"ABA" (space) message & send to 7575

دُعا

اس کالج میں دِیر کا نواب زادہ‘ کالا باغ کی نواب زادی‘ ایک وزیر اعظمِ پاکستان کا بیٹا‘ دوسرے وزیرِ اعظم کا بھتیجا‘ ایک ہی کلاس روم میں میرے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ لیکن کلاس روم کی آبادی 90 فیصد سے زیادہ عمران خان اور تبدیلی کی حامی تھی۔ میں اور میرا چھوٹا بھائی عبدالرحمٰن بھی عمران انکل کے ساتھ تھے۔ دھرنے کے دنوں میں ''Cornered Tiger'' اور آج کے محترم وزیر اعظم عمران خان سے ملنے جاتا۔ مجھے پسینے میں ڈوبا دیکھ کر ہمیشہ پدرانہ شفقت کے ساتھ پانی یا کولڈ ڈرنک پینے کے لیے کہتے۔ میں ان دنو ں ہمیشہ دُعا کرتا تھا کہ اللہ کرے دھرنے والے کنٹینر کا عظیم قیدی پاکستان کا سربراہ بن جائے۔ 
جو لوگ عمران خان کا 126 روزہ دھرنا گھر میں بیٹھ کر ٹی وی پر دیکھتے تھے‘ ان کے لیے یہ موج میلہ ہی تھا‘ جس میں نوجوان آسانی سے آتے جاتے رہتے‘ مگر دھرنے کا اِن سائیڈر شریک ہونے کی وجہ سے میں جانتا ہوں کہ یہ کتنا مشکل کام تھا۔ پلسئیے اور سفید کپڑوں والے حکومتی مشٹنڈے بچوں کو دھکے دیتے تھے۔ دھرنے میں شرکت سے ڈرایا جاتا‘ بلکہ نوجوانوں سے توہین آمیز سلوک بھی ہوتا رہا۔ میری اور میرے بھائی کی خوش قسمتی یہ تھی کہ ان دنوں ہمارا لاء آفس دھرنے کے عین درمیان والی سڑک پر ہوتا تھا۔ جناح ایونیو کی پارلیمنٹ ہائوس کی طرف جانے والی سڑک پر دائیں جانب آخری سے پہلے یعنی دوسرے پلازے میں۔
اس لیے اپنی لاء فرم کے ایسوسی ایٹ وکیلوں کے ساتھ ہم باآسانی دھرنے میں پہنچ جاتے۔ میرے کئی کلاس فیلوز بھی اس قافلے میں شامل ہوتے تھے۔ ان میں سے ولید قاضی، ملک علی عظمت اور دانیال کھوکھر لاء کا امتحان پاس کر کے اب ہمارے ایسوسی ایٹ وکیل ہیں۔ کچھ لوگ شاید لا علمی میں‘ لیکن زیادہ تر خاص ایجنڈے کے تحت دھرنا کنٹینر کو فائیو سٹار کنٹینر کہتے رہے۔ عمران خان کے اس فائیو سٹار کنٹینر میں بیٹھنے کے لیے ایک عدد سستے سے صوفے کی سیٹ رکھی تھی۔ جناب وزیرِ اعظم صاحب کو نیند آتی تو وہ فوم کے عام سے گدے پر سو جاتے۔ اس گدے پر میانوالی کا کھِیس عرف چادر پڑی رہتی۔ ساتھ ہی پینے کے پانی کی ایک لیٹر والی بوتل رکھی ہوتی۔ مجھے لگتا ہے اسی تجربے کی وجہ سے عمران خان صاحب نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو یہ کہا ''کنٹینر میں آپ کو خود دے دیتا ہوں‘ آپ صرف ایک مہینہ اس میں گزار کر دکھا دو‘ میں مان جائوں گا‘‘۔
آج کل یوتھ اس تبدیلی پر کتنی خوش ہے اس کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا۔ جن لوگوں کو اس بارے میںکوئی غلط فہمی ہے وہ اگلے الیکشن میں خود ہی دور ہو جائے گی۔ یوتھ کے وہ لڑکے اور لڑکیاں جن کی عمر 13, 14 یا 15, 16 سال ہے‘ وہ اگلے الیکشن کے دوران ووٹرز ہوں گے۔ میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ان میں سے 70 سے 80 فی صد یوتھ کے لوگ PTI کے ووٹرز ہیں۔ اگر کوئی میری بات کی تصدیق کرنا چاہے تو وہ اپنے اِرد گِرد اس عمر کے نوجوانوں سے پوچھنے والا سروے کر کے دیکھ لے۔ میرا خیال ہے‘ تبدیلی کے اس ماحول میں ہم سب کو سوچنے کا طریقہ بدلنا پڑے گا۔ اس کی وجہ ہمارے فیس بُک اور ٹوئٹر اکائونٹ پر ملین کے حساب سے روزانہ آنے والے نوجوانوں کے مشورے اور کُمنٹس ہیں۔ آپ یہ جاننے کے لیے ''BABAR AWAN.PK‘‘ پر سوشل میڈیا اکائونٹس کے ذریعے تبدیلی کے آغاز کی اصلی تصویر ہمارے ساتھ مل کر دیکھ سکتے ہیں۔
ہفتے کے روز میں اور عبدالرحمن‘ والد صاحب کے ساتھ وزیرِ اعظم صاحب سے ملنے ان کے گھر بنی گالہ گئے‘ جہاں وزیرِ اعظم صاحب نے بڑی شفقت سے فوٹوگرافر بلوایا اور ہمارے ساتھ گروپ فوٹو بنوائی۔ جب فوٹو گرافر کمرے کے اندر پہنچا تو ہم اُس طرف کھڑے ہو گئے جدھر سے سورج ہمارے پیچھے تھا۔ یہ ایک بہت چھوٹی سی بات ہے لیکن اس میں دو بڑے پیغام تھے۔ اس لیے میں وہ بات یہاں لکھ رہا ہوں۔ بات یہ ہوئی کہ وزیرِ اعظم صاحب ہمیں کمرے کی دوسری طرف لے گئے اور کہا، یہاں تمہاری تصویر زیادہ اچھی بنے گی‘‘۔ اس چھوٹی سی بات نے پہلا پیغام یہ دیا کہ ہمارے وزیرِ اعظم یوتھ کے جذبات کا کتنا احترام کرتے ہیں۔ اور دوسرا میسج وہ تھا جو ہم نے گاڑی میں بیٹھ کر ڈسکس کیا۔ یہی کہ ہمارے انکل عمران خان وزیرِ اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان بننے کے بعد بھی وہی پرانے والے ہی ہیں۔ جیسے پہلے ہوتے تھے۔ سیدھے، سادے اور فرینک۔ یوتھ کا خیال رکھنے والے۔ بلکہ ان کا لباس بھی نہیں بدلا۔ وہی پہلے والی پرانی چپل اور گھر میں دھوئے ہوئے سفید شلوار قمیض۔ بلکہ ویسے ہی سیدھی سادی چائے اور عام سے بسکٹ مہمانوں کے لیے حاضر تھے۔ ایسا نہیں کہ ہم دونوں بھائیوں نے وزیرِ اعظم یا صدرِ پاکستان کا گھر پہلے نہیں دیکھ رکھا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے گھر اور پہلے والے گھروں میں بہت فرق بلکہ بہت زیادہ فرق دیکھنے کو ملا۔ مثال کے طور پر پہلے جب بھی گئے بڑے صاحب کے کمرے میں چاندی کے ورق والی الائچی‘ روسٹ کیے ہوئے بادام، پستے اور کاجو‘ دو تین قسم کی نمکو پڑی ہوتی تھی۔ پھر جوس اور کولڈ ڈرنکس سے استقبال ہوتا۔ بہترین کافی کے ساتھ چھوٹی پیسٹریاں، چھوٹے سکّے کے سائز کی خاص طور پر بنی ہوئی پنیر۔ سبزی سے بھرے ہوئے چھوٹے سموسے، چکن شاشلک، چٹنی، سلاد، فِش سِٹرپ اور تیل میں تلے ہوئے چکن نگٹ وغیرہ کے ساتھ مہمان نوازی کی جاتی۔ میرے دل کی بات تو یہ ہے نئے وزیرِ اعظم سے مل کر ہمیں بابائے قوم محترم قائد اعظم صاحب بہت یاد آئے۔ اس لیے دل سے سیدھی دُعا نکلی: میرے مالک اس پاک سرزمین کو قائد اعظم ؒ کا پاکستان بنانے والوں کی مدد اور رہنمائی فرما۔ (آمین) ۔
یہاں یہ بات کہنا بہت ضروری ہے کہ وزیرِ اعظم ہائوس ہو یا ایوانِ صدر‘ دونوں جگہ مہمان نوازی کے لیے بھاری ٹیکس دینے والے کمزور عوام کی جیب کاٹ کر یہ پیسے عیاشی پر خرچ ہوتے رہے۔ اب جس سے پوچھو وہ کہتا ہے: دفتر میں چائے بسکٹ کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ ایسے میں حضرتِ قائدِ اعظم ؒ کیسے نہ یاد آئیں؟ ان دنوں میڈیا میں سزا یافتہ وزیرِ اعظم صاحب کی جیب والے خرچوں کا ذکر چل رہا ہے۔ ایسے میں چھوٹا منہ اور بڑی بات نہ محسوس ہو تو کچھ گزارش کروں۔ کھانے کے وہ دیگ نما دیگچے‘ ہاٹ پاٹ جو ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھوربن پہنچتے رہے۔کیا وہ کھانا ڈرائیور، چوکیدار، مالی کھا گئے اور ہیلی کاپٹر کا بِل بھی ڈرائیور، چوکیدار اور مالی نے اپنی جیب سے ادا کر رکھا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ صدر ہائوس کتنے ہیں۔ صدر کے کیمپ آفس کتنے تھے اور کہاں کہاں تھے۔ وزیرِ اعظم ہائوس کتنے ہیں۔ مجھے تو صرف تین کا پتہ ہے۔ اسلام آباد، بھوربن اور جاتی امرا۔ مے فیئر والے وزیرِ اعظم ہائوس کا خرچہ ہماری ایمبیسی نے ادا کیا یا سزا یافتہ وزیرِ اعظم نے اپنی جیب سے ادا کیا۔
ہماری معزز پارلیمنٹ کے کسٹوڈین کیا کچھ کھا پی گئے۔ اس سب خرچے کا پتہ چلانے کے لیے ان اداروں کا فرانزک آڈٹ کروایا جانا ضروری ہو گا تا کہ پورا سچ پوری قوم کے سامنے آ سکے۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان کے کسی بھی قانون میں صدر، وزیر ِاعظم یا وزیرِ اعلیٰ کو نہ ایک سے زیادہ گھر/ رہائش گاہ الاٹ ہو سکتی ہے۔ نہ ہی اس پر تعمیرات کے اخراجات قومی خزانے سے وصول کیے جا سکتے ہیں۔
بات دعا سے شروع ہوئی تھی۔ ایک دعا نوجوان نسل کے نمائندہ شاعر جناب فرحت عباس شاہ نے اپنے ہاتھوں سے لکھ کر 20 اگست 2018ء کو بھجوائی‘ جو پیشِ خدمت ہے۔
عہدِ حاضر کے جینئس اور سچے دانش ور برادرم بابر اعوان صاحب کے لیے:
بابر کو نوازا ہے میرے رب نے پھر اِک بار 
لگتا ہے کہ وہ میری دعا سُننے لگا ہے
(سب کے لیے دعا اور میرا پہلا کالم قبول فرمائیں)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں