"ABA" (space) message & send to 7575

ٹَربن فلائنگ میچ

اب آپ ہی اس کا علاج بتا دیں۔ پہلے کہا گیا: حکومت پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے سے ڈرتی ہے۔ پھر بولے: نا اہل ٹولا کرونا وبا کے بارے میں کچھ نہیں جانتا‘ اجلاس بلائیں، اپوزیشن لیڈر آپ کو بتائے گا وبا کیسے کنٹرول ہوتی ہے۔ اور پھر اِجلاس بُلا لیا گیا۔ 
قومی اسمبلی اور سینیٹ آف پاکستان کے علیحدہ علیحدہ اجلاس بلانے کے لئے پارلیمانی کمیٹیوں کے 9 عدد سیشن بیٹھے۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ ہماری عوام دوست پارلیمنٹ کا کوئی اجلاس مفت میں نہیں ہوتا‘ مگر یہ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ کمیٹی کے لئے گھر سے نکلنے‘ کمیٹی تک پہنچنے وہاں بیٹھنے، کھانے پینے اور پھر گھر واپس جانے تک کا سارا خرچہ عوام دیتے ہیں۔ پی آئی اے کے ٹکٹ ہوں یا پاکستان ریلوے کے، وہ پارلیمنٹیرین خواتین و حضرات کے لئے دلِ بے رحم والا مالِ مفت ہے۔ اب آپ اگر اتنے ہی سادہ ہیں کہ ابھی تک آپ کو یہ تفصیل پتہ نہیں تھی تو اس سے آگے کا بھی سن لیں۔ ہر کمیٹی میٹنگ میں ہر ممبر کو خرچی بھی ملتی ہے۔ یہ خرچی 100 یا 50 روپے والی نہیں بلکہ ہزاروں روپے والی ہے۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ مُنتخب پارلیمنٹیرین خواتین و حضرات کو پارلیمنٹ تک لانے کے لئے کتنے پاپَڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ 
آج کل سوشَل فاصلے کا زمانہ ہے۔ چہرے پر فیس ماسک لگانا ضروری ہے اور ہاتھوں پر دستانے چڑھانا بھی‘ اسی لئے یہ سارا مالِ مفت ہاتھ دھونے والے سینی ٹائیزَر سمیت ارکانِ پارلیمنٹ کو قوم کے خرچے پر پیش کیا جاتا ہے۔
اب آئیے ایک اور دِلچسپ تفصیل کی طرف جس پر ابھی تک کسی کی توجہ نہیں گئی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ جو پارلیمانی ورلڈ ریکارڈ ہمارے ہاں بنایا گیا وہ اپوزیشن کی زور زبَردستی کی وجہ سے ہوا‘ اس لئے ہمارا آزاد المعروف لِبرل ڈَیموکریٹ میڈیا اور فریڈَم آف بول چال کے موم بتی گروپ خاموش ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اپوزیشن ارکان نے اپنا استحقاق کہہ کر پی آئی اے کی چارٹَرڈ فلائٹس چلوا دیں۔ اگرچہ پی آئی اے نے ڈومیسٹِک رُوٹس پر فلائٹس بند کر رکھی تھیں لیکن کراچی، سکھر، کوئٹہ رُوٹ پر یہ فلائٹس استحقاق کے نام پر کھلوا دی گئیں۔
جمعہ کے دن جب یہ وکالت نامہ آپ کے ہاتھ میں ہو گا، ایسی ہی خصوصی طور پر واپسی کی چارٹرڈ فلائٹس کے ذریعے پارلیمنٹ کے ارکان اپنے اپنے علاقوں میں واپس جائیں گے۔ ہاں یاد آیا کہ COVID-19 کے ایک ٹیسٹ کروانے کی فیس 8 ہزارروپے ہے اور اکثر لوگوں نے یہ ٹیسٹ سرکاری خرچے پر کروا کر قومی وسائل کی بہتی گنگا میں ہاتھ پائوں دھو کر دوسرا عالمی ریکارڈ بنا لیا۔ میں جانتا ہوں، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ قومی بجٹ کو اتنی تکلیف دینے کے بعد کورونا پر پارلیمنٹ میں ابھی تک ہوا کیا؟ آئیے آپ کے سوال کا جواب پارلیمان کی راہداری سے تلاش کرتے ہیں۔
معرکہ نمبر1: پارلیمانی اپوزیشن لیڈر اور سابق خادمِ اعلیٰ‘ جن کے دستخطوں اور حکم کے نتیجے میں پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا گیا تھا‘ نے اس اجلاس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی کہ ان کے کسی نامعلوم فرد‘ جیسے ڈاکٹر‘ نے ان کو پارلیمنٹ میں جانے سے روکا ہے کیونکہ اسمبلی سیشن کے دوران COVID-19 کا وائرس اپوزیشن لیڈر پر حملہ کرنے کے لئے پارلیمنٹ ہائوس کے دروازے پر تیار بیٹھا ہوا تھا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اپوزیشن لیڈر صاحب نے لندن میں بیٹھ کر کورونا وائرس کے گلے میں رسی ڈال کر‘ کورونا فلو کا پیٹ پھاڑ کر پھر اسے پشاور، لاڑکانہ، کراچی اور لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹ کر اسے اُونچے کَھمبے سے لٹکانے کا اعلان کیا تھا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن لیڈر صاحب یہ اعلان بھول کر گھر بیٹھ چکے ہیں۔ لیکن اُنہیں ڈر ہے کہ شاید وائرس اس دھمکی کا بدلا لینے کے لئے گھات لگا کر نہ بیٹھا ہو۔ چونکہ یہ عالمی طرز کی وبا ہے‘ لہٰذا یہ جانیں یا عالمی اپوزیشن لیڈر صاحب۔ اچھا ہوا کہ یہ لڑائی پارلیمنٹ کے فلور پر نہیں پہنچ سکی۔
معرکہ نمبر2: کورونا کے خلاف پارلیمانی جنگ کا دوسرا معرکہ قومی اسمبلی کے فلور پر لڑا گیا۔ اس دوران سندھ کے سی ایم صاحب عالمی چیمپئن بن کر سامنے آئے۔ قوم کو بتایا گیا کہ سندھ کے چیف منسٹر مراد علی شاہ صاحب کی صحت مندانہ سرگرمیوں کے نتیجے میں ساری دنیا سے لوگ ہر طرح کی پوشیدہ کمزوریوں اور بیماریوں کا علاج کروانے کے لئے جوق دَر جوق سندھ کے ہسپتالوں میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس داخلے کی 2 بڑی وجوہ سامنے آئیں۔ ان میں سے پہلی وجہ وہ کراماتی اقدامات ہیں جن کی وجہ سے تھر نے ٹورنٹو کے بازو پر راکھی باندھ کر اسے بہن بنا لیا ہے۔ اس کی دوسری وجہ کُتے کے کاٹے ہوئے، سانپ کے ڈَسے ہوئے اور نیوٹریشن کے مارے ہوئے بچوں کا وہ روحانی علاج ہے‘ جسے محسوس کیا جا سکتا ہے، دیکھا نہیں جا سکتا۔ صوبے کے سب سے وڈّے شاہ سائیں کے اقدامات کا فوری نتیجہ بھی نکل آیا‘ جس سے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی یاد تازہ ہو گئی‘ جنہوں نے اپنے زمانے والی پی پی پی کی حکومت میں ایف آئی اے ایکٹ مجریہ 1975 جیسا شاندار قانون بنایا تھا‘ جس کے ذریعے وفاقی تفتیشی ایجنسی کو ملک کے کونے کونے میں عوامی وسائل کی لوٹ مار کرنے والوں کا پیچھا کرنے کا اختیار ملا تھا۔ اسی ایف آئی اے نے سندھ کے چیف منسٹر صاحب کو چینی کمیشن میں پیش ہونے کا نوٹس جاری کیا۔ اس سے پہلے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کا بیان قلم بند کرنے کے لئے انہیں طلب کیا گیا۔ اسد عمر صاحب کی سادگی دیکھیے کہ سندھ کا ڈومیسائل رکھنے کے باوجود انہوں نے ایف آئی اے کے دائرہ اختیار کو چیلنج تک نہیں کیا۔ پنجاب کے سادہ سے وزیر اعلیٰ عثمان بُزدار صاحب کی سادگی دیکھئے‘ وہ بھی نوٹِس ملنے پر ایف آئی اے ہَیڈ کوارٹر جا پہنچے۔ مگر شاہ صاحب نے بہادری اور جُرأت کی نئی مثالیں قائم کرتے ہوئے سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل سے ایف آئی اے کو پیغام بھجوا دیا۔ پیغام میں قائدِ عوام کی غلطی کی اصلاح کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ان کی قائم کردہ وفاقی تفتیشی ایجنسی کو ان کے صوبے کے وزیر اعلیٰ کا بیان لینے کا بھی اختیار نہیں ہے۔
تیسرا معرکہ ٹَربن فلائنگ میچ پر مشتمل تھا۔ قومی اسمبلی کے فلور سے لے کر ہائوس آف فیڈریشن کے ہال تک ہر جگہ، ہر طرف، ہر رنگ کی پگڑیاں بسنت کی پتنگوں کی طرح اُڑتی ہوئی نظر آئیں۔ چیخ چِنگھاڑ، اِلزامات، مداخلت نام لے لے کر تبرّہ بازی کی گئی۔ اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے۔ جو اجلاس کروڑوں کے خرچے سے کورونا کے نام پر بلوائے گئے اس میں سیاسی رونا دھونا تو خوب ہوا مگر کسی نے کورونا کنٹرول کے فارمولے والا راز نہیں کھولا۔ ویسے آپس کی بات ہے‘ ان دونوں اجلاسوں کا مقصد کورونا نہیں اقتدار کے بارے میں رونا دھونا تھا۔ سادہ لفظوں میں مُنتخب نمائندے جس کام کے لئے آئے تھے‘ وہ کر لیا باقی رہا کرونا، وہ جانے اور عمران خان یا NDMA، فوج یا وفاق کی سرکار۔ باقیوں کے غم دوسرے ہیں جن کا علاج نواز شریف صاحب کے دل کی طرح لندن میں بھی نہیں مل رہا۔ 
خبر ہے ٹَربن فلائنگ میچ سیزَن 2 جون کے پہلے ہفتے میں پھر ہو گا۔ عنوان ہے'' بجٹ سیشن‘‘۔
پارلیمانی اپوزیشن لیڈر ‘ جن کے دستخطوں اور حکم کے نتیجے میں پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا گیا تھا‘ نے اس اجلاس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا۔ کسی نامعلوم فرد نے ان کو پارلیمنٹ میں جانے سے روک دیا کیونکہ اسمبلی سیشن کے دوران COVID-19 کا وائرس اپوزیشن لیڈر پر حملہ کرنے کے لئے پارلیمنٹ ہائوس کے دروازے پر تیار بیٹھا ہوا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں