"ABA" (space) message & send to 7575

قابلِ غور

سیاست تو باتوں سے بھی چلائی جا سکتی ہے‘ لیکن ریاست باتوں‘یعنی گپ شپ سے نہیں چلائی جا سکتی۔آج کی دنیا میں حکمرانی کا سب سے چھوٹا یونٹ ہمارا گھر ہوتا ہے۔ صرف اپنا گھر چلانے کے لیے بھی منصوبہ بندی اور آمدن اور خرچ کا حساب (بجٹ )سوچ سمجھ کر بنانا ہوتا ہے‘مگر یہ ساری باتیں دنیا داری سے تعلق رکھتی ہیں۔
میں آج کے وکالت نامے کاآغاز ایک انتہائی قابلِ غور بات سے کر نا چاہتاہوں‘جس کا تعلق دل کی دنیا سے ہے اور وہ یہ کہ پچھلی حکومت میں کیاکچھ ہوا‘سب جانتے ہیں‘جبکہ عمران خان کی قیادت میںمخلوط حکومت کے پا نچ سال کے دور کے سفر کے آغاز کا پہلا ہی ہفتہ' ناموسِ رسالت ؐ کے تحفظ‘ جیسی اہم پیش رفت سے ہورہاہے۔میری نظر میںیہ ایک عالمی پیش رفت ہوئی ہے‘ جس کے بارے میں وزیراعظم عمران خان صاحب نے بڑی جرأت کے ساتھ اپنے دل کے جذبات کا اظہار ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے کیا‘جس کی وجہ سے نا صرف پاکستانی قوم کی آواز کو پہلی بار عالمی سطح پر سنا گیا‘ بلکہ اس کے ساتھ پاکستان کے وزیراعظم کی آواز‘ مسلم امہ کی ترجمانی بھی کررہی تھی‘اسی کے نتیجے میں ایک فتنہ پرور دل آزار شخص‘ اپنی مکروہ سازش پر عمل کرنے سے باز آگیا۔
یہاں اجازت ہو تو اسی حوالے سے ایک اور قابلِ غور بات بھی کر لی جائے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جس آدمی کو کئی سال سے ایک محدود ذہنیت نے مغرب کا نمائندہ بناکر پیش کیاتھا‘بلکہ کچھ لوگ تو اس پر اتنے ناراض تھے کہ اسے یہودی لابی کا ایجنٹ کہتے تھے۔ یہی عمران خان ملک کا وزیر اعظم بنا‘ تو وہ ناموسِ رسالتؐ کے معاملے پر ڈٹ گیا‘مگر دوسری جانب بے بنیاد قسم کے الزام لگانے والے حضرت صدرِ پاکستان کا عہدہ لینے کے لیے ووٹوں کی میراتھن ریس میں دوڑتے رہے اور یہ اعزاز عمران خان صاحب کو حاصل ہونا تھا‘ جو اللہ نے انہیں بطور خاص بخشا ہے۔ 
غور کرنے کے قابل یہ بھی ہے کہ آپ کا صاف ستھرا وزیر اعظم‘ آپ کے ملک کو اپنی ایک نمبر دولت سمجھتا ہے۔ عمران خان صاحب کی دولت کینیڈا ‘ امریکہ ‘ انگلینڈ یا فرانس میں ہوتی‘ تو آپ خود سوچیں کہ وہ فرانس کے صدر کو یہ کہہ پاتے ''فرانس کے صدر صاحب کو بتائوکہ آدھے گھنٹے کے بعد فون کریں‘ ابھی میں ہم وطنوں کے ساتھ میٹنگ میں مصروف ہوں ‘‘ ۔ جن ملکوں کے سیاسی لوگ منی لانڈرنگ کرتے ہیں ۔ وہ اپنے ملک میں تو منی لانڈرنگ کے جرم پر کچھ وقت کے لیے تو پردہ ڈال سکتے ہیں‘ لیکن اُن ملکوں کے عوام اور حکومت کو بے وقوف نہیں بنا سکتے ‘ جہاں وہ چوری کا پیسہ چھپا کر رکھتے ہیں ۔ اب خود ہی فیصلہ کر لیں کہ دنیا کی برادری میں ہماری فارن پالیسی ‘ ہمارے پاسپورٹ اور ہماری شناخت کو کس نے نقصان پہنچایا ؟ ۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے اس امریکی اعلان پر بھی غور کرنا ضروری ہے ‘جس میں پاکستان کی امداد بند کرنے کو کہا گیا ۔ ویسے تو لفظ امداد ہی امداد مانگنے والوں کی عزت کرنے کے لیے کافی ہے ‘ لیکن پھر بھی آزاد اور خود مختار قوم کو 'عزت کرو اور عزت کرائو‘ کا راستہ ڈھونڈنا چاہیے ۔ عام سی بات ہے کہ بھکاری اور وہ بھی سرکاری طور پر بھیک مانگنے والا بھکاری کتنی عزت کروا سکتا ہے ؟؟۔ 
پچھلی حکومت کے دور میں عوام کے ٹیکس کا پیسہ خرچ کر کے پارلیمنٹ کے وفد باہر گئے ۔ یہ وفد جانے سے پہلے ہمارے آزاد میڈیا کے ہاتھ لگ گئے ۔ آپ سوشل میڈیا پر خود ان کی ویڈیوز اور انٹرویوز دیکھ لیں ۔ کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ باہر کیوں جا رہا ہے۔ اس بارے میں ایک لطیفہ ‘جو وا قعہ اسلام آباد میں بہت مشہور ہوا ۔ اس وفد میں شامل ارکان پوری رات شاپنگ کرتے رہے ۔ صبح سویرے اُنہیں 7 بجے ناشتہ کرنا پڑا اور 9وفد میٹنگ والی جگہ پر پہنچ گیا۔ جہاں لمبے قد کے گورے کالی ٹائی اور کالے سوٹ میں اُنہیں رِ سیو کرنے کے لیے موجود تھے ۔ وفد کے ہیڈ ماسٹر صاحب آگے بڑھے جب ان کو انگریزی زبان میں خوش آمدید کہا گیا‘ تو مو صوف نے استقبالی ملازمین سے یہ ڈپلومیٹک انگریزی بولی :
THANK YOU SIR, PLEASE HELP PAKISTAN.
ایک معروف لیڈی ٹیلی ویژن اینکر صاحبہ نے اور بھی قابلِ غور بات کی ہے ۔ سوشل میڈیا پر اپنے ٹویٹر اکائونٹ سے کہا ہے کہ جو لوگ نا اہل وزیر اعظم نواز شریف سے وزیر اعظم کی حیثیت سے مل چکے ہیں ‘وہ میری بات سے اتفاق کریں گے ۔ جیسے سوالات ہم نے وزیر اعظم عمران خان سے پوچھے ‘اگر ایسے ہی سوالات نواز شریف سے پوچھے جاتے‘ تو ہمیں اُن کے دفتر سے '' کِک آئوٹ ‘‘ کر دیا جاتا ۔ خاتون اینکر صاحبہ کو فخر ہے کہ اُن کے وزیر اعظم عمران خان صاحب ہیں ۔
ہمارے کچھ سینئر ز کا خیال ہے کہ100 دن میں ساری قومی پالیسیاں باہر آ جانی چا ہئیں ۔ انہیں یقین رکھنا چاہیے کہ عمران خان انہیں مایوس نہیں ہونے دیں گے ۔ جب 100روزہ پلان آف ایکشن سامنے آیا تھا‘ تو بھی بہت سے لوگ بول اُٹھے تھے۔ 100 دن میں حکومت کیا کر سکتی ہے؟ پورے ملک کی پالیسی تبدیل کرنے میں سال دو سال تو لگ ہی جاتے ہیں ۔ اس پر میں مزید کوئی اور تبصرہ نہیں کرنا چاہتا ہوں ۔ صرف یہاں اتنا لکھ دینا کافی ہے کہ پالیسی کے روڈ میپ یا پلان آف ایکشن کا انتظار مزید 90 روز کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پہلے 10 دن میں ٹو ٹے پھوٹے ڈھانچے ‘ عوام سے بے زار بیوروکریسی ‘ طاقت ور سرخ فیتے اور کرپشن کی ماری ہوئی ذہنیت کی پرواہ کیے‘ بغیر عوام دوست سوچ پرپہلا قدم اُٹھ چکا ہے ۔ عمران خان صاحب کی حکومت کے پہلے دس دن میں یہ ایک قدم نہیں‘ بلکہ د س قدم سے بھی زیادہ ہیں اور وہ اس لیے کہ یہ دس قدم سفر کا آغاز ہیں‘وہ بھی منزل کی طرف درست راستے پر...!!
قابلِ غور امریکہ کا اعلان بھی ہے‘جس میں جدید دنیا کے بڑے صاحب نے فرمایا ہے۔پاکستان کی امداد بند ہوگئی۔یہ وہی انکل سام ہے‘ جس نے ساڑھے 11سال جناب ضیاء الحق کی دل کھول کر امداد کی۔ساڑھے 9سال جنرل مشرف کو جھولیاں بھربھر کر امداد دی۔نااہل وزیراعظم نوازشریف صاحب کے دور میں امریکہ بہادر نے کبھی ناراض ہونے کا اعلان نہ کیا۔ عمران خان کی حکومت نے ایسا کیا کردیا ہے کہ امریکہ کو پاکستان کی امداد بند کرنے کا قدم اُٹھانا پڑا۔لوگ ایسے موقع پر سازشی تھیوری ڈھونڈ لاتے ہیں۔سیدھی بات یہ ہے کہ نیوورلڈآرڈر میں دنیا کی پہلی اسلامی طاقت‘ اگر درست راستے پر چل نکلی ہے‘ تو خوش کون ہوگا؟۔
یہ تو بڑی طاقتوں کی بات ہے۔اب آئیے وطن کے اندر طاقتور لوگوں کی طرف۔ایسے لوگ جو آدھی صدی سے بھی زیادہ مال بناتے رہے اور بھجواتے رہے۔اب ان کے لیے ایسا لیڈر کس طرح قابل ِ برداشت ہوسکتا ہے ‘جس نے ملک کے معروف اینکرز کے سامنے کھل کر اعلان کردیا کہ حکومت تو چھوڑ سکتا ہوں ‘کرپشن اور منی لانڈرنگ کرنے والوں کا راستہ نہیں۔
میں پوری توقع رکھتا ہوں کہ الیکٹرانک میڈیا پربیٹھے دانش ور سیاسی اداکاروں کی نقل نہیں کریں گے‘ بلکہ وہ سیاسی اداکار جو نئی جمہوری حکومت کے پہلے ہفتہ ہی یہ کہتے رہے کہ وہ ملک کے اصل مسائل پر بات کرناچاہتے تھے‘مگر انہیں عمران خان کی حکومت نے ایساکرنے سے روک دیا ہے۔ان کے لیے کیا کہا جائے کہ وہ یاد رکھیں کہ قوم‘متبادل میڈیا پر بھی نظر رکھتی ہے اوراس بات پر بھی کہ الزامات کی مٹی اُڑانے والے اس قدر جلدی میں کیوں ہیں؟۔
باقی باتیں چھوڑدیتے ہیں۔کیاجنگل کاٹنے والوں کے معاشرے میں یہ بھی توجہ کے قابل نہیں کہ ملک کے3صوبے دار ایک دن میں 15لاکھ درخت لگانے نکل پڑے ہیں۔ماحولیات‘موسمیات‘جنگلات اور پانی قابلِ غور مسائل ہیں یا وہی :BUSINESS AS USUAL؟۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں