رضیہ سلطان: عظیم تخت نشین خاتون
ہندوستان کی تاریخ میں عظیم اور جانباز خواتین میں سے ایک رضیہ سلطان حیرت انگیز بہادری اور بے مثال حولہ سے بھرپور نادر الوجود شخصیت کی حامل خاتون سلطان، پردہ نشین معاشرہ کا نایاب ہیرا تھیں۔ جس نے تخت سلطانی پر رونق افروز ہو کر اس عہد میں مرد سلطان کے ہم پلہ اپنی صلاحیتوں کا ثبوت پیش کیا اور تقریباً 785 سال پہلے اس سماج میں جس میں عورت کا پردے میں رہنا مستحسن سمجھا جاتا تھا، یہ ثابت کردیا کہ جب اس سماج کی بیٹی پر سلطان ہند کی ذمہ داری آئی تو اس نے سلطنت کی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دیا اور پورے طبقۂ نسواں کیلئے اس کی شخصیت کشش کا سرچشمہ بنی۔ رضیہ سلطان کی شخصیت اور کارناموں سے تمام ہندوستانی خواتین کو تحریک ملتی ہے۔ بہادری اور حوصلہ کی علامت رضیہ سلطانہ جب آلات حرب سے آراستہ ہو کر گھوڑے پر سوار جنگ کیلئے نکلتی ہوں گی تو وہ منظر بہت ہی دلکش ہوتا ہوگا۔
رضیہ سلطان نے ہندوستان پر تین سال چھ مہینے اور چھ دن حکومت کی اس مختصر عرصے میں اس نے اپنی لیاقت اور عظمت کے جوہر، دوست اور دشمن دونوں سے تسلیم کرا لئے۔ تخت دہلی پر رضیہ کے فائز ہونے کے سلسلے میں مندرجہ ذیل امور پر توجہ دینا ضروری ہے۔ سلطنت دہلی کی تاریخ میں دہلی کے عوام نے پہلی بار کسی کو اپنی مرضی کے مطابق تخت پر بٹھایا تھا۔ اس کے بعد سے دہلی کے عوام کی حمایت رضیہ کے استحکام کا خاص ذریعہ بنی رہی۔ جب تک وہ دہلی سے باہر نہیں نکلی اس وقت تک کوئی بھی بغاوت اس کے خلاف کامیاب نہ ہو سکی اور نہ محل کے اندر کوئی انقلاب برپا ہوا۔ اس نے اپنی تخت نشینی کو ایک معاہدے کی شکل میں یہ کہہ کر دے دی کہ اگر وہ عوام کے توقعات پر پوری نہ اتریں تو عوام کو حق ہوگا کہ وہ اسے تخت سے برطرف کر دیں۔ اس واقعہ سے التمش کا انتخاب صحیح ثابت ہوتا ہے۔
دہلی کی فوج اور افسران نے رضیہ کو تخت پر بٹھایا تھا چنانچہ صوبائی گورنر جو عام طور سے ترک حکمراں طبقے کے ایک طاقتور جزو ہوا کرتے تھے، فطری طور پر خود کو ذلیل اور نظر انداز کردہ محسوس کرنے لگے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت کے آغاز ہی سے رضیہ کو ان کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ رضیہ نے یہ ثابت کردیا کہ وہ صورتحال کا مقابلہ کامیابی کے ساتھ کر سکتی تھی۔ اقتدار پر قابض ہونے کیلئے اس کا پہلا قدم ہی اس کی سیاسی شخصیت کی دلیل ہے۔ رضیہ کے اندر وہ تمام قابل ذکر خوبیاں موجود تھیں جن کا بادشاہوں کے اندر پایا جانا ضروری ہے، لیکن اس کا عورت ہونا اس کی سب سے بڑی دشواری تھی۔
رضیہ نے تخت نشین ہونے کے بعد تدبر سے کام لیا۔ بدایو، ملتان، جھانسی اور لاہور کے اقطاع دار، جو اس کے مخالف ہو گئے تھے ان کے درمیان میں ایسا اختلاف پیدا کیا کہ وہ آپس میں ہی لڑنے جھگڑنے لگے اور ان کی یکجہتی ختم ہو گئی۔ رضیہ کی اس ہوشمندانہ تدبیر سے اس کا وقار بڑھ گیا۔ اس نے حکومت کے نظام کی نئی تشکیل کرکے خواجہ مہذب الدین کو وزیر بنایا اور نئے نئے اقطاع دار مقرر کئے۔ اس کے بعد شاہی دربار کے افسران کی تقرری ہوئی۔ملک جمال الدین یاقوت کو امیر آخور (گھوڑے کے اصطبل کا داروغہ) مقرر کیا۔ ترکوں نے جمال الدین کی تقرری کی مخالفت کی کیوں کہ وہ ایک حبشی غلام تھا اور اس سے پہلے اس عہدے پر صرف ترک افسران ہی مقرر ہوتے تھے۔
وفادار اور قابل اعتماد انتظامیہ کا عملہ مقرر کرنے کے بعد رضیہ نے معاملات پر براہ راست کنٹرول رکھنے کیلئے توجہ کی۔ وہ سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی تھی، جبکہ امرا رضیہ کی مخالفت کر رہے تھے، کیونکہ وہ ایک مضبوط اور مطلق العنان حکمراں کو تخت پر دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ رضیہ اگر پردہ میں رہتی تو ایسا ممکن نہیں تھا، جس تخت پر بیٹھتی تھی درباریوں اور عوام کے حصے سے ایک پردہ کے ذریعے علیحدہ رکھا جاتا تھا۔ اس طرح کا بھی انتظام تھا کہ محافظ خواتین اس کے پاس کھڑی رہتیں اور ان لوگوں کے بعد رضیہ کے خونی رشتہ دار ہوتے۔ انتظام غیر مناسب ثابت ہو رہا تھا۔ لہٰذا اس نے زنانہ لباس ترک کردیا اور قباو کلاہ پہن کر عوام کے سامنے حاضر ہوئی۔ کھلے بند گھوڑے پر سواری کرتی اور دربار میں موجود رہ کر حکومت کو مستحکم بنانے کی کوشش کرتی۔ بہادر اور دلیر ہونے کے علاوہ، وہ ایک کامیاب سپاہی اور جنرل بھی تھیں۔ سیاسی سازشوں اور جوڑ توڑ میں مشاق تھی۔ اس کی وجہ سے ترکوں کی سلطنت کا وقار ہندوستان میں بڑھ گیا۔
قطب الدین ایبک سے لے کر التتمش تک تمام سلاطین اپنے امراء کے سامنے تخت پر بیٹھنے سے جھجھکتے تھے، یعنی رضیہ سے پہلے اور اس کے بعد بھی التتمش کے خاندان کے اور افراد اپنی شخصیت اور کردار کے لحاظ سے کمزور تھے، لیکن یہ صرف تنہا رضیہ ہی تھی جو اپنی صلاحیت اور لیاقت کی بنا پر سلطنت دہلی کی سیاست پر حاوی رہنے کی کوشش کرتی رہتیں۔ طبقات ناصری کے مصنف نے لکھا ہے کہ وہ جلیل القدر، عاقل، عادل، کریم، عالم نواز، عدل گستر، رعیت پرور اور لشکر کش حکمراں تھیں۔