کتب کی دنیا (یاقوت کے ورق)
’’یاقوت کے ورق‘‘ جواں سال شاعرعلی اکبر ناطقؔ کا دوسرا شعری مجموعہ ہے، جو پابند اور آزاد نظموں پر مشتمل ہے۔ ناطقؔ نے نظموں کی اس کتاب میں نہ صرف جدید نظم کے تقاضوں کو کامیابی سے نبھایا ہے بل کہ نئے امکانات اور نئی جہتیں بھی تلاش کرنے کی سعی کی ہے اور اس میں بھی وہ ظفر مند دکھائی دیتے ہیں۔ ناطقؔ کی نظموں کا کینوس بہت وسیع ہے اور اگر اُن کا بار بار مطالعہ کیا جائے، تو بہت سی جہتیں اور پرتیں سامنے آتی ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ غور طلب ہے کہ علی اکبر ناطقؔ نے نثری نظموں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی یا یوں کہنا چاہیے کہ اُنھوں نے اپنی فکر اور خیالات کو وسعت دینے کے لیے نثری نظم کا سہارا نہیں لیا۔نثری نظم کے سرخیل اور اس صنف کی وکالت کرنے والوں کے پاس سب سے بڑی دلیل ہمیشہ یہ رہی ہے کہ غزل اور آزاد نظم میں عروض کی بندشوں کے باعث شاعر اپنے تخیل کو اس حدتک پھیلانے سے قاصر رہتا ہے جتنا کہ وہ خواہش مند ہے۔ ہمارے پاس نابغۂ روزگار شاعر ن م راشدؔ کی مثال ہے، جنھوں نے آزاد نظم کے میدان میں اپنے فن کا سکہ جمایا۔ اُن کی اکثر نظمیں خاصی طویل ہیں ،جو اس حقیقت کا غماز ہے کہ اُنھوں نے آزاد نظم کے ذریعے اپنے خیالات اور احساسات کو قارئین تک پہنچایا اور اپنی اس سعی میں مکمل طورپر کامیاب رہے۔ اس حوالے سے علی اکبر ناطقؔ کی رائے بھی غالباً یہی ہے کہ آزاد نظم کے ذریعے ہی اپنے منفرد طرزِ احساس کو اجاگر کیا جائے۔ اصل بات تو فکر کی گہرائی اور موضوعات کا تنوع ہے، جو ہمیں ناطق ؔکی نظموں میں جابجا ملتا ہے۔ ناطقؔ کی شاعری کے کئی رنگ ہیں۔ کبھی وہ فلسفیانہ انداز میں بھی قاری سے مخاطب ہوتے ہیں۔ کبھی اُن کی شاعری میں اُمید کا سورج طلوع ہوتا نظر آتا ہے اور کبھی یاسیت کے اندھیرے دکھائی دیتے ہیں، لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ ناطقؔ نے امید اور یاسیت کے حوالے سے بڑے مضبوط دلائل بھی دیئے ہیں۔ رجائیت (Optimism)اور قنوطیت (Pessimism)کا اتنا انوکھا امتزاج ہمیں پابند یا آزاد نظموں میں کم ہی ملتا ہے۔ ناطقؔ کا ایک بڑی شعری وصف یہ ہے کہ وہ بڑی خوبصورتی سے تجرید کو حقیقت کی سطح پر دیکھتے ہیں، جسے (Personification)کہتے ہیں۔ جیسے وہ اپنی نظم ’’ شہر کا ماتم‘‘ میں کہتے ہیں:سنسان گھروں میں رقص کریں گی دوپہریں ویران چھتوں پر رات اکھاڑا ڈالے گی اسی طرح اُن کی نظم ’’آنکھ بے آنسو، دل بے نور‘‘ میں اُن کا کہنا ہے:جنگل میں جب شام پڑی تھی اور پرندے سوئے تھے صدیوں پرانی خاک پہ لیٹے اونگھ رہے تھے پہلے پاتتجرید کو حقیقت کی سطح پر دیکھنے کا عمل اُن کی ایک اور نظم ’’کلیسا ‘‘ میں بھی بڑی مہارت سے دہرا یا گیا ہے:ٹوٹ گئی سب کڑیاں چھت کی، بکھر گئے فانوسی ہارصبح کی گھنٹی کھانس رہی ہے نیند میں شاموں کے ناقوس’’یاقوت کے ورق‘‘ میں ناطقؔ کی بہترین نظموں میں ’’پرندومرے ساتھ ‘‘، ’’سفیر لیلیٰ‘‘، ’’پلٹ کے بدنصیب آگئے‘‘،’’ظلمتیں‘‘ اور گائوں کا فسانہ ‘‘ شامل ہیں، لیکن ’’عصا بیچنے والو‘‘ اُن کی معرکتہ الآرا نظم ہے:نہ کوئی جواں سال، مضبوط گھٹنوں کا مالک فقط سن رسیدہ تبہ حال بڈھے لرزتے ہوئے ہاتھ پالڑکھڑاتے عصا کے سہارے قدم دوقدم چل کے تھک جانے والے شاعر نے کمزور اور ضعیف العمر لوگوں کی حالت ِزار کی جس انداز میں تصویر کھینچی ہے ،اس سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ شاعر کا دل انسانیت کے درد سے معمور ہے۔ یہ نظم پڑھ کر بلاشبہ علامہ اقبالؔ یاد آجاتے ہیں، جنھوں نے کہا تھا: ـہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات اب ذرا ناطقؔ کی طویل نظم ’’سفیر لیلیٰ‘‘ پربات ہوجائے۔ اُن کی یہ نظم چارحصوں پر مشتمل ہے اور بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے۔ ’’سفیر لیلیٰ ‘‘ فی الحقیقت اقدار کی پامالی کا نوحہ ہے۔ دعا یہ ہے کہ رب ِکائنات اُن کے فکر کو نئی توانائیاں عطا کرے اور وہ اپنے قارئین کے لیے حیات ِافروز شاعری تخلیق کرتے رہیں۔ ٭…٭…٭