانب جانے والا روڈ میپ دیا۔ ہر کسی کو اس نے اس کا حق دیا۔ اسے زمین الاٹ کی اور انہیں ان کے حق اور فرائض دونوں سے آگاہ کیا۔ ا س نے انسانی حقوق کا وہ چارٹر نافذ کیا جسے مغربی دنیا کا پہلا چارٹر کہا جاتا ہے۔ تاریخ میں اسے ''Manden Charter‘‘کہاجاتا ہے۔ اس کا ایک اور ٹائٹلKurukan Fuga بھی ہے۔ماں کی محبت نے اسے اپنے عوام اور اپنی ریاست سے پیار کرنا سکھایا ۔ریاستی ظلم و ستم کے خلاف اس کی آنکھیں بھرائی رہتی تھیں۔ شاہی دربار میں مظلومین پر برسنے والے تازیانے سنجاتاکی نیندیں حرام کئے ہوئے تھے،یہ ظلم اس کے لاشعور میں ہمیشہ زندہ رہا۔اسی لئے اس نے ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی جس میں امن اور چین تھا،سب کو برابر کے حقوق حاصل تھے۔کوئی چھوٹا تھا نہ بڑا،دربار کے در اور دریچے سب پر کھلے تھے۔ سنجاتا ایک بادشاہ کا بیٹا تھا۔شاہ وقت (Naré Maghann Konaté ) اس کا سگا باپ تھا،اس کی ماں (Sogolon Kolonkan) تھی ۔سنجاتا کی ماں اور نانی کا سب مذاق اڑاتے تھے۔ قدرتی کبا پن اور بے ڈھنگا جسم وجہ تمسخر بنا ہوا تھا۔کئی ایک تواس کی نانی کو ''بھینس ‘‘سے تشبیہ دیتے ہوئے ذرا نہیں شرماتے تھے۔ اس پر زندگی تلخ تھی ۔ تخت و تاج کی ہوس کا شکار سوتیلے بھائی نے اسے جلا وطن کر دیا۔وہ پیدائشی معذور تھا، اسے شاید ہڈیوں کا کوئی مرض لاحق تھا۔وہ عام انسانوں کی طرح سیدھے طریقے سے چلنے میں دشواری محسوس کرتا تھا مگر عزم جوان تھا ، ارادے پختہ تھے۔اس کا بچپن بہت مایوس کن تھا،سوتیلا بھائی (Dankaran Touman)اور اس کی ماں (Sassouma Bereté) کااس کے ساتھ برتائو تمسخر آمیز تھا۔سوتیلا بھائی ما ں کی بہت توہین کیا کرتا تھا۔سوتیلے بھائی کی ایک ایک حرکت ننھے سنجاتا کے ذہن میں کسی بھاری پتھر کی مانند نقش تھی۔اسے ماں کی یہ بے عزتی کبھی برداشت نہیں ہوئی۔ وہ بند کمرے میں کبھی سسکیاں لیتا تو کبھی آہیں بھرتا۔ ایک دن جب اس کے سوتیلے بھائی نے اس کی ماں کو بہت لتاڑاتو معذور سنجاتا اپنی ماں کو بچانے غیر ارادی طور پر تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا ۔ جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور یوں ماں کی محبت نے اس کی معذوری ختم کر دی۔ یہ پہلا دن تھا جب اپنی ماں کی خاطر ننھا سنجاتا اپنے پیروں پر چلنے لگا۔ پھر وہ ایسا تیز بھاگا کہ افریقہ کا ایک معروف شکاری بنا، دھیرے دھیرے رینگ کر چلنے والا یہ شخص تیز رفتار جنگلی جانوروں کا پیچھا کرنے میں کبھی خوفزدہ نہ ہوا۔وہ جنگلی جانوروں سے لڑے لڑتے جنگی حکمت عملی کا ماہر بن گیا، اسی حکمت عملی نے اسے ''جنرل‘‘ بنا دیا۔اس نے جنگی حکمت عملی کے ذریعے سے ٹکڑیوں میں بٹی ہوئی مغربی افریقہ کی اقوام کو اپنے پرچم تلے اکٹھا کرنا شروع کیا۔اسی دن اس نے فیصلہ کیا کہ وہ بادشاہوں کا بادشاہ بنے گا اور ساری بادشاہت کو مظلومین کے قدموں میںرکھ دے گااور ایسا ہی ہوا۔ اوّلین طور پر اس نے مندینگو کے سرداروں پر بھروسہ کیا۔ اور وہ انہیں سو سو کے ظالم بادشاہ کیخلاف بغاوت پر اکساتا رہا ۔سو سو مغربی افریقہ کا ایک قبیلہ ہے۔ یہ وہی قبیلہ ہے جس پر بعد ازاں سنجاتا نے قبضہ کرلیا تھا۔لگ بھگ 1235ء میں سنجاتا اپنے عزم میں کامیاب ہوگیا اس نے جنگل اور نیم جانوروں جیسی زندگی بسر کر نے والے قبائل کو اپنے پرچم تلے اکٹھا کر کے سو سو کے ظالم بادشاہ پر حملہ کر دیا۔ فیصلہ کن جنگ میں اسے فتح نصیب ہوئی۔اسی فتح سے مالی سلطنت نے جنم لیا۔ معذوری کے باوجود اپنے عزم و ہمت کے بل بوتے پر اس نوجوان نے ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی جو قرون وسطیٰ کی ایک بڑی سلطنت کہلائی۔''سلطنت مالی‘‘ کا دور دور تک چرچا تھا۔ عرب ممالک کے تاجر یہیں لنگر انداز ہوا کرتے تھے۔دونوں ممالک کی تجارت عروج پر تھی۔ بہت سے قصے سیاحوں اور تاجروں کے ذریعے سے عرب دنیا تک پہنچے۔ تاہم عرب ممالک میں جنگ وجدل کا ساسماں رہا، سنجاتا کی تاریخ مرتب کرنے والے سیاحوں اور تاجروں کوموت نے آلیا اور ان کی بتائی ہوئی تاریخ کے اوراق گولا بارود میں ناپید ہو گئے۔افریقہ کی تاریخ میں سنجاتا کو لائن کنگ یا بادشاہوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ کمپیوٹر گیم لائن کنگ اسی کے نام پر بنی۔اس کے کردار کی سچائی اور ارادوں کی پختگی نے بھی اسے تاریخ میں زندہ رکھا ہوا ہے۔ یہ تاریخ گولا بارود کے دھوئیں میں کہیں کھو گئی اور 19ویں صدی میں بننے والے اس سلطنت کا اب کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ 1890ء میںفرانسیسی دانشوروں نے اس تہذیب و تمدن پر کچھ کام کیا۔ اس بارے میں ایک ادارے نے افریقی تاریخ کا سراغ لگانے کے لیے ''افریقن روٹس ‘‘کے نام سے ایک سلسلہ بھی شروع کیا ہے جس میں سنجاتا کی تاریخ بھی رقم ہے۔

دو نسلوں کی گراں  قدر محنت کا نمونہ:بروک لین برج

دو نسلوں کی گراں قدر محنت کا نمونہ:بروک لین برج

امریکہ مہاجرین کا ملک ہے اور ان مہاجرین میں براعظم افریقہ سے لائے ہوئے غلاموں کے علاوہ ایک کثیر تعداد اہل یورپ کی بھی ہے۔ جو کہ تقریباً ہر ملک سے ہجرت کرکے امرکہ سے آ بسے اور ان مہاجرین میں سے بہت قابل اور ذہین لوگ بھی موجود تھے۔ جنہوں نے جب امریکہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تو اپنی تمام تر دماغی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر انہوں نے ریڈ انڈین امریکہ کی تصویر ہی بدل کر رکھ دی۔ اسی طرح کے ذہین لوگوں میں سے ایک آدمی جان آکسٹس روئے بلنگ بھی تھا۔ اس کی فیملی جرمنی سے ہجرت کرکے امریکہ آ بسی تھی۔ نیویارک شہر کے قلب مین ہیٹن کو شہر کے دوسرے حصوں سے ملانے کیلئے اس سے قبل East Riverکے اوپر کوئی پل نہیں تھا ا ور دریائے ایسٹ کو عبور کرکے ہین ہیٹن آنے جانے کیلئے چھوٹی کشتیاں اور فیری ہی استعمال ہوتی تھیں۔ شہر کی انتظامیہ نے مین ہیٹن کو ملانے کیلئے جب اس کے اوپر پل بنانے کی تجویز پاس کی تو انہوں نے جان روئے بلنگ سے رابطہ کیا۔ اس سے قبل جان نے کئی پل ڈیلاوپئر پنسلوانیا، ٹیکساس اور اوہایو میں ڈیزائن کئے تھے لہٰذا جان نے بروک لین برج بھی ڈیزائن کرنے کی حامی بھر لی۔ اس نے تاریخی بروک لین پل کا ڈیزائن بنایا اور ایک دن سروے کے دوران اس کے پائوں پر ایسی چوٹ لگی جو بعد میں جان لیوا ثابت ہوئی۔ اس کے بعد اس کے بیٹے واشنگٹن روئے بلنگ نے اپنے باپ کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی۔ اس پل کی تعمیر شروع ہوئے چند ماہ ہی گزرے تھے کہ روئے بلنگ پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ اپنے گھر میں بستر کا ہو کے رہ گیا۔ پھر بھی واشنگٹن روئے بلنگ اور اس کی بیوی Fmlyنے ہمت نہ ہاری۔ واشنگٹن کی بیوی خود ایک ماہر ریاضی دان اور انجینئرنگ کے رموز سے بہت اچھی طرح واقف تھی۔ واشنگٹن اپنے بستر سے اپنی بیوی کو ہر طرح سے رہنمائی کرتا اور ان ہدایات پر اس کی بیوی ایملی پل کی سائٹ پر جا کر عمل درآمد کرواتی۔ اس طرح یہ پل دو نسلوں کی گراں قدر محنت سے 23مئی 1883ء کو پایۂ تکمیل کو پہنچا اور تاریخ کا انوکھا باب رقم کیا۔ اس پل کی تعمیر پر 13سال کا عرصہ لگا جس میں دو نسلوں نے حصہ لیا اس پل کی تعمیر کے دوران 27کارکنوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ بروکلین برج 6016فٹ لمبا اور 85 فٹ چوڑا ہے جبکہ اس کے چھ لین ہیں۔ دو ستونوں کا درمیانی فاصلہ 1596 فٹ ہے۔ دریا کی سطح آب سے پل تک کا فاصلہ 135 فٹ ہے۔ اس پل کے بنے ہوئے 128 سال کا طویل عرصہ بیت چکا ہے اور ابھی بھی یہ پل رابطے کا بہترین ذریعہ ہے۔ جب اس پل کی تعمیر مکمل ہوئی تو اس وقت نیویارک میں یہ پہلا پل تھا۔ اس وجہ سے اس کو بہت پرانے پل کا درجہ حاصل ہے۔ اب بھی مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق روزانہ گزرنے والی گاڑیوں کی تعداد سوا لاکھ سے زائد ہے۔پل کی تعمیر کے پہلے دن1800 گاڑیاں گزریں اور ڈیڑھ لاکھ لوگوں نے اس پل کو پیدل عبور کیا جن میں ایملی سب سے آگے تھی اُس وقت کے امریکہ کے صدر Chester A Arthur نے افتتاح کے وقت اس پل کو عبور کیا۔ دوسری طرف بروک لین کے میئر نے اُن کا استقبال کیا۔ واشنگٹن روئے بلنگ کیونکہ بیماری کی وجہ سے اس قابل نہیں تھا کہ وہ افتتاحی تقریبات میں شرکت کر سکتا اس لئے افتتاحی تقریبات کے بعد صدر بذات خود واشنگٹن روئے بلنگ کے گھر گئے، اس کے ساتھ مصافحہ کیا اور پل کی تکمیل پر اس کو مبارک باد دی۔ یہ وہ پل ہے جس پر ٹریفک آج بھی دن رات رواں دواں ہے لیکن اس کے بعد بنے ہوئے کئی پل جو اس کے دائیں بائیں بنتے رہے آج ختم ہو کر ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ پل آج بھی امریکہ کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ مئی 2008ء میں اس پل کی سوا سو سالہ تقریبات بھی منائی گئیں۔

آج کا دن

آج کا دن

جمیکا دریافت ہوا5 مئی 1494ء کو بحری مہم جو کرسٹوفر کولمبس نے جمیکا کو دریافت کیا۔ جمیکا بحیرہ کیریبین میں واقع ایک جزیرہ ملک ہے۔ جس کا رقبہ میں 10 ہزار990مربع کلومیٹر ہے۔ یہ کیریبین کا تیسرا بڑا جزیرہ ہے۔ کنگسٹن اس کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ جمیکن ڈالر بطور کرنسی استعمال ہوتا ہے۔کرسٹوفر کولمبس نے اس سے دو سال قبل یعنی 1492ء میں امریکہ بھی دریافت کیا تھا۔کولمبس کی اس دریافت نے دریافتوں، مہم جوئی اور نوآبادیوں کا ایک نیا سلسلہ کھولا اور تاریخ کے دھارے کو بدل دیا۔ کولمبس نے 1506ء میں وفات پائی۔''کونسل آف یورپ‘‘کا قیام5 مئی 1949ء کو انگلینڈ، فرانس، بیلجیئم، نیدرلینڈز، ڈنمارک، آئرلینڈ، سویڈن، اٹلی، لکسمبرگ اور ناروے نے ''کونسل آف یورپ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ کونسل آف یورپ میں اس وقت 47 ممبران ہیں۔ ترکی یورپ کونسل میں شامل ہونے والے پہلے ممالک میں شامل ہے، اس لیے اسے بانی اراکین میں شامل کیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی یورپی عدالت، یورپ کی کونسل سے منسلک ہے۔ ''ایس ڈبلیو اے زلزلہ‘‘1930ء کا باگو (پیگو) زلزلہ جسے ''ایس ڈبلیو اے زلزلہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، 5 مئی کو میانمار میں آیا۔ لاس زلزلے کی شدت 7.4 جبکہ گہرائی 35 کلومیٹر تھی۔ ملک کے جنوبی حصے، بالخصوص باگو اور ینگون میں بڑے پیمانے پر نقصان ہوا، سیکڑوں عمارتیں زمین بوس ہو گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس سانحہ میں ممکنہ طور پر 7000 افراد مارے گئے۔ آفٹر شاکس کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہا اور ان سے بھی بہت نقصان ہوا۔فرانسیسی شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کا انتقالیورپ کی تاریخ کو متاثر کرنے والے فرانسیسی شہنشاہ نپولین بونا پارٹ 5 مئی 1821ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کا انتقال 51 برس کی عمر میں سینٹ ہیلینا جزیرے پر ہوا جہاں وہ جلاوطنی کاٹ رہے تھے۔ 15 اگست 1769ء کو پیدا ہونے والا نپولین بوناپارٹ فرانسیسی فوج میں بھرتی ہوکر بڑے عہدے تک پہنچا۔ نپولین کی قیادت میں فرانسیسی فوج نے اطالیہ میں پے در پے فتوحات حاصل کیں۔

یادرفتگاں: ٹیپو سلطان : شیر میسور

یادرفتگاں: ٹیپو سلطان : شیر میسور

جنگی حکمت عملی، شجاعت اور بہادری کے لحاظ سے ٹیپو سلطان کا شمار فرانس کے نپولین بونا پارٹ اور سلطان ایوبی کی صف میں ہوتا ہے۔ مشہور سکاٹش شاعر اور تاریخی ناول نویس والٹر سکاٹ(Sir Walter Scott) نے ٹیپو سلطان کی شہادت پر جو ردعمل ظاہر کیا تھا وہ ٹیپو سلطان کے لیے سنہری خراج عقیت کی حیثیت رکھتا ہے کہ ''اگرچہ نپولین، جس کا نظم ونسق ٹیپو سلطان سے مختلف تھے، مگر میرے خیال میں ان کو کم از کم وہی جرأت مندی، عزم، مستقل مزاجی اور بہادری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا جس کا مظاہرہ ٹیپو سلطان نے کیا اور اپنی دارالحکومت کی حفا ظت کرتے ہوئے جواں مردی سے تلوار ہاتھ میں لیے شہادت قبول کی تھی‘‘۔ ٹیپو سلطان 10 نومبر 1750ء کو دیوانہلی میں پیدا ہوئے۔اُن کا نام آرکاٹ کے بزرگ ٹیپو مستان اولیا کے نام پر رکھا گیا۔ انہیں اپنے دادا فتح محمد کے نام کی مناسبت سے فتح علی بھی کہا جاتا تھا۔ٹیپو کی پیدائش کے وقت تک حیدر علی کی قائدانہ صلاحیتوں اور فوجی حربوں کی شہرت بلندیوں پر پہنچ چکی تھی۔ سلطان حیدر علی نے ٹیپو سلطان کی تعلیم وتربیت اور فنون حرب پر خاص توجہ دی۔ ٹیپو سلطان نے محض 15 سال کی عمر میں اپنے والد حیدر علی کے ساتھ انگریزوں کے خلاف پہلی جنگ میں حصہ لیا۔ 17 سال کی عمر میں ٹیپو سلطان کو اہم سفارتی اور فوجی امور کا آزادانہ اختیار دے دیا گیا تھا۔برصغیر میں برطانوی نو آبادیاتی نظام کی راہ کے سب سے بڑے کانٹے سلطان حیدر علی اور ٹیپو سلطان تھے۔1767ء تا 1799ء اُن کی انگریزوں سے چار جنگیں ہوئیں۔ ٹیپو نے اپنے باپ سلطان حیدر علی کی نگرانی میں کرنل بیلی، کرنل برتیھ ویٹ سرایر کوٹ اور بریگیڈر جنرل جیمس سٹوارٹ جیسے آزمودہ کار افسروں کو شکست سے دوچار کیا۔ 1767ء پہلی اینگلو میسور جنگ میں حیدر علی نے انگریزوں کو ذلت آمیز شکست دی اور انہیں صلح پر مجبور کیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب ہندوستان میں انگریزوں کو شکست کا سامنا کرناپڑا۔ اگرچہ 1782ء میں دوسری اینگلو میسور جنگ کے دوران حیدر علی سرطان کے مرض میں مبتلا رہنے کے بعد جاں بحق ہو گئے لیکن ٹیپو نے حیدر علی کی کمی محسوس نہ ہونے دی اور جنگی حکمت عملیوں کے سبب انگریزوں کو بھاری نقصان پہنچایا۔ 11 مارچ 1784ء کو ٹیپو سلطان اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے درمیان منگلور کا معاہدہ ہوا۔ اس پر منگلور میں دستخط ہوئے اور دوسری اینگلو میسور جنگ کا خاتمہ ہوا۔اس معاہدے نے دور اندیش شیر میسور فتح علی خاں ٹیپو کو موقع دیا کہ دیسی ریاستوں کو اکٹھا کیا جائے اور انگریزوں کو مکمل شکست سے دوچار کرنے کے لیے ایک مضبوط محاذ تشکیل دیا جائے۔اس غرض سے انہوں نے جے پور، جودھپور اور نیپال وغیرہ کو اپنے ایلچی اور خطو ط بھیجے۔ 23جون 1785ء کو مغل شہنشاہ شاہ عالم کی خدمت میں بھی عریضہ لکھا اور انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ٹیپو سلطان نے ہندوستان کو غلامی سے بچانے کی ہرممکن کوشش کی لیکن غدار وطن اور نامساعد حالات کی وجہ سے اُن کی جدوجہد ان کے مقصد کی حد تک نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی۔ انگریزوں، مرہٹوں اور نظام کے اتحاد کے علاوہ ان کی آستین کے سانپ میر صادق، پنڈت پورنیا، میر غلام علی (لنگڑا) بدرالزماں خاں نائطہ، میر معین الدین، میر قمر الدین، میر قاسم علی پٹیل اور میر نورالدین جیسے غداروں کا بھی سامنا تھا، جنہوں نے سلطنتِ خداداد کا استحصال کرنے کا عزم کیا ہوا تھا۔چوتھی اینگلو میسور جنگ 1799ء کے دوران سلطنت خداداد پر ایسٹ انڈیا کمپنی، مرہٹوں اور نظام حیدرآباد کی 50 ہزار کی تعداد میں مشترکہ افواج نے یلغار کی جو ٹیپو کی آخری جنگ ثابت ہوئی۔ سلطان کے غدار افسروں نے آخری وقت تک انگریزوں کی سرگرمیوں سے ٹیپو کو اندھیرے میں رکھا۔ سلطان کو برطانوی افواج کی نقل وحرکت کی اطلاع اُس وقت ملی جب وہ سرنگا پٹم پر اپنا شکنجہ کس چکی تھی۔ تقربیاًپانچ ہزار سپاہی جن میں تین ہزار یورویپن سپاہی شامل تھے، یلغار کے لیے متعین کیے گئے تھے۔ 4مئی کا سورج طلوع ہونے سے قبل ہی ان سپاہیوں کو خندق میں اُتار دیا گیا تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ حملے کے عین وقت میرصادق اور پورنیا نے شگاف اور جنوبی فصیل کی متعینہ فوج کو تنخواہ کے بہانے سے مسجد اعلیٰ کے پاس بلاکر انگریز فوج کو قلعہ پر چڑھ آنے کی سہولت دی۔ اس اقدام کا احتجاج کرنے والا کوئی نہ تھا کیونکہ سید غفار جو سلطان کا انتہائی وفادار تھا بدقسمتی وہ توپ کے ایک گو لے سے شہید ہو چکے تھے۔ اُن کے شہید ہوتے ہی غداروں نے قلعہ سے سفید رومال ہلا کر انگریز فوج کو یلغار کا اشارہ کیا جو پہلے سے خندق میں موجو د تھی۔ اشارہ پاتے ہی فوج نے قلعہ پر دھاوا بول دیا۔ٹیپو نے انگریزوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور قلعے کو بند کروا دیا لیکن غدار ساتھیوں نے دشمن کے لیے قلعے کا دہلی دروازہ کھول دیا اور قلعے میں زبردست جنگ چھڑ گئی۔ اس حملہ کے دوران ٹیپو ایک جری سپاہی کی طرح پیدل ہی حملہ آور فوج سے لڑتے رہے۔اگر چہ ٹیپو کے پاس جنگ سے نکلنے کا راستہ تھا لیکن انہوں نے میدان جنگ سے فرار پر شہادت کوترجیح دی۔ بارود کے ذخیرے میں آگ لگ جانے کے باعث مزاحمت کمزور پڑ گئی۔ اس موقع پر فرانسیسی افسر نے ٹیپو کو اپنی جان بچانے کے لیے نکل جانے کا مشورہ دیا مگر ٹیپو سلطان اس پر کہاں راضی ہونے والے تھے۔ وہ اپنے مشہور قول ''شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ پر کاربند تھے ۔ 4 مئی، 1799ء کو میسور کا سورما شہادت کے بلند تر درجے پر فائد ہو ۔بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را 

المکتوم بین الاقوامی ہوائی اڈہ مستقبل کا جدید ایئرپورٹ

المکتوم بین الاقوامی ہوائی اڈہ مستقبل کا جدید ایئرپورٹ

متحدہ عرب امارات اس وقت دنیا میں نہ صرف کاروباری حب سمجھا جاتا ہے بلکہ متحدہ عرب امارات میں دنیا بھر سے کروڑں لوگ سیاحت کے لئے بھی متحدہ عرب امارات کا رخ کرتے ہیں۔ سات ریاستوں پر مشتمل متحدہ عرب امارات کی سب سے زیادہ شہرت رکھنے والی ریاست دبئی ہے جہاں پر بلند و بالا عمارتیں، شاپنگ مالز اور سیاحوں کی دلچسپی کے لئے دنیا بھر کی کمپنیاں سیمینارز، فیسٹیولز اور دیگر پروگرام کا انعقاد بھی یہیں کرتی رہتی ہیں۔ اسی وجہ سے اس وقت دبئی کا انٹرنیشنل ایئر پورٹ دنیا کا مصروف ترین ایئر پورٹ بن چکا ہے۔ 2023ء میں دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر 8 کروڑ 70 لاکھ مسافر اور 18 لاکھ دس ہزار ٹن کارگو سامان 4 لاکھ 16ہزار 405 رجسٹرڈ جہازوں کے ذریعے آمدورفت ہوئی اور اس وقت اس ایئر پورٹ پر آنے 51 فیصد مسافر امارات ایئر لائنز کا استعمال کرتے ہیں۔ دبئی انٹرنیشنل ایئر پورٹ شہر کے درمیان میںواقع ہے۔ متحدہ عرب امارات میں مسافروں کے بڑھتے ہوئے رش کے پیش نظر دبئی سے 37 کلومیٹر دور شمالی علاقے جبل علی میں المکتوم بین الاقوامی ہوائی اڈے کو 27 جون2010ء میں کارگو آپریشنز کیلئے کھولا گیا اور اکتوبر 2013ء میں مسافروں کی باقاعاعدہ پروازیں بھی شروع کر دی گئیں۔المکتوم بین الاقوامی ہوائی اڈے پر 24 فروری 2011 کو، ہوائی اڈے کو 60 مسافروں کے ساتھ مسافر طیاروں کو ہینڈل کرنے کی سند دی گئی۔ پہلا مسافر طیارہ ایئربس A319CJ، 28 فروری 2011 ء کو اس ایئر پورٹ تر اترا ۔ ہوائی اڈے کو سرکاری طور پر 26 اکتوبر 2013 کو مسافروں کی پروازوں کے لیے باقاعدہ کھول دیا گیا جس میں ایئر ناس اورایئر ویز دو کیریئرز کے طور پر ہوائی اڈے پر کام کرنے کی اجازت دی گئی۔۔ 2014 کی پہلی سہ ماہی میںاس ہوائی اڈے پے ایک لاکھ 2 ہزار مسافروں کی آمدو رفت ہوئی۔ المکتوم بین الاقوامی ہوائی اڈے کے افتتاح کے وقت، تین کارگو سروس ایئر لائنز بشمول RUS ایوی ایشن، اسکائی لائن ایئر اور ایرو اسپیس کنسورشیم نے اس ایئرپورٹ کی خدمت کی۔اس کے بعد پندرہ اضافی ایئر لائنز نے ہوائی اڈے پر پروازیں چلانے کے لیے معاہدے پر دستخط کیے۔ 2016ء ی پہلی ششماہی میں مسافروں کی تعدادچار لاکھ 10 ہزار 278 تھی جو کہ 2015 کی پہلی ششماہی میںدو لاکھ 9 ہزار 989 تھی اسی وہ وجہ سے منصوبے کے آغاز پر ہی اس دنیا کے سب سے بڑے ایئر پورٹ کو کم استعمال کی وجہ سے سفید ہاتھی بھی کہا جاتا رہا۔گزشتہ ماہ متحدہ عرب امارات کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم نے المکتوم بین الاقوامی ہوائی اڈے کی توسیع کے لئے نئے ڈیزائن کی کی منظوری دے دی ہے ۔ ہوائی اڈے کی توسیع اور مسافر ٹرمینل کے لئے 128 ملین درہم (34.85 بلین امریکی ڈالر) مختص کئے گئے ہیں۔المکتوم بین الاقوامی ہوائی اڈے کے مکمل ہونے کے بعد تخمینہ لگایا گیا ہے کہ 260 ملین مسافر کی گنجائش کے ساتھ یہ ہوائی اڈے دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے پانچ گناہ بڑا ہونے کی وجہ سے دنیا کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ ہوگا۔ ہوائی اڈے کے توسیعی منصوبے میں پانچ رن وے ہونگے اور ایک وقت میں مسافروں کے لئے400 ہوائی جہاز ایئرپورٹ کی بلڈنگ کے ساتھ کھڑے کرنے گنجائش ہوگی۔ 2034ء تک امارات ایئر لائن اور فلائی دبئی کی تمام فلائٹیں اس نئے ہوائی اڈے پر منتقل کردی جائیں گی۔امارات کے حکمران شیخ محمد بن راشد کا کہنا ہے کہ نیا ایئر پورٹ ''دبئی سنٹرل ایئرپورٹ( DWC ) مکمل طورپر فعال ہونے کے بعد سالانہ 26 کروڑ مسافروں کی آمد و رفت یقینی ہے اور اس طرح یہ دنیا کا سب سے زیادہ گنجائش والا ائیر پورٹ ہوگا۔ دبئی سول ایوی ایشن کے صدر اورامارات ایئرلائن کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) شیخ احمد بن سعید المکتوم کے مطابق اس منصوبے کا پہلا مرحلہ 10 برس میں مکمل ہوگا اور اس میں سالانہ 15 کروڑ مسافروں کی آمدورفت ممکن ہوگی۔دبئی ورلڈ سینٹرل (DWC) کو ''مستقبل کا ہوائی اڈہ‘‘ کہا جارہا ہے ۔ المکتوم بین الاقوامی ہوائی اڈہ چھ کلسٹرڈ زونز کی 140 کلومیٹر 2 ملٹی فیز ڈیویلپمنٹ جس میں دبئی لاجسٹک سٹی (DLC)، کمرشل سٹی، رہائشی شہر، ایوی ایشن سٹی اور گالف سٹی شامل ہیں۔جب دنیا کے سب سے بڑے ایئر پورٹ کے منصوبے کا آغازکیا گیا تو اس منصوبے کو 2017 تک مکمل طور پر کام کرنے کی توقع تھی، حالانکہ 2007-2012 کے عالمی مالیاتی بحران کی وجہ سے کمپلیکس کی تکمیل کو 2027 ء تک ملتوی کر دیا گیاتھا۔ ہوائی اڈے کے کمپلیکس کو سب سے پہلے ''جبل علی انٹرنیشنل ایئرپورٹ‘‘ پھر ''جبل علی ایئرپورٹ‘‘ بعد ازاں شہر، اور''دبئی ورلڈ سینٹرل انٹرنیشنل ایئرپورٹ‘‘ اور پھر دنیا کے سب سے بڑے ہوائی اڈے کو بالآخر المکتوم بین الاقوامی ہوائی اڈے کا نام ہاؤس آف مکتوم کے نام پر رکھا گیا جو امارات پر مرکزی حکومت چلاتا ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

ناسا کے ''وینس مشن‘‘ کی روانگی04اپریل 1989ء کو امریکی خلائی ایجنسی ''ناسا‘‘ نے اپنا وینس(زہرہ) کیلئے خلائی مشن ''ایس ٹی ایس 30‘‘ کو روانہ کیا۔ یہ ناسا کا 29واں جبکہ مذکورہ خلائی شٹل کا چوتھا خلائی مشن تھا۔ زہرہ سورج کے بعد دوسرا سیارہ ہے۔یہ مریخ کے قریب ترین واقع ہے جبکہ جسامت میں اپنے مداری سیارے زمین کے برابر ہے۔ 4 مئی کو روانہ ہونے والا یہ مشن چار دن کے بعد یعنی 8مئی کو زہرہ پر اترا۔پاکستان کی آسٹریلیشیا کپ میں فتح1990ء میں آج کے روز کھیلے گئے آسٹریلیشیا کپ میں پاکستان نے آ سٹر یلیا کو شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا۔ آسٹریلیشیا کپ 25اپریل سے 4مئی کے درمیان متحدہ عرب امارات میں کھیلا گیا جس میں 6ٹیموں آسٹریلیا، بنگلہ دیش، بھارت، نیوزی لینڈ، پاکستان اور سری لنکا نے حصہ لیا۔ ٹیموں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پاکستان کو ٹورنامنٹ جیتنے پر 30ہزار ڈالر کی انعامی رقم دی گئی۔ پہلے ''ایمی ایوارڈز‘‘ کا انعقاد1959ء میں آج کے روز دنیائے موسیقی کے سب سے معتبر سمجھے جانے والے ''ایمی ایوارڈز‘‘ کی پہلی تقریب کا انعقاد ہوا۔ جس میں 1958ء میں اپنے کام سے لوگوں کو متاثر کرنے والے فنکاروں کے فن کا اعتراف کیا گیا۔ ایمی ایوارڈ کی یہ پہلی تقریب اس حوالے سے منفرد تھی کی اس کا اہتمام بیک وقت دو مختلف شہروں کے دو ہوٹلوں میں کیا گیا تھا۔ یہ تقریب بیورلے ہلز کیلیفورنیا کے ساتھ نیویارک میں منعقد ہوئی جس میں تقریباً 15کیٹیگریز میں ایوارڈز دیئے گئے۔''سیئرز ٹاور‘‘ دنیا کی بلند ترین عمارت قرار پایاشکاگو کے 108 منزلہ ''سیئرز ٹاور‘‘ کو 4 مئی 1973ء کو دنیا کی بلند ترین عمارت قرار دیا گیا۔ اس کی اونچائی 1451 فٹ تھی۔ دبئی میں برج الخلیفہ بننے کے بعد ''سیئرز ٹاور‘‘ سے یہ اعزاز چھن گیا۔ برج الخلیفہ کی بلندی 2717 فٹ ہے اور اسے دنیا کیبلند ترین عمارت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس عمارت کا افتتاح 2010ء میں ہوا تھا۔