فرما کی لڑائی: جس کا فیصلہ بلیوں نے کیا!

 فرما کی لڑائی: جس کا فیصلہ بلیوں نے کیا!

اسپیشل فیچر

تحریر : جوشا جے مارک


قدیم مصر میں زندگی کی تمام صورتوں کا احترام کیا جاتا تھا۔ ان کے نزدیک زندگی دیوتاؤں کی عطا ہے اور اس کی تعظیم کا اطلاق بنی نوع انسان کے ساتھ تمام جانداروں پر ہوتا ہے۔ اگرچہ مصری کبھی کبھار گوشت کھاتے تھے اور شاہی خاندان کے لوگ شکار بھی کرتے تھے، لیکن مصری بنیادی طور پر سبزی یا مچھلی خور تھے، اور اس سے ان کے تمام زندہ اجسام کو مقدس خیال کرنے کی عکاسی ہوتی ہے۔ جب کبھی جانوروں کا گوشت کھایا جاتا تو قربانی دینے پر ان کا شکریہ ادا کیا جاتا۔ پالتو جانور زیادہ مقدس تھے، نیز جنگلی حیات کی عزت کی جاتی تھی۔ مصریوں میں ان کی قدر کا اظہار ثقافت سے مذہب تک، ہر جگہ ہوتا ہے البتہ اس کی واضح مثال 525 قبل مسیح کی فرما کی لڑائی (Battle of Pelusium) ہے۔ یہ فرعون پسامیٹیک سوم (Psametik III) اور فارس کے بادشاہ کمبوجیہ دوم کے درمیان فیصلہ کن معرکہ تھا جس کے نتیجے میں پہلی بار فارس نے مصر تسخیر کیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ حکمت عملی چاہے جو بھی اختیار کی جاتی، جنگ فارسیوں ہی نے جیتنی تھی، کیونکہ نوجوان فرعون پسامیٹیک سوم کی نسبت کمبوجیہ دوم (Cambyses II) جنگوں کا کہیں زیادہ تجربہ رکھتا تھا۔ البتہ اس کی جیت بحیثیت سالارِ جنگ کارکردگی سے زیادہ مصری ثقافت کے علم کے سبب ہوئی۔ کمبوجیہ دوم نے انتہائی غیرمعمولی حکمتِ عملی سے لڑائی کو جیتا: اس نے پکڑے گئے جانوروں بالخصوص بلیوں کو استعمال کیا۔ باسٹیٹ اور اس کی بلیاںبلیاں مصر میں مقبول پالتو جانور تھیں اور ان کا دیوی باسٹیٹ (جسے باسٹ بھی کہا جاتا ہے) سے قریبی رشتہ سمجھا جاتا تھا۔ مصری فنون میں یہ عورت کے جسم اور بلی کے سر کی صورت نظر آتی ہے یا پھر شاہانہ انداز میں بیٹھی ہوئی۔ یہ گھر، گھریلو زندگی، عورتوں کے رازوں، بلیوں، بارآوری اور بچوں کی پیدائش کی دیوی تھی۔ مصریوں کے عقیدے کے مطابق باسٹیٹ (Bastet) گھربار کو بدروحوں اور بیماریوں سے بچاتی تھی، خصوصاً وہ بیماریاں جو عورتوں اور بچوں کو ہوتی تھی۔ نیز مرنے کے بعد کی زندگی میں اس کا اہم کردار سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے سلسلۂ شاہی (لگ بھگ 2890-2670 قبل مسیح) کے بعد سے مصری مردوں اور عورتوں میں وہ انتہائی مقبول تھی اور کم از کم پانچویں صدی قبل مسیح سے اس کی پرستش کا مرکز شہر تل بسطہ تھا۔ اولاً اس کی نمائندگی شیر کے سر والی عورت کے طور پر کی گئی اور اس کا قریبی رشتہ انتقام پرور دیوی سیکمٹ سے جوڑا جاتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ دونوں کی راہیں جدا ہو گئیں اور باسٹیٹ کو اس کا ایک قریبی ساتھی سا تصور کیا جانے لگا جبکہ سیکمٹ آسمانی قہر کی قوت خیال کی جاتی رہی۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ باسٹیٹ ضرورت پڑنے پر انصاف یا غلط، صحیح نہیں کر سکتی تھی۔ ماہرِ مصریات گیرالڈین پِنچ لکھتے ہیں: ’’تحاریرِ ہرم‘‘(مصری کی قدیم ترین مذہبی تحریریں)کے بعد پرورش کرنے والی ماں اور خوفناک انتقال لینے والی کی حیثیت سے باسٹیٹ کے دو روپ تھے۔ ’’تابوتی تحاریر‘‘ (کافن ٹیکسٹس)، ’’کتاب الموت‘‘ (بُک آف دی ڈیتھ) اور طبی منتروں میں اس کے عفریتی پہلو نمایاں ہیں۔ ’’باسٹیٹ کے لیے قتال کرنے والے‘‘ انسانیت پر طاعون اور دیگر تباہیاں مسلط کرتے تھے۔‘‘بعض دیگر کاموں کے علاوہ بلیوں کو ضرر پہنچانے سے دیویوں کی گستاخی ہوتی تھی۔ قدیم مصر میں بلیوں کی قدرومنزلت اتنی تھی کہ انہیں مارنے کی سزا موت تھی۔ ہیروڈوٹس کے مطابق جلتی ہوئی عمارت میں اگر مصری پھنس جائیں تو بلیوں کو پہلے اور خود کو بعد میں بچائیں یا آگ سے نکالیں گے۔ ہیروڈوٹس مزید کہتا ہے اظہارِ غم کی خاطر ’’جس گھر میں بلی قدرتی موت مر جاتی اس گھر کے تمام افراد اپنی بھنویں مونڈ لیتے۔‘‘ انسانوں کی طرح بلیاں زیورات کے ساتھ حنوط کی جاتیں۔ کہا جاتا ہے کہ بلیاں باسٹیٹ پر اسی طرح قربان کی جاتی تھیں جس طرح (دیوتا) انوبس پر کتے۔ تاہم اس دعوے سے اختلاف کیا جاتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ تل بسطہ میں ملنے والی حنوط شدہ بلیاں قدرتی موت مری ہوںاور انہیں مقدس مقام پر دفن کرنے کے لیے لایا گیا ہو۔ یہ روایت ابیدوس میں انسانوں اور جانوروں کو اکٹھے دفن کرنے سے شروع ہوئی تاکہ وہ انوبس کے قریب رہیں۔ مصریوں میں جانوروں کا احترام بلیوں اور کتوں تک محدود نہیں تھا۔ بہت سے حنوط شدہ پالتو جانور ملے ہیں جن میں غزال، لنگور، پرندے اور یہاں تک کہ مچھلیاں شامل ہیں۔ دیویوں سے منسلک ہونے کی وجہ سے بعض جانور، جیسا کہ بلی اور کتا، خاص اہمیت رکھتے تھے اور مصری ثقافت کی یہی جانکاری تھی جس نے کمبوجیہ دوم کو فرما میں فتح سے ہم کنار کیا، گرچہ اس کا حریف جوان تھا یا مصری ’’شہنشاہتِ نو‘‘ (نیو کنگڈم) کے بعد بطور عالمی طاقت انحطاط پذیر تھے۔ مصر کا تیسرا عبوری دورمصر میں شہنشاہتِ نو کا دور (لگ بھگ 1570- 1069 قبل مسیح) تہذیب کے ہر میدان میں خوشحالی اور ترقی کا دور تھا۔ یہ سلطنت مصر کا وہ دور تھا جس میں اس کی سرحدیں وسیع ہوئیں اور خزانے کو بھرا گیا۔ اس دور کے معروف ترین حکمرانوں احمس اول، حٹشپسوٹ، ٹحوٹمس سوم، امنحوٹپ سوم، اخناٹون، نفرٹیٹی، ٹوٹن خامون، حور محب، سیٹی اول، رمسیس اعظم، نفرٹاری اور رمسیس سوم تمام کا تعلق شہنشاہتِ نو کی اشرافیہ سے تھا۔ البتہ اس دور میں دولت کی فراوانی اور کامیابی برقرار نہ رہی اور 1069 قبل مسیح تک سلطنت بکھرنے لگے اور اس عہد میں داخل ہو گئی جسے ماہرین ’’مصر کا تیسرا عبوری دور‘‘ (1069-525 قبل مسیح) کہتے ہیں۔ اس دور کی خصوصیات مضبوط مرکزی حکومت کی غیرموجودگی، خانہ جنگی اور سماجی عدم استحکام ہیں لیکن یہ اتنا تاریک اور بھیانک دور نہیں تھا جتنا شروعاتی ماہرینِ مصریات نے دعویٰ کیا تھا۔ بہرحال ملک شہنشاہتِ نو جتنا مضبوط یا عسکری قوت ہرگز نہیں تھا۔ 22 ویں سلسلۂ شاہی کے اواخر میں خانہ جنگی نے مصر کو تقسیم کر دیا تھا اور 23ویں تک ملک شاہی کے دعوے داروں میں تقسیم ہو گیا تھا جن کی خودساختہ حکومتیں ہیراکلیوپولس، ٹانس، ہیرموپولس، میمفیس اور سایس تک تھیں۔ اس تقسیم کی وجہ سے ملک کا متحدہ دفاع ناممکن تھا اور اس نے جنوب سے نباطی مداخلت کی راہ ہموار کی۔ اس کے بعد 24 ویں اور 25 ویں سلسلۂ شاہی کو نباطی حاکمیت میں متحدہ کردیا گیا اور یہ کامیاب رہا، لیکن ملک اتنا طاقت ور نہیں تھا کہ پہلے آسرحادون کے تحت 671/670 قبل مسیح میں اور پھر آشوربانیپال کے تحت 666 قبل مسیح میں آشوریوں کے حملوں کا مقابلہ کر سکے۔ اگرچہ آشوریوں کو نکال دیا گیا لیکن مصریوں کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ وہ فارسیوں کے آگے ٹھہر سکیں۔ کموجیہ دوم اور اماسیس 26ویں سلسلۂ شاہی کے فرعون اماسیس (جسے احموس دوم بھی کہا جاتا ہے، 570-526 قبل مسیح) اپنے دور کے عظیم ترین حاکموں میں شمار ہوتاہے اور اس نے مصر کی سابقہ عظمت اور عسکری وقار کو کچھ بحال کیا۔ وہ مصری تاریخ کے آخری مؤثر حکمرانوں میں سے ہے، البتہ ہیروڈوٹس پر اعتبار کیا جائے تو فارس کی مداخلت پر منتج ہونے والے مسئلے کی ابتدا اسی نے کی۔ ہیروڈوٹس کے مطابق کموجیہ دوم نے اماسیس کی طرف سے بے عزتی کیے جانے کے بعد مصر پر حملہ کیا۔ کمبوجیہ دوم نے اماسیس کو لکھا کہ وہ اپنی ایک بیٹی کی شادی اس سے کر دے لیکن اماسیس ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا، اس نے اپنے پیشرو اپریس کی بیٹی کو بھیج دیا۔ اس فیصلے پر اس جواں عورت کی تذلیل ہوئی کیونکہ روایت یہ تھی کہ مصری عورتوں کو غیرملکی بادشاہوں کو نہیں دیا جاتا تھا۔ جب وہ کمبوجیہ دوم کے دربار میں پہنچی تو اس نے اپنی اصل شناخت ظاہر کر دی۔ کمبوجیہ دوم نے اماسیس پر ’’جعلی بیوی‘‘ بھیجنے کا الزام لگایا اور جنگ کے لیے فوج جمع کرنا شروع کر دی۔ چاہے یہ کہانی سچی ہو یا نہ ہو، بہرحال فارسیوں نے مصر پر حملہ کر دیا۔ آشوری قابل ازیں ساتویں صدی قبل مسیح کے اواخر میں یہ ملک فتح کر چکے تھے اور مصری فوج بلادالرافدین (میسوپوٹمیا) کے بہتر ہتھیاروں اور حکمتِ عملی سے قطعاً مقابلہ نہ کر پائی تھی۔ فارسی اپنی سلطنت کو وسعت دے رہے تھے اور انہیں مصر پر سابقہ فتح اور شہنشاہتِ نو کی طرح دفاع کرنے میں مصریوں کی نااہلیت کا پتا ہو گا، پس انہوں نے بلاجھجک مداخلت شروع کر دی۔ جنگ کی تیاری اگر ہیروڈوٹس کی بات کو درست مان لیا جائے تو بے عزتی اور جنگ کے درمیان اماسیس کا انتقال ہو گیا اور وہ اپنا ملک پسامیٹیک سوم (جسے پسامیٹیکس بھی کہا جاتا ہے) کے ہاتھوں میں دے گیا۔ یہ جوان زیادہ تر اپنے والدین کی عظیم کامیابیوں کے سائے میں رہا تھا اور دشمن قوت سے نمٹنے کے لیے بمشکل تیار تھا۔ جب فارسیوں کی تیاری کی خبر اس تک پہنچی تو اس نے اپنے تئیں دفاع اور جنگ کے لیے پوری کوشش اور تیاری کی۔ وہ اتحادی یونانیوں کے معاونین پر انحصار کر رہا تھا جو اسے بے یارومددگار چھوڑ گئے۔ وہ ہالیکارناسوس کے فانس (اس کے والد کا مشیر) کی عسکری مشاورت سے محروم ہو گیا تھا کیونکہ وہ فارسیوں کی طرف چلا گیا تھا۔ لہٰذا اس بحران سے پسامیٹیک سوم نے خود ہی نمٹنا تھا۔ پسامیٹیک سوم نے دریائے نیل کے دہانے کے نزدیک فرما کے مقام پر قلعہ بندی کر لی اور فارس کے حملے کا انتظار کرنے لگا۔ اسی کے ساتھ محاصرہ ہونے کی صورت میں اپنے دارالحکومت میمفیس کے جمے رہنے کی تیاری کرتا رہا۔ فرما کا قلعہ مضبوط تھا اور یہاں سامانِ ضرورت کا ذخیرہ موجود تھا۔ صرف چھ ماہ قبل ہی حاکم بننے والے اس نوجوان فرعون کو یقین ہوگا کہ وہ حملہ آوروں کو پسپا کر دے گا۔ لیکن پسامیٹیک سوم کو کمبوجیہ دوم کی چالاکی کا اندازہ نہیں تھا۔ جنگ اور اس کے بعددوسری صدی عیسوی کے لکھاری پولیاینوس نے ’’عسکری حکمت عملیاں‘‘ میں کمبوجیہ دوم کی سوچ بیان کی ہے۔ اسے اس نے جنگی مہمات میں مارکوس اوریلیوس اور ویروس کی معاونت کے خیال سے لکھا تھا۔ پولیاینوس وضاحت کرتا ہے کہ مصری کس طرح کامیابی سے فارسیوں کے قدموں کو روک رہے تھے جب کمبوجیہ دوم نے اچانک تدبیر بدل دی۔ شاہ فارس اہل مصر کے بلیوں کے لیے احترام سے واقف تھا اور اس کے سپاہیوں کی ڈھالوں پر باسٹیٹ کی تصاویر بنی ہوئی تھیں، علاوہ ازیں ’’اگلی صف سے پیچھے اس نے کتوں، بھیڑوں، بلیوں ، لق لق اور مصریوں کو جو بھی جانور عزیز تھے، ان کی قطار باندھی ہوئی تھی‘‘ (پولیاینوس VII.9)۔ پسامیٹیک سوم کے تحت مصریوں نے اپنی محبوب دیویوں کو دشمن کی ڈھالوں پر دیکھ کر اور اس خوف سے کہ لڑائی سے دشمن کے پیچھے موجود جانوروں کو نقصان پہنچے گا، اپنے مقام چھوڑ دیے اور میدان میں جنگ ہار گئے۔ بہت ساروں کا میدان میں قتل عام ہوا اور ہیروڈوٹس بتاتا ہے کہ اس نے کئی برس بعد تک ان کی ہڈیاں ریت میں دیکھیں، یہاں تک کہ اس نے فارسی اور مصری ڈھانچے پر بھی تبصرے کیے ہیں۔ جو مصری بچ گئے وہ جان بچانے کے لیے میمفیس فرار ہو گئے ۔ فارس کی فوج ان کے پیچھے تھی۔ محاصرے کے بعد نسبتاً تھوڑے وقت میں میمفیس پر قبضہ ہو گیا۔ پسامیٹیک سوم کو قید کر لیا گیا اور کمبوجیہ دوم نے اس سے خاصا اچھا سلوک کیا۔ پھر اس نے سرکشی کی کوشش کی اور مار دیا گیا۔ فارس کا کمبوجیہ دومسو مصر کی خودمختاری کا خاتمہ ہو گیا اور اسے فارس میں ضم کر دیا گیا۔ بعدازاں یہ کچھ مزید ہاتھوں میں رہنے کے بعد روم کا صوبہ بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ کے بعد کمبوجیہ دوم نے شکست خوردہ مصریوں کے چہروں پر حقارت سے بلیاں پھینکیں کہ انہوں نے عام سے جانوروں کے لیے اپنی آزادی اور تحفظ کا سودا کر دیا۔ تاہم یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ کمبوجیہ دوم کی جو تصویر ہیروڈوٹس نے پیش کی ہے اس سے اختلاف بھی کیا جاتا ہے۔ فارسیوں کو ناپسند کرنے والے یونانی لکھاری کمبوجیہ دوم کو عام طور پر ظالم اور لاپروا بادشاہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کمبوجیہ دوم نے مقدس بیل آپیس کو مار دیا تھا اور اس کی بے سری لاش کو گلی میں پھینک دیا تھا۔ اس نے پورے مصر میں مذہبی رسومات و روایات پر پابندی لگا دی تھی۔ کمبوجیہ دوم کو نقش نگاری اور فنون میں مصری ثقافت و مذہب کی تحسین کرتے دکھایا گیا ہے، اور اس کے کاموں میں میمفیس کی تعمیرِ نو اور فارس کا صوبائی دارالحکومت بنائے رکھنا شامل ہیں۔ ان کی بنیاد پر بعض مصنفین اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ یہ حقیقت کہ اس نے ان کی اقدار کو جنگ میں انہیں کے خلاف استعمال کیا اس کے کمال کو ظاہر کرتے ہیں؛ وہ جانتا تھا کہ مصریوں کا ردعمل کیا ہوگا ، انہوں نے ویسا ہی کیا کیونکہ وہ کچھ اور کر نہیں سکتے ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ عقیدے کو چھوڑنے سے بہتر ہے ہتھیار ڈال دیے جائیں۔ فرما کی لڑائی کے بعد فارسیوں نے 27 ویں اور 31 ویں سلسلۂ شاہی میں مصر پر حکومت کی اور 28 ویں سے 30 ویں تک جب انہیں نکالا دیا گیا تب بھی وہ مستقل خطرہ بنے رہے۔ فارس کی جیت کے بعد مصری مختصر عرصے کے لیے خودمختار قوم رہے۔ سکندرِاعظم 331 قبل مسیح میں اپنی فوجوں کے ساتھ آیا اور اس سرزمین کو فتح کر لیا۔ 30 قبل مسیح میںجب تک روم نے اسے اپنے اندر ضم نہیں کیا یہ یونانی بادشاہوں کے زیرنگیں رہی۔ پولیانیوس بتاتا ہے کہ کمبوجیہ دوم کی چالاکی سے کس طرح مصر کی فتح کی راہ ہموار ہوئی۔ وہ مزید کہتا ہے کہ جنگ میں کبھی اپنی طاقت اور اپنی دیویوں پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے بلکہ کسی بھی ہنگامی صورت حال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اگرچہ یہ اچھی نصیحت لگتی ہے لیکن مصریوں کی جانب سے کسی بھی قیمت پر سمجھوتا نہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ثقافت کی تعریف اس قدر کیوں ہوتی ہے اور ان کی تہذیب اتنی پُراثر کیوں ہے۔ (ترجمہ: رضوان عطا)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
یادرفتگاں: علاؤالدین :عوامی اداکار

یادرفتگاں: علاؤالدین :عوامی اداکار

پاکستان میں جن فنکاروں کے فلمی کریئر انتہائی قابل رشک رہے، ان میں ایک بہت بڑا نام اداکار علاؤالدین کا تھا۔ایک ایکسٹرا اور معاون اداکار سے چوٹی کے ولن شمار ہوئے۔ پھر مرکزی کرداروں سے ہوتے ہوئے ہیرو بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ تاریخی ، سماجی اور اصلاحی فلموں میں بھاری بھر کم سے ہلکے پھلکے کامیڈی رول تک کئے۔ بیک وقت ہیرو، ولن، کیریکٹرایکٹر اور کامیڈین کے روپ میں نظر آنے والے پہلے فنکار تھے۔ ساٹھ کا عشرہ تو علاؤالدین کے نام تھا وہ جس فلم میں ہوتے ، اس میں باقی اداکاروں کی حیثیت ثانوی ہوتی تھی۔ لیجنڈ کی حیثیت رکھنے والے علائوالدین 2فروری 1920ء کو راولپنڈی کے ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کا پورا نام علائوالدین بٹ تھا۔ ان کے والد فیروز الدین بٹ راولپنڈی کی ایک معزز شخصیت تھے۔ علائوالدین نے ابتدائی تعلیم راولپنڈی کے گورنمنٹ سکول سے حاصل کی۔ 1940ء میں وہ راولپنڈی سے گلوکار بننے کیلئے ممبئی پہنچے۔ ان کی گلوکار بننے کی کوششیں تو کامیاب نہ ہو سکیں لیکن اس دوران اس کی ملاقات نامور ہدایتکار اے آر کاردار سے ہوئی جن کا تعلق لاہور سے تھا۔انہوں نے انہیں اداکار بننے کا مشورہ دیا۔ انہیں 1940ء میں سب سے پہلے فلم پریم نگر‘‘ میں کاسٹ کیا گیا۔ پھر 1941ء میں پنجابی فلم کزماتی‘‘ میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ 1942ء میں نئی دنیا‘‘ اور 1943ء میں سنجوگ ‘‘ میں کام کیا۔ اس کے بعد انہوں نے 1948ء میں دلیپ کمار اور نرگس کی مشہور زمانہ فلم ''میلہ‘‘ میں اداکاری کی۔اس فلم میں وہ صرف 28 برس کی عمر میں نرگس کے باپ کے کردار میں جلوہ گر ہوئے تھے۔ان کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔ پھر وہ پاکستان آ گئے اور یہاں کئی عشروں تک اپنے آپ کو ایک ورسٹائل اداکار کے طور پر منوایا۔ انہیں فلمی صنعت میں ''پا جی‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔انہوں نے اردو اور پنجابی، دونوں زبانوں کی فلموں میں صلاحیتوں کو منوایا۔ ان کی مقبولیت کی وجہ سے انہیں عوامی اداکار‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ پاکستان میں سب سے پہلے علاؤالدین نے نذیر کی پنجابی فلم ''پھیرے‘‘ میں ولن کے طور پر کام کیا۔ یہ پاکستان کی نہ صرف پہلی پنجابی فلم تھی بلکہ کامیاب ترین فلم تھی۔سورن لتا اور نذیر نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ سورن لتا اور نذیر کی دوسری پنجابی فلم ''لارے‘‘ میں بھی علاؤالدین نے ولن کا کردار ادا کیا۔ ولن کے طور پر انہوں نے محبوبہ، محفل، انوکھی، وعدہ، مجرم، مکھڑا، چھومنتر، پینگاں، پلکاں، دربار اور آخری نشان میں بھی کام کیا۔''باغی‘‘ فلم کا تذکرہ بہت ضروری ہے۔ یہ فلم خالصتاً ویسٹرن سٹائل میں بنائی گئی اور اس میں سدھیر، مسرت نذیر اور یاسمین نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ یہ سلطان راہی کی بھی پہلی فلم تھی جس میں وہ ایکسٹرا کے طور پر سامنے آئے تھے۔ بعد میں پھر یہی سلطان راہی عروج کے آسمان تک جا پہنچے۔'' پتن‘‘ ان کی بڑی فلم تھی جس میں انہوں نے ولن کا نیم مزاحیہ کردار انتہائی مہارت سے نبھایا اس میں وہ استاد روح کھچ بنے تھے جو بے تکی شاعری کرتا ہے۔ ان پر فلمائے گئے ایک گیت کو بے بدل موسیقار بابا جی اے چشتی نے مختلف دھنوں میں پیش کیا۔ ''پتن‘‘ وہ فلم ہے جس پر پاکستانی پنجابی سینما ہمیشہ ناز کرتا رہے گا۔ 1953میں ''شہری بابو‘‘ ریلیز ہوئی یہ بھی نذیر کی فلم تھی زبیدہ خانم کو اسی فلم سے بریک ملا۔ یہ فلم سپرہٹ ثابت ہوئی اور اس میں بھی علائوالدین نے خوبصورت اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ عنایت حسین بھٹی کا گایا ہوا یہ گیت ''بھاگاں والیو نام جپو مولانا نام نام‘‘انتہائی مقبول ہوا۔ اس کے بعد علائوالدین نے پاٹے خان، دلا بھٹی اور حمیدہ میں بھی بہت شاندار اداکاری کی۔ حمیدہ میں انہوں نے ایک افیمی کا مزاحیہ اور منفی کردار نہایت خوبصورتی سے نبھایا۔یہ فلم اپنی کمزور موسیقی کے باوجود کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔1959میں ''کرتار سنگھ‘‘ ریلیز ہوئی جس نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ ''کرتار سنگھ ‘‘کو پنجابی فلموں کی سرتاج فلم قرار دیا جاتا ہے۔ سیف الدین سیف کی اس فلم میں علائوالدین نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا کردار ادا کیا ۔کہا جاتا ہے کہ بھارتی پنجاب میں یہ فلم تین سال تک نمائش پذیر رہی۔فلم ''سلمیٰ ‘‘ میں بھی ان کی اداکاری بہت پسند کی گئی۔ریاض شاہد کی فلم ''سسرال‘‘ علائوالدین کی ناقابل فراموش فلم ہے۔ انہوں نے اس فلم میں لازوال اداکاری کی۔'' سسرال‘‘ کو پاکستان کی بہترین آرٹ فلم بھی قرار دیا جاتا ہے۔اس فلم کے ایک گیت ''جس نے میرے دل کو درد دیا‘‘ کی پکچرائزیشن علائوالدین نے اتنی خوبصورتی سے کرائی کہ لوگ عش عش کر اٹھے۔ پھر ''شہید ‘‘نے بھی علائوالدین کے قد میں اضافہ کیا۔1963ء میں شباب کیرانوی کی مشہور زمانہ فلم ''تیس مار خان‘‘ ریلیزہوئی۔ اس فلم کے بارے میں شباب صاحب کو خدشات لاحق تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس فلم کا باکس آفس پر کامیاب ہونا مشکل تھا علائوالدین کے ساتھ ایک نئی ہیروئن تھی جس کا نام شیریں تھا۔سب فلمیں توقعات کے برعکس سپرہٹ ثابت ہوئی۔ علائوالدین کی اداکاری کو بہت پذیرائی ملی۔ولن سے ہیرو بننا پھر کامیڈی ہیرو اور پھر کریکٹر ایکٹر کی حیثیت سے کام کرنا ایک بالکل انوکھی بات تھی۔علاؤالدین نے تاریخی کرداروں میں بھی بڑا متاثر کیا۔ فلم ''شہید ‘‘(1962ء) میں ایک عرب شیخ ، فلم ''فرنگی‘‘ (1964ء) میں ایک باغی درویش ، فلم ''نظام لوہار‘‘ (1966ء) میں ایک ڈاکو ، فلم ''زرقا‘‘ (1969ء) میں ایک فلسطینی مجاہد لیڈر اور فلم ''یہ امن‘‘ (1971ء) میں ایک کشمیری حریت پسند کے روپ میں زبردست کردارنگاری کی۔ علائوالدین کی دیگر مشہور فلموں میں ''یتیم، جگری یار، بائوجی ،لاڈو ،مہندی، گناہگار، ایک سی چور ،غیرت تے قانون، بدنام ، خلش، انمول ،تلاش ،امرائو جان ادا اوربے مثال‘‘ شامل ہیں۔''پھنے خان، لاڈو، زرقا، بے مثال اور بدنام‘‘ میں بھی ان کی اداکاری قابل دید تھی۔ اردو فلموں میں اگر کسی فلم کے مکالمے عوامی سطح پر مقبول ہوئے تھے تو وہ اس فلم کے تھے جنھیں ریاض شاہد نے لکھا تھا ۔''بدنام‘‘ کا ان کا یہ مکالمہ تو ابھی تک لوگوں کو یاد ہے ''کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے ،کون لایا ہے یہ جھمکے‘‘۔ اس فلم میںعلاؤالدین پر مسعودرانا کا سب سے یادگار ترین گیت ''کوئی ساتھ دے کہ نہ ساتھ دے ‘‘ فلمایا گیا تھا۔اس فلم میں علاؤالدین کی کردارنگاری ضرب المثل بن گئی تھی جس نے انھیں ایک لیجنڈ کا مقام دے دیا تھا۔ یاد رہے کہ فلم ''بدنام ‘‘ کو روس کی 17 مختلف زبانوں میں ڈب کر کے نمائش کیلئے پیش کیا گیا تھا اور وہاں یہ فلم بے حد پسند کی گئی تھی۔چالیس سالہ فلمی کریئر میں انہوں نے مجموعی طور پر 319فلموں میں کام کیا جن میں 194فلمیں اردو زبان میں تھیں جبکہ 125 فلمیں پنجابی تھیں۔ فی الحقیقت علائوالدین ایک بڑے ہی باکمال اداکار تھے جنہوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبان کی فلموں میں اپنے بے مثال فن کا ڈنکابجایا۔13مئی 1983ء کو یہ عدیم النظیر اداکار عالم جاودواں کو سدھار گیا ان کی موت کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کا نوجوان بیٹا ایک حادثے میں جاں بحق ہو گیا تھا۔جوان بیٹے کی موت کا صدمہ علائوالدین کیلئے جان لیوا ثابت ہوا برصغیر پاک و ہند کی فلمی تاریخ کے آسمان پر وہ ہمیشہ ایک روشن ستارے کی طرح جگمگاتے رہیں گے۔

روم میں قتل عام

روم میں قتل عام

1527ء وہ سال ہے، جب اٹلی کے شہر روم میں خونریزی ہوئی اور پورے شہر کو تاخت و تاراج کردیا گیا۔ اسے ''سیک آف روم‘‘ (Sack of Rome) کہا جاتا ہے ۔ یہ واقعہ کیو ں پیش آیا اور اس کے محرکات کیا تھے؟ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو جنگوں کا مقصد علاقوں پر قبضہ کرنا ، نوآبادیاں بنانا ، وسائل پر قبضہ اور طاقت میں اضافہ کرنا تھا۔ یہی کچھ روم میں ہوا۔ ظاہر ہے جنگ میں ایک فریق فتح سے ہمکنار ہوتا ہے جبکہ دوسرا شکست کے اندھیروں میں گم ہوجاتا ہے۔ اس جنگ میں دوسری طرف پوپ اور اس کے اتحادی شامل تھے ۔ پوپ کلیمنٹ ہفتم کے اتحادیوں میں فرانس شامل تھا۔ دراصل پوپ نے غیر دانش مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے ایک اتحاد بنایا جس کا نام ''دی لیگ آف کوگینک‘‘ تھا۔اس کا مقصد چارلس کی اٹلی میں برتری کو چیلنج کرنا تھا۔ روم پر شہنشاہ کے احکامات پر حملہ نہیں کیا گیا بلکہ یہ قدم شاہی فوجی دستوں نے خود اٹھایا تھا۔ ان فوجیوں میں جرمنی کے کرائے کے فوجی اور سپین کے فوجی شامل تھے جنہوں نے بغاوت کا علم بلند کیا۔ ان کی کمانڈ فرانسیسی اشرافیہ کا باغی رکن ڈیوک آف بوربن کررہا تھا۔ روم کی دیواروں کا اچھی طرح دفاع نہیں کیا گیا۔ شہر کی فوج صرف آٹھ ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ ان میں دو ہزار سوئس گارڈ بھی شامل تھے جو پوپ کی بڑی فوجی طاقت تھے۔ 6 مئی 1527ء کو شاہی فوج نے بھرپور حملہ کیا۔ انہیں توپوں کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن یہ فوج بڑی بے جگری سے لڑی۔ ڈیوک آف بوربن کو گولی مارکر ہلاک کردیا گیا لیکن جن افراد کی اس نے قیادت کی انہوں نے شہر کو تاخت و تاراج کردیا۔ انہیں جو نظر آیا اسے موت کی وادی میں اتار دیا۔ سوئس گارڈز سینٹ پیٹر چرچ کے تحفظ کیلئے بڑی بہادری سے لڑے اور پوپ کلیمنٹ کے فرار کیلئے ایک سرنگ کھودی لیکن آخر اسے پکڑ لیا گیا۔ 6جون کو کلیمنٹ نے ہتھیار ڈال دیئے اور وہ اپنی زندگی کے بدلے بھاری تاوان دینے پر آمادہ ہوگیا۔ شرائط میں کئی دوسرے علاقے بھی رومن سلطنت کے حوالے کرنا تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب وینس نے صورت حال کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور سرویا اور ریونیا پر قبضہ کرلیا۔ اس جنگ کے بعد اٹلی کا نشاۃ ثانیہ کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ اس جنگ میں قتل عام کیا گیا اور پورا شہر تباہ کردیا گیا۔ تقریباََ پنتالیس ہزار شہری موت کے گھاٹ اتار ے گئے۔ کئی زخمی ہوئے اور کئی ہزار جلاوطن بھی ہوئے۔ بے شمار لوگ بیماریوں کی وجہ سے بھی ہلاک ہوئے۔ طاعون پھیل گیا جس نے ان گنت لوگوں کی جان لے لی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ جس بہادری اور پامردی سے سوئس گارڈز نے روم میں پوپ کا تحفظ کیا اس کی یاد میں ہر سال 6مئی کو سوئس گارڈز میں تازہ دم نوجوان بھرتی کئے جاتے ہیں ۔ اس طرح ان سوئس گارڈز کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ۔ آج بھی اس بات پر اتفاق رائے کیا جاتا ہے کہ روم پر حملے کی اصل وجہ پوپ کلیمنٹ کا وہ غلط فیصلہ تھا جس کی وجہ سے اتحاد معرض وجود میں آیا تھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پوپ چارلس پنجم کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے پر کیوں تلا ہوا تھا؟ بات پھر اقتدار کے استحکام اور غلبے کی آرزو پر ختم ہوتی ہے ۔ شاید انسان اپنی جبلت کے ہاتھوں مجبور ہے لیکن وہ اپنے انجام سے بے خبر کیوں ہوتا ہے ۔ آخر کیوں؟ 

کیا آپ یادداشت بڑھانا چاہتے ہیں؟

کیا آپ یادداشت بڑھانا چاہتے ہیں؟

انسان کی عمر جیسے جیسے بڑھے، اس کی یادداشت کمزور ہو جاتی ہے، لیکن ہر شخص احتیاطی تدابیر اپنا کر اپنی یادداشت کو طویل عرصہ تک برقرار رکھ سکتا ہے۔ ان تدابیر کو اختیار کرنا چنداں مشکل نہیں جو درج ذیل ہیں:دماغ مضبوط کرنیوالی غذائیں:ان غذائوں میں وہ سرفہرست ہیں جن میں اومیگا3فیٹس، گلوکوز (ثابت اناج) اور اینٹی آکسیڈنٹس پائے جاتے ہیں۔ مزیدبراں دن میں پانچ چھ بار کھانا کھائیے۔ وجہ یہ ہے کہ وقفے وقفے سے تھوڑا کھانا کھانے سے خون میں گلوکوز کی سطح برقرار رہتی ہے اور دماغ بنیادی طور پر گلوکوز ہی سے توانائی حاصل کرتا ہے۔دماغ کو مصروف رکھیے:ایسی سرگرمیاں اپنائیے جن سے دماغ کی ورزش ہومثلاً معمے حل کیجیے اور کراس ورڈ پزل کھیلیں۔ ان سرگرمیوں سے دماغ کی ورزش ہوتی ہے اور وہ چاق چوبند رہتا ہے۔ جسم کو فٹ رکھیے:روزانہ صبح سویرے یا شام کو تیز چہل قدمی کیجیے اور بدن پھیلانے والی ورزش کیجیے۔ ان ورزشوں کے ذریعے نہ صرف دماغ کا سفید مادہ بڑھتا ہے بلکہ مزید نیورون کنکشن بھی جنم لیتے ہیں۔ دبائو نہ بڑھنے دیں: ورزش سے ذہنی و جسمانی دبائو کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ دراصل اس دبائو کے باعث جسم میں کورٹیسول کیمیائی مادہ پیدا ہوتا ہے جو دماغ کے مراکز یادداشت کو سکیڑ دیتا ہے۔ مزیدبراںعبادت اور مراقبہ بھی یادداشت بڑھانے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ فولاد کی سطح چیک کریں:ہمارے دماغ کے خصوصی خلیے نیوروٹرانسمیٹر ہماری یادداشت عمدہ حالت میں رکھتے ہیں۔ اور یہ خود فولاد کے ذریعے توانا رہتے ہیں۔ لہٰذا اپنے بدن میں اس اہم معدن کی کمی نہ ہونے دیجیے۔ جن مرد و زن میں فولاد کی کمی ہو، وہ عموماً بھلکڑ بن جاتے ہیں۔ایک وقت میں ایک کام:کئی مرد و زن ٹی وی پر خبریں سنتے ہوئے کھانا کھاتے اور کبھی کبھی تو اخبار بھی پڑھنے لگتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یوں انہیں سنی گئی خبریں یاد رہتی ہیں اور نہ ہی پڑھا گیا مواد۔ یہ کھانے کا صحت بخش طریقہ بھی نہیں۔دراصل جب ہم ایک وقت میں دو یا زائد کام کریں، تو دماغ پروسیسنگ کا عمل ایسے علاقوں میں منتقل کر دیتا ہے جو تفصیل سے یادیں محفوظ نہیں کرتے۔ لیکن ایک وقت میں ایک کام کیا جائے، تو دماغ اس کی جزئیات تک محفوظ رکھتا ہے۔ کولیسٹرول پر قابو پائیے:انسانی جسم میں کولیسٹرول کی زیادتی بڑا خطرناک عمل ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف دل کی شریانوں میں چربی جمتی ہے۔ بلکہ دماغ میں بھی خون کی نسوں میں لوتھڑے جنم لیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے دماغ کو قیمتی غذائیت نہیں ملتی اور بتدریج یادداشت جاتی رہتی ہے۔ واضح رہے، دماغ میں تھوڑی سی چربی بھی نسیں بند کر ڈالتی ہے۔ لہٰذا اپنا کولیسٹرول اعتدال پر رکھیے۔ ادویہ پر نظر رکھیں:کئی ادویہ انسانی یادداشت پر منفی اثرات ڈالتی ہیں اور ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ انسان جتنا بوڑھا ہو، دوا اتنی ہی دیر تک اس کے بدن میں رہتی ہے۔ نظام یادداشت پر اثرانداز ہونے والی ادویہ میں اینٹی ڈیپریسنٹ، بیٹابلاکرز، کیموتھراپی، پارکنسن مرض کی دوائیں، نیند آور، دردکش، اینٹی ہسٹامائنز اور سٹاٹینس شامل ہیں۔ ایک سیب روزانہ کھائیے:سیب میں شامل ضد تکسیدی مادوں کی بلند مقدار زیادہ ایسیٹلکولین (Acetylcholine) کیمیائی مادہ پیدا کرتی ہے۔ دماغ میں ملنے والا یہ نیورو ٹرانسمیٹر عمدہ یادداشت کے لیے لازمی ہے۔ مزیدبرأں درج بالا ضد تکسیدی مادے دماغ کو مضرصحت آزاد اصلیوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ 

بحیرہ کیسپین زمین پر پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ

بحیرہ کیسپین زمین پر پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ

بحیرہ کیسپین جو یورپ اور ایشیا کے درمیان واقع ہے، اس زمین پر پانی کا سب سے بڑا اندرونی حصہ ہے۔ اس کی سرحدیں روس، ایران، قازقستان، آذربائیجان اور ترکمانستان سے ملتی ہیں۔ اس بحیرہ کو ایران میں ''بحیرہ قزوین‘‘ بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ نام ایران کے شہر قزوین کے نام سے موسوم ہے جو اس کے جنوبی ساحل کے قریب واقع ہے۔ انگریزی میں اس بحیرہ کو ''بحیرہ کیسپین‘‘ کہتے ہیں۔ یہ بحیرہ دراصل رقبے اور حجم کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی جھیل ہے جس کا رقبہ 3 لاکھ 71 ہزار مربع کلومیٹر ہے جبکہ حجم 78 ہزار 200 مکعب کلومیٹر ہے۔ یہ ایشیا اور یورپ کے درمیان چاروں طرف خشکی سے گھرا خطہ آب ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 3363 فٹ ہے۔ کیسپین سمندر یا جھیل؟جہاں تک اس بحیرہ کی ساخت اور قانونی حیثیت کا تعلق ہے، وہ انتہائی دلچسپ ہے۔ قانونی طور پر اس بحیرہ کو مکمل طور پر نہ تو جھیل کے طور پرجانا جاتا ہے اور نہ ہی ایک سمندر کے طور پر۔ بعض ماہرین ارضیات کے مطابق یہ ایک سمندر ہے جبکہ کچھ ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ بحیرہ کیسپین میں جھیل اور سمندر دونوں کے خواص پائے جاتے ہیں۔ اکثر اسے دنیا کی سب سے بڑی نمکین جھیل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بحث شاید کبھی اتنی اہمیت اختیار نہ کرتی اگر عالمی قوانین میں سمندروں اور جھیلوں کے متعلق الگ الگ قوانین نہ ہوتے۔ اقوام متحدہ میں سمندروں سے متعلق قوانین میں ساحل، سمندر، جزائر، آبی حیات اور قدرتی وسائل پر حقوق و حدود کی تقسیم الگ الگ ہے جبکہ جھیلوں کے قوانین اور اصول الگ ہیں۔ بحیرہ کیسپین دراصل رقبے اور حجم کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ اسے سمندر تصور کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ جب رومی اس خطے میں پہلی مرتبہ آئے اور انہوں نے یہاں کا پانی چکھا تو انہوں نے کہا کہ یہ ایک سمندر ہے کیونکہ عام طور پر سمندر کے پانی کی یہ پہچان ہوتی ہے کہ اس کا پانی نمکین ہوتا ہے۔ اس وقت سے یہ خیال زور پکڑ گیا کہ یہ ایک سمندر ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اکثر و بیشتر ہر دور میں یہ بحث سر اٹھاتی رہی کہ کیا واقعی یہ ایک سمندر ہے یا بہت بڑی جھیل؟ ''بحیرہ کیسپین‘‘ کی قانونی حیثیت اس کی سرحد سے ملحقہ پانچوں ممالک کے درمیان ایک لمبے عرصہ تک متنازعہ بنی رہی ہے۔ 12اگست 2019ء میں مذکورہ پانچوں ممالک کے مابین ایک طویل بحث کے بعد یہ طے پایا کہ اسے ایک سمندر قرار دیا جائے جس کے بعد اس کی سطح بین الاقوامی پانی کہلائے گی چنانچہ اس کا نچلا حصہ ہر ایک ملک کو اس کی علاقائی حدود کے مطابق دے دیا جائے جس سے وہ بھر پور استفادہ حاصل کر سکیں گے۔ پانچوں مذکورہ ملکوں کے درمیان اس معاہدے کو ''بحیرہ کیسپین کی قانونی دستاویز‘‘ کا نام دیا گیا، جو بنیادی طور پر اس سمندر سے متصل ممالک کے حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ معاہدہ باہمی سلامتی، وسائل اور ماحولیاتی تحفظ سمیت دیگر مشترکہ مسائل بارے ایک دوسرے سے تعاون کا احاطہ بھی کرتا ہے۔ خطے کی تاریخ اور جغرافیہبحیرہ کیسپین ہزاروں سالوں سے انسانی معاشرت میں اہم کردار ادا کرتا آرہا ہے۔ یہ قدیم شاہراہ ریشم کے دور میں تجارت کا ایک بڑا مرکز رہا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ تاریخی اعتبار سے یہ کئی اہم جنگوں اور سیاسی واقعات کا مرکز بھی رہا ہے۔ آئیے بحیرۂ کیسپین کی تاریخ اور جغرافیہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ بحیرہ کیسپین کے خطے کو مورخین تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔پہلا حصہ '' مائیوسین ‘‘کہلاتا ہے، جو دو کروڑ تیس لاکھ سال قبل شروع ہوتا ہے اور 53 لاکھ سال پہلے تک موجود پایا گیا تھا ۔ دوسرا دور وسط حیاتی یعنی ''پلیئسٹوسین‘‘ دور کہلاتا ہے جو 25 لاکھ 80ہزارسال قبل سے 11700سال پہلے تک موجود پایا جاتا تھا جسے عرف عام میں برفانی دور کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ مورخین اور محققین کے مطابق بحیرہ کیسپین کے علاقے میں انسان نما مخلوق ، جنہیں بن مانس کہا جاتا ہے، کی 18 لاکھ سال قبل کی آبادیوں کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ اس کے بعد آثار قدیمہ کے ماہرین کو جارجیا اور آذربائیجان کے غاروں سے جو ڈھانچے ملے تھے وہ موجودہ انسانی نسل سے مشابہت رکھتے تھے۔یہ دور بنیادی طور پر اوّلین انسانی آبادکاری کا دور تھا۔جارجیا کے غاروں سے ''نینڈر تھل‘‘ کی جو باقیات ملی تھیں ان سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ دراصل آج سے 11ہزار سال قبل یہاں انسانی آبادکاری کا عمل شروع ہو گیا تھا۔بحیرہ کیسپین اتنا اہم کیوں؟بحیرہ کیسپین نایاب آبی پودوں، آبی مخلوق کے ساتھ ساتھ فاسل ایندھن اور انواع و اقسام کی معدنیات سے مالا مال بہت بڑا ایک ذخیرہ آب ہے۔ بحیرہ کیسپین دنیا بھر میں خام تیل کی پیداوار اور فراہمی میں اہم سمجھا جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ حال فاسل ایندھن کا بھی ہے جبکہ یہاں 10 ویں صدی عیسوی سے ہی خام تیل کے کنوئیں کھودے جا رہے ہیں۔ کیسپین ممالک بالخصوض قازقستان، ترکمانستان اور آذربائیجان کی معیشتیں قدرتی وسائل جن میں تیل اور قدرتی گیس سرفہرست ہے پر انحصار کرتی ہیں۔ اس کا اندازہ ان اعداد وشمار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ مذکورہ تینوں ممالک کی جی ڈی پی کا 10فیصد اور برآمدات کا 40فیصد حصہ تیل اور گیس پر مشتمل ہے۔ ایران معدنی ایندھن سے مالا مال ملک ہے۔ اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایران کے پاس 137 ارب بیرل سے زیادہ خام تیل کے ذخائر ہیں جو دنیا بھر کے ذخائر میں چوتھے نمبر پر ہیں جبکہ ایران روزانہ 40 لاکھ بیرل خام تیل نکالتا ہے۔اس کیساتھ ساتھ ایران کے پاس 988 کھرب مکعب فٹ سے زیادہ قدرتی گیس کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔روس معدنیات اور توانائی جیسے قدرتی وسائل سے ایک مالامال ملک ہے بلکہ ماہرین کے مطابق روس معدنیات اور قدرتی وسائل کے لحاظ سے دنیا بھر میں سرفہرست ہے۔ روس خام تیل کی پیداوار میں دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ روسی معیشت دنیا بھر میں جی ڈی پی کے لحاظ سے 12 ویں نمبر پر جبکہ قوت خرید کے اعتبار سے چھٹے نمبر پر ہے۔ بحیرہ کیسپین شمالاً جنوباً 1200 کلومیٹر لمبا جبکہ اس کی چوڑائی 320 کلو میٹر پر محیط ہے۔ اس کی سطح، سطح سمندر سے 27 فٹ نیچے ہے۔ اس میں میٹھے پانی کا بڑا ذریعہ یورپ کا سب سے طویل دریا، دریائے وولگا ہے، جس کا 80 فیصد پانی اسی بحیرہ میں گرتا ہے۔بحیرہ کیسپین نایاب نباتات، آبی اور جنگلی حیات کے اعتبار سے بھی ایک مالا مال ملک ہے۔ کیسپین کچھوے، زیبرا، گھونگے بحیرہ کیسپین اور بحر اسود میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سمندری بگلے، مرغابی اور متعدد نایاب پرندوں کا یہ علاقہ گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ ان سب سے نایاب واحد پستانیہ جانور ''کیسپین سیل‘‘ ہے جسے عرف عام میں سمندری بچھڑا بھی کہتے ہیں پایا جاتا ہے۔ سمندری علوم کے ماہرین کے مطابق ایک صدی قبل اس نایاب نسل کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہوا کرتی تھی جو اب موسمیاتی تبدیلیوں اور آبی آلودگی کے سبب کم ہو کر دس فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔بحیرہ کیسپین اور اس کے معاون دریاوں میں 160 اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔جن میں سٹرگن، سنہری الماس اور بیلوگا نامی نایاب مچھلیاں بھی انہی پانیوں میں ملتی ہیں، جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ ان کے قیمتی انڈے جنہیں ''خاویار‘‘ کہا جاتا ہے کی اشرفیہ میں بہت مانگ ہے۔ ماہرین کے مطابق ''سنہری الماس‘‘ کے انڈوں کی عالمی مارکیٹ میں فی کلو گرام قیمت چالیس لاکھ روپے فی کلوگرام تک ہوتی ہے۔مسائل اور چیلنجز4800 کلومیٹر طویل ساحل کے حامل اس خطے میں قازقستان 1422 کلومیٹر، ترکمانستان 1035 کلومیٹر، آذربائیجان 813 کلومیٹر، روس 747 کلومیٹر جبکہ ایران 728 کلومیٹر کا دعویدار ہے۔2000ء سے جوں جوں یہاں قدرتی وسائل کی دریافتیں زور پکڑتی گئیں، ان پانچوں ممالک کے درمیان مختلف سرحدی، ماحولیاتی اور تزویراتی اختلافات بھی بڑھتے چلے گئے جس کی وجہ سے یہاں علاقائی ترقی رکی ہوئی ہے۔

دلچسپ معلومات سی ٹی سکین کیا ہے؟

دلچسپ معلومات سی ٹی سکین کیا ہے؟

سی ٹی (کمپیوٹرائزڈ ٹوموگرافی) سکین میں ایکس رے اور کمپیوٹر کی مدد سے جسم کے اندرونی حصے کی تفصیلی تصویر حاصل کی جاتی ہے۔ اس عمل کو ہسپتالوں وغیرہ میں تربیت یافتہ افراد سرانجام دیتے ہیں جنہیں ریڈیو گرافر کہا جاتا ہے۔ ضرورت: سی ٹی سکین سے جسم کے اندرونی ڈھانچوں جن میں داخلی اعضا، خون کی شریانیں اور ہڈیاں شامل ہیں، کی تفصیلی تصویر حاصل کی جاتی ہے۔ انہیں مندرجہ ذیل صورتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ تشخیص: اس میں ہڈیوں کو پہنچنے والا نقصان، داخلی اعضا کے زخم، خون کی روانی کے مسائل، سٹروک (دماغ کے کسی حصے کو خون کی فراہمی بند ہونا) اور سرطان شامل ہیں۔ مزید ٹیسٹوں یا علاج کیلئے رہنمائی: مثلاً سی ٹی سکین کو ریڈیوتھراپی سے قبل کسی گلٹی یا ٹیومر کے مقام، حجم اور شکل کے بارے میں جاننے، یا نیڈل سے بائیوپسی (جس میں بافت کے چھوٹے حصے کو نکالا جاتا ہے) میں ڈاکٹر کی مدد کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ حالت کی نگرانی: مثلاً کینسر کے علاج کے دوران یا اس کے بعد کسی گلٹی کے حجم میں ہونے والے اضافے کی نگرانی کرنا۔ اگر علامات نہ ہوں تو عموماً سی ٹی سکین نہیں کیا جاتا، دوسرے لفظوں میں یہ ''سکریننگ‘‘ کی طرح نہیں۔ تیاری: ماہر آپ کو بتا دے گا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ سی ٹی سکین سے اچھی تصویر حاصل کرنے کیلئے آپ کو کئی گھنٹوں تک کھانا نہ کھانے کا مشورہ دیا جائے۔ اگر آپ کو کسی قسم کی الرجی ہے یا گردوں کا کوئی مسئلہ ہے، یا آپ ذیابیطس کیلئے کوئی دوا لے رہے ہیں تو ہسپتال میں متعلقہ افراد کو ضرور بتائیں تاکہ اسی مناسبت سے اہتمام کیا جا سکے۔ ناگزیر حالات کے علاوہ حاملہ خواتین کا سی ٹی سکین نہیں ہوتا۔ ایسی خواتین کو اپنی حالت کے بارے لازماً مطلع کرنا چاہیے۔ سی ٹی سکین کیلئے کھلے اور آرام دہ کپڑے پہننا مناسب رہتا ہے۔ زیورات اور دھات کی کوئی شے نہ پہنیں۔ پہننے کی صورت میں انہیں اتارنا پڑے گا۔ سکین سے قبل آپ کو بہتر تصویر کیلئے کوئی مادہ دیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کو سکین کرانے سے خوف آتا ہے یا تشویش ہوتی ہے تو ریڈیوگرافر کو بتائیں۔ وہ آپ کو پرسکون کرنے کیلئے مشورہ دے گا۔ ہو سکتا ہے کہ دوا دینے کی ضرورت پیش آئے۔ سکین کیلئے خصوصی کپڑے پہننے کا کہا جا سکتا ہے۔ سکین کے دوران آپ ایک سیدھے بستر پر لیٹ جاتے ہیں جو سی ٹی سکینر کے اندر جاتا ہے۔ اس دوران آپ کو ایک ہی حالت میں رہنا چاہیے اور نارمل سانس لینا چاہیے۔ کسی لمحے آپ کو سانس لینے، نکالنے یا روکنے کا کہا جا سکتا ہے۔ سکین میں عموماً 10 سے 20 منٹ لگتے ہیں۔ اس کے بعد آپ گھر اور کام پر جا سکتے ہیں، کھا اور پی سکتے ہیں۔ ڈرائیونگ بھی کر سکتے ہیں۔ سکین کے بعد نتائج میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ کمپیوٹر معلومات کو پراسس کرتا ہے۔ ریڈیالوجسٹ ان کا تجزیہ کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ ایک رپورٹ لکھتا ہے جو ڈاکٹر کے پاس جاتی ہے۔ عام طور پر سی ٹی سکین مختصر، تکلیف کے بغیر اور محفوظ ہوتے ہیں۔ تاہم بعض اوقات سکین سے قبل دیے گئے مادے سے الرجی کا امکان ہوتا ہے۔ سی ٹی سکینر اس طرح ڈیزائن کیے جاتے ہیں کہ تابکاری کی سطح زیادہ نہ ہو۔ عموماً سی ٹی سکین سے اتنی ہی تابکاری جسم پر ڈالی جاتی ہے جتنی قدرتی ماحول میں چند ماہ یا سالوں کے دوران پڑتی ہے۔٭...٭...٭  

حکایت سعدیؒ :زخمی درویش

حکایت سعدیؒ :زخمی درویش

بیان کیا جاتا ہے، ایک درویش سمندر کے کنارے اس حالت میں زندگی گزار رہا تھا کہ اس کے جسم پر چیتے کے ناخنوں کا لگا ہوا ایک زخم ناسور بن چکا تھا۔ اس ناسور کی وجہ سے درویش بہت تکلیف میں مبتلا تھا۔ مگر اس حالت میں بھی وہ اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا۔اس سے سوال کیا گیا کہ اے مرد خدا! یہ شکر کرنے کا کونسا موقع ہے؟ درویش نے جواب دیا، میں اس بات کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مصیبت میں مبتلا ہوں معصیت میں نہیں۔ تو نے سنا نہیں کہ اللہ والے گناہ کے مقابلے میں مصائب کو پسند کرتے ہیں۔ جب عزیز مصر کی بیوی زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل خانے میں ڈلوا دینے کی دھمکی دی تو انھوں نے فرمایا تھا کہ اے اللہ، مجھے قید کی مصیبت اس گناہ کے مقابلے میں قبول ہے جس کی طرف مجھے بلایا جا رہا ہے۔ درویش نے مزید کہاکہ اللہ والوں کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر حالت میں اپنے رب کو راضی رکھنے کی تمنا کرتے ہیں۔مجھے قتل کرنے کا دیں حکم اگر نہ ہو گا مجھے اپنی جاں کا ملالمیں سوچوں گا کیوں مجھ سے ناراض ہیں ستائے گا ہر وقت بس یہ خیالاس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے انسان کے اس بلند مرتبے کا حال بیان کیا ہے جب وہ ہر بات کو من جانب اللہ خیال کرتا ہے اور ہر وقت اس خیال میں رہتا ہے کہ میرا خدا مجھ سے کس طرح راضی ہو گا، یہی وہ روحانی منزل ہے جب انسان کو سچااطمینان اور سچی راحت حاصل ہوتی ہے۔ اور وہ خوف اور غم سے پاک ہو جاتا ہے۔