آسٹریلیا
لفظ ’’آسٹریلیا‘‘لاطینی زبان سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ’’جنوبی علاقہ‘‘ ہے۔یہ دنیا کا سب سے چھوٹا براعظم ہے جس کے کچھ جزائربحراوقیانوس اور بحر ہند میں بھی واقع ہیں۔انڈونیشیا،مشرقی تیمور اور نیوزی لینڈاس سرزمین کے ہمسایہ ممالک ہیں۔1901میں چھ خطوں پر مشتمل حکومتوں نے باہم مل جانے کا فیصلہ کیا اور یوں ’’دولت ہائے مشترکہ آسٹریلیا‘‘ وجود میں آئی۔ یہاں آزاد جمہوری سیاسی نظام ہے جس کے تحت ان چھ علاقوں کے عوام ایک ہی نام سے دنیا میں پہچانے جاتے ہیں۔آسٹریلیا کی آبادی کم و بیش 22,812,531افراد پر مشتمل ہے۔یہ ایک کثیرالقومی مملکت ہے جس میں متعددقبائل کے لوگ صدیوں سے رہائش پزیر ہیں۔یہ سرزمین زیادہ تر نیم صحرائی علاقے پر مشتمل ہے کہیں کہیں وسیع جنگلات بھی ہیں۔بیسویں صدی کے وسط سے اس خطے کی تہذیب امریکہ کے زیراثر ہے۔صدیوں قبل اس خطے کو جنوب مشرقی ایشیاسے آئے ہوئے ماہی گیروں نے آباد کیا۔یہ بنیادی طور پر شکاری لوگ تھے۔بعد کے آنے والے دنوں میںڈچ اور برطانوی سیاحوں نے بھی یہاں پڑاؤڈالے اور کچھ نے یہاں اپنا سکہ جمانے کی کوشش بھی کی۔26جنوری1788ء کو برطانیہ نے اسے اپنی باقائدہ کالونی قرار دے دیا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سے آسٹریلیااوربرطانیہ کے تعلقات کمزور پڑنے لگے اور یوں آسٹریلیااپنے دفاع کے لیے امریکہ کی چھتری تلے آنے پر مجبورہو گیا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہی آسٹریلیانے یورپیوںکے لیے اپنے ملک کے دروازے کھول دیے۔1970کے بعد آسٹریلیانے یورپیوں کے ساتھ ساتھ باسیان ایشیااور دنیا کے دیگر خطوں میں بسنے والوں کو بھی اپنی سرزمین پر خوش آمدید کہا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آسٹریلیاکی مملکت دنیا بھر کی تہذیبوں،مذاہب اور مختلف رنگ و نسل کے لوگوں کی آماجگاہ بن گئی۔ آسٹریلین ایکٹ 1986ء کی منظوری کے بعد برطانیہ سے آئینی تعلقات نہ ہونے کی حد تک رہ گئے اور برطانوی حکومت کا آسٹریلوی ریاستوں میںعمل دخل تقریباً ختم ہی ہوگیا۔آسٹریلیا دراصل ایک آئینی جمہوریہ ہے جووفاقی تقسیم اختیارات پر مشتمل ہے۔یہاں پارلیمانی نظام حکومت ہے۔ملکہ ایلزبتھ ثانی یہاں کی بادشاہی آئینی سربراہ ہے۔مرکز میں گورنرجنرل اورریاستوں میں گورنرزملکہ کے نمائندوں کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔اگرچہ آسٹریلیاکے گورنر جنرل کے پاس اختیارات موجود ہیں لیکن یہ صرف وزیراعظم کو مشورہ دینے کی حد تک ہی ہیںآسٹریلیا کا سرکاری مذہب کوئی نہیں۔سکول کی تعلیم پورے آسڑیلیامیں لازمی ہے جس کا دورانیہ 6سے 16سال کی عمر تک ہے۔اسی کے باعث یہاں کی شرح خواندگی 99%تک جا پہنچی ہے۔یہاں38کی تعدادمیں سرکاری جامعات ہیں اور بہت ساری نجی اداروں کے تحت چلنے والی جامعات بھی قائم ہیں جبکہ یہاں کی حکومت سرکاری اور نجی تمام جامعات کو اپنی طرف سے بھرپورمالی امداد مہیا کرتی ہے تاکہ تعلیم کا سلسلہ رکنے نہ پائے۔حکومت اپنی بنیادی آمدن کا 4.5%تعلیم پر خرچ کرتی ہے۔یہاں 92%سفید نسل کے لوگ اور 7%ایشیائی لوگ آباد ہیں 1%کچھ اور نسلوں کے لوگ بھی ملتے ہیں۔66%عیسائی،1.9%بدھ مت مذہب کے لوگ اور1.5%مسلمان آباد ہیں۔یہاں 461ہوائی اڈے موجود ہیںجس سے اس مملکت کی خوشحالی کا پتہ چلتا ہے۔یہاں کی افواج ’’آسٹریلین ڈیفنس فورس ‘‘کے نام سے جانی جاتی ہیںجبکہ دفاع پر ملکی آمدن کاصرف 2.4%خرچ کیا جاتا ہے۔آسٹریلیا میں اسلام کی آمدکا سراغ سترہویں صدی میں ملتا ہے جب انڈونیشین مسلمان تاجروں کے تعلقات اس خطے میں موجود لوگوں سے بڑھنے لگے۔اگرچہ اس سے پہلے بھی افریقی غلاموں کے ساتھ اسلام کے کچھ اثرات اس علاقے میں پہنچے تھے لیکن تاریخ نے انہیں محفوظ نہیں کیا۔تاہم 1860 میںافغانی باشندوں کی ایک کثیر تعدادشتربانی کی خاطر یہاں آئی ،انہوں نے یہاں مقامی افراد کے ہاں شادیاں کیں اور یوں مسلمانوں کی ایک نسل یہاں پروان چڑھنے لگی۔شاید انہی کی تعمیر کردہ آسٹریلیا کی پہلی اورقدیمی مسجد جنوبی آسٹریلیا میں آج بھی موجود ہے۔آسٹریلیا کے مسلمانوں نے متعدد تنظیمیں بھی قائم کر رکھی ہیں جو مسلمانوں کی جملہ ضروریات کاخیال رکھتی ہیں۔1963میں مسلمانوں کی تمام تنظیموں نے مل کر آسٹریلین فیڈریشن آف اسلامک سوسائٹیز کی بنیاد رکھی۔1976میں بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اس میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں اور ہر ریاست کے اندر اس تنظیم کو انتظامی اختیارات میں محدود آزادی دے دی گئی۔آسٹریلین فیڈریشن آف اسلامک کونسلزآسٹریلیا کے مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے جو ملک میں اور بیرون ملک وہاں کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے۔وہاں کی مقامی مسلمان تنظیمیں،علاقائی مسلمان تنظیمیںاورمرکزی مسلمان تنظیمیں سب کی سب رجسٹرڈ ہیں اور ان میں جمہوری شورائی اسلامی نظام نافذ ہے۔آسٹریلوی مسلمان جو اپنے ملک کے کثیرالقومی معاشرے کا حصہ ہیں وہ تمام آبادی کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اسلام کا مطالعہ کرے اوراس دین کو سمجھنے کی کوشش کرے۔یہاں کے مسلمان اپنے ملک کی ترقی میں اہم کردارادا کرتے ہیں۔آسٹریلوی قانون کے تحت مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے جس کے باعث انکی مذہبی تقریبات آسانی سے منعقد ہوتی ہیں۔ہر سال کثیر تعداد میںلوگ یہاں سے حج کرنے کے لیے حجازمقدس کا سفر بھی کرتے ہیں۔گیارہ ستمبر کے امریکی واقعہ کے بعد پوری دنیاکی طرح آسٹریلیاکے مسلمانوںکی بھی مشکلات میں اضافہ ہوگیالیکن وہاں کی حکومت نے اپنے ملک کے حالات بہت اچھے طریقے سے قابومیں کر لیے اور جنوری2007میں وہاں کے وزیرتعلیم نے اعلان کیاکہ ملک کی تین بڑی جامعات میں اسلامیات کی تعلیم کے بارے میں مراکزکھولے جائیں گے اوراس مقصد کے لیے حکومت نے ایک خطیررقم مختص کر دی۔اس سے پہلے دسمبر2005میں مسلمان نوجوانوں کا ایک میلہ بھی منعقدکیاگیااور مسلمان ائمہ کرام کی ایک کانفرنس بھی2006میں منعقدہوئی۔یہ تمام تقاریب بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے منعقدکرائی گئیں جس میں مسلمانوں کی تنظیم آسٹریلین فیڈریشن آف اسلامک سوسائٹیزنے بھی اپنا بھرپور کردار اداکیا۔بہرحال حالات جیسابھی رخ اختیارکریں اہل ایمان بہتے دریاکی طرح اپنا راستہ نکال لیتے ہیں۔٭…٭…٭