"ABA" (space) message & send to 7575

کورونا پر تازہ فیصلہ

سپر یم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں کورونا سووموٹو کیس کی سماعت کرنے والے لارجر بینچ نے کورونا کے ایس او پیز کے حوالے سے بہت اہم فیصلہ جاری کیا۔24 گھنٹے کے اندر اندر وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے وفاقی کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس میں عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لئے ہدایت جاری کر دی۔ حکومت کی طرف سے اس فوری اقدام کے نتیجے میں‘ سوشل میڈیا پر پلانٹ کی گئی اداروں میں تصادم والی خبروں کے غُبارے سے ہوا نکل گئی۔ عدالتِ عظمیٰ کے تازہ فیصلے میں لاک اَپ کی طرز کے لاک ڈائون کو رَد کر دیا گیا جبکہ اس لاک ڈائون کی جگہ ہر اعتبار سے اوپن سکائی پالیسی سامنے آ گئی۔ پورا ملک کُھل چکا ہے۔ بازار‘ کاروبار اور ہر طرف عید میلے کا رَش آوَر چل دوڑا ہے۔ لیکن وکالت کے شعبے کے لئے روز گار کا واحد ذریعہ کورٹ کچہری‘ تعلقہ تحصیل‘ مضافاتی عدالتیں‘ ڈِسٹرِکٹ کورٹس عملی طور پر بند ہیں۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ شعبہ وکالت سے وابستہ لاکھوں گھرانے شدید مالی دبائو میں آ چکے ہیں۔ وکیل چونکہ کوٹ پتلون پہنتا ہے اور اس کے منشی مشدّی دُھلے ہوئے کپڑے‘ اس لیئے نظامِ انصاف کے اس لیول پر ہر آدمی کو خوشحال سمجھا جاتا ہے‘ حالانکہ یہاں نہ کسی کو تنخواہ ملتی ہے نہ ہی پینشن۔ گریجوٹی مراعات اور ٹی اے اور ڈی اے جیسے الائونسز کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میڈیکل سہولتوں کے حوالے سے لاہور میں ینگ ڈاکٹرز اور ینگ لائیرز کی ویڈیو دیکھ کر خود فیصلہ کریں کہ صورتِ حال کیا ہے؟ مفصل کی اکثر کچہریوں میں بیٹھنے کی جگہ مسافر خانہ‘ پانی‘ سایہ‘ ڈسپنسری‘ ایمرجنسی کِٹ جیسی چیزوں کا 73 سال سے داخلہ بند ہے۔بہرحال سُپریم کورٹ آف پاکستان کا یہ فیصلہ چونکہ پہلے دن ہی تحریری طور پر سامنے آ گیا تھا اس لئے اس پر تین طرح کے تبصرے چل رہے ہیں۔
ان میں سے پہلا تبصرہ 1973 کے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے حوالے سے ہے۔ اسی آئینی آرٹیکل کے تحت سُپریم کورٹ آف پاکستان کو سووموٹو نوٹِس لینے کا اختیار حاصل ہے۔دوسرا تبصرہ‘ ہمارے آئینی ملک کے اہم ترین آئینی اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا ہے‘ جس کو دستور کی دنیا میں ٹرائکوٹومی آف پاور یا اقتدار کی مثلث بھی کہا جاتا ہے۔ ملک کے ان تین اہم ترین اداروں میں پاکستان کی ایگزیکٹِو اتھارٹی‘ ملک کا عدالتی نظام اور قانون سازی اور آئین بنانے یا اس میں ترمیم کرنے کا اختیار رکھنے والی پارلیمنٹ شامل ہے۔ کورونا سووموٹو نوٹِس سے پیدا ہونے والی بحث نئی بالکل بھی نہیں بلکہ یہ ڈیبیٹ سُپریم کورٹ کے مرحوم پوٹھوہاری چیف جسٹس جناب جسٹس افضل ظلہ صاحب‘ جو سال 1990 سے 1993 تک چیف جسٹس رہے‘ کے دور میں شروع ہوئی تھی۔ بعد میں ایک سیاسی جج صاحب کے دور میں اسے متنازعہ بنا دیا گیا۔ اس اہم موضوع پر تب سے اب تک وُکلا کے ادارے مسلسل اپنی رائے دیتے چلے آرہے ہیں۔تیسرا تبصرہ عام لوگوں کا ہے‘ جن کا کہنا ہے کہ وہ کسی بیماری یا وبا کے خوف سے‘ بھوک کے ہاتھوں نہیں مرنا چاہتے۔ ان میں دیہاڑی دار‘ بیروزگار‘ زرعی منڈی اور بھٹہ مزدور سمیت بے شمارمحنت کش طبقے شامل ہیں۔ یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں چلنے والے طبقاتی نظام میں ان ورکنگ کلاسز کی آواز بہت ہی کم سنی جاتی ہے۔
موجودہ وبا کے منظر عام پر آنے کے بعد COVID-19 کے موضوع پر بحث چلی تو وَرکنگ کلاسز کے سب سے نِچلے اور غریب لوگوں کے لئے بولنا بہت بڑی برائی نما غلطی بنا دیا گیا‘ جس کی وجہ ایلیٹ آبادیوں کے مکینوں کا ذرائع ابلاغ پر قبضہ تھا؛ چنانچہ اس صورتحال میں خوف کا یہ عالم رہا کہ کوئی شخص یا تنظیم‘ بیروزگار‘ بیمار‘ مزدور یا دہاڑی دار کے لئے آواز اُٹھانے پر تیار نہ ہو سکا۔ ملک بھر میں عوام‘ مذہب اور مختلف قسم کے ''ازم‘‘ کی سیاست کرنے والی پارٹیاں چھوٹے طبقات کو 100 فیصد بھول گئیں۔ ایسے میں صرف ایک آواز اُٹھی‘ جس نے اس 'سٹیٹس کو‘ کے کاروبار میں دیہاڑی دار کا مقدمہ لڑنے کا حوصلہ کیا۔ جی ہاں! آپ بالکل ٹھیک سمجھے‘ یہ آپ کے وزیر اعظم جنابِ عمران خان تھے۔ بہت دن پہلے ایک شعر پڑھا تھا جو محترم وزیر اعظم جنابِ عمران خان صاحب اور دیہاڑی دار طبقے کی آواز پر فِٹ بیٹھتا ہے۔ آپ بھی پڑھ لیں:
یہی کہا تھا‘ مری آنکھ دیکھ سکتی ہے
کہ مجھ پہ ٹوٹ پڑا‘ سارا شہرِ نابینا 
سپریم کورٹ آف پاکستان کے حالیہ فیصلے نے بہت سارے حقائق کھول کر سب کے سامنے رکھ دیے ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ کسی بات کو بھی بہانہ بنا کر پاکستان کے شہریوں کو روزی کمانے کے حق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ یہاں ایک اور بات بھی کہنا بہت ضروری ہے اور وہ یہ کہ امریکہ جیسی سُوپر اِکانومی‘ جس نے اس وبا کے دوران ملین اور بلین نہیں بلکہ ٹریِلیَن کے حساب سے ڈالر ریلیف پیکج پر لگا دیئے‘ بھی امریکہ کی ورکنگ کلاسز کا اعتماد بحال نہ کر سکی۔ اس لئے کہ لاک ڈائون کے حامی حلقوں نے غریب آبادیوں کے بنیادی شہری حقوق کا خیال نہ رکھا‘ جس کے نتیجے میں عملی طور پر کروڑوں لوگوں کو لاک اپ میں بند کر دیا گیا۔ لاک ڈائون کچھ دیر کے لئے‘ کچھ علاقے میں کچھ شرائط کے تحت تو کامیاب ہو سکتا ہے لیکن جس کلاس کو روزانہ محنت کے نتیجے میں روٹی ملتی ہے‘ ان کے لئے مارکیٹ اِکانومی پر قابض بڑے کھلاڑیوں نے دنیا کو جیل خانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
کورونا وبا کے خوف نے کچھ ملکوں کی کمزور دل لیڈرشِپ سے جلدی میں ایسے فیصلے بھی کروا لیے جن سے نکلنے میں قوم اور معیشت دونوں کو لمبا عرصہ لگے گا‘ لیکن اس خوف زدہ پالیسی کے مقابلے میں ''کورونا سے ڈرنا نہیں‘ اس وبا سے لڑنا ہے‘‘ بڑی حد تک ایک کامیاب پالیسی ثابت ہوئی۔ یہ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ پوری دنیا کے اندر جاری اس شدید ترین بحران کے درمیان بھی کچھ اشاریے پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے بڑی خوش خبریاں بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ آئیے اس کی کچھ جھلکیاں مل کر دیکھ لیتے ہیں۔
پہلی خوش خبری: امریکہ کے بعد پاکستان وہ دوسرا ملک ہے جہاں سٹاک ایکس چینج نے اوپر جانے کے ٹرینڈ میں نئے ریکارڈ سیٹ کیے ہیں جس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ قوم کو پاکستان کے معاشی مستقبل سے مایوس کرنے والے پروپگنڈے پر کان لگانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ظلم یہ ہے کہ ریٹنگ کی دوڑ میں اچھی خبر بتانے والے پیچھے رہ گئے ہیں اور چائے کی پیالی میں طوفان جگانے والے اس دوڑ میں آگے ہیں‘ مگر یاد رکھ لیں‘ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔دوسری خوش خبری: سخت انٹرنیشنل مَندی کے دور میں بھی اللہ کے خاص کرم سے پاکستان کو دوسری خوش خبری سکوک بانڈز کے حوالے سے ملی ہے۔ سکوک سے پاکستان نے تقریباً 200 ارب روپے کما لئے۔ ان کی پذیرائی میں مختلف حوالوں سے 170 فیصد تک اضافہ ریکارڈ پر آیا۔
تیسری خوش خبری: کون نہیں جانتا کہ یہ عالمی معیشتوں کے ڈوبنے کا برا وقت ہے۔ ایسے میں پاکستان کی معیشت پہ رحمتِ رمضان نازل ہوئی۔ وہ بھی ایف ڈی آئی (Foreign Direct) سرمایہ کاری کی شکل میں۔ پچھلے دو ماہ کے عرصے میں ایف ڈی آئی میں 32 فیصد کا قابلِ قدر اضافہ ہوا۔
کورونا پر سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے کے بعد کنزیومر اکانومی میں نیا ریکارڈ بن گیا۔ صرف 48 گھنٹے میں ملک کے 5 بڑے شہروں میں 23 ارب روپے کی خریداری کے ذریعے۔میں نے سنا ہے‘ چند دن میں وزیر اعظم عمران خان انڈسٹری کو دبئی کی طرز پر ریلیف دینے والے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد اچھے نہیں بہت اچھے دن آئیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں