فرما کی لڑائی: جس کا فیصلہ بلیوں نے کیا!
قدیم مصر میں زندگی کی تمام صورتوں کا احترام کیا جاتا تھا۔ ان کے نزدیک زندگی دیوتاؤں کی عطا ہے اور اس کی تعظیم کا اطلاق بنی نوع انسان کے ساتھ تمام جانداروں پر ہوتا ہے۔ اگرچہ مصری کبھی کبھار گوشت کھاتے تھے اور شاہی خاندان کے لوگ شکار بھی کرتے تھے، لیکن مصری بنیادی طور پر سبزی یا مچھلی خور تھے، اور اس سے ان کے تمام زندہ اجسام کو مقدس خیال کرنے کی عکاسی ہوتی ہے۔ جب کبھی جانوروں کا گوشت کھایا جاتا تو قربانی دینے پر ان کا شکریہ ادا کیا جاتا۔ پالتو جانور زیادہ مقدس تھے، نیز جنگلی حیات کی عزت کی جاتی تھی۔ مصریوں میں ان کی قدر کا اظہار ثقافت سے مذہب تک، ہر جگہ ہوتا ہے البتہ اس کی واضح مثال 525 قبل مسیح کی فرما کی لڑائی (Battle of Pelusium) ہے۔ یہ فرعون پسامیٹیک سوم (Psametik III) اور فارس کے بادشاہ کمبوجیہ دوم کے درمیان فیصلہ کن معرکہ تھا جس کے نتیجے میں پہلی بار فارس نے مصر تسخیر کیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ حکمت عملی چاہے جو بھی اختیار کی جاتی، جنگ فارسیوں ہی نے جیتنی تھی، کیونکہ نوجوان فرعون پسامیٹیک سوم کی نسبت کمبوجیہ دوم (Cambyses II) جنگوں کا کہیں زیادہ تجربہ رکھتا تھا۔ البتہ اس کی جیت بحیثیت سالارِ جنگ کارکردگی سے زیادہ مصری ثقافت کے علم کے سبب ہوئی۔ کمبوجیہ دوم نے انتہائی غیرمعمولی حکمتِ عملی سے لڑائی کو جیتا: اس نے پکڑے گئے جانوروں بالخصوص بلیوں کو استعمال کیا۔ باسٹیٹ اور اس کی بلیاںبلیاں مصر میں مقبول پالتو جانور تھیں اور ان کا دیوی باسٹیٹ (جسے باسٹ بھی کہا جاتا ہے) سے قریبی رشتہ سمجھا جاتا تھا۔ مصری فنون میں یہ عورت کے جسم اور بلی کے سر کی صورت نظر آتی ہے یا پھر شاہانہ انداز میں بیٹھی ہوئی۔ یہ گھر، گھریلو زندگی، عورتوں کے رازوں، بلیوں، بارآوری اور بچوں کی پیدائش کی دیوی تھی۔ مصریوں کے عقیدے کے مطابق باسٹیٹ (Bastet) گھربار کو بدروحوں اور بیماریوں سے بچاتی تھی، خصوصاً وہ بیماریاں جو عورتوں اور بچوں کو ہوتی تھی۔ نیز مرنے کے بعد کی زندگی میں اس کا اہم کردار سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے سلسلۂ شاہی (لگ بھگ 2890-2670 قبل مسیح) کے بعد سے مصری مردوں اور عورتوں میں وہ انتہائی مقبول تھی اور کم از کم پانچویں صدی قبل مسیح سے اس کی پرستش کا مرکز شہر تل بسطہ تھا۔ اولاً اس کی نمائندگی شیر کے سر والی عورت کے طور پر کی گئی اور اس کا قریبی رشتہ انتقام پرور دیوی سیکمٹ سے جوڑا جاتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ دونوں کی راہیں جدا ہو گئیں اور باسٹیٹ کو اس کا ایک قریبی ساتھی سا تصور کیا جانے لگا جبکہ سیکمٹ آسمانی قہر کی قوت خیال کی جاتی رہی۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ باسٹیٹ ضرورت پڑنے پر انصاف یا غلط، صحیح نہیں کر سکتی تھی۔ ماہرِ مصریات گیرالڈین پِنچ لکھتے ہیں: ’’تحاریرِ ہرم‘‘(مصری کی قدیم ترین مذہبی تحریریں)کے بعد پرورش کرنے والی ماں اور خوفناک انتقال لینے والی کی حیثیت سے باسٹیٹ کے دو روپ تھے۔ ’’تابوتی تحاریر‘‘ (کافن ٹیکسٹس)، ’’کتاب الموت‘‘ (بُک آف دی ڈیتھ) اور طبی منتروں میں اس کے عفریتی پہلو نمایاں ہیں۔ ’’باسٹیٹ کے لیے قتال کرنے والے‘‘ انسانیت پر طاعون اور دیگر تباہیاں مسلط کرتے تھے۔‘‘بعض دیگر کاموں کے علاوہ بلیوں کو ضرر پہنچانے سے دیویوں کی گستاخی ہوتی تھی۔ قدیم مصر میں بلیوں کی قدرومنزلت اتنی تھی کہ انہیں مارنے کی سزا موت تھی۔ ہیروڈوٹس کے مطابق جلتی ہوئی عمارت میں اگر مصری پھنس جائیں تو بلیوں کو پہلے اور خود کو بعد میں بچائیں یا آگ سے نکالیں گے۔ ہیروڈوٹس مزید کہتا ہے اظہارِ غم کی خاطر ’’جس گھر میں بلی قدرتی موت مر جاتی اس گھر کے تمام افراد اپنی بھنویں مونڈ لیتے۔‘‘ انسانوں کی طرح بلیاں زیورات کے ساتھ حنوط کی جاتیں۔ کہا جاتا ہے کہ بلیاں باسٹیٹ پر اسی طرح قربان کی جاتی تھیں جس طرح (دیوتا) انوبس پر کتے۔ تاہم اس دعوے سے اختلاف کیا جاتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ تل بسطہ میں ملنے والی حنوط شدہ بلیاں قدرتی موت مری ہوںاور انہیں مقدس مقام پر دفن کرنے کے لیے لایا گیا ہو۔ یہ روایت ابیدوس میں انسانوں اور جانوروں کو اکٹھے دفن کرنے سے شروع ہوئی تاکہ وہ انوبس کے قریب رہیں۔ مصریوں میں جانوروں کا احترام بلیوں اور کتوں تک محدود نہیں تھا۔ بہت سے حنوط شدہ پالتو جانور ملے ہیں جن میں غزال، لنگور، پرندے اور یہاں تک کہ مچھلیاں شامل ہیں۔ دیویوں سے منسلک ہونے کی وجہ سے بعض جانور، جیسا کہ بلی اور کتا، خاص اہمیت رکھتے تھے اور مصری ثقافت کی یہی جانکاری تھی جس نے کمبوجیہ دوم کو فرما میں فتح سے ہم کنار کیا، گرچہ اس کا حریف جوان تھا یا مصری ’’شہنشاہتِ نو‘‘ (نیو کنگڈم) کے بعد بطور عالمی طاقت انحطاط پذیر تھے۔ مصر کا تیسرا عبوری دورمصر میں شہنشاہتِ نو کا دور (لگ بھگ 1570- 1069 قبل مسیح) تہذیب کے ہر میدان میں خوشحالی اور ترقی کا دور تھا۔ یہ سلطنت مصر کا وہ دور تھا جس میں اس کی سرحدیں وسیع ہوئیں اور خزانے کو بھرا گیا۔ اس دور کے معروف ترین حکمرانوں احمس اول، حٹشپسوٹ، ٹحوٹمس سوم، امنحوٹپ سوم، اخناٹون، نفرٹیٹی، ٹوٹن خامون، حور محب، سیٹی اول، رمسیس اعظم، نفرٹاری اور رمسیس سوم تمام کا تعلق شہنشاہتِ نو کی اشرافیہ سے تھا۔ البتہ اس دور میں دولت کی فراوانی اور کامیابی برقرار نہ رہی اور 1069 قبل مسیح تک سلطنت بکھرنے لگے اور اس عہد میں داخل ہو گئی جسے ماہرین ’’مصر کا تیسرا عبوری دور‘‘ (1069-525 قبل مسیح) کہتے ہیں۔ اس دور کی خصوصیات مضبوط مرکزی حکومت کی غیرموجودگی، خانہ جنگی اور سماجی عدم استحکام ہیں لیکن یہ اتنا تاریک اور بھیانک دور نہیں تھا جتنا شروعاتی ماہرینِ مصریات نے دعویٰ کیا تھا۔ بہرحال ملک شہنشاہتِ نو جتنا مضبوط یا عسکری قوت ہرگز نہیں تھا۔ 22 ویں سلسلۂ شاہی کے اواخر میں خانہ جنگی نے مصر کو تقسیم کر دیا تھا اور 23ویں تک ملک شاہی کے دعوے داروں میں تقسیم ہو گیا تھا جن کی خودساختہ حکومتیں ہیراکلیوپولس، ٹانس، ہیرموپولس، میمفیس اور سایس تک تھیں۔ اس تقسیم کی وجہ سے ملک کا متحدہ دفاع ناممکن تھا اور اس نے جنوب سے نباطی مداخلت کی راہ ہموار کی۔ اس کے بعد 24 ویں اور 25 ویں سلسلۂ شاہی کو نباطی حاکمیت میں متحدہ کردیا گیا اور یہ کامیاب رہا، لیکن ملک اتنا طاقت ور نہیں تھا کہ پہلے آسرحادون کے تحت 671/670 قبل مسیح میں اور پھر آشوربانیپال کے تحت 666 قبل مسیح میں آشوریوں کے حملوں کا مقابلہ کر سکے۔ اگرچہ آشوریوں کو نکال دیا گیا لیکن مصریوں کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ وہ فارسیوں کے آگے ٹھہر سکیں۔ کموجیہ دوم اور اماسیس 26ویں سلسلۂ شاہی کے فرعون اماسیس (جسے احموس دوم بھی کہا جاتا ہے، 570-526 قبل مسیح) اپنے دور کے عظیم ترین حاکموں میں شمار ہوتاہے اور اس نے مصر کی سابقہ عظمت اور عسکری وقار کو کچھ بحال کیا۔ وہ مصری تاریخ کے آخری مؤثر حکمرانوں میں سے ہے، البتہ ہیروڈوٹس پر اعتبار کیا جائے تو فارس کی مداخلت پر منتج ہونے والے مسئلے کی ابتدا اسی نے کی۔ ہیروڈوٹس کے مطابق کموجیہ دوم نے اماسیس کی طرف سے بے عزتی کیے جانے کے بعد مصر پر حملہ کیا۔ کمبوجیہ دوم نے اماسیس کو لکھا کہ وہ اپنی ایک بیٹی کی شادی اس سے کر دے لیکن اماسیس ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا، اس نے اپنے پیشرو اپریس کی بیٹی کو بھیج دیا۔ اس فیصلے پر اس جواں عورت کی تذلیل ہوئی کیونکہ روایت یہ تھی کہ مصری عورتوں کو غیرملکی بادشاہوں کو نہیں دیا جاتا تھا۔ جب وہ کمبوجیہ دوم کے دربار میں پہنچی تو اس نے اپنی اصل شناخت ظاہر کر دی۔ کمبوجیہ دوم نے اماسیس پر ’’جعلی بیوی‘‘ بھیجنے کا الزام لگایا اور جنگ کے لیے فوج جمع کرنا شروع کر دی۔ چاہے یہ کہانی سچی ہو یا نہ ہو، بہرحال فارسیوں نے مصر پر حملہ کر دیا۔ آشوری قابل ازیں ساتویں صدی قبل مسیح کے اواخر میں یہ ملک فتح کر چکے تھے اور مصری فوج بلادالرافدین (میسوپوٹمیا) کے بہتر ہتھیاروں اور حکمتِ عملی سے قطعاً مقابلہ نہ کر پائی تھی۔ فارسی اپنی سلطنت کو وسعت دے رہے تھے اور انہیں مصر پر سابقہ فتح اور شہنشاہتِ نو کی طرح دفاع کرنے میں مصریوں کی نااہلیت کا پتا ہو گا، پس انہوں نے بلاجھجک مداخلت شروع کر دی۔ جنگ کی تیاری اگر ہیروڈوٹس کی بات کو درست مان لیا جائے تو بے عزتی اور جنگ کے درمیان اماسیس کا انتقال ہو گیا اور وہ اپنا ملک پسامیٹیک سوم (جسے پسامیٹیکس بھی کہا جاتا ہے) کے ہاتھوں میں دے گیا۔ یہ جوان زیادہ تر اپنے والدین کی عظیم کامیابیوں کے سائے میں رہا تھا اور دشمن قوت سے نمٹنے کے لیے بمشکل تیار تھا۔ جب فارسیوں کی تیاری کی خبر اس تک پہنچی تو اس نے اپنے تئیں دفاع اور جنگ کے لیے پوری کوشش اور تیاری کی۔ وہ اتحادی یونانیوں کے معاونین پر انحصار کر رہا تھا جو اسے بے یارومددگار چھوڑ گئے۔ وہ ہالیکارناسوس کے فانس (اس کے والد کا مشیر) کی عسکری مشاورت سے محروم ہو گیا تھا کیونکہ وہ فارسیوں کی طرف چلا گیا تھا۔ لہٰذا اس بحران سے پسامیٹیک سوم نے خود ہی نمٹنا تھا۔ پسامیٹیک سوم نے دریائے نیل کے دہانے کے نزدیک فرما کے مقام پر قلعہ بندی کر لی اور فارس کے حملے کا انتظار کرنے لگا۔ اسی کے ساتھ محاصرہ ہونے کی صورت میں اپنے دارالحکومت میمفیس کے جمے رہنے کی تیاری کرتا رہا۔ فرما کا قلعہ مضبوط تھا اور یہاں سامانِ ضرورت کا ذخیرہ موجود تھا۔ صرف چھ ماہ قبل ہی حاکم بننے والے اس نوجوان فرعون کو یقین ہوگا کہ وہ حملہ آوروں کو پسپا کر دے گا۔ لیکن پسامیٹیک سوم کو کمبوجیہ دوم کی چالاکی کا اندازہ نہیں تھا۔ جنگ اور اس کے بعددوسری صدی عیسوی کے لکھاری پولیاینوس نے ’’عسکری حکمت عملیاں‘‘ میں کمبوجیہ دوم کی سوچ بیان کی ہے۔ اسے اس نے جنگی مہمات میں مارکوس اوریلیوس اور ویروس کی معاونت کے خیال سے لکھا تھا۔ پولیاینوس وضاحت کرتا ہے کہ مصری کس طرح کامیابی سے فارسیوں کے قدموں کو روک رہے تھے جب کمبوجیہ دوم نے اچانک تدبیر بدل دی۔ شاہ فارس اہل مصر کے بلیوں کے لیے احترام سے واقف تھا اور اس کے سپاہیوں کی ڈھالوں پر باسٹیٹ کی تصاویر بنی ہوئی تھیں، علاوہ ازیں ’’اگلی صف سے پیچھے اس نے کتوں، بھیڑوں، بلیوں ، لق لق اور مصریوں کو جو بھی جانور عزیز تھے، ان کی قطار باندھی ہوئی تھی‘‘ (پولیاینوس VII.9)۔ پسامیٹیک سوم کے تحت مصریوں نے اپنی محبوب دیویوں کو دشمن کی ڈھالوں پر دیکھ کر اور اس خوف سے کہ لڑائی سے دشمن کے پیچھے موجود جانوروں کو نقصان پہنچے گا، اپنے مقام چھوڑ دیے اور میدان میں جنگ ہار گئے۔ بہت ساروں کا میدان میں قتل عام ہوا اور ہیروڈوٹس بتاتا ہے کہ اس نے کئی برس بعد تک ان کی ہڈیاں ریت میں دیکھیں، یہاں تک کہ اس نے فارسی اور مصری ڈھانچے پر بھی تبصرے کیے ہیں۔ جو مصری بچ گئے وہ جان بچانے کے لیے میمفیس فرار ہو گئے ۔ فارس کی فوج ان کے پیچھے تھی۔ محاصرے کے بعد نسبتاً تھوڑے وقت میں میمفیس پر قبضہ ہو گیا۔ پسامیٹیک سوم کو قید کر لیا گیا اور کمبوجیہ دوم نے اس سے خاصا اچھا سلوک کیا۔ پھر اس نے سرکشی کی کوشش کی اور مار دیا گیا۔ فارس کا کمبوجیہ دومسو مصر کی خودمختاری کا خاتمہ ہو گیا اور اسے فارس میں ضم کر دیا گیا۔ بعدازاں یہ کچھ مزید ہاتھوں میں رہنے کے بعد روم کا صوبہ بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ کے بعد کمبوجیہ دوم نے شکست خوردہ مصریوں کے چہروں پر حقارت سے بلیاں پھینکیں کہ انہوں نے عام سے جانوروں کے لیے اپنی آزادی اور تحفظ کا سودا کر دیا۔ تاہم یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ کمبوجیہ دوم کی جو تصویر ہیروڈوٹس نے پیش کی ہے اس سے اختلاف بھی کیا جاتا ہے۔ فارسیوں کو ناپسند کرنے والے یونانی لکھاری کمبوجیہ دوم کو عام طور پر ظالم اور لاپروا بادشاہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کمبوجیہ دوم نے مقدس بیل آپیس کو مار دیا تھا اور اس کی بے سری لاش کو گلی میں پھینک دیا تھا۔ اس نے پورے مصر میں مذہبی رسومات و روایات پر پابندی لگا دی تھی۔ کمبوجیہ دوم کو نقش نگاری اور فنون میں مصری ثقافت و مذہب کی تحسین کرتے دکھایا گیا ہے، اور اس کے کاموں میں میمفیس کی تعمیرِ نو اور فارس کا صوبائی دارالحکومت بنائے رکھنا شامل ہیں۔ ان کی بنیاد پر بعض مصنفین اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ یہ حقیقت کہ اس نے ان کی اقدار کو جنگ میں انہیں کے خلاف استعمال کیا اس کے کمال کو ظاہر کرتے ہیں؛ وہ جانتا تھا کہ مصریوں کا ردعمل کیا ہوگا ، انہوں نے ویسا ہی کیا کیونکہ وہ کچھ اور کر نہیں سکتے ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ عقیدے کو چھوڑنے سے بہتر ہے ہتھیار ڈال دیے جائیں۔ فرما کی لڑائی کے بعد فارسیوں نے 27 ویں اور 31 ویں سلسلۂ شاہی میں مصر پر حکومت کی اور 28 ویں سے 30 ویں تک جب انہیں نکالا دیا گیا تب بھی وہ مستقل خطرہ بنے رہے۔ فارس کی جیت کے بعد مصری مختصر عرصے کے لیے خودمختار قوم رہے۔ سکندرِاعظم 331 قبل مسیح میں اپنی فوجوں کے ساتھ آیا اور اس سرزمین کو فتح کر لیا۔ 30 قبل مسیح میںجب تک روم نے اسے اپنے اندر ضم نہیں کیا یہ یونانی بادشاہوں کے زیرنگیں رہی۔ پولیانیوس بتاتا ہے کہ کمبوجیہ دوم کی چالاکی سے کس طرح مصر کی فتح کی راہ ہموار ہوئی۔ وہ مزید کہتا ہے کہ جنگ میں کبھی اپنی طاقت اور اپنی دیویوں پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے بلکہ کسی بھی ہنگامی صورت حال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اگرچہ یہ اچھی نصیحت لگتی ہے لیکن مصریوں کی جانب سے کسی بھی قیمت پر سمجھوتا نہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ثقافت کی تعریف اس قدر کیوں ہوتی ہے اور ان کی تہذیب اتنی پُراثر کیوں ہے۔ (ترجمہ: رضوان عطا)