شطرنج کے ایک ماہر کی انوکھی فرمائش : بساط بھر چاول!

شطرنج کے ایک ماہر کی انوکھی فرمائش : بساط بھر چاول!

اسپیشل فیچر

تحریر :


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

کہانی کچھ یوں ہے کہ کسی ملک کا بادشاہ خود کوشطرنج کا بہت بڑا ماہر سمجھتا تھا۔ اسے زعم تھا کہ شطرنج کے کھیل میں کوئی اسے نہیں ہرا سکتا۔ پھر ایک دن یوں ہوا کہ پڑوسی ملک کے بادشاہ نے اس کی سرحدوں پر اپنی فوج لا کر کھڑی کر دی۔ پڑوسی ملک بہت طاقتور تھا اور اس کی فوج بھی بہت زیادہ تھی۔ لڑائی شروع ہونے سے پہلے، دوسرے ملک کے بادشاہ نے اپنے ایلچی کے ہاتھ اس بادشاہ کو پیغام بھیجا، اگر وہ شطرنج کے کھیل میں اسے شکست دینے میں کامیاب ہو گیا، تو وہ اپنی فوجیں واپس لے جائے اور دوبارہ کبھی حملہ نہ کرے،لیکن اگر وہ ہار گیا تو پھر اسے اپنی ساری سلطنت، پڑوسی بادشاہ کے حوالے کرنا ہو گی۔ خون خرابے سے بچنے کے لیے حملہ آور بادشاہ نے شرط منظور کر لی۔ایک بڑے ہال نما کمرے میں، جس کے فرش پر شطرنج کی بساط کے خانے بنے ہوئے تھے (جن میں مہروں کی جگہ غلام کھڑے کیے جاتے کھیل شروع ہوا۔ حملہ آور بادشاہ اور اس کے مشیر بھی شطرنج میں زبردست ماہر تھے۔ ان کے مقابلے میں شطرنج میں مہارت کا دعویٰ رکھنے والے بادشاہ سلامت کمزور پڑنے لگے۔ ایک ایک کر کے ان کے غلام (یعنی مہرے) پٹتے گئے۔ یہ دیکھ کر ان کے ہوش جاتے رہے وہ اپنے وزیروں مشیروں سے مشورے مانگنے لگے، لیکن پوری سلطنت میں سب سے زیادہ شطرنج تو بادشاہ سلامت ہی کو آتی تھی۔ دوسروں کے مشوروں پر عمل کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بازی اور بھی زیادہ ہاتھ سے نکلنے لگی۔ بادشاہ کا گھمنڈ ٹوٹ گیا۔اسی موقع پر ایک وزیر نے آ کر باد شاہ کے کان میں کہا ’’حضور! باہر ایک فقیر کھڑا ہے۔ کہتا ہے کہ وہ آپ کی شکست کو فتح میں بدل سکتا ہے۔ اسے یہاں آنے کی اجازت دی جائے یا نہیں؟‘‘ بادشاہ نے اجازت دے دی۔ کچھ ہی دیر بعد میلے کچیلے کپڑوں والا ایک فقیر بادشاہ کے سامنے تھا۔ اس نے بادشاہ سے وعدہ لیا کہ وہ صرف وہی چال چلے گا، جسے چلنے کا مشورہ فقیر دے گا۔ یعنی وہ شطرنج کے کھیل سے عملاً دستبردار ہو جائے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پانسہ پلٹ گیا۔ فقیر نے ایسی ایسی چالیں بتائیں کہ بادشاہ کو شطرنج میں مہارت کا اپنا دعویٰ غلط معلوم ہونے لگا۔ حملہ آور بادشاہ کے مہرے ایک ایک کر کے پٹتے چلے گئے، یہاں تک کہ اسے ’’شہ مات‘‘ ہو گئی… اس طرح حملہ آور بادشاہ اپنے لائو لشکر سمیت واپس چلا گیا۔ پورے ملک میں خوشی کے شادیانے بجائے جانے لگے۔فقیر نے بادشاہ سلامت سے رخصت چاہی تو بادشاہ نے کہا ’’نہیں! ہم تمھیںایسے جانے نہیں دیں گے۔ تم نے ہماری سلطنت بچائی ہے۔ اس لیے تمھیں منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔ بولو! تمھیں کیا چاہیے؟‘‘ اس پر فقیر نے کہا: ’’گستاخی معاف جہاں پناہ! لیکن جو کچھ مجھے چاہیے، آپ کا خزانہ وہ دینے کے قابل نہیں۔‘‘یہ سن کر بادشاہ آگ بگولا ہو گیا کہ ایک فقیر میں اتنی ہمت کیسے آ گئی کہ وہ شاہی خزانے کو بے حیثیت کہے… اس نے فقیر کو حکم دیا کہ وہ اپنی فرمائش بیان کرے ورنہ اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔ یہ سن کر فقیر کہنے لگا: ’’جناب! میری فرمائش تو صرف اتنی سی ہے کہ آپ مجھے بساط بھر چاول اس طرح سے عطا فرمائیے کہ (شطرنج کی) بساط کے ہرخانے میں پچھلے خانے سے دو گنی تعداد میں چاول ہوں اور بس۔‘‘یہ عجیب و غریب فرمائش سن کر بادشاہ اور اس کے درباریوں نے ہنستے ہنستے پیٹ پکڑ لیے، مگر فقیر کی سنجیدگی میں فرق نہیں آیا۔ جب یہ لوگ اچھی طرح سے فقیر کا مذاق اڑا چکے تو شاہی خزانے کے نگراں کو حکم دیا گیا کہ وہ فقیر کو سرکاری غلہ گودام میں لے جائے اور اس کی فرمائش پوری کر دے،لیکن وہی ہوا جیسا فقیر نے کہا۔ غلہ گودام میں رکھے ہوئے چاولوں کی ساری بوریاں خالی ہو گئیں لیکن فقیر کے مانگے ہوئے ’’بساط بھر چاول‘‘ پورے نہ ہو سکے۔ بادشاہ کو جب یہ خبر ہوئی تو اس نے فوراً فقیر کو بلوا بھیجا اور ماجرا دریافت کیا۔ اس پر فقیر نے کہا: ’’انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی بساط سے بڑھ کر خدائی دعوے نہ کرے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دربار سے چلا گیا اور پھر کبھی دکھائی نہیں دیا۔امی جی کی سنائی ہوئی کہانی تو یہاں آ کر ختم ہو گئی، لیکن بچپن میں یہ کہانی اس لیے ہماری سمجھ میں نہیں آ سکی کیونکہ ہمیں اس میں پوشیدہ ریاضی سے واقفیت نہ تھی۔ اب ذرا حساب لگائیے کہ شطرنج کی بساط پر فقیر کی فرمائش کے مطابق کتنے چاول آئے ہوں گے۔یاد رہے کہ شطرنج میں64خانے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہر خانے میں چاول کے دانوں کی تعداد اور مختلف خانوں میں رکھے گئے چاولوں کی تعداد کا مجموعہ کچھ اس طرح سے معلوم کیا جا سکتا ہے:خانہ نمبرخانے میں چاولوں کی تعداددانوں کی مجموعی تعدادپہلے آٹھ خانوں کی ترتیب سامنے رکھیں تو ایک فارمولا اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اگرخانے کا نمبر Nہو تو اس خانے میں چاول کے دانوں کی تعداد-1 2nہو گی، جب کہ پہلے خانے سے اس خانے تک میں(جسے ہم nواں خانہ بھی کہہ سکتے ہیں) چاول کے دانوں کی مجموعی تعداد-1 2nہو گی۔اب چونکہ شطرنج کی بساط میں 64 خانے ہوتے ہیں، لہٰذا 64ویں خانے (64=n) تک پہنچتے پہنچتے، بساط پر چاول کے دانوں کی مجموعی تعداد یہ ہو گی:264-1قوت نما (Power) کے استعمال نے اس تعداد کو ظاہری طور پر بہت مختصر کر دیا، لیکن درحقیقت یہ عدد بہت بڑا ہے۔ البتہ اپنے کام کو آسان بنانے (اور چالوں کی صحیح تعداد معلوم کرنے کے لیے ہم اس عدد کو چھوٹے اعداد میں توڑ کر آپس میں ضرب دے سکتے ہیں۔ کچھ اس طرح:264=28x28x28x28x28x28x28x28x28 چونکہ 28کا حاصل 256ہوتا ہے، لہٰذا:256x256x256x256x256x256x256x256 اس حساب کا حاصل ضرب یہ ہے:18,446,744,073,709,551,616لیکن یہ تو صرف تعداد ہے۔ اگر ہم یہ معلوم کرنا چاہیں کہ اتنے چاولوں کا وزن کتنا ہوگا تو ہمیں یہ بھی پتا ہونا چاہیے کہ چاول کے ایک دانے کا اوسط وزن کتنا ہوتا ہے۔ اب تک کی کھوج سے معلوم ہوا ہے کہ چاول کے ایک دانے کا اوسط وزن 30ملی گرام ہوتا ہے۔ لہٰذا اوپر دی گئی تعداد کو30 سے ضرب دینے پر ہمیں ان چاولوں کا وزن (ملی گرام میں) حاصل ہو جائے گا، جو یہ ہو گا:553,402,322,211,286,548,480۔ اس وزن کو گرام میں لانے کے لیے1000 سے تقسیم کیجیے کیونکہ ایک ملی گرام دراصل ایک گرام کا ہزارواں حصہ ہے۔ لہٰذا چاولوں کا وزن (گراموں میں) یہ ہو گا:553,402,322,211,286,548,48ہمارا کام اب بھی پورا نہیں ہوا، بلکہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ چاولوں کی کتنے کلو گرام مقدار ہے۔ لہٰذا اوپر حاصل ہونے والے عدد کو ہم ایک بار پھر 1000سے تقسیم کریں گے کیونکہ ’’کلوگرام‘‘ کا مطلب ہے ایک کلوگرام۔ یہ مقدار ہو گی:553,402,322,211,286.54848لیکن آج کل زرعی اجناس کی پیداوار کے لیے جو پیمانہ رائج ہے، وہ ’’میٹرک ٹن‘‘ کہلاتا اور1000کلوگرام کے برابر ہوتا ہے۔ لہٰذا میٹر ٹنوں میں ان چاولوں کا وزن یہ ہو گا:553,402,322,211.286548480ابتداء میں ہم نے جو فارمولا معلوم کیا تھا،اس کے مطابق بساط پر چاولوں کی مجموعی تعداد264-1ہے۔ اب چونکہ 30ملی گرام کا مطلب 0.00000003 ٹن ہوتا ہے۔ لہٰذا اوپر حاصل کردہ وزن میں سے یہ ننھی منی مقدار بھی نفی کر دیں گے، تو بساط بھر چاولوں کا تخمینی وزن (میٹرک ٹنوں میں) یہ ہو گا:553,402,322,211.28654845یعنی یہ وزن ساڑھے پانچ کھرب ٹن سے بھی زیادہ ہے! اتنے چاول تو ساری دنیا کے کسان مل کر بھی نہیں اگا سکتے۔ بھلا بادشاہ کے خزانے کی اس کے سامنے کیا حیثیت ہے۔(ماخوذ ’’ گلوبل سائنس‘‘ کراچی)٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
مسجد مہابت خان پشاور  تاریخی عظمت اور ثقافتی ورثے کا شاہکار

مسجد مہابت خان پشاور تاریخی عظمت اور ثقافتی ورثے کا شاہکار

خیبر پختونخوا کا دارالحکومت پشاور تاریخ اور ثقافت کا ایک بڑا مرکز ہے۔ یہ شہر قدیم تہذیبوں، جنگی معرکوں اور تجارتی شاہراہوں کا چشم دید گواہ ہے۔ پشاور شہر کے قلب میں واقع مسجد مہابت خان اپنے ماضی کی داستانیں سناتی ہے۔17ویں صدی میں تعمیر کی گئی مسجد مہابت خان مغلیہ فن تعمیر کا ایک شاندار نمونہ ہے اور پشاور کی شناخت کا اہم حصہ ہے۔ مسجد مہابت خان کی بنیاد 1670ء کے لگ بھگ مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں رکھی گئی۔ اس کا نام اس کے بانی مہابت خان کے نام پر رکھا گیا جو اُس وقت پشاور کا مغل گورنر تھا۔ مہابت خان نے شہنشاہ شاہجہاں اور اورنگزیب کے ادوار میں متعدد خدمات انجام دیں اور اپنی وفاداری اور انتظامی صلاحیتوں کی بدولت مشہور ہوا۔ اس مسجد کی تعمیر کا مقصد نہ صرف عبادت گاہ بنانا تھا بلکہ مغلیہ اقتدار کے عروج کو بھی ظاہر کرنا تھا۔ تاریخی روایات کے مطابق مسجد مہابت خان کی تعمیر میں مقامی کاریگروں کے ساتھ ساتھ وسط ایشیا سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے بھی حصہ لیا۔ یہ مسجد مغلیہ سلطنت کی مذہبی رواداری اور فن تعمیر کے ذوق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مسجد مہابت خان مغلیہ طرزِ تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے جس میں فارسی، ہندی، اور پختون تعمیراتی عناصر کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ مسجد کا مرکزی دروازہ بلند اور مقرنسوں (Muqarnas) سے مزین ہے جو آنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ مسجد کے اندر ایک وسیع صحن ہے جس کے درمیان وضو کے لیے ایک حوض واقع ہے۔ مسجد کے تین گنبد ہیں جن میں مرکزی گنبد سب سے بڑا اور نمایاں ہے۔ گنبدوں پر سفید اور نیلے رنگ کی ٹائلوں سے بنے ہوئے پھولدار نقوش ہیںجو مغلیہ آرٹ کی عکاسی کرتے ہیں۔ میناروں کی بلندی اور ان پر بنے ہوئے جیومیٹریکل ڈیزائن مسجد کو شہر کے دیگر قدیم ڈھانچوں سے ممتاز بناتے ہیں۔ مسجد کا داخلی حصہ قرآنی آیات اور خطاطی سے آراستہ ہے۔ دیواروں پر پھول پتیوں اور عربی طرز کے نقوش دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتے ہیں۔ محراب اور ستونوں پر لکڑی کا نفیس کام اور پتھر پر کی گئی منبت کاری مغلیہ دور کی مہارت کو ظاہر کرتی ہے۔ مسجد مہابت خان نے اپنے طویل دور میں کئی تاریخی کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ 19ویں صدی میں جب سکھ سلطنت نے پشاور پر قبضہ کیا تو اس مسجد کو بھی نقصان پہنچا۔ سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں مسجد کا کچھ حصہ عارضی طور پر فوجی استعمال میں آیا لیکن مقامی آبادی کی مضبوط وابستگی کی بدولت اس کی اصلیت برقرار رہی۔ انگریز دور میں بھی مسجد کو بحال کرنے کی کوششیں ہوئیںلیکن اصل بحالی کا کام 20ویں صدی میں پاکستان کی حکومت نے کیا۔ 2010ء کے عشرے میں مسجد کی مرمت کا کام دوبارہ شروع ہوا جس میں بین الاقوامی ماہرین نے بھی معاونت کی تاکہ اس کی تاریخی تفصیلات کو محفوظ کیا جا سکے۔ مسجد مہابت خان صرف ایک عبادت گاہ ہی نہیں پشاور کی ثقافتی شناخت کا درجہ بھی رکھتی ہے۔ یہاں روزانہ ہزاروں نمازی جمع ہوتے ہیںجبکہ جمعۃالمبارک اور اور رمضان المبارک کے دوران یہ تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ مسجد کے صحن میں علما کے دروس اور قرآنی محافل کا اہتمام بھی باقاعدگی سے کیا جاتا ہے۔ یہ مسجد سیاحوں کے لیے بھی ایک اہم مقام ہے۔ اس کی تاریخی عمارت سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ خاص طور پر مغلیہ دور کے فن پاروں میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے یہ جگہ ایک زندہ عجائب خانہ کی مانند ہے۔ وقت کے ساتھ اس مسجد کی ساخت کو قدرتی عوامل اور انسانی مداخلت سے نقصان پہنچا ہے۔ تاہم حکومت اور عالمی ورثہ کے لیے کام کرنے والے اداروں کی مشترکہ کوششوں سے اس کی بحالی کا کام جاری ہے۔ 2021ء میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے مسجد مہابت خان کے میناروں اور گنبدوں کی مرمت کے لیے خصوصی فنڈز جاری کیے تاکہ انہیں آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ بنایا جا سکے۔ مسجد مہابت خان تاریخ، فن تعمیر اور ثقافت کا ایک خوبصورت نمونہ ہے۔ اس کی تعمیر میں پوشیدہ محنت، اس کی دیواروں میں جڑی ہوئی داستانیں اور اس کے گنبدوں سے گونجتی ہوئی اذانیں اسے شہر کی روح بناتی ہیں۔ یہ مسجد ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ تہذیبی ورثے کی حفاظت صرف عمارتوں کو بچانے کا نام نہیں بلکہ ان میں موجود جذبات‘ عقائد اور تاریخ کو زندہ رکھنا ہے۔ امید ہے کہ آنے والی نسلیں اس تاریخی شاہکار کو اسی طرح سنبھال کر رکھیں گی جس طرح ہمارے آباؤ اجداد نے اسے ہم تک پہنچایا۔ 

رمضان کے پکوان: ڈیٹ ڈئیلائٹ

رمضان کے پکوان: ڈیٹ ڈئیلائٹ

اجزا:کھجوریں دو پیالی درمیان میں سے گھٹلی نکال کر گودا بنالیں، بسکٹ ایک پیکٹ،ناریل آدھی پیالی ،چینی آدھی پیالی ،فریش کریم ایک پیالی، مارجرین چارکھانے کے چمچ،(چاہیں تو بناسپتی گھی بھی استعمال کرسکتے ہیں)۔ ترکیب :سب سے پہلے ایک دیگچی میں مارجرین کو ہلکا سا گرم کریں، پھر اس میں کھجوروں کا گودا ڈال کر ہلکا سا بھون لیں۔ تاکہ اچھاسا پیسٹ بن جائے پھر شکر اور ناریل کی گری ڈال کر پانچ سے دس منٹ تک بھونیں بسکٹ کو توڑ کر چورا کرلیں پھر سب چیزوں کے ساتھ بسکٹ بھی ڈال دیں، دوتین منٹ بھون کر ایک تھالی میں ذرا سی چکنائی لگاکر کھجور اور بسٹ کے آمیزے کو پھیلا کر رکھ دیں۔ ٹھنڈا ہونے دیں فریش کریم کو خوب پھینٹیں، جب وہ گاڑھا ہوجائے تو اس کے اوپر ڈال دیں، چوکور ٹکڑے کاٹ کر پیش کریں۔ یہ ڈش چار سے چھ افراد کے لیے کافی ہے۔ ہاٹ چکن سلاد اجزاء : مرغی 4کپ (ابلی ہوئی چھوٹے چوکور ٹکڑوں میں کٹی ہوئی)،کریم آف چکن سوپ 2کپ ،مایونیز 4کپ ،سفید بٹن مشروم 1کپ (باریک کٹے ہوئے )،دھنیا ایک گڈی (باریک کٹا ہوا)،آلو کے چپس 1کپ (کچلے ہوئے )،چیڈرچیز 1کپ (کدوکش کی ہوئی)،کوکنگ آئلمایونیز بنانے کی ترکیب10عدد انڈوں کی زردی کو اچھی طرح پھینٹ لیں اس میں دوکھانے کے چمچ فرنچ مسٹرڈ اور سرکہ ایک کھانے کا چمچ ملادیں، اس میں 250گرام کوکنگ آئل تھوڑا تھوڑا کرکے شامل کریں اور پھینٹتی جائیں جب تک یہ مایونیز مکمل نہ بن جائے۔ کریم آف چکن سوپ بنانے کی ترکیب :ایک دیگچی میں کھانے کا ایک چمچہ کوکنگ آئل ڈالیں ساتھ ہی ایک چائے کا چمچ میدہ ڈال دیں اسے ہلکی آگ پر 2منٹ پکائیں پھر چولہے سے اتار کر اس میں ایک عدد مرغی کی یخنی ملادیں اور اس وقت تک پکائیں جب تک گاڑھا نہ ہوجائے۔ اب چولہے سے اتار کر اس میں تازہ کریم دو کپ ڈال دیں اور ملالیں کریم آف چکن سوپ تیار ہے۔ سلاد بنانے کی ترکیب :ایک پیالے میں مرغی کے ٹکڑے ، کریم آف چکن سوپ، مایونیز، سفید بٹن مشروم اور دھنیا باریک کٹا ہواسب ملا کر اچھی طرح سے یک جان کرلیں، ایک بیکنگ ڈش لے کر اس کو ہلکا سا چکنا کریں، اس مکسچر کو اس ڈش میں ڈالیں۔ ڈش میں آمیزے کو پھیلا کر اوپر سے پنیر اور چھڑک دیں۔ 20منٹ تک 350ڈگری یا بہت تیز گرم اوون میں بیک کریں اس سلاد کو 20منٹ بعد گرم گرم پیش کریں۔  

حکایت سعدیؒ :بردبار بادشاہ

حکایت سعدیؒ :بردبار بادشاہ

ملک شام کے ایک نیک دل بادشاہ کی عادت تھی کہ صبح صبح اپنے غلام کے ساتھ باہر نکلتا، عربوں کے رواج کے مطابق آدھا منہ ڈھک لیتا اور گلی کوچوں میں پھرتا۔ صاحبِ نظر بھی تھا اور فقرا سے محبت کرنے والا بھی، یہی دو صفتیں بادشاہ کو نیک بادشاہ بناتی ہیں۔ایک رات گشت کے دوران وہ مسجد کی طرف گیا دیکھا کہ سخت سردی میں کچھ درویش بغیر بستروں کے لیٹے ہوئے صبح کا سورج نکلنے کا انتظار کر رہے ہیں جیسے گرگٹ سورج کے انتظار میں رہتا ہے۔ ایک نے کہا! دنیا نے تو ہمارے ساتھ بے انصافی کی ہے کہ ہم اس حال میں ہیں اور ظالم و متکبر لوگ کھیل کود میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر قیامت کے دن ان کو بھی ہمارے ساتھ جنت میں جانے کا حکم ہو گیا تو میں تو قبر سے ہی نہ اٹھوں گا کیونکہ جنت صرف انہی لوگوں کا حق ہے جو دنیا میں ظلم وستم سہنے والے ہیں۔ ظالموں کا جنت میں کیا کام۔ ان ظالموں سے دنیا میں ہمیں سوائے رسوائی کے کیا ملا جو جنت میں بھی ہم پر مسلط کر دیے جائیں ۔ بادشاہ نے اتنی بات سنی اور وہاں ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا۔ سورج نکلا تو درویشوں کو بلالیا ۔ ان کی بہت عزت کی اور انعامات سے نوازا۔ بہترین لباس پہنائے، بستر دیے، الغرض بہت خوش کیا۔ ان میں سے ایک نے ڈرتے ہوئے عرض کیا! بڑے لوگ تو ان انعامات کے مستحق ہوئے ہم فقیروں میں آپ نے کون سی خوبی دیکھ لی؟ بادشاہ یہ سن کر ہنسنے لگا اور درویش سے کہا: میں متکبر اور رعب کی وجہ سے مسکینوں کو نظر انداز کرنے والا نہیں ہوں، تم لوگ بھی جنت میں ہماری مخالفت نہ کرنا، آج میں نے صلح کی ہے تو تم بھی صلح کر لینا۔ اس حکایت سے سبق ملتا ہے کہ بادشاہوں کو درویشوں کی خیرخواہی اور خبر گیری رکھنی چاہیے اور درویشوں کو ایسے بادشاہوں کیلئے دعا گو رہنا چاہیے۔ اگر دونوں میں سے کسی ایک گروہ سے کوئی غفلت یا سستی ہو جائے تو درگذر سے کام لینا چاہیے۔

آج کا دن

آج کا دن

سکاٹ لینڈ ، سکول پر حملہ13 مارچ 1996ء کوسکاٹ لینڈ کے قصبے ڈنبلین میں ایک سکول پر ایک مسلح شخص نے دھاوا بو ل دیا اور 3 منٹ میں 16 بچوں کو ہلاک کر دیا۔ان بچوں میں5 اور 6 سال کی عمر کے بچے شامل تھے۔اس قتل عام کے بعد اس شخص نے جب یہ دیکھا کہ اب وہ یہاں سے بچ کر نہیں نکل سکے گا تو پکڑے جانے کے خوف سے اس نے خود کو گولی مار کر ہلاک کر لیا۔ سب سے طویل ٹنل کا افتتاح 1988ء میں آج کے دن جاپان میں دنیا کی سب سے طویل ریلوے ٹنل (سرنگ )کا افتتاح کیا گیا۔ٹنل کا کچھ حصہ سمندر کے اندر سے بھی گزرتا ہے۔ اس ٹنل کی لمبائی 53.85کلومیٹر ہے جبکہ سمندر میں سے گزرنے والا حصہ23.3کلومیٹر پر مشتمل ہے۔یہ جاپان کے دوجزیروں کوآپس میں ملاتی ہے۔ اسے دنیا کی دوسری سب سے گہری ٹنل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ترکی میں زلزلہ 1992ء میں آج کے دن ترکی کے مشرقی حصے میں 6.6شدت کا زلزلہ آیا جس میں498افراد جان کی بازی ہار گئے۔ تقریباً 2ہزار افراد زخمی ہوئے جبکہ ایک کروڑ 35لاکھ ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔ترکی کا شمالی حصہ ایک فالٹ لائن پر واقع ہے ،اس لئے یہاں زلزلے آنا معمول کی بات ہے۔ اسے ترکی میں آنے والے تباہ کن زلزلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس زلزلے کے نتیجے میں لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد کا تعین آج تک نہیں کیا جا سکا۔ اردن : فضائی حادثہ 1979ء کو اردن کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے فلائٹ600نے اڑان بھری۔ اس فلائٹ نے دو حہ قطر سے ہوتے ہوئے مسقط پہنچنا تھا۔اس جہاز نے معمول کے مطابق پرواز شروع کی لیکن تکنیکی خرابی پیدا کے باعث یہ اپنی منزل پر پہنچنے کی بجائے دوحہ ائیرپورٹ پر حادثے کا شکار ہو گیا۔ جہاز میںکل63افراد سوار تھے جن میں جہاز کا عملہ بھی شامل تھا ۔ اس حادثے میں 41افراد لقمۂ اجل بنے جبکہ6مسافر شدید زخمی حالت میں نکالے گئے۔ 

سپارٹا جہاں ہر شہری کیلئے فوجی تربیت لازم تھی

سپارٹا جہاں ہر شہری کیلئے فوجی تربیت لازم تھی

پہلی یونانی تہذیب کا سراغ تاریخ کی کتابوں میں 2200قبل مسیح کے آس پاس بحیرہ روم کے جزیرہ کریٹ میں ملتا ہے۔ اس تہذیب کو ''مینو تہذیب‘‘ کے نام سے شہرت حاصل تھی ، جو مینو نامی ایک حکمران کے نام سے منسوب ہے۔ منوین افراد کاشتکاری اور ماہی گیری کے پیشوں سے وابستہ تھے جبکہ جن حکمرانوں کی یہ رعایا تھے ان کا شغل عالیشان محلات کی تعمیر اور شان و شوکت سے زندگی گزارنا تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں اسی دور کے '' شاہ مینوس محل‘‘ نامی ایک محل کا ذکر ملتا ہے جو اپنے دور کے فن تعمیر کا ایک نادر شاہکار تھا۔ یہ تہذیب لگ بھگ سات سو سال تک جاری رہی، اس کے بعد اس تہذیب بارے تاریخ کی کتابیں خاموش ہیں۔ اس کے بعد 1500 قبل مسیح کے آس پاس ایک قدیم شہر'' میسینی‘‘ کے آثار ملتے ہیں۔ ''میسینیئن‘‘لوگ پچھلی تہذیب '' مینوئیوں‘‘ سے کئی گنا مالدار اور جنگجو ہو گزرے ہیں۔ ان کے سلاطین نے بھی نہ صرف عالیشان محلات تعمیر کرائے بلکہ ان کی قبروں سے سونے اور جواہرات کے آثار بھی ملے۔میسینئین پیدائشی جنگجو تھے اس لئے یہ ہر وقت ایک دوسرے سے دست و گریباں رہتے بلکہ دور دراز علاقوں میں جا کر جنگوں کیلئے بھی مشہور تھے۔ یونانی نسل نے اپنے اسلاف سے ملنے والے ورثے کو تعمیری سوچ میں ڈھالنے کا عزم کیا۔ایک مرتبہ پھر یونان میں شہری ریاستوں کا رواج عام ہونے لگا۔ رفتہ رفتہ یہاں کی ریاستیں سکڑنا شروع ہوئیں اور 500قبل مسیح کے آس پاس یونان صرف دو بڑی ریاستوں سپارٹا اور ایتھنز تک محدود ہو گیا۔ایتھنز کے لوگ ترقی پسند اور جمہوری سوچ کے مالک تھے۔یہی وجہ ہے کہ اس سرزمین کو جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سپارٹا کے لوگ فطرتاً جنگجوانہ فطرت کے مالک تھے ان کے پاس ایک تربیت یافتہ فوج اور خفیہ نیٹ ورک کا نظام تھا۔ سپارٹا شہر پیلوپونیس کے جنوبی ساحل سے لگ بھگ 38 کلومیٹر دورواقع ہے۔ سپارٹا ایک قدیم شہر تھا جسے ڈورین نسل کے لوگوں نے 1000 قبل مسیح میں آباد کیا تھا۔ اس شہر میں ڈورین نسل کے علاوہ دوسروں کا داخلہ ممنوع ہوا کرتا تھا۔سپارٹا کے لوگ قدامت پرست تھے لیکن اس کے باوجود بھی سپارٹا کا ہر شہری ریاست کی ملکیت تصور کیا جاتا تھا جو ریاست کے ہر حکم کا پابند ہوتا تھا۔ہر شہری فوج کا حصہ تصور ہوتا تھا اور ہر شہری کو لازماً فوجی تربیت کے مرحلے سے گزرنا ہوتا تھا۔ ریاست کے ہر بچے کو سات سال کی عمر کے بعد ماوں سے جدا کر کے بیس سال کی عمر تک ریاستی تربیت گاہ میں گزارنے ہوتے تھے۔اس دوران انہیں ماہر فوجی انسٹرکٹر جنگی تربیت کے ساتھ ساتھ دوڑنا ، کشتی لڑنا ، تیر اندازی سمیت مختلف ورزشوں کے ذریعے سخت جان اور ایک اچھا سپاہی بننا سکھاتے تھے۔شادی کے بعد انہیں گھر پر رہنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی بلکہ تربیت گاہ میں رہ کر انہیں دوسروں کو تربیت دینا ہوتی تھی۔ لڑکیوں کوبھی شادی کے مرحلے تک ایسے ہی مراحل سے گزرنا ہوتا تھا۔ انہیں مستقبل کی ماؤں کی حیثیت سے بہادر ، نڈر اور سخت جان بنایا جاتا تھا تاکہ مستقبل میں یہ بہادر مائیں بن سکیں۔ سپارٹائی حکمرانوں کا یہ نظریہ تھا کہ اگر عورت بحیثیت ماں بہادر اور نڈر ہو گی تو اگلی نسل بھی بہادر ہو گی۔ 700 قبل مسیح سے 300 قبل مسیح کے دور میں سپارٹائی فوج کی تنظیم اور تربیت پوری دنیا میں عروج پر تھی۔یہاں کے سخت جان اور بہترین نشانے باز مسلح پیدل سپاہیوں کو ''ہوپلائیٹ‘‘ کہا جاتا تھا کیونکہ یہ '' ہوپلون ‘‘ نامی مخصوص دھاتی ڈھال پہن کر میدان میں اترا کرتے تھے۔سپارٹا فوجیوں کی پہچان یہی بھاری بھر کم ڈھال ہوا کرتی تھی جسے دوران جنگ یہ اپنے بائیں ہاتھ کی کہنی سے لے کر کلائی تک پہنا کرتے تھے۔ اس ڈھال کو زیادہ دیر تک اٹھائے رکھنا ایک مشکل کام ہوتا تھا۔اس لئے جنگ جیتنے کی صورت میں یہ اسے میدان میں خوشی سے اچھال کر پھینک دیا کرتے تھے اور شکست کی صورت میں اس کی لاش کو اس کے اوپر رکھ کر اس کے گھر بھجوایا جاتا تھا۔سپارٹا کے عسکری علاقوں میں اپنی ڈھال کو سنبھال کر رکھنے کا مطلب بہادری اور وقار کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ تبھی تو روایات میں آیا ہے کہ سپارٹائی ماں اپنے گھر کے مردوں کو جنگ کیلئے روانہ کرنے سے پہلے ڈھال ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا کرتی تھیں ''اس ڈھال کی لاج رکھنا، ڈھال پہن کر ہی زندہ واپس آنا ورنہ واپسی پر اپنی لاش کو ہی اس ڈھال پر رکھوا کر لانا‘‘۔ تنظیمی ڈھانچہ : قدیم یونانی جب اس سرزمین پر آکر آباد ہونا شروع ہوئے تو انہوں نے چھوٹی چھوٹی بستیاں بنائیں۔ جنہیں یہ ''پولیس‘‘ کہتے، یہ دراصل ان کی ریاستیں تھیں۔ان شہریوں کی زبان اگرچہ ایک تھی لیکن ان کے اندر سیاسی اتحاد اور نظم و نسق کا فقدان تھا جس کی وجہ سے یہ ہر وقت باہم دست و گریباں رہتی تھیں۔ یہاں کی ہر ریاست کے باشندے اپنے آپ کو آزاد تصور کرتے تھے ۔سپارٹا کے حکومتی ڈھانچے میں بیک وقت دو حکمران اور پانچ نمائندے ہوتے تھے جنہیں ''ایفورز‘‘ کہا جاتا تھا۔ ایفورز کا انتخاب باقاعدہ طور پر اسمبلی میں حق رائے دہی کے ذریعے کیا جاتا تھا۔اس کے علاوہ ایفورز اور حکمرانوں کے باہمی مشورے سے 28 ممبران پر مشتمل ایک کونسل ہوا کرتی تھی جو ریاستی امور کو نمٹانے میں مرکزی کردار ادا کرتی تھی۔ ایفورز چونکہ عوام کی طاقت کے نمائندے تصور ہوتے تھے اس لئے ریاست کے حکومتی فیصلوں میں ان کا کردار اہم ہوتا تھا۔ جب ان کی فوج کسی مہم پر روانہ ہوتی وہ کسی ایک ایفور کی سربراہی میں روانہ ہوتی تھی جسے مکمل اختیارات حاصل ہوتے تھے۔ سپارٹا کا خاتمہ : طاقت کے نشے میں بدمست سپارٹا نے سب سے پہلے لیکونیا کو فتح کیا اس کے بعد 730 قبل مسیح میں میسنیا فتح کیا۔یہاں کے لوگوں کو اپنا غلام بنایا جنہیں ''ہیلاٹ‘‘ کہا جاتا تھا۔ سپارٹا نے اپنے سب سے بڑے اور پرانے حریف ایتھنز کے ساتھ نوک جھونک جاری رکھی ہوئی تھی بالآخر404 قبل مسیح میں اس نے باقاعدہ چڑھائی کرکے ایتھنز کو شکست سے دوچار کیا۔ ایتھنز ، سپارٹا اور دیگر یونانی ریاستیں آپس میں ایک عرصہ تک دست و گریباں رہ کر اپنی طاقت تیزی سے کھوتی چلی گئیں۔سپارٹا کی قوت کچھ عرصہ قائم لیکن 379 قبل مسیح میں لیوکڑا کی لڑائی میں تھیبز سے شکست کے بعد بالکل ختم ہو گئی ، خود تھیبز بھی اپنی طاقت کھو بیٹھا اور یوں سپارٹا سمیت ایک ایک کرکے یونانی ریاستوں کا شیرازہ بکھر گیا۔بعد ازاں 338قبل مسیح سکندر اعظم کا باپ اور مقدونیہ کا بادشاہ فلپ بچے کھچے یونان پر قابض ہو گیا۔       

سوء ادب:واپسی

سوء ادب:واپسی

ایک سیٹھ کے ہاں ڈاکا پڑا ، جب انہیں گھر سے کچھ نہ ملا تو انہوں نے اس کی موٹی بیوی کو اٹھا کر گاڑی میں لادا اوریہ کہہ کر چلے گئے کہ اگر کل شام تک دو لاکھ روپے ادا نہ کیے گئے تو ہم تمہاری بیوی کو واپس چھوڑ جائیں گے۔پندہ ہرن دی چوکڑییہ ہمارے بہت عزیز دوست ، پنجابی اور اردو کے نام ور شاعر عامر سہیل کی صدارتی ایوارڈ یافتہ کتاب ہے جسے پرنٹ میڈیا پبلیکیشنز رائل سنٹر، 12 ایبٹ روڈ نے شائع کیا ہے۔''چڑھاوا‘‘ کے نام سے انتساب ہے جو شفقت اللہ مشتاق (سیکرٹری ٹیکسز ریوینیو، ڈاکٹر ہارون اشرف ، پروفیسر افضل اعوان ) (ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز اور پروفیسر سید اسد عباس زیدی کے نام ہے ) ۔پسِ سرورق مصنف کی تصویر کے ساتھ عطاالحق قاسمی کی رائے درج ہے جو کچھ اس طرح سے ہے : ''عامر سہیل نال تعلق ہون دے ہور کئی سارے کارناں چوں اک وڈاکارن اوہدی سوہنی تے دلاں چے نقش ہو جان والی شاعری ہے۔ میں جدوں وی اوہنوں پڑھیایاں سُنیا اوہدیاں نظماں تے غزلاں دے شعراں نے مینوں سرشار کر دتا اے۔ عامر سہیل اک وڈا شاعر ہے، اوہدیاں غزلاں دے شعر باغاں چے کھڑے سجرے پھلاں طراں دور دور تک مہکاں ماردے وکھالی دیندے نیں۔ مجتیاں دے خوبصورت رنگاں چے رنگیاں اوہدایاں نظماں چے راتاں دے جگراتے عمراں دے اُچے نیویں پندھ صاف صاف وکھالی دیندے نیں۔ اردو شاعری وچ پاکستان دے گنتی دے وڈے شاعراں چے اپنی تھاں بنان والے عامر سہیل دے اندر دا درویش شاعر اوہدی ایس پنجابی شاعری دی کتاب ''پندھ ہرن دی جوکڑی‘‘ چے چڑھدے سورج دیاں لشکاں وانگر نظر آندا ہے۔ ایہدے چے کوئی دوجی رائے نہیں کہ عامر سہیل اک مہان شاعر ہے تے اوہدی ایہ کتاب پنجابی ادب چے ہمیش یاد رکھی جاوے گی۔اس کے علاوہ بھارتی پنجاب سے امرت پال سنگھ شیدا کی رائے ہے جو اندرون پسِ سرورق درج کی گئی ہے۔ دیباچہ صغیر تبسم نے لکھا ہے ۔نظموں کی کل تعداد 79 ہے تزئین و تریب اور ٹائٹل نسیم گلفام نے بنایا ہے جبکہ کتاب کی قیمت 600 روپے ہے ۔ اردو شاعری میں دھومیں مچانے کے بعد پروفیسر عامر سہیل کا یہ پہلا پنجابی مجموعہ ہے جس نے ادبی ہلکوں میں خاصی ہل چل پیدا کر رکھی ہے ۔اور اب آخر میں اسی مجموعہ میں سے یہ نظم !نظم ننکانہ صاحب جسم دا دوجا نام فقیری کیہ لالچ ، کیہ کھیڈ لانگھا جانے ، نانک جانے رت دے سو سو شیڈکنج کجل دی دھار گواچی روندے روز بلیڈ رُوحاں وچ سرطان اساڈے بُو ہے نال پریڈآج کا قطعہرے ہنیرے اُگ پئے اکھاں دے اندر ، ظفرکْھلّی گنڈھ گیان دی آئی گل اخیر تے