اور روبن گھوش بھی روٹھ گئے
کوئی شک نہیں،بلاشبہ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب اور بنگال نے اعلیٰ درجے کے موسیقار پیدا کیے۔انہی ناموں میں سے ایک معتبر نام بنگالی موسیقار روبن گھوش کا بھی ہے جنہوں نے برِصغیر میں سروں کی کہکشاں سجائے رکھی۔ افسوس کہ گزشتہ روز وہ 76برس کی عمرمیں اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ وہ اگرچہ اب ہم میں نہیں رہے لیکن ان کا فن اس خطے میں بسنے والے موسیقی کے شائقین کے لیے ہمیشہ زندہ رہے گا۔ روبن گھوش پندرہ برس پہلے اپنی بیوی اداکارہ شبنم کے ہمراہ بنگلہ دیش چلے گئے تھے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ موسیقی کے میدان میں پنجاب اور بنگال کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ ان خطوں سے تعلق رکھنے والے سنگیت کاروں نے معرکتہ آلاراموسیقی دی اور ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ روشن گھوش 1939ء کو عراق کے شہر بغداد میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد اعلیٰ سرکاری عہدیدار تھے۔ چھ سال کی عمر میں روبن گھوش اپنی فیملی کے ساتھ ڈھاکہ آ گئے۔ موسیقی کا شوق انہیں شروع سے ہی تھا۔ جوان ہوئے تو ڈھاکہ ریڈیو سٹیشن میں ملازمت کر لی۔ یہ ملازمت انہیں ان کے ایک دوست نے دلوائی۔ بعد میں اسی دوست کی بہن شبنم سے ان کی شادی ہو گئی۔ شبنم کا نام اس وقت جھرنا تھا اور وہ بنگالی فلموں میں چھوٹے موٹے کردار ادا کرتی تھیں۔ ’’آخری سٹیشن‘‘ میں شبنم نے ایک پگلی لڑکی کا کردار ادا کیا تھا جس سے روبن گھوش بہت متاثر ہوئے۔ روبن گھوش کی کامیابیوں کا دور 1960ء سے شروع ہوا۔ انہیں فلمی موسیقی کی طرف لانے میں مرحوم گلوکار احمد رشدی کا بہت ہاتھ تھا۔ روبن کے بھائی اشوک گھوش بنگلہ دیشی فلمی صنعت کے مشہور ہدایت کار تھے۔ ایک بھائی ہدایت کاری کے میدان میں اپنا سکہ جما رہا تھا تو دوسرے نے موسیقی کے میدان میں اپنے نام کا ڈنکا بجا دیا۔ 1960ء کا عشرہ روبن گھوش کی کامیابیوں کا عشرہ ثابت ہوا۔ 1961ء میں بطور موسیقار ان کی پہلی بنگالی فلم ’’راج دھانی رکے‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس کے فوری بعد روبن گھوش کو ایک اور بنگالی فلم مل گئی۔ 1963ء میں احتشام کے بھائی مستفیض نے اردو فلم ’’تلاش‘‘ شروع کی جس کی موسیقی کے لیے روبن گھوش کا انتخاب کیا گیا۔ اس سے پہلے 1962ء میں روبن گھوش احتشام کی ہدایت کاری میں بننے والی اردو فلم ’’چندا‘‘ کا میوزک دے چکے تھے اور اس کے نغمات بہت ہٹ ہوئے تھے۔ ’’چندا‘‘ روبن گھوش کی پہلی اردو فلم تھی۔’’ چندا‘‘ کا مرکزی کردار شبنم نے ادا کیا تھا اور وہ اس وقت جھرنا سے شبنم بن چکی تھیں۔ ’’چندا‘‘ میں فردوسی بیگم نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور ان کے گائے ہوئے نغمات نے مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) اور مغربی پاکستان میں دھوم مچا دی تھی۔ لیکن ’’تلاش‘‘ ملک کے دونوں حصوں میں نہایت کامیاب رہی۔ اس کا ایک گانا ’’رکشے والا بے چارہ‘‘ بے انتہا مقبول ہوا۔ اسے بشیر احمد نے گایا تھا۔ بشیر احمد باکمال گلوکار تھے۔ انہوں نے بعد میں بھی بنگلہ دیش میں بننے والی اردو فلموں کے لیے کئی خوبصورت گیت گائے جنہیں فلم بینوں نے بہت سراہا۔ 1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے وقت وہ مغربی پاکستان میں ہی تھے اور یہ کہا جا رہا تھا کہ بشیر احمد یہیں رہیں گے اور اردو فلموں میں اپنی گلوکاری کے جوہر دکھائیں گے لیکن افسوس یہاں ان کی قدر نہ کی گئی اور وہ مایوسی کی تصویر بنے بنگلہ دیش چلے گئے۔ ’’تلاش‘‘ کے بعد جن دو فلموں کی موسیقی نے روبن گھوش کو مزید شہرت دی وہ تھیں ’’پیسہ‘‘ اور ’’کارواں‘‘۔ ’’کارواں‘‘ کے گانے سپرہٹ تھے۔ خاص طور پر بشیر احمد کا گایا ہوا یہ دلکش گیت بہت مقبول ہوا ’’جب تم اکیلے ہوگے ہم یاد آئیں گے۔‘‘ اسی طرح فردوسی بیگم کا گایا ہوا گیت ’’یہ سماں، پیار کا کارواں‘‘ بھی شہرت کی تمام حدیں پار کر گیا۔ روبن گھوش کی موسیقی بھارت میں بھی بہت پسند کی جا رہی تھی۔ 1967ء میں احتشام نے ’’چکوری‘‘ بنائی تو ملک کے دونوں حصوں کے فلم بین مسحور ہو کے رہ گئے۔ ایک طرف ندیم اور شبانہ کی اداکاری نے نوجوانوں کو دیوانہ بنا رکھا تھا تو دوسری طرف روبن گھوش کی شاندار موسیقی نے دھوم مچا رکھی تھی۔ ’’چکوری‘‘ ندیم کی پہلی فلم تھی۔ ’’چکوری‘‘ کی بے مثال کامیابی نے ندیم کو راتوں رات سٹار بنا دیا ۔ ’’چکوری‘‘ میں احمد رشدی اور فردوسی بیگم کے علاوہ ندیم نے بھی فردوسی بیگم کے ساتھ ایک دوگانا گایا تھا۔ وہ کچھ یوں ہے: ’’کہاں ہو تم کو ڈھونڈ رہی ہیں یہ بہاریں یہ سماں‘‘ اس کے علاوہ احمد رشدی کا گایا ہوا یہ گیت بھی جھومنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ’’کبھی تو تم کو یاد آئیں گی‘‘۔ مجیب عالم کا گایا یہ گیت بھی روبن گھوش کے فن کی ایک نادر مثال ہے۔ ’’وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں۔‘‘ اس کے بعد ’’تم میرے ہو‘‘ کی موسیقی کو بھی فلم بینوں نے بہت پذیرائی بخشی۔ ’’تم میرے ہو‘‘ کے بعد روبن گھوش اور شبنم کراچی میں آباد ہو گئے اور پھر سرور بارہ بنکوی کے ساتھ ان کا خوب ساتھ رہا۔ سرور بارہ بنکوی کے لکھے ہوئے گیتوں کو روبن گھوش کا لاجواب سنگیت ملا تو کمال ہو گیا۔ 1968ء میں ’’جہاں تم وہاں ہم‘‘ کے نغمات بھی بہت مشہور ہوئے۔ خاص طور پر یہ دو گیت تو بہت ہٹ ہوئے ’’اسے دیکھا اسے چاہا اسے بھول گئے‘‘ اور ’’مجھے تلاش تھی جس کی وہ ہم سفر تم ہو۔‘‘ ( جاری ہے ) 1972ء میں الیاس رشیدی کی فلم ’’احساس‘‘ کے گیتوں نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔ یہ فلم باکس آفس پر بھی بہت کامیاب رہی۔ اس فلم کے گیت سرور بارہ بنکوی نے لکھے تھے۔ روبن گھوش کی موسیقی میں رونا لیلیٰ کا گایا ہوا یہ نغمہ آج تک مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ’’ہمیں کھو کر بہت پچھتائو گے جب ہم نہیں ہوں گے‘‘ اور پھر مہدی حسن کا یہ لافانی گیت ’’آپ کا حسن جو دیکھا تو خدا یاد آیا‘‘ روبن گھوش کے اعلیٰ سنگیت کی ایک زبردست مثال ہے۔ ’’احساس‘‘ میں رونا لیلیٰ کے اس گیت نے اس گلوکارہ کو عروج بخشا اور بعد میں انہوں نے ’’امرائو جان ادا‘‘ میں سیف الدین سیف کے لکھے ہوئے گیت گائے۔ ان کا انتخاب بے بدل موسیقار نثار بزمی نے کیا تھا۔ 1974ء میں ’’چاہت‘‘ اور ’’بھول‘‘ کی موسیقی بھی بہت مقبول ہوئی اور پھر ’’شرافت‘‘ کے نغمات نے بھی بڑی دھوم مچائی۔ ’’چاہت‘‘ میں مہدی حسن کا گایا ہوا گیت ’’پیار بھرے دو شرمیلے نین‘‘ ایک امر گیت ہے جو بڑے بڑے گیتوں پر بھاری ہے۔ اس فلم میں اخلاق احمد نے بھی گلوکار کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوایا۔ ان کا گایا ہوا یہ گیت ’’ساون آئے ساون جائے‘‘ آج بھی سننے والوں پر وجد طاری کر دیتا ہے۔’’چاہت‘‘ اداکار رحمان کی ذاتی فلم تھی اور ایک زمانے میں شبنم اور رحمان کی جوڑی بہت مشہور رہی تھی۔ رحمان کی فلموں میں روبن گھوش ہی موسیقی دیا کرتے تھے۔ 1975ء میں رحمان کی ذاتی فلم ’’دو ساتھی‘‘ اگرچہ باکس آفس پر کامیاب نہ ہو سکی لیکن روبن گھوش کی موسیقی کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ غلام عباس کا گایا ہوا یہ گیت بہت مشہور ہوا ’’ایسے وہ شرمائے‘‘۔ یہ روبن گھوش کی اعلیٰ موسیقی کا کمال تھا کہ غلام عباس کو اس کے بعد وہ شہرت نہ مل سکی جو اس گیت نے دی۔ 1977ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’آئینہ‘‘ کو اگر روبن گھوش کے فن کی معراج کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ’’آئینہ‘‘ کو تو ویسے بھی اردو فلموں کی سرتاج فلم کہا جاتا ہے۔ یہ فلم کراچی کے ایک سینما میں پانچ برس تک نمائش پذیر رہی۔ نذرالاسلام کی بہترین ہدایت کاری اور ندیم، شبنم، ریحان کی لاجواب اداکاری نے فلم کی کامیابی میں اگر اہم کردار ادا کیا تو اس کے ساتھ ساتھ روبن گھوش کی موسیقی نے بھی کمال کر دکھایا۔ اس فلم میں روبن گھوش نے اپنی موسیقی کو نئی جہتوں سے آشنا کیا۔ گیتوں میں گٹار کا استعمال بھی بڑی خوبصورتی سے کیا گیا۔ روبن گھوش کے ساتھ گٹار سجاد طافو نے بجایا تھا۔ نیرہ نور، اخلاق احمد، عالمگیر اور مہدی حسن نے اتنے خوبصورت گیت گائے کہ وہ شاہکار گیتوں کا روپ اختیار کر گئے۔ روبن گھوش نے ان تمام گلوکاروں سے بڑی ذہانت سے کام لیا، ویسے تو اس فلم کے سبھی گیتوں نے فلم بینوں کو سحر زدہ کر دیا تھا لیکن تین گیت ایسے ہیں جو روبن گھوش کی شناخت بن گئے۔ یہ تین گیت کچھ یوں ہیں۔ -1 ’’مجھے دل سے نہ بھلانا‘‘ -2 ’’روٹھے ہو تم تو میں کیسے منائوں پیا‘‘ اور -3 ’’کبھی میں سوچتا ہوں۔‘‘ آئینہ کے بعد روبن گھوش نے تین اور یادگار فلموں کا یادگار میوزک دیا۔ یہ فلمیں تھیں ’’امبر‘‘، ’’بندش‘‘ اور ’’نہیں ابھی نہیں۔‘‘ ان تینوں فلموں میں مہناز، مہدی حسن اور اخلاق احمد نے ان کی موسیقی میں دلکش گیت گائے جن کی تحسین آج بھی کی جاتی ہے۔ امبر میں مہدی حسن کا گایا ہوا یہ گیت ’’ٹھہرا ہے سماں‘‘، بندش کا ’’دوپیاسے دل ایک ہوئے‘‘ اور ’’نہیں ابھی نہیں‘‘ میں اخلاق احمد کا گایا یہ گیت ’’سماں وہ خواب کا سماں‘‘ روبن گھوش کی فنکارانہ عظمت کا بین ثبوت ہیں۔ انہوں نے کسی پنجابی فلم کا میوزک نہیں دیا۔ 1984ء میں ان کی ایک فلم ’’دوریاں‘‘ ریلیز ہوئی جس کی موسیقی بھی اعلیٰ درجے کی تھی۔ ان کے بارے میں بھارت کے نامور موسیقار سلیل چوہدری نے کہا تھا کہ روبن گھوش جیسے موسیقار کو بھارت میں ہونا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ آر۔ ڈی۔ برمن، لکشمی کانت پیارے لال اور نوشاد جیسے موسیقار بھی ان کے مداح تھے۔ روبن گھوش نے بہت منفرد اور معیاری کام کیا۔ ان کا سنگیت ہمیشہ زندہ رہے گا۔٭…٭…٭