"ABA" (space) message & send to 7575

18ویں ترمیم‘ مسئلہ کیا ہے؟

آئین اور قانون کا بحث مباحثہ اکثر تین مختلف جگہوں پر ہوتا رہتا ہے۔ اس کا پہلا فورم از خود آئینی اور قانونی ہے۔ یہ ہیں انصاف کے ایوان‘ جن کا کام ہی قانونی معاملے اُلجھنے سے روکنا ہوتا ہے۔ اِن دِی ہائوس آف جَسٹس‘ قانون اور آئین پر بحث کرنے والے‘ اس بحث کو سننے والے اور پھر اس پر فیصلے صادر کرنے والے سارے ہی قانون داں ہوتے ہیں۔ اس لیے ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ بحث آئینی راستے سے لُڑھک جائے یا پھر مباحثہ قانونی نکتے سے بھٹک جائے۔
لِیگو کانسٹی ٹیوشنل ڈی بیٹ کا دوسرا فورم وہ ہے جہاں قانون بنایا جاتا ہے‘ آئین مُرتب ہوتا ہے اور ان دونوں میں تبدیلی اور منسوخی کا عمل مسلسل چلا جاتا ہے۔ مگر آپ اس کو لطیفہ کہہ لیں یا پھر المیہ سمجھ لیں کہ آئین اور قانون سازی کے فلورز پر بولنے والے بہت کم لوگ ایسے ہیں جو قانون سے واقف بھی ہوتے ہیں۔ اسی لیے اپنے ہاں عملی طور پر پارلیمنٹ کے ممبرز کی اکثریت کا قانون سازی میں کردار صرف دو چھوٹے چھوٹے جملوں تک ہی محدود چلا آ رہا ہے۔ ان میں سے پہلا جملہ کہتا ہے: مجھے منظور ہے۔ دوسرے جملے میں کہا جاتا ہے: مجھے منظور نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت اپنی پارلیمنٹ کو یا تو نکما سمجھتی ہے یا پھر اسے بے کار جان کر اس سے امید لگانا پسند نہیں کرتی۔ دوسری جانب پڑھے لکھے لوگ اسے ''ڈی بیٹنگ کلب‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ اس طرح کا ڈی بیٹنگ کلب جس طرح ہمارے تعلیمی اداروں میں موجود ہیں۔ جہاں پہ ماڈل یونائیٹڈ نیشنز کے اجلاس بھی منعقد ہوتے ہیں اور تقریری مقابلے بھی سال بھر جاری رہتے ہیں‘ کیونکہ ان MUN اور ایسے ڈی بیٹنگ کلب کے پیچھے کوئی تھنک ٹینک نہیں ہوتا‘ اس لیے یہاں صرف مقابلہ جیتنے کے لیے بحث ہوتی ہے۔ جسے عوامی زبان میں لوگ ''پوائنٹ سکورنگ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ آئینی اور قانونی بحث کا تیسرا فورم قومی یا علاقائی میڈیا ہے۔ ان میں سے اخباری اور پرنٹ میڈیا پر ہونے والی بحث اپنے اندر زیادہ گہرائی رکھتی ہے‘ لیکن اس کے مقابلے میں ٹی وی سکرینوں پر جاری بحث ‘ مرچ مصالحہ ‘ بڑھک بازی اور جگت بازی لوگوں کے لیے اینٹرٹینمنٹ کا ذریعہ بن گئی ہے۔ اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے آج کل تقریباً ہر ٹی وی سکرین پر ''سٹریٹ اینٹرٹینر‘‘ سیاسی اداکار بنا کر بٹھائے جا رہے ہیں۔ اب عام لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھتی جا رہی ہے کہ گورننس میں کام نہیں ہوتا بلکہ شو بازی اور اداکاری ہوتی ہے۔
حال ہی میں COVID-19 کے حوالے سے ہائوس آف فیڈریشن اور قومی اسمبلی‘ دونوں کے علیحدہ علیحدہ اجلاس بلائے گئے۔ اگر آپ ان اجلاسوں کی میڈیا کوریج غور سے دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ان میں کورونا وائرس کہیں ''بیک برنر‘‘پر چلا گیاہے‘ جبکہ سیاسی رونا دھونا وائرس‘ پارلیمانی ادا روں سمیت سب پر بھاری بن کر سامنے آیا ۔اس دوڑ میں ہماری سب سے پیاری 18ویں آئینی ترمیم سب سے آگے جا رہی ہے۔سال 2010میں یہ آئینی ترمیم منظور ہوئی تھی‘ جس کے تھوڑے ہی دن بعد 18ویں ترمیم کے نہلے پر 19ویں آئینی ترمیم کا دہلہ مار دیا گیا ۔آگے بڑھنے سے پہلے آئیے پاکستان کی آئینی ترامیم کی تاریخ کے چند لینڈ مارکس پر نظر ڈال لیں۔
پہلا لینڈ مارک: 1973ء کا آئین 12 اپریل 1973ء کے روز ملک میں لاگو ہوا۔ اس وقت کی آئین ساز اسمبلی نے صرف ایک سال آٹھ دن بعد‘ اس آئین میں خود ہی پہلی ترمیم داخل کر دی۔ پھر جولائی 1977ء تک جس پارلیمنٹ نے آئین بنایا تھا اُسی کے دور میں آئین میں سات نئی ترامیم شامل کرنے کا دروازہ کھل گیا۔ دوسرا لینڈ مارک: سال 1985 میں دوسرا لینڈ مارک آ گیا‘ جب ضیا صاحب نے پارلیمانی نظام کو صدارتی طرزِ حکمرانی سے سویپ کر دیا۔ 
تیسرا لینڈ مارک: اپریل 2010ء میں تیسرا لینڈ مارک سامنے آیا۔ آئین سے جنرل ضیا صاحب کا نام نکال باہر کیا گیا۔ اسی کو 18ویں آئینی ترمیم کہتے ہیں۔ آج کل اسی ترمیم کو کچھ لوگ بہت مقدس کہہ رہے ہیں۔ 
چوتھا لینڈ مارک: وفاق کے انتظام میں چلنے والے علاقے فاٹا کو صوبہ کے پی کے میں شامل کرنے کا تھا جس کے لیے آئین میں ترمیم کر دی گئی۔ 
پانچواں لینڈ مارک: پشاور کے آرمی پبلک سکول میں بچوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کی داستان کے نتیجے میں ملٹری ٹرائل کورٹس کے قیام کی آئینی ترمیم پر پانچواں لینڈ مارک سامنے آیا۔ دو سال بعد ایک اور آئینی ترمیم کے ذریعے ان ملٹری ٹرائل کورٹس کی مدت میں مزید دو سال کا اضافہ کیا گیا۔ 
چھٹا لینڈ مارک: 18ویں ترمیم کے بعد ایوانِ بالا میں آئینی ترامیم کے جو بِل اب تک پَینڈنگ ہیں ان کی تفصیل خاصی دلچسپ ہے‘ مثال کے طور پر سینیٹ میں حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے صرف تین آئینی بِل التوا میں پڑے ہوئے ہیں‘ جبکہ 18ویں ترمیم آئین میں شامل کرنے والی کمیٹی کے سربراہ انتہائی محترم سینیٹر رضا ربانی صاحب کا ایک بِل‘ پی پی پی کی پارلیمانی لیڈر سینیٹر شیری رحمان کا دوسرا آئینی ترمیمی بِل اور سینیٹ آف پاکستان میں مسلم لیگ ن‘ جماعتِ اسلامی اور دوسری اپوزیشن پارٹیوں کے ایک درجن سے زیادہ آئینی ترمیمی بِل آج کے دن تک بھی پینڈنگ ہیں۔ اور یہ بھی ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ ان سارے بِلوں کے ذریعے سے اپَر ہائوس کے معزز ارکان 18ویں آئینی ترمیم کے بعد بھی آئین میں ترمیم ہی مانگ رہے ہیں۔
یہاں ایک سوال آپ کے ذہن میں ضرور آئے گا کہ اگر یہ سب سیاسی پارٹیاں علیحدہ علیحدہ بیٹھ کر آئینی ترمیم مانگ رہی ہیں تو پھر یہ لوگ اکٹھے بیٹھ کر آئین میں مناسب ترمیم کیوں نہیں کر لیتے؟ میرے خیال میں اس کا جواب بڑا سادہ ہے اور وہ یہ کہ ہماری سیاسی جماعتیں سیاست کی ضرورت کو آگے رکھتی ہیں‘ ریاست کی ضرورت کو نمبر ایک ترجیح نہیں سمجھ رہیں۔
ساتواں لینڈ مارک: 2018ء کے جنرل الیکشن کے نتیجے میں قائم ہونے والی قومی اسمبلی کے اندر سے اگلا آئینی لینڈ مارک برآمد ہوا ہے‘ جس کے مطابق حکومت کی طرف سے آئینی ترمیم کے دو بِل نیشنل اسمبلی میں ڈالے گئے۔ وفاقی حکومت کے مقابلے میں اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں سمیت ممبران نے 30 سے زیادہ بِل پیش کر کے 18ویں ترمیم والے آئین میں پھر سے ترمیم مانگ لی ہے۔
اس پس منظر میں دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ 18ویں ترمیم میں ترمیم خود سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اصل میں معاملہ سیاسی ضرورتوں اور سیاسی طور پر زندہ رہنے کے نظریۂ ضرورت والا ہے۔ 1973ء کے آئین میں پہلے دن سے ترمیم کرنے کی گنجائش پیدا کر دی گئی تھی‘ جس کے لیے اجازت اور ترمیم کا طریقہ کار بھی آئین کے آرٹیکل نمبر 238 اور آرٹیکل 239 میں واضح طور پر موجود ہے۔ ہاں البتہ صرف ایک معاملے میں آئین اور قانون‘ دونوں کے اندر ترمیم کرنے پر مستقل پابندی لگا دی گئی ہے‘ وہ ہے آئین کا آرٹیکل نمبر 227 جس کی رو سے پاکستان کے آئین یا قانون میں کوئی ایسی ترمیم یا اضافہ اور قانون سازی نہیں ہو سکتی جو قرآن و سنت کے خلاف ہو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ حدود کی خلاف ورزی ہو گی۔
لائیٹر نوٹ پر دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ کورونا لاک ڈائون بھی نظریۂ ضرورت اور 18ویں آئینی ترمیم سے جوڑ دیا گیا۔ قوم کے مسائل کچھ اور ہیں‘ بعض لیڈروں کے ارادے کچھ اور۔ کراچی میں ثبوت یہ ہے کراچی میں شفا خانے اور دوا خانے لاک ڈائون میں ہیں مگر پٹوار خانے کھول دیے گئے۔کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں