قصہ پارینہ بنتی: ذاتیں اور پیشے
زمانہ قدیم کے انسان نے جب معاشرہ تشکیل دیا تو اسے سب سے پہلے اپنے استعمال کیلئے دو چیزوں کے ذخیرہ کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی ، ایک پانی اور دوسرا اناج۔ یہ وہ دور تھا جب ابھی اس روئے زمین پر دھات ایجاد نہیں ہوئی تھی اور انسان کو صرف مٹی ہی دستیاب تھی، جسے بروئے کار لاکر انسان نے پانی اور اناج کو ذخیرہ کرنے کیلئے کٹورہ نما برتن ایجاد کیا ہو گا۔ شاید یہ اس روئے پر پہلا برتن ہو گا۔ اس کے بعد کے انسان نے شکار کیلئے جس اوزار کو استعمال کیا وہ پتھر سے بنا نوک دار تیر نما ہتھیار تھا۔ بعد ازاں دھات کی ایجاد کے ساتھ ہی انسان نے دھات سے کلہاڑی ، چھری اور اس طرح کے دیگر اوزار اپنی روزمرہ زندگی کی ضرورت کے مطابق بنانا شروع کئے۔
لکڑی کا استعمال بھی انسانی معاشرے کی تشکیل کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا جب انسان نے ایندھن کے علاوہ لکڑی کو تعمیراتی استعمال کے ساتھ ساتھ گھریلو ضرورت کی اشیاء بنانے میں استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ شروع میں لوگ اپنی ضرورت کی اشیا خود بنا لیا کرتے تھے جسے اڑوس پڑوس والے باوقت ضرورت مستعار بھی لے لیا کرتے تھے۔لیکن جب معاشرتی حجم میں اضافہ ہوتا گیا تو انسانی ضروریات بھی بڑھتی چلی گئیں تو ایک فرد یا ایک خاندان کیلئے مختلف انواع کی اشیاء ایک ساتھ بنانا ممکن نہ رہا۔ چنانچہ افراد نے اپنی آسانی کے مطابق یہ کام بانٹ لئے۔ شاید یہی وہ دور تھا جب اس معاشرے میں ہنر کی تقسیم کی بنیاد کے ساتھ ہی انسانی پیشے کے حوالے سے انسانی ذات کی بھی بنیاد پڑی۔
دراصل ''ذات‘‘ بنیادی طور پر ایک سماجی رابط کا نام ہے جو اسے اپنے پیشے ، ثقافت ، تہذیب اور وراثت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔یوں لکڑی کے ہنرمند کو '' ترکھان‘‘ ، لوہے کے کاریگر کو '' لوہار‘‘ ، اعلیٰ ہذا القیاس موچی ، جولاہا ، کمہار وغیرہ کی ذاتیں معرض وجود میں آتی چلی گئیں۔ ان پیشوں کی شناخت انیسویں صدی عیسوی میں اس وقت اور بھی نمایاں ہو گئی جب پنجاب کے دیہاتوں میں بالخصوص سکھ شاہی کے دور میں اپنی روزمرہ زندگی کے دوران سرداروں اور وڈیروں کو اپنے لئے کمیوں کی ضرورت شدت سے محسوس ہونے لگی۔جہاں یہ لوگ زراعت کیلئے ہل، درانتی اور دیگر اوزار بنانے کے ساتھ ساتھ کپڑا بننے،رنگنے ، جوتیاں بنانے ، لکڑی سے فرنیچر اور روزمرہ ضرورت کی اشیاء بنانے میں مصروف رہتے تھے اور یوں یہ ''کردار‘‘ ہمارے معاشرے کا جزو لاینفک بن کے رہ گئے۔ ذیل میں ہم ان میں سے چند کرداروں کا فرداً فرداً تعارف کراتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہو چکے ہیں یا معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔
کمہار
کمہار ، مٹی کے برتن بنانے والے کو کہتے ہیں۔ یہ پیشہ انسانی تہذیب کا سب سے پرانا پیشہ یوں ہے کہ انسان نے جب معاشرے کو تشکیل دیا تو سب سے پہلے اس نے مٹی کے برتنوں کو رواج دیا ۔اس کے بعد قدیم ترین تہذیبوں سے انسانی اور جانوروں کی شکل میں کچھ مورتیاں بھی ملی تھیں جو چوبیس ہزار سال قبل مسیح کے دور کی بتائی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ چودہ ہزار سال قبل مسیح میں میسو پیٹیمیا ( موجودہ عراق )سے مٹی کی بنی اینٹیں بھی ملی ہیں۔
ایک وہ دور تھا جب مٹی سے بنے پانی کے کٹورے سے لے کر ہانڈی تک روزمرہ ضرورت کی بیشتر اشیاء کمہاروں کی کاریگری کا پیش خیمہ ہوتی تھیں۔ وقت گزرنے ساتھ ساتھ مٹی کے برتنوں کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ دھات ، پلاسٹک اور چائنا مٹی کے بننے والے برتنوں کی تیاری ہے۔جس کے باعث اب گھروں میں مٹی کے برتنوں کا استعمال قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ نتیجتاً اس قدیم فن کے روح رواں دن بدن مالی مسائل کا شکار ہوتے جا رہے ہیں جس کے سبب وہ اپنی نئی نسل کو اس فن سے دور رکھنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور یوں صدیوں پرانا یہ فن اپنی بقا کی جنگ لڑتے لڑتے اب آخری سانس لینے پر مجبور ہو چکا ہے۔
لوہار
کسی دانشور نے ایک موقع پر کیا خوب کہا تھا کہ ''کاشتکاری ، لوہار کے بغیر ایسے ہی جیسے پانی کے بغیر کاشتکاری‘‘۔ اگر بات پنجاب کی، کی جائے تو پنجاب میں صدیوں سے زراعت کا شعبہ نمایاں رہا ہے جس کی وجہ سے ایک بڑی تعداد کاشتکاری کی غرض سے دیہاتوں میں آباد کہنا کرتی تھی۔ کاشتکاری چونکہ ایک ''ٹیم ورک‘‘ کا نام ہے اس لئے دیہاتوں میں اس ٹیم کو ''کامے‘‘ یا ''کمی‘‘ کہا جاتا تھا۔ زراعت میں ان افراد کی حیثیت بنیادی ہوتی تھی اس لئے ان کے بغیر کاشتکاری یا زرعی نظام کا چلنا ناممکن ہوتا تھا۔یہ کامے جو لوہار ،ترکھان ، نائی ، مصلی، جولاہوں وغیرہ پر مشتمل ہوتے تھے، انہیں معاشرے میں نیچ سمجھا جاتا تھا۔لوہار ایسا پیشہ تھا جو زراعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ زرعی اوزار بنانا اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے تھا۔چنانچہ یہی وجہ تھی کہ لوہار ، کمی طبقے کا سب سے معزز کردار سمجھا جاتا تھا ۔
اب وقت بدل گیا ہے کیونکہ بیلوں کی جوڑی کے ساتھ لوہار کے بنے ہلوں کی جگہ اب ٹریکٹر نے لے لی ہے ، لکڑیاں کاٹنے والے آلات کی جگہ الیکٹرک آرے نے لے لی حتی کہ فضل کی بیجائی سے لے کر کٹائی تک کے تمام مراحل اب جدید مشینوں نے سنبھال لئے ہیں۔ایسے میں اب لوہار کا وجود صرف چھوٹی چھوٹی چھریوں، درانتیوں اور کچھ دیگر اوزاروں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے جس کے سبب یہ اپنی اگلی نسل کو اپنا موروثی پیشہ منتقل کرنے پر تیار نہیں ہے ۔
موچی
موچی کو عام طور پر ''چمار‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ گئے دنوں میں موچی کو دیہی علاقوں بالخصوص پنجاب کے دیہاتوں میں ایک منفرد حیثیت حاصل ہوا کرتی تھی۔ موچی کا کام ویسے تو دیہی علاقوں میں جوتیاں بنانا، مرمت کرنا، بیل گاڑیوں اور دیگر جانوروں کے چھانٹے بنانا اور چمڑے کے دوسرے متفرق کام کرنا ہوتا تھا لیکن دیہاتوں میں موچی سے فصلوں کی بیجائی سے لے کر کٹائی تک اور محنت مزدوری کے دوسرے کام بھی لئے جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ موچی کا کام جوتے بنانے تک ہی محدود ہو کر رہ گیا۔ دیگر پیشوں بالخصوص زرعی پیشے میں مشینی انقلاب نے ہنر مندوں کی ہنر مندی کو مشینوں کے تابع لا کھڑا کیا۔ نتیجتاًجفت ساز (موچی )تیزی سے بے روزگار ہونے لگے اور اب یہ پیشہ صرف جوتا مرمت تک محدود ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ مشینوں پر تیار جوتے باآسانی دستیاب ہو چکے ہیں جس کے سبب ان کی نئی نسل اب تیزی سے اس خاندانی پیشہ سے کنارہ کشی اختیار کرتی جارہی ہے۔
جولاہا
اب سے لگ بھگ چار، پانچ عشرے پہلے تک ''جولاہا‘‘ جسے پنجاب کے بیشتر علاقوں میں ''پاولی‘‘بھی کہا جاتا ہے ،پنجاب کی ثقافت اور سماجی زندگی کا ایک اہم کردار ہوا کرتا تھا۔ پنجاب کے ہر گاؤں میں جہاں نائی ، کمہار ، موچی ،تیلی، کمہار اور ترکھان ہوا کرتے تھے وہیں کم از کم ایک یا دو گھر ایسے ضرور ہوا کرتے تھے جن کے ایک کمرے میں کھڈیاں لگا کر کھیس ، کھدر اور دریاں وغیرہ بنائی جا رہی ہوتی تھیں، اور یہ گھر کسی جولاہے کا ہوتا تھا۔ اپنے ہی گاوں کی کپاس سے کھڈیوں پر تیار کردہ کپڑے گاؤں کے باسیوں کا پہناوا اور ان جولاہوں کا ذریعہ معاش ہوا کرتا تھا۔
جولاہا بڑے مزے میں تھا کہ اچانک حکومت کو '' ترقی‘‘ کی سوجھی اور قرار پایا کی دیسی کپاس کی کاشت ملک کیلئے شجر ممنوعہ ہے، اس کی جگہ امریکن کپاس نے لے لی اور کھڈیوں کی جگہ ٹیکسٹائل ملوں نے۔ جولاہا حیران پریشان کہ اب وہ کرے تو کیا کرے ؟ پیٹ کا ایندھن بھرنے کیلئے وہ انہی ملوں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہو گیا۔یوں ماضی کا ایک اہم کردار ہمیشہ کیلئے گمنامی کے اندھیروں میں کھو گیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ ماضی کے ایسے ہی لاتعداد کردار جن میں چوہڑے (خاکروب )، ماچھی ، ماشکی ،مصلی، ملاح، دھوبی ، قصاب ، ترکھان اور ایسے ہی بہت سارے مزید طبقات بھی شامل تھے اب رفتہ رفتہ وقت کی بھینٹ چڑھتے چڑھتے قصہ پارینہ بن گئے ہیں۔