پیشنس کُوپر
ہندوستانی فلمی صنعت کی پہلی خاتون سپر سٹارجن کو خاموش فلموں کی مدھو بالا بھی کہا جاتا ہے*****1920ء کی دہائی میں جب ہندوستان میں خاموش فلمیں بنائی جاتی تھیں تو اس وقت چند فنکاروں نے اپنی بہترین کارکردگی کی وجہ سے شہرت حاصل کی ۔ ان میں سے ایک نام پیشنس کُوپر (Patience Cooper) کا بھی تھا ۔ 1905ء میں پیدا ہونے والی یہ خاتون اداکارہ اینگلو انڈین تھیں اور ان کا تعلق کلکتہ سے تھا ۔ انہوں نے 40کے قریب خاموش اور بولتی فلموں میں کام کیا لیکن انہوں نے زیادہ تر خاموش فلموں میں اداکاری کی ۔ان کی کامیاب فلموں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ انہیں ہندوستانی فلمی صنعت کی پہلی خاتون سپر سٹار کہا جاتا ہے ۔ انہوں نے1920ء سے لے کر 1944ء تک فلموں میں کام کیا ۔ انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز رقاصہ کی حیثیت سے کیا ۔ 1922ء میں ان کی فلم ’’پتی بھکتی ‘‘ کو بہت کامیابی ملی ۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بھارتی سکرین پر پہلی بار ڈبل رول انہوں نے ادا کیا ۔ پہلے فلم ’’پتنی پرتاب ‘‘میں وہ جڑواں بہنوں کی حیثیت سے جلوہ گر ہوئیں اور بعد میں انہوں نے فلم ’’کشمیری سُندری ‘‘میںماں اور بیٹی کا ڈبل رول اداکیا لیکن ہندوستان کے کچھ فلمی حلقے اسے درست نہیں مانتے ۔ ان کے مطابق سب سے پہلے اداکارہ اینا سلینکھے نے 1917ء میں ریلیز ہونیوالی خاموش فلم ’’ لنکا دہن ‘‘ میں رام اور سیتا کا ڈبل رول ادا کیا ۔ ’’پتی بھگتی ‘‘ کو پیشنس کُوپرکی بہترین فلم قرار دیا جاتا ہے ۔اس فلم میں انہوں نے لیلا وتی کا کردار ادا کیا تھا ۔اس فلم کے ہدایتکار جے جے مدن تھے جو اپنے وقت کے عظیم ہدایتکار مانے جاتے تھے ۔ فلم میں انہوں نے عورتوں کو یہ پیغام دیا کہ وہ اپنے شوہروں کیلئے سب کچھ وقف کر دیں ۔ انہوں نے جے جے مدن کی ایک اور یادگار فلم میں اپنے فن کے جوہر دکھائے جس کا نام تھا ’’ لیلیٰ مجنوں ‘‘ ۔ 1923ء میں جے جے مدن کی ہی ایک اور فلم ’’نورجہاں ‘‘ میں پیشنس کُوپر نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ۔ اس کے علاوہ 1928ء میں ’’آنکھ کا نشہ ‘‘ اور پھر ’’ حورِ عرب ‘‘ میں بھی انہوں نے شاندار اداکاری کی بدولت فلم بینوں کو متاثر کیا ۔ 1936ء میں انہیں گل حمید کی ہدایتکاری میں مشہور فلم ’’ خیبر پاس ‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا ۔ یہ بولتی فلم تھی ۔اس کے بعد انہوں نے اپنے وقت کی ایک اور مشہور فلم ’’ باغی سپاہی ‘‘ میں با کمال اداکاری کی ۔ اس فلم کے ہیرو گل حمید تھے جبکہ ہدایتکاری کے فرائض اے آر کاردار نے سر انجام دئیے ۔ پیشنس کُوپر کی دیگر مشہور فلموں میں ’’ فخر اسلام ‘‘ ، ’’نل مانیتی ‘‘ ، ’’ وشنو اوتار ‘‘ ، اور ’’علی بابا چالیس چور ‘‘ شامل ہیں ۔ پیشنس کُوپر کی سب سے بڑی خوبی ان کے چہرے کے تاثرات تھے۔ خاموش فلموں میں چہرے کے تاثرات (Face Expressions) ہی سب کچھ ہوتے ہیں اور کسی بھی فنکار کو اپنے آپ کو منوانے کیلئے اس کی طرف خصوصی توجہ دینا پڑتی تھی ۔ پیشنس کُوپر کے چہرے کے تاثرات سے ہی فلم بینوں کو بخوبی علم ہو جاتا تھا کہ یہ اداکارہ کیا کہنا چاہتی ہے اور اس کے دل میں کیا ہے ۔ اس کے علاوہ وہ اپنی خوبصورت مسکراہٹ سے بھی بہت کچھ کہہ جاتی تھیں ۔ پیشنس کُوپر کو خاموش فلموں کی مدھو بالا بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بھی حسن کا مجسمہ تھیں۔ بطور اداکارہ ان کی بے مثال کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ ان میں ہالی وڈ کی اداکارائوں کی جھلک دکھائی دیتی تھی ۔ سیاہ آنکھیں ، تیکھے نقوش اور آبنوسی بال ۔1944ء میں انہوں نے فلموں سے ریٹائرمنٹ لے لی ۔ ان کی آخری فلم ’’ ارادہ ‘‘ تھی ۔ پیشنس کُوپر نے ذ اتی زندگی میںبہت صدمات جھیلے لیکن وہ ایک حوصلہ مند خاتون تھیں جنہوں نے بڑی ہمت اور استقامت سے حالات کا مقابلہ کیا۔ ان کی پہلی شادی گل حمید سے ہوئی جو اپنے وقت کے بڑے مشہور ہیرو تھے ۔گل حمید بھی بڑے حسین تھے بلکہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مردانہ وجاہت کا جیتا جاگتا شاہکار تھے ۔ بد قسمتی سے شادی کے صرف 6برس بعد وہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے ۔ کُوپر کو جوانی میں ہی اپنے شوہر کی موت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا ۔ بہر حال وہ جو کہتے ہیں کہ ’’زندگی ایک سفر ہے جس میں لوگ ملتے ہیں بچھڑ جاتے ہیں ‘‘ ۔ کُوپر نے یہ عظیم صدمہ برداشت کر لیا اور پھر سے زندگی کی ڈگر پر چلنے لگیں ۔ کچھ حلقوں کی رائے میں کُوپر نے سب سے پہلے ایم اے ایچ اصفہانی سے شادی کی جو چائے کی صنعت سے وابستہ تھے ۔ اس وقت ان کی عمر21سال تھی ۔ ان کی شادی طلاق پر منتج ہوئی ۔ جس کے بعد انہوں نے گل حمید کو اپنا شریک حیات بنایا ۔1947ء میں پیشنس کُوپر پاکستان آ گئیں اور اپنا نام صابرہ بیگم رکھ لیا ۔ وہ کراچی میں اپنی دو لے پالک بیٹیوں کیساتھ رہائش پذیر ہو گئیں جن کے نام زینت اور حلیمہ ہیں ۔ اپنی زندگی کے آخری دن انہوں نے اپنی لے پالک بیٹیوں کے ساتھ کراچی میں گزارے ۔ 1983ء میں ان کا انتقال ہو گیا ۔ہندوستان کی نوجوان نسل کو شاید ہی اس بے بدل اداکارہ کے بارے میں کچھ علم ہو گا کیونکہ جس تواتر سے بالی وڈ میں آج کل فلمیں بن رہی ہیں اور جتنی جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے اس نسل کو تو 50ء اور 60ء کی دہائی کے فنکاروں کے بارے میں بھی بہت کم معلومات ہوں گی اور پیشنس کُوپر تو خاموش فلموں کے زمانے کی اداکارہ تھیں ۔ یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جس نے جو کام کیا ہے وہ کام ہمیشہ زندہ رہتا ہے ۔اور ظاہر ہے اس کام کی بدولت ہی اس کا نام بھی تاریخ کے صفحات سے نہیں مٹایا جا سکتا ۔ پیشنس کُوپر کا نام ہندوستانی فلمی صنعت کی پہلی خاتون سپر سٹار کی حیثیت سے ہمیشہ زندہ رہے گا ۔