"ABA" (space) message & send to 7575

Placebo Effect

رمضان شریف میں بھی سیاست کا بازار خوب گرم ہے۔ اتنا گرم کہ جتنی گرمی کھانی چاہئے مئی 2020 کا مہینہ ہو کر بھی اتنی گرمی کھانے سے شرما رہا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ موسموں کی تبدیلی کا اثر ہو یا پھر آسمانی موسموں کو COVID-19 کے ستائے ہوئے روزہ داروں پر ترس آ گیا ہو۔ ان دونوں باتوں میں سے جو آپ کے دل کو پسند آئے اسے آزما کر دیکھ لیں، آپ کا موڈ یقیناً اچھا ہو جائے گا۔
جب کاروبارِ سلطنت میں کاروبار کی سیاست کرنے والے فنکار آ جائیں تو پھر ان کا موڈ اقتدار کے مزے کے علاوہ کہیں بھی ٹھیک نہیں رہ سکتا۔ اسی مَینوفیکچرنگ خرابی کی وجہ سے کاروبار کے سیاسی فنکار، بار بار اقتدار کے مزے لوٹنے کے باوجود 5 سال ٹرم سے پہلے ہی سیاسی افطار کی بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔ آپ ٹھیک سمجھ گئے، این آر او۔ آئینی ترمیم لے لو اور احتساب کا قانون چولھے میں دے دو۔ مگر ایسا ہونے کا نہیں۔ یہ میں نہیں کہہ رہا‘ آپ کے وزیر اعظم جناب عمران خان نے ایک بڑی میٹنگ کو یہی بتایا ہے۔ افطار پارٹیوں پر چونکہ پابندی ہے اس لئے وہ ٹیک اَوے سروس کا پچھلا دروازہ کھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر مرتبہ ان بیچاروں کوکھانے کے لئے افطار نہیں، منہ کی کھانی پڑی۔ کنفَرمیشن کے لئے شاہین صہبائی صاحب کا پِیس پڑھ لیں۔ افطاری کی ایک برانچ سوموار کے روز کُھلنے جا رہی ہے۔ اپوزیشن کا مسلسل مطالبہ منظور ہو گیا‘ لہٰذا حکومت نے سوموار 3 بجے سہ پہر اسمبلی اجلاس منعقد کرنے کی سَمری صدر کو بھجوا دی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں بیٹھے ہی بیٹھے‘ اب قوم کو وہ نسخہ سمجھا دیا جائے گا جسے سنتے ہی کورونا وائرس قابو میں آ جائے گا۔ کاروبارِ سیاست بھی خالص دو رنگی گیم ہے۔ اپنی باری آئے تو سفید جھنڈی، جمہوری قدروں کی باری پر لال جھنڈا۔ دو تازہ مثالیں جھنڈی جھنڈے کا یہ کھیل واضح کرنے کے لئے کافی ہیں۔ پہلی مثال پارلیمنٹ بچانے کے لئے پبلک اکائونٹس کمیٹی کی سربراہی والی ہے۔ آپ سب کے سامنے، اپوزیشن کو چیئرمینی ملتے ہی جمہوریت کی ٹی ٹی مضبوط ہو گئی۔ اسی دوران جمہوریت کا حُسن دوبالا کرنے کے لئے سندھ اسمبلی نے پتلی گلی چُنی۔ سندھ اپوزیشن لیڈر کے لئے وہ پیمانہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، جس کے ذریعے وفاقی اسمبلی میں جمہوریت کی آبرو بچائی گئی؛ چنانچہ 2 سال بعد تک سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ نہیں دی گئی۔
یہ تو ایک چھوٹا سا آئینہ تھا، جس نے جمہوریت کا حسن دکھایا۔ آپ کو ایک ڈویلپمنٹ بائیولوجسٹ کی کہانی سناتے ہیں، جس نے بات آئینے سے شروع کی۔ یہ ہیں ماہرِ انسانیات، آدمی کے اندر جھانکنے کے علم میں پی ایچ ڈی۔ مِسٹر لِپٹن نے اس علم میں انکشاف کا تہلکہ مچاتے ہوئے کہا:
''جب میں آئینہ دیکھتا ہوں تو وہاں ایک انسان کھڑا نظر آتا ہے، لیکن یہ عکس سچا نہیں ہوتا کیونکہ یہ 50 کھرب cell سے بنے ہوئے ایسے حضرت ہیں جو صرف ایک انسان نہیں بلکہ خلیات کی پوری برادری ہے‘‘۔
ڈاکٹر بروس لپٹن نے بتایا کہ سائنسی طور پر انسانی خُلیے کیسے کام کرتے ہیں۔ دنیا کے زیادہ تر ڈاکٹروں کو اب بھی صرف جینز پر یقین ہے مگر آسان سچائی یہ ہے کہ جینز دراصل ایک بلیو پرنٹ ہے۔ آپ اس بلیو پرنٹ کو یا پڑھ رہے ہیں یا پھر اس بلیو پرنٹ کو نہیں پڑھ رہے۔ اس بات کا فیصلہ جین نہیں کرتی۔ جین کو یا تو پڑھایا جاتا ہے یا نہیں پڑھایا جاتا۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ اس علم کے سگنل کو کون کنٹرول کرتا ہے؟ جواب ہے Perception‘ جسے سمجھ، شعور یا کرنٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ہر انسانی خُلیے میں تقریباً 1.4 وولٹ بجلی موجود ہوتی ہے‘ جو بظاہر بہت زیادہ نہیں لگتی‘ لیکن چونکہ جسم میں 50 کھرب cells ہوتے ہیں‘ جن کو 1.4 وولٹ سے ضرب دے دیں، تو پتہ چلتا ہے کہ 70 کھرب وولٹ بجلی اس وقت آپ کے جسم میں دوڑ رہی ہے۔ یہ بجلی کہیں بھی گر سکتی ہے، مگر انسانی دماغ ان 50 کھرب سَیلز پر حکومت کرتا ہے‘ اس لئے اگر آپ اپنی سوچ بدل دیں تو آپ کا دماغ آپ کی پوری باڈی کی کیمسٹری کو بدل کر رکھ دے گا۔
ڈاکٹر لِپٹن کی تحقیق کہتی ہے: دماغ اس وقت ہماری دنیا میں بیماری کی بنیادی وجہ ہے‘ اس لئے اس وقت انسان اپنے جینز کا شکار نہیں ہے، کیونکہ آپ اپنے جینز کو کسی بھی وقت بدل سکتے ہیں۔ سادہ طریقہ یہ ہے: آپ اپنی سوچ بدل دیں تو آپ کے جینز کی لکھائی بدل جائے گی۔ اگر کوئی نجومی، پنڈت یا بابا آپ سے کہے کہ آپ کو کوئی بیماری ہونے والی ہے اور آپ اس بات پہ یقین کر لیں، تو اس پَرسیپشن کے ذریعے آپ اپنے اندر اس بیماری کو تخلیق کر سکتے ہیں۔ شعور کا کرنٹ جینیٹک کوڈ کو بدل دیتا ہے لہٰذا ہماری پوری زندگی اسی کے قابو میں رہتی ہے۔ عام مُشاہدے کی بات ہے کہ ہر دوسرا انسان دنیا کو الگ نظر سے دیکھتا ہے۔ اسی وجہ سے کوئی دنیا کو صحیح سمجھ جاتا ہے اور کوئی غلطی کرتا ہے۔ ڈاکٹر لِپٹن کی تحقیق کے مطابق ہمارا سوچنے کا انداز، بائیالوجی کو کنٹرول کر لیتا ہے۔ اس لئے آپ کو جس چیز پہ Faith یعنی ایمان ہوتا ہے‘ وہ آپ کے اندر اور آپ کے باہر آپ کی زندگی بناتی ہے۔ اس لئے آپ کا فیتھ ہی زندگی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہے۔ ہم اسے جس طرف چلانا چاہیں چوائس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔
ڈاکٹر بروس لپٹن کے نزدیک ہمارے شعور میں سب سے بڑی ڈرائیونگ فورس کا نام Placebo Effect ہے۔ یہ فورس مثبت خیالات کی بہت زوردار طاقت ہے۔ آپ کو ایک بہت مثبت خیال آتا ہے کہ کوئی چیز آپ کو صحت مند (Heal) کر سکتی ہے چاہے وہ شوگر کوٹیڈ گولی ہی کیوں نہ ہو۔ اگر آپ کو یقین ہو جائے کہ وہ آپ کو صحت مند کر دے گی تو آپ اس سے بھی خود کو ٹھیک کر سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ میٹھی گولی نے آپ کو ٹھیک نہیں کیا بلکہ آپ کی مثبت سوچ نے آپ کو ٹھیک کر ڈالا۔ قدرت نے انسان کے اندر اسی لائن کا دوسرا ٹریک بھی بِچھا رکھا ہے۔ اسے Nocebo Effect یا منفی اندازِ فکر اور سوچ کہتے ہیں۔ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ جس طرح مثبت سوچ آپ کی بیماری ٹھیک کر سکتی ہے، اسی طرح منفی سوچ انسان کی جان لے سکتی ہے۔ اگر بچپن سے بڑے ہوتے ہوئے ہماری پروگرامنگ میں اس بات کا مضبوط یقین موجود ہو کہ ہم ابھی سے زیادہ طاقتور ہوں گے تو ہم یقیناً ویسے ہی بنتے جائیں گے۔ ڈاکٹر بروس مزید کہتے ہیں: آپ اپنی ہوش مندی سے اپنی جِبلّت کو بھی بدل سکتے ہیں۔ اس کے ذریعے آپ کی زندگی کے کسی مرحلے پر بھی آپ کے تجربات تبدیل ہو کر رہ جائیں گے۔ ہمارے سمجھنے والی بہت ضروری، مگر بنیادی بات یہ ہے کہ ہماری ہر غلطی کا باعث ہمارے اپنے سینسِز یا حواس ہیں۔ اکثر لوگ انجانے میں یا کسی منفی جذبے کا شکار ہو کر اپنے حواس نوسیبو ایفیکٹ کے سامنے سَرینڈر کر دیتے ہیں۔
رمضان المبارک میں یہ تحقیق آپ سے شیئر کرنا اس لئے ضروری سمجھا کہ ہمارے لئے اسی مہینے میں ''تدبّرالقرآن‘‘ کا حکم آسمان سے اُترا۔ رمضان شریف کے مقدس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کردہ آخری وَحی اور آخری نبوتﷺ کے ذریعے ہی پتہ چلا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ آج سے 14 صدیاں پہلے سائنس نے گُھٹنوں کے بَل رینگنا بھی شروع نہیں کیا تھا۔ آج بیرسٹر علامہ اقبال کی زُبان میں ستاروں پر کمندیں ڈالی جا رہی ہیں۔ ہماری جسمانی صلاحیت 70 کھرب وولٹ بجلی جتنی ہے۔ سائنس نے ثابت کر دیا، کسی دوسری معلوم تخلیق کی ایک باڈی میں اتنی بجلی موجود نہیں ہوتی۔ زمین پر رینگنے والوں سے لے کر آسمان میں اُڑنے والے جانداروں تک۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں