تکبرکے مضراثرات
تکبرایک ایسا مہلک مرض ہے جو اپنے ساتھ کئی برائیوں کو لاتا ہے اور کئی اچھائیوں سے آدمی کو محروم کردیتا ہےدل سے تکبر کی گندگی کوصاف کرنے کے لئے تواضع و عاجزی اختیار کرنا بے حد مفید ہے *********اللہ عزوجل نے حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق یعنی پیدائش کے بعد تمام فرشتوں اور ابلیس یعنی شیطان کوحکم دیا کہ ان کو سجدہ کریں تو تمام فرشتوں نے حکم خداوندی کی تعمیل میں سجدہ کیا مگر ابلیس نے انکار کردیا اور تکبر کر کے کافروں میں سے ہوگیا۔ جب رب عزوجل نے ابلیس سے اس کے انکار کا سبب دریافت فرمایا تو اکڑ کر کہنے لگا: ترجمہ: میں اس سے بہتر ہوں کہ تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے پیدا کیا۔ اس سے ابلیس کی فاسد مراد یہ تھی کہ اگر حضرت سیدنا آدم علیہ السلام آگ سے پیدا کئے جاتے اور میرے برابر بھی ہوتے جب بھی میں انہیں سجدہ نہ کرتا چہ جائیکہ میں ان سے بہتر ہوکر ان کو سجدہ کروں۔ ابلیس کی اس سرکشی، نافرمانی اور تکبر پر اللہ رب العزت جل جلالہ نے ابلیس کو اپنی بارگاہ سے دھتکارتے ہوئے ارشاد فرمایا: ترجمہ : تو جنت سے نکل جا کہ تو راندھاگیا اور بے شک تجھ پر میری لعنت ہے قیامت تک۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کس طرح تکبر کے باعث ابلیس یعنی شیطان کو اپنے ایمان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ شیطان جس کا نام پہلے عزازیل تھا، ابتدا ہی سے سرکش ونافرمان نہ تھا بلکہ اس نے ہزاروں سال عبادت کی، یہ جن تھا مگر اپنی عبادت و ریاضت اور علمیت کے سبب معلم الملکوت یعنی فرشتو ں کا استاذ بن گیا مگر چند گھڑیوں کے تکبر نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا۔ اس کی برسوں کی عبادتیں اکارت یعنی بے کاراورہزاروں سال کی ریاضت پامال ہوگئی۔ ذلت ورسوائی اس کا مقدر ٹھہری۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لعنت کا طوق اس کے گلے پڑ گیا اور وہ جہنم کے دائمی یعنی ہمیشہ ہمیشہ کے عذاب کا مستحق ٹھہرا۔ نمرود جس نے بظاہر پو ری دنیا پر حکومت کی۔ وہ بھی تکبر کی اسی قسم کا شکار ہوا۔ اس نے خدائی کادعویٰ کیا تو اللہ عزوجل نے حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو نمرود کی طرف بھیجا تو اس نے آپ علیہ السلام کو جھٹلایا، حتیٰ کہ یہ دعویٰ تک کر بیٹھا: میں آسمان کے رب کو قتل کردو ں گا۔ معاذاللہ عزوجل اور اس ارادے سے آسمان کی طرف تیر برسائے، جب تیر خون آلود ہ ہوکر واپس زمین پر آگرے تو اس نے اپنی جہالت، بغض وعداوت اور کفر کی وجہ سے گمان کیا کہ اس نے آسمان کے رب کوقتل کردیا( معاذاللہ) ۔حتی کہ اللہ عزوجل نے نمرود کی طرف ایک مچھرکوبھیجاجو ناک کے ذریعے اس کے دماغ میں گھس گیااور اللہ عزوجل نے اس مغرورکوایک معمولی مچھر کے ذریعے ہلاک فرمادیا۔انسان کو تکبر پر ابھارنے والے اسباب متعدد ہیں جب کہ فی زمانہ عموما ًان آٹھ اسباب کی بناء پر تکبر کیا جا تا ہے جس کے نظارے عام ہیں۔ (۱)علم(۲)عبادت(۳)مال ودولت (۴) حسب ونسب(۵)حسن وجمال (۶)کامیابیاں (۷) طاقت و قوت(۸)عہدہ و منصب رب تعالیٰ کا کبریائی کو اپنی چادر فرمانا یہ سمجھانے کے لئے ہے کہ جیسے ایک چادر کودو بندے نہیں اوڑھ سکتے، اسی طرح عظمت وکبریائی سوائے میرے کسی دوسرے کے لیے نہیںہوسکتی۔انسان کی پیدائش بدبودار نطفے(یعنی گندے قطرے)سے ہوتی ہے‘ انجام کار سڑا ہوا مردہ ہے اور اس قدر بے بس ہے کہ اپنی بھوک، پیاس، نیند، خوشی، غم، یادداشت، بیماری یا موت پر اسے کچھ اختیار نہیں۔ اس لئے اِسے چاہئے کہ اپنی اصلیت، حیثیت اور اوقات کو کبھی فراموش نہ کرے، وہ اس دنیا میں ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا کتنے ہی بڑے مقام ومرتبے پر کیوں نہ پہنچ جائے، خالق کون و مکاں عزوجل کے سامنے اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے۔ صاحب عقل انسان تواضع اور عاجزی کا چلن اختیار کرتا ہے اور یہی چلن اس کو دنیا میں بڑائی عطا کرتا ہے ورنہ اس دنیا میں جب بھی کسی انسان نے فرعونیت، قارونیت اورنمرودیت والی راہ پکڑی ہے، بسا اوقات اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا ہی میں ایساذلیل وخوار کیا ہے کہ اس کا نام تعریف کرنے کے لیے نہیں بلکہ بطور مذمت لیا جاتا ہے، لہذاعقل و فہم کا تقاضہ یہ ہے کہ اس دنیا میں اونچی پرواز کے لئے انسان جیتے جی پیوند ِزمین ہوجائے اور عاجزی و انکساری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے، پھر دیکھئے کہ اللہ رب العزت اس کو کس طرح عزت وعظمت سے نوازتاہے اور دنیا میں محبوبیت اور مقبولیت کا وہ اعلیٰ مقام عطا کرتا ہے جو اس کے فضل و کرم کے بغیر مل جانا ممکن ہی نہیں ہے۔ حضرت سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم حضورﷺ کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے کہ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں اللہ عزوجل کے بدترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ بداخلاق اورمتکبر ہے، کیا میں تمہیں اللہ عزوجل کے سب سے بہترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ کمزور اورضعیف سمجھا جانے والا بوسیدہ لباس پہننے والا شخص ہے لیکن اگر وہ کسی بات پر اللہ عزوجل کی قسم اٹھالے تو اللہ عزوجل اس کی قسم ضرور پوری فرمائے۔ ذرا سوچئے کہ اس تکبر کا کیا حاصل! محض لذت نفس... وہ بھی چند لمحوں کے لئے! جب کہ اس کے نتیجے میں اللہ ورسول اکرمؐ کی ناراضی، مخلوق کی بیزاری، میدان محشر میں ذلت ورسوائی، رب عزوجل کی رحمت اور انعاماتِ جنت سے محرومی اور جہنم کا رہائشی بننے جیسے بڑے بڑے نقصانات کا سامنا ہے۔ اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ چندلمحوں کی لذت چاہئے یاہمیشہ کے لئے جنت ! میدان محشر میں عزت چاہئے یا ذلت ؟ یقیناً ہم خسارے میں نہیں رہنا چاہیں گے توہمیں چاہیے کہ اپنے اندر اس مرض تکبر کی موجودگی کا پتا چلائیں اور اس کے علاج کے لئے کوشاں ہوجائیں۔ ہر باطنی مرض کی کچھ نہ کچھ علامات ہوتی ہیں۔ آئیے! سب سے پہلے ہم تکبر کی علامات کے بارے میں جانتے ہیں، پھر سنجیدگی سے اپنا محاسبہ کرنے کی کوشش کرتے ہیںمگریاد رہے تکبر کی معلومات حاصل کرنے کا مقصد اپنی اصلاح ہو، نہ کہ دوسرے مسلمانوں کے عیوب جاننے کی جستجو۔ خبردار! اپنی ناقص معلومات کی بنا پرکسی بھی مسلمان پر خواہ مخواہ متکبر ہونے کا حکم صادر نہ فرمائیے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ان علامات کومحض ایک مرتبہ پڑھنا اور سرسری طور پر اپنا جائز ہ لے لینا ہی کافی نہیں کیوں کہ نفس وشیطان کبھی نہیں چاہیں گے کہ ہم ان علامات کو اپنے اندر تلاش کرکے تکبر کا علاج کرنے میں کامیاب ہوجائیں ، لہٰذا علامات ِ تکبر کو بار بار پڑھ کرخوب اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے‘ پھر اپنا مسلسل محاسبہ جاری رکھئے تو انشاء اللہ کامیابی کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ عجمیوں کا کھڑے ہونے کا طریقہ قبیح و مذموم ہے، اس طرح کھڑے ہونے کی ممانعت ہے۔وہ یہ ہے کہ اُمراء بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ بوجہ تعظیم ان کے قریب کھڑے رہتے ہیں۔ دوسری صورت عدم جواز کی وہ ہے کہ وہ خود پسند کرتا ہو کہ میرے لیے لوگ کھڑے ہوا کریں اور کوئی کھڑا نہ ہو تو بُرا مانے جیسا کہ پاکستان اور ہندوستان وغیرہ میں اب بھی بہت جگہ رواج ہے کہ امیروں، رئیسوں، زمینداروں کے لئے ان کی رعایا کھڑی ہوتی ہے، نہ کھڑی ہو تو زدوکوب تک نوبت آجاتی ہے۔تاہم اگر کوئی کسی کی بزرگی یا علم وفضل یا کسی اور وجہ سے احتراماً یا تواضع کے طور پر کسی کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو یہ ناجائز نہیں۔تکبر ایسا مہلک مرض ہے کہ اپنے ساتھ دیگر کئی برائیوں کو لاتا ہے اور کئی اچھائیوں سے آدمی کو محروم کردیتا ہے۔ متکبر شخص جوکچھ اپنے لئے پسند کرتا ہے، اپنے مسلمان بھائی کے لئے پسند نہیں کرسکتا، ایساشخص عاجزی پر بھی قادر نہیں ہوتا جو تقویٰ وپرہیزگاری کی جڑ ہے، کینہ بھی نہیں چھوڑ سکتا۔ اپنی عزت بچانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے، اس جھوٹی عزت کی وجہ سے غصہ نہیں چھوڑ سکتا، حسد سے نہیں بچ سکتا، کسی کی خیرخواہی نہیں کرسکتا۔ دوسروں کی نصیحت قبول کرنے سے محروم رہتا ہے، لوگوں کی غیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے‘ الغرض متکبر آدمی اپنا بھرم قائم رکھنے کے لئے ہربرائی کرنے پرمجبور اور ہر اچھے کام کو کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے ۔ اپنے دل سے تکبر کی گندگی کوصاف کرنے کے لئے تواضع و عاجزی کو اختیار کرنا بے حد مفید ہے ۔چنانچہ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: تواضع یہ ہے کہ جب تم اپنے گھرسے نکلو تو جس مسلمان سے بھی ملو اسے خودسے افضل جانو۔حضرت سیدنا امام حسن بصریؒاس قدر منکسرالمزاج تھے کہ ہر فرد کو اپنے سے بہتر تصور کرتے۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ ایک دن دریائے دجلہ پر کسی حبشی کوعورت کے ساتھ اس طرح دیکھا کہ شراب کی بوتل اس کے سامنے تھی۔ اس وقت آپؒ کو یہ گمان ہوا کہ کیا یہ بھی مجھ سے بہتر ہو سکتا ہے؟ کیوں کہ یہ تو شرابی ہے۔ اسی دورا ن ایک کشتی سامنے آئی جس میں سات افراد سوارتھے اور وہ یکایک ڈوبنے لگی۔ یہ دیکھ کر حبشی پانی میں کود گیا اور چھ افراد کو ایک ایک کر کے نکالا۔ پھر آپؒ سے عرض کیا: آپؒ صرف ایک ہی کی جان بچا لیں۔ میں تو یہ امتحان لے رہا تھا کہ آپؒ کی چشم باطن کھلی ہوئی ہے یا نہیں! اور یہ خاتون جو میرے ساتھ بیٹھی ہیں، میری والدہ ہیں اور اس بوتل میں سادہ پانی ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت حسن بصری ؒ نے ندامت سے حبشی سے کہا کہ جس طرح تو نے چھ افرادکی جان بچائی‘ اسی طرح تکبر سے میری جان بھی بچادے۔ اس نے دعا کی کہ اللہ تعالی آپؒ کو نور بصیرت عطا فرمائے یعنی کبرونخوت کو دور کر دے ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس کے بعد آپؒ نے اپنے آپؒ کو کبھی بہتر تصور نہیں کیا۔٭…٭…٭