اور روبن گھوش بھی روٹھ گئے

اور روبن گھوش بھی روٹھ گئے

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


کوئی شک نہیں،بلاشبہ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب اور بنگال نے اعلیٰ درجے کے موسیقار پیدا کیے۔انہی ناموں میں سے ایک معتبر نام بنگالی موسیقار روبن گھوش کا بھی ہے جنہوں نے برِصغیر میں سروں کی کہکشاں سجائے رکھی۔ افسوس کہ گزشتہ روز وہ 76برس کی عمرمیں اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ وہ اگرچہ اب ہم میں نہیں رہے لیکن ان کا فن اس خطے میں بسنے والے موسیقی کے شائقین کے لیے ہمیشہ زندہ رہے گا۔ روبن گھوش پندرہ برس پہلے اپنی بیوی اداکارہ شبنم کے ہمراہ بنگلہ دیش چلے گئے تھے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ موسیقی کے میدان میں پنجاب اور بنگال کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ ان خطوں سے تعلق رکھنے والے سنگیت کاروں نے معرکتہ آلاراموسیقی دی اور ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ روشن گھوش 1939ء کو عراق کے شہر بغداد میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد اعلیٰ سرکاری عہدیدار تھے۔ چھ سال کی عمر میں روبن گھوش اپنی فیملی کے ساتھ ڈھاکہ آ گئے۔ موسیقی کا شوق انہیں شروع سے ہی تھا۔ جوان ہوئے تو ڈھاکہ ریڈیو سٹیشن میں ملازمت کر لی۔ یہ ملازمت انہیں ان کے ایک دوست نے دلوائی۔ بعد میں اسی دوست کی بہن شبنم سے ان کی شادی ہو گئی۔ شبنم کا نام اس وقت جھرنا تھا اور وہ بنگالی فلموں میں چھوٹے موٹے کردار ادا کرتی تھیں۔ ’’آخری سٹیشن‘‘ میں شبنم نے ایک پگلی لڑکی کا کردار ادا کیا تھا جس سے روبن گھوش بہت متاثر ہوئے۔ روبن گھوش کی کامیابیوں کا دور 1960ء سے شروع ہوا۔ انہیں فلمی موسیقی کی طرف لانے میں مرحوم گلوکار احمد رشدی کا بہت ہاتھ تھا۔ روبن کے بھائی اشوک گھوش بنگلہ دیشی فلمی صنعت کے مشہور ہدایت کار تھے۔ ایک بھائی ہدایت کاری کے میدان میں اپنا سکہ جما رہا تھا تو دوسرے نے موسیقی کے میدان میں اپنے نام کا ڈنکا بجا دیا۔ 1960ء کا عشرہ روبن گھوش کی کامیابیوں کا عشرہ ثابت ہوا۔ 1961ء میں بطور موسیقار ان کی پہلی بنگالی فلم ’’راج دھانی رکے‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس کے فوری بعد روبن گھوش کو ایک اور بنگالی فلم مل گئی۔ 1963ء میں احتشام کے بھائی مستفیض نے اردو فلم ’’تلاش‘‘ شروع کی جس کی موسیقی کے لیے روبن گھوش کا انتخاب کیا گیا۔ اس سے پہلے 1962ء میں روبن گھوش احتشام کی ہدایت کاری میں بننے والی اردو فلم ’’چندا‘‘ کا میوزک دے چکے تھے اور اس کے نغمات بہت ہٹ ہوئے تھے۔ ’’چندا‘‘ روبن گھوش کی پہلی اردو فلم تھی۔’’ چندا‘‘ کا مرکزی کردار شبنم نے ادا کیا تھا اور وہ اس وقت جھرنا سے شبنم بن چکی تھیں۔ ’’چندا‘‘ میں فردوسی بیگم نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور ان کے گائے ہوئے نغمات نے مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) اور مغربی پاکستان میں دھوم مچا دی تھی۔ لیکن ’’تلاش‘‘ ملک کے دونوں حصوں میں نہایت کامیاب رہی۔ اس کا ایک گانا ’’رکشے والا بے چارہ‘‘ بے انتہا مقبول ہوا۔ اسے بشیر احمد نے گایا تھا۔ بشیر احمد باکمال گلوکار تھے۔ انہوں نے بعد میں بھی بنگلہ دیش میں بننے والی اردو فلموں کے لیے کئی خوبصورت گیت گائے جنہیں فلم بینوں نے بہت سراہا۔ 1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے وقت وہ مغربی پاکستان میں ہی تھے اور یہ کہا جا رہا تھا کہ بشیر احمد یہیں رہیں گے اور اردو فلموں میں اپنی گلوکاری کے جوہر دکھائیں گے لیکن افسوس یہاں ان کی قدر نہ کی گئی اور وہ مایوسی کی تصویر بنے بنگلہ دیش چلے گئے۔ ’’تلاش‘‘ کے بعد جن دو فلموں کی موسیقی نے روبن گھوش کو مزید شہرت دی وہ تھیں ’’پیسہ‘‘ اور ’’کارواں‘‘۔ ’’کارواں‘‘ کے گانے سپرہٹ تھے۔ خاص طور پر بشیر احمد کا گایا ہوا یہ دلکش گیت بہت مقبول ہوا ’’جب تم اکیلے ہوگے ہم یاد آئیں گے۔‘‘ اسی طرح فردوسی بیگم کا گایا ہوا گیت ’’یہ سماں، پیار کا کارواں‘‘ بھی شہرت کی تمام حدیں پار کر گیا۔ روبن گھوش کی موسیقی بھارت میں بھی بہت پسند کی جا رہی تھی۔ 1967ء میں احتشام نے ’’چکوری‘‘ بنائی تو ملک کے دونوں حصوں کے فلم بین مسحور ہو کے رہ گئے۔ ایک طرف ندیم اور شبانہ کی اداکاری نے نوجوانوں کو دیوانہ بنا رکھا تھا تو دوسری طرف روبن گھوش کی شاندار موسیقی نے دھوم مچا رکھی تھی۔ ’’چکوری‘‘ ندیم کی پہلی فلم تھی۔ ’’چکوری‘‘ کی بے مثال کامیابی نے ندیم کو راتوں رات سٹار بنا دیا ۔ ’’چکوری‘‘ میں احمد رشدی اور فردوسی بیگم کے علاوہ ندیم نے بھی فردوسی بیگم کے ساتھ ایک دوگانا گایا تھا۔ وہ کچھ یوں ہے: ’’کہاں ہو تم کو ڈھونڈ رہی ہیں یہ بہاریں یہ سماں‘‘ اس کے علاوہ احمد رشدی کا گایا ہوا یہ گیت بھی جھومنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ’’کبھی تو تم کو یاد آئیں گی‘‘۔ مجیب عالم کا گایا یہ گیت بھی روبن گھوش کے فن کی ایک نادر مثال ہے۔ ’’وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں۔‘‘ اس کے بعد ’’تم میرے ہو‘‘ کی موسیقی کو بھی فلم بینوں نے بہت پذیرائی بخشی۔ ’’تم میرے ہو‘‘ کے بعد روبن گھوش اور شبنم کراچی میں آباد ہو گئے اور پھر سرور بارہ بنکوی کے ساتھ ان کا خوب ساتھ رہا۔ سرور بارہ بنکوی کے لکھے ہوئے گیتوں کو روبن گھوش کا لاجواب سنگیت ملا تو کمال ہو گیا۔ 1968ء میں ’’جہاں تم وہاں ہم‘‘ کے نغمات بھی بہت مشہور ہوئے۔ خاص طور پر یہ دو گیت تو بہت ہٹ ہوئے ’’اسے دیکھا اسے چاہا اسے بھول گئے‘‘ اور ’’مجھے تلاش تھی جس کی وہ ہم سفر تم ہو۔‘‘ ( جاری ہے ) 1972ء میں الیاس رشیدی کی فلم ’’احساس‘‘ کے گیتوں نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔ یہ فلم باکس آفس پر بھی بہت کامیاب رہی۔ اس فلم کے گیت سرور بارہ بنکوی نے لکھے تھے۔ روبن گھوش کی موسیقی میں رونا لیلیٰ کا گایا ہوا یہ نغمہ آج تک مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ’’ہمیں کھو کر بہت پچھتائو گے جب ہم نہیں ہوں گے‘‘ اور پھر مہدی حسن کا یہ لافانی گیت ’’آپ کا حسن جو دیکھا تو خدا یاد آیا‘‘ روبن گھوش کے اعلیٰ سنگیت کی ایک زبردست مثال ہے۔ ’’احساس‘‘ میں رونا لیلیٰ کے اس گیت نے اس گلوکارہ کو عروج بخشا اور بعد میں انہوں نے ’’امرائو جان ادا‘‘ میں سیف الدین سیف کے لکھے ہوئے گیت گائے۔ ان کا انتخاب بے بدل موسیقار نثار بزمی نے کیا تھا۔ 1974ء میں ’’چاہت‘‘ اور ’’بھول‘‘ کی موسیقی بھی بہت مقبول ہوئی اور پھر ’’شرافت‘‘ کے نغمات نے بھی بڑی دھوم مچائی۔ ’’چاہت‘‘ میں مہدی حسن کا گایا ہوا گیت ’’پیار بھرے دو شرمیلے نین‘‘ ایک امر گیت ہے جو بڑے بڑے گیتوں پر بھاری ہے۔ اس فلم میں اخلاق احمد نے بھی گلوکار کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوایا۔ ان کا گایا ہوا یہ گیت ’’ساون آئے ساون جائے‘‘ آج بھی سننے والوں پر وجد طاری کر دیتا ہے۔’’چاہت‘‘ اداکار رحمان کی ذاتی فلم تھی اور ایک زمانے میں شبنم اور رحمان کی جوڑی بہت مشہور رہی تھی۔ رحمان کی فلموں میں روبن گھوش ہی موسیقی دیا کرتے تھے۔ 1975ء میں رحمان کی ذاتی فلم ’’دو ساتھی‘‘ اگرچہ باکس آفس پر کامیاب نہ ہو سکی لیکن روبن گھوش کی موسیقی کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ غلام عباس کا گایا ہوا یہ گیت بہت مشہور ہوا ’’ایسے وہ شرمائے‘‘۔ یہ روبن گھوش کی اعلیٰ موسیقی کا کمال تھا کہ غلام عباس کو اس کے بعد وہ شہرت نہ مل سکی جو اس گیت نے دی۔ 1977ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’آئینہ‘‘ کو اگر روبن گھوش کے فن کی معراج کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ’’آئینہ‘‘ کو تو ویسے بھی اردو فلموں کی سرتاج فلم کہا جاتا ہے۔ یہ فلم کراچی کے ایک سینما میں پانچ برس تک نمائش پذیر رہی۔ نذرالاسلام کی بہترین ہدایت کاری اور ندیم، شبنم، ریحان کی لاجواب اداکاری نے فلم کی کامیابی میں اگر اہم کردار ادا کیا تو اس کے ساتھ ساتھ روبن گھوش کی موسیقی نے بھی کمال کر دکھایا۔ اس فلم میں روبن گھوش نے اپنی موسیقی کو نئی جہتوں سے آشنا کیا۔ گیتوں میں گٹار کا استعمال بھی بڑی خوبصورتی سے کیا گیا۔ روبن گھوش کے ساتھ گٹار سجاد طافو نے بجایا تھا۔ نیرہ نور، اخلاق احمد، عالمگیر اور مہدی حسن نے اتنے خوبصورت گیت گائے کہ وہ شاہکار گیتوں کا روپ اختیار کر گئے۔ روبن گھوش نے ان تمام گلوکاروں سے بڑی ذہانت سے کام لیا، ویسے تو اس فلم کے سبھی گیتوں نے فلم بینوں کو سحر زدہ کر دیا تھا لیکن تین گیت ایسے ہیں جو روبن گھوش کی شناخت بن گئے۔ یہ تین گیت کچھ یوں ہیں۔ -1 ’’مجھے دل سے نہ بھلانا‘‘ -2 ’’روٹھے ہو تم تو میں کیسے منائوں پیا‘‘ اور -3 ’’کبھی میں سوچتا ہوں۔‘‘ آئینہ کے بعد روبن گھوش نے تین اور یادگار فلموں کا یادگار میوزک دیا۔ یہ فلمیں تھیں ’’امبر‘‘، ’’بندش‘‘ اور ’’نہیں ابھی نہیں۔‘‘ ان تینوں فلموں میں مہناز، مہدی حسن اور اخلاق احمد نے ان کی موسیقی میں دلکش گیت گائے جن کی تحسین آج بھی کی جاتی ہے۔ امبر میں مہدی حسن کا گایا ہوا یہ گیت ’’ٹھہرا ہے سماں‘‘، بندش کا ’’دوپیاسے دل ایک ہوئے‘‘ اور ’’نہیں ابھی نہیں‘‘ میں اخلاق احمد کا گایا یہ گیت ’’سماں وہ خواب کا سماں‘‘ روبن گھوش کی فنکارانہ عظمت کا بین ثبوت ہیں۔ انہوں نے کسی پنجابی فلم کا میوزک نہیں دیا۔ 1984ء میں ان کی ایک فلم ’’دوریاں‘‘ ریلیز ہوئی جس کی موسیقی بھی اعلیٰ درجے کی تھی۔ ان کے بارے میں بھارت کے نامور موسیقار سلیل چوہدری نے کہا تھا کہ روبن گھوش جیسے موسیقار کو بھارت میں ہونا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ آر۔ ڈی۔ برمن، لکشمی کانت پیارے لال اور نوشاد جیسے موسیقار بھی ان کے مداح تھے۔ روبن گھوش نے بہت منفرد اور معیاری کام کیا۔ ان کا سنگیت ہمیشہ زندہ رہے گا۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
قصہ پارینہ بنتی: ذاتیں اور پیشے

قصہ پارینہ بنتی: ذاتیں اور پیشے

زمانہ قدیم کے انسان نے جب معاشرہ تشکیل دیا تو اسے سب سے پہلے اپنے استعمال کیلئے دو چیزوں کے ذخیرہ کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی ، ایک پانی اور دوسرا اناج۔ یہ وہ دور تھا جب ابھی اس روئے زمین پر دھات ایجاد نہیں ہوئی تھی اور انسان کو صرف مٹی ہی دستیاب تھی، جسے بروئے کار لاکر انسان نے پانی اور اناج کو ذخیرہ کرنے کیلئے کٹورہ نما برتن ایجاد کیا ہو گا۔ شاید یہ اس روئے پر پہلا برتن ہو گا۔ اس کے بعد کے انسان نے شکار کیلئے جس اوزار کو استعمال کیا وہ پتھر سے بنا نوک دار تیر نما ہتھیار تھا۔ بعد ازاں دھات کی ایجاد کے ساتھ ہی انسان نے دھات سے کلہاڑی ، چھری اور اس طرح کے دیگر اوزار اپنی روزمرہ زندگی کی ضرورت کے مطابق بنانا شروع کئے۔ لکڑی کا استعمال بھی انسانی معاشرے کی تشکیل کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا جب انسان نے ایندھن کے علاوہ لکڑی کو تعمیراتی استعمال کے ساتھ ساتھ گھریلو ضرورت کی اشیاء بنانے میں استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ شروع میں لوگ اپنی ضرورت کی اشیا خود بنا لیا کرتے تھے جسے اڑوس پڑوس والے باوقت ضرورت مستعار بھی لے لیا کرتے تھے۔لیکن جب معاشرتی حجم میں اضافہ ہوتا گیا تو انسانی ضروریات بھی بڑھتی چلی گئیں تو ایک فرد یا ایک خاندان کیلئے مختلف انواع کی اشیاء ایک ساتھ بنانا ممکن نہ رہا۔ چنانچہ افراد نے اپنی آسانی کے مطابق یہ کام بانٹ لئے۔ شاید یہی وہ دور تھا جب اس معاشرے میں ہنر کی تقسیم کی بنیاد کے ساتھ ہی انسانی پیشے کے حوالے سے انسانی ذات کی بھی بنیاد پڑی۔دراصل ''ذات‘‘ بنیادی طور پر ایک سماجی رابط کا نام ہے جو اسے اپنے پیشے ، ثقافت ، تہذیب اور وراثت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔یوں لکڑی کے ہنرمند کو '' ترکھان‘‘ ، لوہے کے کاریگر کو '' لوہار‘‘ ، اعلیٰ ہذا القیاس موچی ، جولاہا ، کمہار وغیرہ کی ذاتیں معرض وجود میں آتی چلی گئیں۔ ان پیشوں کی شناخت انیسویں صدی عیسوی میں اس وقت اور بھی نمایاں ہو گئی جب پنجاب کے دیہاتوں میں بالخصوص سکھ شاہی کے دور میں اپنی روزمرہ زندگی کے دوران سرداروں اور وڈیروں کو اپنے لئے کمیوں کی ضرورت شدت سے محسوس ہونے لگی۔جہاں یہ لوگ زراعت کیلئے ہل، درانتی اور دیگر اوزار بنانے کے ساتھ ساتھ کپڑا بننے،رنگنے ، جوتیاں بنانے ، لکڑی سے فرنیچر اور روزمرہ ضرورت کی اشیاء بنانے میں مصروف رہتے تھے اور یوں یہ ''کردار‘‘ ہمارے معاشرے کا جزو لاینفک بن کے رہ گئے۔ ذیل میں ہم ان میں سے چند کرداروں کا فرداً فرداً تعارف کراتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہو چکے ہیں یا معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔کمہارکمہار ، مٹی کے برتن بنانے والے کو کہتے ہیں۔ یہ پیشہ انسانی تہذیب کا سب سے پرانا پیشہ یوں ہے کہ انسان نے جب معاشرے کو تشکیل دیا تو سب سے پہلے اس نے مٹی کے برتنوں کو رواج دیا ۔اس کے بعد قدیم ترین تہذیبوں سے انسانی اور جانوروں کی شکل میں کچھ مورتیاں بھی ملی تھیں جو چوبیس ہزار سال قبل مسیح کے دور کی بتائی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ چودہ ہزار سال قبل مسیح میں میسو پیٹیمیا ( موجودہ عراق )سے مٹی کی بنی اینٹیں بھی ملی ہیں۔ایک وہ دور تھا جب مٹی سے بنے پانی کے کٹورے سے لے کر ہانڈی تک روزمرہ ضرورت کی بیشتر اشیاء کمہاروں کی کاریگری کا پیش خیمہ ہوتی تھیں۔ وقت گزرنے ساتھ ساتھ مٹی کے برتنوں کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ دھات ، پلاسٹک اور چائنا مٹی کے بننے والے برتنوں کی تیاری ہے۔جس کے باعث اب گھروں میں مٹی کے برتنوں کا استعمال قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ نتیجتاً اس قدیم فن کے روح رواں دن بدن مالی مسائل کا شکار ہوتے جا رہے ہیں جس کے سبب وہ اپنی نئی نسل کو اس فن سے دور رکھنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور یوں صدیوں پرانا یہ فن اپنی بقا کی جنگ لڑتے لڑتے اب آخری سانس لینے پر مجبور ہو چکا ہے۔لوہارکسی دانشور نے ایک موقع پر کیا خوب کہا تھا کہ ''کاشتکاری ، لوہار کے بغیر ایسے ہی جیسے پانی کے بغیر کاشتکاری‘‘۔ اگر بات پنجاب کی، کی جائے تو پنجاب میں صدیوں سے زراعت کا شعبہ نمایاں رہا ہے جس کی وجہ سے ایک بڑی تعداد کاشتکاری کی غرض سے دیہاتوں میں آباد کہنا کرتی تھی۔ کاشتکاری چونکہ ایک ''ٹیم ورک‘‘ کا نام ہے اس لئے دیہاتوں میں اس ٹیم کو ''کامے‘‘ یا ''کمی‘‘ کہا جاتا تھا۔ زراعت میں ان افراد کی حیثیت بنیادی ہوتی تھی اس لئے ان کے بغیر کاشتکاری یا زرعی نظام کا چلنا ناممکن ہوتا تھا۔یہ کامے جو لوہار ،ترکھان ، نائی ، مصلی، جولاہوں وغیرہ پر مشتمل ہوتے تھے، انہیں معاشرے میں نیچ سمجھا جاتا تھا۔لوہار ایسا پیشہ تھا جو زراعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ زرعی اوزار بنانا اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے تھا۔چنانچہ یہی وجہ تھی کہ لوہار ، کمی طبقے کا سب سے معزز کردار سمجھا جاتا تھا ۔ اب وقت بدل گیا ہے کیونکہ بیلوں کی جوڑی کے ساتھ لوہار کے بنے ہلوں کی جگہ اب ٹریکٹر نے لے لی ہے ، لکڑیاں کاٹنے والے آلات کی جگہ الیکٹرک آرے نے لے لی حتی کہ فضل کی بیجائی سے لے کر کٹائی تک کے تمام مراحل اب جدید مشینوں نے سنبھال لئے ہیں۔ایسے میں اب لوہار کا وجود صرف چھوٹی چھوٹی چھریوں، درانتیوں اور کچھ دیگر اوزاروں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے جس کے سبب یہ اپنی اگلی نسل کو اپنا موروثی پیشہ منتقل کرنے پر تیار نہیں ہے ۔موچیموچی کو عام طور پر ''چمار‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ گئے دنوں میں موچی کو دیہی علاقوں بالخصوص پنجاب کے دیہاتوں میں ایک منفرد حیثیت حاصل ہوا کرتی تھی۔ موچی کا کام ویسے تو دیہی علاقوں میں جوتیاں بنانا، مرمت کرنا، بیل گاڑیوں اور دیگر جانوروں کے چھانٹے بنانا اور چمڑے کے دوسرے متفرق کام کرنا ہوتا تھا لیکن دیہاتوں میں موچی سے فصلوں کی بیجائی سے لے کر کٹائی تک اور محنت مزدوری کے دوسرے کام بھی لئے جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ موچی کا کام جوتے بنانے تک ہی محدود ہو کر رہ گیا۔ دیگر پیشوں بالخصوص زرعی پیشے میں مشینی انقلاب نے ہنر مندوں کی ہنر مندی کو مشینوں کے تابع لا کھڑا کیا۔ نتیجتاًجفت ساز (موچی )تیزی سے بے روزگار ہونے لگے اور اب یہ پیشہ صرف جوتا مرمت تک محدود ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ مشینوں پر تیار جوتے باآسانی دستیاب ہو چکے ہیں جس کے سبب ان کی نئی نسل اب تیزی سے اس خاندانی پیشہ سے کنارہ کشی اختیار کرتی جارہی ہے۔ جولاہااب سے لگ بھگ چار، پانچ عشرے پہلے تک ''جولاہا‘‘ جسے پنجاب کے بیشتر علاقوں میں ''پاولی‘‘بھی کہا جاتا ہے ،پنجاب کی ثقافت اور سماجی زندگی کا ایک اہم کردار ہوا کرتا تھا۔ پنجاب کے ہر گاؤں میں جہاں نائی ، کمہار ، موچی ،تیلی، کمہار اور ترکھان ہوا کرتے تھے وہیں کم از کم ایک یا دو گھر ایسے ضرور ہوا کرتے تھے جن کے ایک کمرے میں کھڈیاں لگا کر کھیس ، کھدر اور دریاں وغیرہ بنائی جا رہی ہوتی تھیں، اور یہ گھر کسی جولاہے کا ہوتا تھا۔ اپنے ہی گاوں کی کپاس سے کھڈیوں پر تیار کردہ کپڑے گاؤں کے باسیوں کا پہناوا اور ان جولاہوں کا ذریعہ معاش ہوا کرتا تھا۔ جولاہا بڑے مزے میں تھا کہ اچانک حکومت کو '' ترقی‘‘ کی سوجھی اور قرار پایا کی دیسی کپاس کی کاشت ملک کیلئے شجر ممنوعہ ہے، اس کی جگہ امریکن کپاس نے لے لی اور کھڈیوں کی جگہ ٹیکسٹائل ملوں نے۔ جولاہا حیران پریشان کہ اب وہ کرے تو کیا کرے ؟ پیٹ کا ایندھن بھرنے کیلئے وہ انہی ملوں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہو گیا۔یوں ماضی کا ایک اہم کردار ہمیشہ کیلئے گمنامی کے اندھیروں میں کھو گیا۔صرف یہی نہیں بلکہ ماضی کے ایسے ہی لاتعداد کردار جن میں چوہڑے (خاکروب )، ماچھی ، ماشکی ،مصلی، ملاح، دھوبی ، قصاب ، ترکھان اور ایسے ہی بہت سارے مزید طبقات بھی شامل تھے اب رفتہ رفتہ وقت کی بھینٹ چڑھتے چڑھتے قصہ پارینہ بن گئے ہیں۔  

رضیہ سلطان: عظیم تخت نشین خاتون

رضیہ سلطان: عظیم تخت نشین خاتون

ہندوستان کی تاریخ میں عظیم اور جانباز خواتین میں سے ایک رضیہ سلطان حیرت انگیز بہادری اور بے مثال حولہ سے بھرپور نادر الوجود شخصیت کی حامل خاتون سلطان، پردہ نشین معاشرہ کا نایاب ہیرا تھیں۔ جس نے تخت سلطانی پر رونق افروز ہو کر اس عہد میں مرد سلطان کے ہم پلہ اپنی صلاحیتوں کا ثبوت پیش کیا اور تقریباً 785 سال پہلے اس سماج میں جس میں عورت کا پردے میں رہنا مستحسن سمجھا جاتا تھا، یہ ثابت کردیا کہ جب اس سماج کی بیٹی پر سلطان ہند کی ذمہ داری آئی تو اس نے سلطنت کی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دیا اور پورے طبقۂ نسواں کیلئے اس کی شخصیت کشش کا سرچشمہ بنی۔ رضیہ سلطان کی شخصیت اور کارناموں سے تمام ہندوستانی خواتین کو تحریک ملتی ہے۔ بہادری اور حوصلہ کی علامت رضیہ سلطانہ جب آلات حرب سے آراستہ ہو کر گھوڑے پر سوار جنگ کیلئے نکلتی ہوں گی تو وہ منظر بہت ہی دلکش ہوتا ہوگا۔رضیہ سلطان نے ہندوستان پر تین سال چھ مہینے اور چھ دن حکومت کی اس مختصر عرصے میں اس نے اپنی لیاقت اور عظمت کے جوہر، دوست اور دشمن دونوں سے تسلیم کرا لئے۔ تخت دہلی پر رضیہ کے فائز ہونے کے سلسلے میں مندرجہ ذیل امور پر توجہ دینا ضروری ہے۔ سلطنت دہلی کی تاریخ میں دہلی کے عوام نے پہلی بار کسی کو اپنی مرضی کے مطابق تخت پر بٹھایا تھا۔ اس کے بعد سے دہلی کے عوام کی حمایت رضیہ کے استحکام کا خاص ذریعہ بنی رہی۔ جب تک وہ دہلی سے باہر نہیں نکلی اس وقت تک کوئی بھی بغاوت اس کے خلاف کامیاب نہ ہو سکی اور نہ محل کے اندر کوئی انقلاب برپا ہوا۔ اس نے اپنی تخت نشینی کو ایک معاہدے کی شکل میں یہ کہہ کر دے دی کہ اگر وہ عوام کے توقعات پر پوری نہ اتریں تو عوام کو حق ہوگا کہ وہ اسے تخت سے برطرف کر دیں۔ اس واقعہ سے التمش کا انتخاب صحیح ثابت ہوتا ہے۔دہلی کی فوج اور افسران نے رضیہ کو تخت پر بٹھایا تھا چنانچہ صوبائی گورنر جو عام طور سے ترک حکمراں طبقے کے ایک طاقتور جزو ہوا کرتے تھے، فطری طور پر خود کو ذلیل اور نظر انداز کردہ محسوس کرنے لگے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت کے آغاز ہی سے رضیہ کو ان کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ رضیہ نے یہ ثابت کردیا کہ وہ صورتحال کا مقابلہ کامیابی کے ساتھ کر سکتی تھی۔ اقتدار پر قابض ہونے کیلئے اس کا پہلا قدم ہی اس کی سیاسی شخصیت کی دلیل ہے۔ رضیہ کے اندر وہ تمام قابل ذکر خوبیاں موجود تھیں جن کا بادشاہوں کے اندر پایا جانا ضروری ہے، لیکن اس کا عورت ہونا اس کی سب سے بڑی دشواری تھی۔ رضیہ نے تخت نشین ہونے کے بعد تدبر سے کام لیا۔ بدایو، ملتان، جھانسی اور لاہور کے اقطاع دار، جو اس کے مخالف ہو گئے تھے ان کے درمیان میں ایسا اختلاف پیدا کیا کہ وہ آپس میں ہی لڑنے جھگڑنے لگے اور ان کی یکجہتی ختم ہو گئی۔ رضیہ کی اس ہوشمندانہ تدبیر سے اس کا وقار بڑھ گیا۔ اس نے حکومت کے نظام کی نئی تشکیل کرکے خواجہ مہذب الدین کو وزیر بنایا اور نئے نئے اقطاع دار مقرر کئے۔ اس کے بعد شاہی دربار کے افسران کی تقرری ہوئی۔ملک جمال الدین یاقوت کو امیر آخور (گھوڑے کے اصطبل کا داروغہ) مقرر کیا۔ ترکوں نے جمال الدین کی تقرری کی مخالفت کی کیوں کہ وہ ایک حبشی غلام تھا اور اس سے پہلے اس عہدے پر صرف ترک افسران ہی مقرر ہوتے تھے۔وفادار اور قابل اعتماد انتظامیہ کا عملہ مقرر کرنے کے بعد رضیہ نے معاملات پر براہ راست کنٹرول رکھنے کیلئے توجہ کی۔ وہ سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی تھی، جبکہ امرا رضیہ کی مخالفت کر رہے تھے، کیونکہ وہ ایک مضبوط اور مطلق العنان حکمراں کو تخت پر دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ رضیہ اگر پردہ میں رہتی تو ایسا ممکن نہیں تھا، جس تخت پر بیٹھتی تھی درباریوں اور عوام کے حصے سے ایک پردہ کے ذریعے علیحدہ رکھا جاتا تھا۔ اس طرح کا بھی انتظام تھا کہ محافظ خواتین اس کے پاس کھڑی رہتیں اور ان لوگوں کے بعد رضیہ کے خونی رشتہ دار ہوتے۔ انتظام غیر مناسب ثابت ہو رہا تھا۔ لہٰذا اس نے زنانہ لباس ترک کردیا اور قباو کلاہ پہن کر عوام کے سامنے حاضر ہوئی۔ کھلے بند گھوڑے پر سواری کرتی اور دربار میں موجود رہ کر حکومت کو مستحکم بنانے کی کوشش کرتی۔ بہادر اور دلیر ہونے کے علاوہ، وہ ایک کامیاب سپاہی اور جنرل بھی تھیں۔ سیاسی سازشوں اور جوڑ توڑ میں مشاق تھی۔ اس کی وجہ سے ترکوں کی سلطنت کا وقار ہندوستان میں بڑھ گیا۔قطب الدین ایبک سے لے کر التتمش تک تمام سلاطین اپنے امراء کے سامنے تخت پر بیٹھنے سے جھجھکتے تھے، یعنی رضیہ سے پہلے اور اس کے بعد بھی التتمش کے خاندان کے اور افراد اپنی شخصیت اور کردار کے لحاظ سے کمزور تھے، لیکن یہ صرف تنہا رضیہ ہی تھی جو اپنی صلاحیت اور لیاقت کی بنا پر سلطنت دہلی کی سیاست پر حاوی رہنے کی کوشش کرتی رہتیں۔ طبقات ناصری کے مصنف نے لکھا ہے کہ وہ جلیل القدر، عاقل، عادل، کریم، عالم نواز، عدل گستر، رعیت پرور اور لشکر کش حکمراں تھیں۔

آج کا دن

آج کا دن

گوانتانامو بے کی فائلزگوانتانامو بے کی فائلز 24 اپریل2011ء میں دنیا کے سامنے آئیں اور کئی ایسے انکشافات ہوئے جنہوں نے پوری دنیا کو پریشانی میں مبتلا ء کر دیا۔ 2001ء میں افغانستان پر حملہ کیا گیا اور 2002ء میں گوانتانامو بے حراستی کیمپ قائم کیا گیا۔ دستاویزات میں قیدیوں کے بارے میں درجہ بندی کے جائزے اور انٹرویوز شامل تھے، جنہیں پینٹاگون کی مشترکہ ٹاسک فورس گوانتاناموبے نے لکھا تھا اور اس کا صدر دفتر گوانتانامو بے نیول بیس میں تھا۔ دستاویزات پر ''خفیہ‘‘ اور ''NOFORN‘‘ یعنی ایسی معلومات جو دوسرے ممالک کے نمائندوں کے ساتھ شیئر نہیں کی جاتیں کا نشان لگایا گیا تھا۔دستاویزات میں درج تھا کہ کس طرح سیکڑوں افراد کو بغیر کسی جرم کے کئی سال قید میںرکھا گیا۔برلن معاہدہ24اپریل1926ء کو جرمنی اور سوویت یونین کے درمیان برلن میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے مطابق دونوں ریاستیں غیر جانبداری اور عدم جارحیت کی پابند ہوں گی۔ اس معاہدے کے تحت جرمنی اور سوویت یونین نے پانچ سال کیلئے تیسرے فریق کی طرف سے ایک دوسرے پر حملے کی صورت میں غیر جانبداری کا عہد کیا۔ اس معاہدے نے جرمن اور سوویت معاہدے ''ریپالو 1922ء‘‘ کی توثیق کی۔29 جون 1926 ء کو برلن میں اس معاہدے کی توثیق کا تبادلہ ہوا اور یہ اسی دن سے نافذ العمل ہوا۔بشپس گیٹ دھماکہبشپس گیٹ بم دھماکہ 24 اپریل 1993ء کو ہوا، جب آئرش ریپبلکن آرمی نے لندن شہر کی ایک بڑی سڑک، بشپس گیٹ پر ایک خوفناک ٹرک بم دھماکہ کیا۔ ٹیلی فون پر دھمکیاں تقریباً ایک گھنٹہ پہلے بھیجی گئی تھیں جس کی وجہ سے حفاظتی اقدامات اٹھا لئے گئے تھے اور یہی وجہ تھی کہ دھماکے کی وجہ سے ہلاکتیں کم ہوئیں۔ اس دھماکے میں ایک نیوز فوٹوگرافر ہلاک اور 44 افراد زخمی ہوئے ۔ دھماکے نے قریبی چرچ کو تباہ کر دیا اور لیورپول سٹریٹ سٹیشن اور نیٹ ویسٹ ٹاور بھی تباہ ہو گئے۔دھماکے کے بعد بہت سی کمپنیوں نے حملوں یا اسی طرح کی آفات کی صورت میں ڈیزاسٹر ریکوری پلان متعارف کرایا۔ نقصان کی مرمت پر 350 ملین پاؤنڈز خرچ ہوئے۔ 1994ء میں جاسوسوں کا ماننا تھاکہ وہ ان افراد کی شناخت سے واقف ہیں جنہوں نے یہ حملہ کیا لیکن ان کی گرفتاری کیلئے ان کے پاس ثبوت موجود نہیں تھے۔وول ورتھ بلڈنگوول ورتھ بلڈنگ امریکہ میں ابتدائی طور پر بنائی جانے والی فلک بوس عمارتوں میں سے تھی جسے کاس گلبرٹ نے ڈیزائن کیا تھا ۔ یہ 1913ء سے 1930ء تک دنیا کی سب سے اونچی عمارت تھی، جس کی اونچائی 792 فٹ (241 میٹر) تھی۔ اس کی تعمیر کے ایک صدی سے زیادہ کے بعد تک یہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی 100 بلند ترین عمارتوں میں سے ایک رہی۔  

23اپریل:کتابوں کا عالمی دن کتاب سے دوستی کیجئے!

23اپریل:کتابوں کا عالمی دن کتاب سے دوستی کیجئے!

کتاب انسان کی بہترین دوست ہوتی ہے مگر افسوس کہ آج کے جدید دورمیں کتاب کی جگہ موبائل فون نے لے لی ہے۔ اس موبائل فون کی بدولت ہم اپنے اچھے دوست اور تنہائی کے بہترین ساتھی سے دور ہو رہے ہیں۔کتاب ہماری اخلاقی و معاشرتی تربیت کرتی ہے مگر ہماری آج کی نوجوان نسل کتاب سے فائدہ اٹھانے، اس کو پڑھ کر سیکھنے کی بجائے موبائل کی رنگینیوں میں کھوگئی ہے۔ نئی نسل کو کتاب سے دوستی اور پڑھنے کی طرف راغب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ایک بہت ہی مشہور مقولہ ہے ''ریڈرز ہی لیڈرز ہوتے ہیں‘‘۔ یہ جملہ کتابوں کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے لوگوں کے پاس اب کتاب پڑھنے کا وقت نہیں رہا، حالانکہ انسانی شعور کے ارتقاء میں کتابوں نے ہی مرکزی کردار اد ا کیا ہے۔ دنیا جب لکھنے کے فن سے آشنا ہوئی تو شروع میں درختوں کے پتوں،چمڑے اور پتھروں پر الفاظ کشید کر کے کتابیں لکھنے کا کام شروع کیاگیا،جیسے ہی انسانی تہذیب نے ترقی کی ویسے ہی کتاب نے بھی ارتقاء کی منزلیں طے کرنا شروع کر دیں،درختوں کی چھال سے لے کر پرنٹنگ پریس اور پھر ای بکس تک کا سفرجاری ہے۔قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ''جاننے والے اور نہ جاننے والے کبھی برابر نہیں ہوسکتے‘‘ بلکہ جاننے والوں کو دیکھنے والے جبکہ نہ جاننے والوں کو اندھوں سے تشبیہ دی ہے ۔ مجموعی طور پر مسلمان اور خاص طور پر ہم پاکستانی کتاب سے کیوں دور ہوتے جا رہے ہیں، اس کے مختصر اسباب، غربت، بے روزگاری کی وجہ سے عام پاکستانی اسی چکر میں ساری زندگی گزار دیتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک عالم کی عزت میں بھی بے پناہ کمی آئی ہے،دوسری طرف صاحب علم بے روزگار ہیں اور علم کی سرپرستی حکومت نہیں کرتی، پھر انفرادی طور پر ہم اتنے بدذوق ہوچکے ہیں کہ عموماً کتابوں کا مطالعہ کرنے کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ہمارے ہاں کتاب کو فضول سمجھا جاتا ہے۔ہمارے گھروں میں لائبریری تو دور کی بات چند کتابیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ ہمارے ہاں کتابیں خریدنے اور پڑھنے والے کو مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسے خبطی،کتابی کیڑا، پاگل کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایک تو شرح خواندگی کم ہے اور دوسری طرف مہنگائی کی وجہ سے بھی کتاب بینی میں کمی آئی ہے ۔ پھر جدید طریقوں کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائل فونز کے استعمال کی وجہ سے بھی کتاب کی اہمیت متاثر ہوئی ہے۔ اگر موضوع اچھا ہو تو کتاب آج بھی خریدی اور پڑھی جاتی ہے پاکستان میں زیادہ ترکتابیں شاعری کی شائع ہوتی ہیں اور ان کی شاعری بھی اس قابل نہیں ہوتی اس لیے بھی رجحان کم ہے۔ پاکستان میں سنجیدہ موضوعات پر لکھی گئی کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد بھی دیگر ممالک سے کم ہے اور پھر فلسفے، تاریخ، نفسیات اور سائنس پر لکھی گئی کتابیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کا حل دیگر زبانوں کی کتابوں کے تراجم کی صورت میں نکالا جانا چاہیے۔ پاکستان میں کتاب سے دوری کے اسباب میں لائبریری کی کمی بنیادی وجہ میں سے ایک ہے ۔پاکستانی معاشرے میں انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثرات کے باعث کتابوں کے خریداروں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے ۔پاکستان میں کتاب کا فروغ کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہا ، یورپ میں کتاب کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے ،یہاں پر لوگ دوران سفر،انتظار گاہ میں اور فارغ اوقات میں کتاب پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔پاکستان میں اوّل تو کتابیں لکھنا مشکل ہے، اگر لکھی بھی جائیں تو ان کو پبلش کرنا مشکل ترین مرحلہ ہے۔اگر آپ کتاب لکھ کر چھپوالیں تو اسے مفت میں مانگا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ تھوڑے پیسے خرچ کر کے لکھنے والے کی حوصلہ افزائی اور مدد کی جائے۔ 80فیصد لکھاری اپنی جیب سے کتاب چھپوا کر دوستوں میں بانٹ رہے ہیں، پاکستان میں صرف کتابیں لکھ کر گزر اوقات ممکن نہیں ہے۔کسی بھی معاشرے ،قوم ،ملک کی ترقی کا دارومدار علم پر ہوتا ہے اور علم کا کتاب پر ،تاریخ اس کی گواہ ہے ،یونان اور اس کے بعد مسلمانوں کا عروج جب دنیا جہاں سے کتابیںمسلمان خرید رہے تھے اور ان کو ترجمہ کر رہے تھے ، آج آپ دیکھ لیں مغرب میں کتاب دوستی ہے ،یہی وجہ ہے کہ آج مغرب ترقی یافتہ کہلاتا ہے۔پاکستان میں گزشتہ 30 برسوں سے کتاب بینی کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے ۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں42فیصد کتابیں مذہبی، 32 فیصد عام معلومات یا جنرل نالج، 36 فیصد فکشن اور 07 فیصد شاعری کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ کتابوں سے دوری کی وجہ سے نوجوان نسل اپنے اسلامی، سیاسی، مذہبی کلچر اور ادب سے بھی غیر مانوس ہونے لگی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میںہر سال23 اپریل کو کتابوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کی شروعات 1616ء میں سپین سے ہوئی، 1995ء میں اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جنرل کونسل نے 23 اپریل کو ''ورلڈ بک ڈے‘‘ قرار دے دیا۔ ہم ایسے دن منانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں جن سے قوم کا بھلا ہوتا ہو۔ کتب بینی انسان کے وقت کو نہ صرف ضائع ہونے سے بچاتی ہے بلکہ غم خوار ومددگار ثابت ہوتی ہے۔کتاب تنہائی کی بہترین ساتھی ہوتی ہے، جب انسان گردشِ ایام کے ہجوم میں الجھ کر مایوس ہوکر اندھیروں میں کہیں گم ہوجاتا ہے، زندگی کی خوبصورت نعمتوں سے فیض یاب نہیں ہوپاتا تو اس وقت کتاب ہی اندھیروں میں روشنی لے کر امید کی کرن بن کر سامنے آتی ہے اور انسان تاریکیوں سے نکل کر روشنی میںآ جاتا ہے اور اس روشنی میں خود کو سمجھنے لگتا ہے۔کتب بینی کیلئے ایسے اقدامات کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے گھروں میں ایسا ماحول پیدا کرنا چاہیے جس سے گھر کے بچوں سمیت ہرفرد کو مطالعہ کرنے میں دلچسپی ہو کتاب سے دوستی ہو۔ ماں باپ کو خود مطالعہ کرکے مثال قائم کرنی چاہیے۔ اپنے حلقہ احباب میں اچھی کتب کا ذکر مطالعہ ، تبصرہ ، تجزیہ کر کے شوق کو اُبھارنا چاہیے۔ہمارے اشاعتی اداروں کو اب ایک بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ وہ معیاری کتب کے ساتھ ساتھ سستی کتابوں کو شائع کریں ، اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری نسل مایوس ہو کر دوبارہ گلوبل ویلج کی چکا چوند میں کہیں گم ہو جائے گی اور اسے ڈھونڈنا مشکل ہو گا۔

دنیا کی پہلی خاتون ماہر فلکیات

دنیا کی پہلی خاتون ماہر فلکیات

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے شعری مصرعے ''ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘ پر عمل کرتے ہوئے جرمن نژاد برطانوی خاتون کیرولین ہرشل نے دور بین کے شیشے صاف کرتے کرتے خلائوں کا مشاہدہ شروع کیاتو اس حیرت انگیز انوکھی دنیا کے کئی رازوںپر سے پردہ اٹھایا۔ ان کے مشاہدات آج بھی ماہر فلکیات کیلئے مشعل راہ ہیں۔ کیرولین ہرشل دنیا کی پہلی ماہر فلکیات خاتون ہیں۔ کیرولین ہرشل 16 مارچ 1750 کو ہینوور، جرمنی میں پیدا ہوئیں۔ کیرولین ہرشل کے والدآئزک مقبول موسیقار تھے۔کیرولین پانچ بہن بھائی تھے جو کہ ریاضی، فرانسیسی اور موسیقی کی کا علم حاصل کر رہے تھے جبکہ کیرولین کی والدہ نے لڑکی ہونے کی وجہ سے اسے تعلیم دینا ضروری نہ سمجھی اور گھر کے کام کاج میں لگا دیا اور وہ گھریلو ملازمہ کی طرح باقی بہن بھائیوں کے کام کرنے لگی۔ دس سال کی عمر میں کیرولین بیمار ہوگئی اس مہلک بیماری نے اس کی نشونما کو مستقبل طور پر روک دیا۔بیماری کے باعث ہرشل کی شادی نہ ہوسکی اور 22 سال تک اپنے والدین کے گھر ہی گھریلو ملازمہ کی طرح زندگی گزارتی رہی۔ ان دنوں ان کا بھائی ولیم تعلیم حاصل کرنے اور روز گار کے سلسلے میں انگلینڈ کیلئے روانہ ہوا تو کیرولین کو بھی اپنے ساتھ ہی لے گیا۔ ولیم موسیقی کا ماہر تھا اس لئے و لیم نے اپنی بہن ہرشل کیرولین کو بھی موسیقی کی تعلیم دی اور اس طرح ہرشل ایک ماہرپیشہ ور گائیکہ بن گئی ۔ولیم فلکیات کے علم کا بھی شوق رکھتا تھا۔اس نے فلکیات کے علم میں دلچسپی کی وجہ سے ایک طاقتور دور بین بنانا شروع کی۔ یہ ایک ایسی دوربین تھی جس سے وہ خلا میں گہرائی تک دیکھ سکتا تھا۔ ہرشل کیرولین بھی گھرکے کام کاج کے ساتھ ساتھ بھائی ولیم کی ٹیلی سکوپ بنانے میں مدد کرنے لگی۔ اس دوران ہرشل کو بھی خلائوں میں جھانکنے کا شوق پیدا ہوا اورزیاد ہ سے زیادہ وقت اپنے بھائی کے ساتھ گزارنا شروع کردیا اور ولیم کے فلکیاتی علم میں مدد کرنا شروع کر دی۔ ولیم نے ٹیلی سکوپ بنانے میں اتنی شہرت حاصل کی کہ اس نے موسیقار کی نوکری چھوڑ دی اور باقاعدہ طورپر دور بین بنانے اور فلکیات پر تحقیق شروع کر دی۔ ولیم نے 1781ء میں سیارہ یورینس دریافت کیا اور اس کے بعد اسے کنگ جارج III کے درباری ماہر فلکیات کا خطاب دیا گیا اور حکومت کی طرف سے باقاعدہ تنخواہ کا اعلان بھی کیاگیا۔ اکثر اوقات ولیم اپنے تیار کردہ ٹیلی سکوپ کے ذریعے سیڑھی پر کھڑے ہو کر خلاء کا مشاہدہ کرتا اور مشاہدے کے دوران جو نظر آتا وہ کیرولین ہرشل کو بتاتا اور وہ اسے قلمبند کرتی جاتی ۔ اس طرح ہرشل بھی فلکیات کے مشاہدے میں گہری دلچسپی لینے لگی۔ ولیم نے آسمان کا سروے شروع کیا۔ اپنی دوربین پر ایک سیڑھی پر کھڑے ہو کر، اس نے اپنے مشاہدات کیرولین کو بتا ئے۔ آخر کار، انہوں نے 2,500 نئے نیبولا اور ستاروں کے جھرمٹ کی ایک فہرست مرتب کی، جسے ''نیو جنرل کیٹلاگ‘‘ (NGC)کا نام دیا گیا۔ خلائوں میں بہت سی غیر تاریک اشیاء کی شناخت ان کے ''این جی سی نمبر‘‘ سے ہوتی ہے۔ کیرولین اکثر اپنے طور پر آسمان کا مطالعہ کرنے کیلئے ایک چھوٹا نیوٹنین سویپر استعمال کرتی تھی۔ 26 فروری 1783ء کو کیرولین نے ایک کھلا جھرمٹ دریافت کیا جسے آج ''این جی سی 2360‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کیرولین ہرشل نے تین نئے نیبولا (دھندلے بادل جہاں ستارے بنتے ہیں) دریافت کئے۔یکم اگست 1786ء کو، کیرولین نے رات کے وقت آسمان سے آہستہ آہستہ سفر کرنے والی ایک چیز (دم دار ستارے )حرکت کرتے ہوئے دیکھی ۔ اس نے اگلی رات دوبارہ اس کا مشاہدہ کیا اور فوری طور پر دیگر ماہرین فلکیات کو خط کے ذریعے دم دار ستارے کی دریافت کے بارے آگاہ کیا تا کہ وہ بھی ان کے بتائے ہوئے خطوط پر خلاء کا مشاہدہ کرتے ہوئے مطالعہ کریں اوردم دار ستارے کو دیکھیں۔ دم دار ستارے کی دریافت کے بعد ہرشل کیرولین کی صلاحیتوں کو تسلیم کرتے ہوئے اسے ماہر فلکیات تسلیم کرلیا گیا۔ 1787ء میں، کنگ جارج III نے اسے ولیم کے اسسٹنٹ کے طور پر ملازم رکھا۔ اس طرح سائنسی خدمات کیلئے تنخواہ حاصل کرنے والی پہلی خاتون ماہر فلکیات بن گئیں۔ 1786ء اور 1797ء کے درمیان اس نے آٹھ دم دام ستارے دریافت کیے۔ کیرولین نے اپنی اور ولیم کی ہر دریافت کی فہرست بنائی۔ کیرولین ہرشل کے شائع کردہ فلکیاتی کیٹلاگ میں سے دو آج بھی استعمال میں ہیں۔ ان کی چھیاسیویں سالگرہ پر ''کنگ آف پرشیا کے گولڈ میڈل آف سائنس‘‘ سے نوازا گیا۔ 1822ء میں ولیم کی موت کے بعد، کیرولین جرمنی واپس آگئیں اور نیبولا کے اپنے کیٹلاگ پر کام جاری رکھا۔ اس نے رائل آسٹرونومیکل سوسائٹی کا گولڈ میڈل حاصل کیا اور رائل سوسائٹی میں اعزازی رکنیت حاصل کی۔کیرولین ہرشل کا انتقال9 جنوری 1848ء کو ہوا۔ اس نے اپنے مقبرے کے پتھر پر یہ نوشتہ لکھا، جس میں لکھا ہے: "The eyes of her who is glorified here below turned to the starry heavens."  

آج کا دن

آج کا دن

ردھم کلب کی آگ''ردھم کلب کی آگ‘‘ یا ''نچیز ڈانس ہال ہولوکاسٹ‘‘ 23 اپریل 1940ء کی رات نچیز، مسیسیپی کے ایک ڈانس ہال میں لگنے والی آگ تھی، جس میں 209 افراد ہلاک اور متعدد شدید زخمی ہوئے۔ سیکڑوں افراد عمارت کے اندر پھنس گئے۔ اس وقت، یہ ملککی تاریخ میں عمارت میں لگنے والی دوسری مہلک ترین آگ تھی۔ اسے امریکی تاریخ کی اب تک کی چوتھی سب سے مہلک کلب فائر کے طور پر درجہ دیا گیا ہے۔یوٹیوب پر پہلی ویڈیو جاری23اپریل 2005ء کو یوٹیوب پر پہلی ویڈیو ''می ایٹ دی ذو‘‘ اپ لوڈ کی گئی۔ 19 سیکنڈ کی ویڈیو میں یوٹیوب کے شریک بانی جاوید کریم کو دکھایا گیا ہے، جن کی عمر اس وقت 25 سال تھی۔ جاوید کریم کیلیفورنیا کے سان ڈیاگو چڑیا گھر میں دو ہاتھیوں کے سامنے کھڑے ہیں۔ اسے کریم کے کیمرے پر اس کے ہائی سکول کے دوست یاکوف لیپٹسکی نے ریکارڈ کیا تھا۔ اسے ویب سائٹ کی تاریخ میں سب سے اہم ویڈیو کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ کئی مواقع پر جاوید کریم نے ویڈیو کو یوٹیوب کے کاروباری اقدامات پر تنقید کرنے کیلئے استعمال کیا ہے۔''سویوز 1‘‘ کی لانچنگ1967ء میں آج کے روز سوویت خلائی پروگرام ''سویوز 1‘‘ Soyuz-1)) کو لانچ کیا گیا۔ خلائی جہاز کرنل ولادیمیر کوماروف کو لے کر خلاء میں روانہ ہوا۔ ''سویوز 1‘‘ سویوز خلائی جہاز کی پہلی کریو فلائٹ تھی۔ پرواز تکنیکی مسائل سے دوچار ہوئی اور کوماروف اس وقت ہلاک ہو گیا جب ڈیسنٹ ماڈیول پیرا شوٹ کی خرابی کی وجہ سے زمین سے ٹکرا گیا۔ یہ خلائی پرواز کی تاریخ میں پرواز کے دوران ہونے والی پہلی ہلاکت تھی۔اصل مشن کا منصوبہ پیچیدہ تھا، جس میں ''سویوز2‘‘ کے ساتھ جڑنا اور زمین پر واپس آنے سے پہلے عملے کے ارکان کا تبادلہ شامل تھا۔ ویتنام جنگ : طلباء کا مظاہرہ1968ء میں ویتنام کی جنگ کے دوران آج کے روز نیو یارک شہر کی کولمبیا یونیورسٹی میں طلباء مظاہرین نے انتظامیہ کی عمارتوں پر قبضہ کر لیا اور یونیورسٹی کو بند کر دیا۔ کولمبیا یونیورسٹی میں مظاہروں کا سلسلہ اس سال دنیا بھر میں ہونے والے مختلف طلباء کے مظاہروں میں سے ایک تھا۔ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب طلباء نے یونیورسٹی اور ویتنام جنگ میں ریاستہائے متحدہ کی شمولیت کی حمایت کرنے والے ادارہ جاتی آلات کے درمیان روابط دریافت کیے اور ساتھ ہی قریبی مارننگ سائیڈ پارک میں تعمیر کیے جانے والے مبینہ طور پر الگ کیے گئے جمنازیم پر بھی ان کی تشویش پائی گئی۔ . مظاہروں کے نتیجے میں یونیورسٹی کی کئی عمارتوں پر طلباء کا قبضہ ہو گیا اور نیو یارک سٹی پولیس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے مظاہرین کو پرتشدد طریقے سے ہٹا دیا گیا۔