"ABA" (space) message & send to 7575

جعلی میڈیکل رپورٹس اور جارج فلائیڈ

جعل سازی چھوٹی ہو یا بڑی‘ افریقن امریکن ہو یا پھر پاکستانی انگلستانی، وہ دھوکا بازی اور فراڈ ہی کہلائے گی کیونکہ جُرم کو کبھی اس کے سائز اور کوانٹیٹی سے نہیں ناپا جاتا بلکہ واردات کے منصوبے سے شروع کر کے جرم کے ارادے، اور پھر مجرمانہ ارادے پر عمل کرنے سے جُرم مکمل ہو جاتا ہے۔ 
ان دنوں مشرق اور مغرب کے ملکوں میں دو حوالوں سے جعلی میڈیکل رپورٹس کی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ ایک کہانی سال 2019 کے نومبر میں لاہور سے شروع ہوئی۔ پھر جا کر انگلستان کے شہر لندن کے محلہ مے فیئر میں اس کہانی کا قسط وار کلائمیکس ہو رہا ہے بلکہ اس کے ارد گرد بھی مسلسل جاری ہے۔ لاہوری کہانی کا قسط وار کلائمیکس لوٹی ہوئی کرنسی سے شروع ہوا تھا۔ کہانی کی ہر قسط میں اس کہانی کے مرکزی کردار اپنے ملک سے چوری شدہ کرنسی کو اُڑاتے ہوئے مسلسل پکڑے جا رہے ہیں۔ زیادہ تر کیمرے کی آنکھ سے۔ کبھی مہنگی رولیکس گھڑیوں کی دکان پر۔ کبھی کسی عربی ریستوران کے دستر خوان پر۔ کبھی کسی انگلش کافی کارنر کے دالان میں اور کبھی مودی کے مسلم کش ہندوستان سے آئے ہوئے نقاب پوشوں سے ملاقات پر۔ اس کہانی کی ڈرائیونگ فورس کیا تھی یہ آپ کو آگے چل کر بتائیں گے۔
اس سے کچھ کچھ ملتی جلتی دوسری کہانی 25 مئی 2020 کے دن امریکہ کی ریاست Minnesota کے Minneapolis نامی شہر میں شروع ہوئی۔ یہ 46 سالہ سیاہ بخت افریقن امریکن شہری جارج فلائیڈ کی خریداری سے شروع ہوئی۔ کہانی کا مرکزی کردار گینگ آف انگلستان کی طرح ارب پتی نہیں تھا۔ اس کا کل اثاثہ جو پکڑا گیا وہ 20 ڈالر کا ایک کرنسی بِل تھا جسے ہم اپنے ہاں کرنسی نوٹ کہتے ہیں۔ اس معصوم نیگرو جارج فلائیڈ نے اپنے شہر کی ایک مارکیٹ سے سگریٹ کی ایک عام سی ڈبیا خرید کر 20 ڈالر کا کرنسی نوٹ سیلزمین کو پکڑا دیا۔ گورے سیلزمین کو سیاہ فام کے کرنسی بِل پر شک گزرا کہ وہ 20 ڈالر کا نوٹ جعلی ہو سکتا ہے؛ چنانچہ اس نے مقامی پولیس سٹیشن فون کر کے پولیس موبائل بلوا لی۔ سیاہ فام جارج فلائیڈ نے گورے شاپ ورکر سے کہا: پہلے تم نوٹ کو چیک تو کرلو۔ یاد رہے کہ پوری مغربی دنیا میں کرنسی کے جعلی یا اصلی ہونے کا فیصلہ کرنے کے لئے ہینڈی سائز کی مشینیں بھی ہر کَیش کائونٹر پر موجود ہوتی ہیں۔
مقتول جارج فلائیڈ کے سین آف کرائم پر دو پولیس والے پہنچے۔ دونوں ہی سفید فام تھے۔ انہوں نے آتے ہی گردن سے پکڑ کر جارج فلائیڈ کو ہتھکڑیاں لگا دیں۔ اس کے ہاتھ پشت پر جکڑ دیے‘ اُسے مُنہ کے بل تپتی سڑک پر نیچے گرایا اور بتایا کہ اُسے نقلی کرنسی اپنے پاس رکھنے کے جرم میں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ سیاہ فام امریکی کو گرفتار کرنے والے سفید فام پولیس مینوں کی اس پر تسلی نہ ہوئی؛ چنانچہ انہوں نے جارج فلائیڈ کو گھسیٹ کر شکاگو ایونیو اور ای 38th سٹریٹ کے چوراہے پر مُنہ کے بل پھر گرا لیا۔ کالے نیگرو کی گرفتاری کا سُن کر دو پولیس والے اور بھی موقعہ پر پہنچ گئے حالانکہ جارج فلائیڈ کو ہتھکڑیاں پہلے ہی لگ چکی تھیں اور اس نے کوئی مزاحمت بھی نہیں کی تھی۔ رپورٹ شدہ حقائق کے مطابق بیچارہ جارج فلائیڈ کلاسٹروفوبیا کا مریض تھا جسے چار پولیس والوں نے مل کر سڑک پر منہ کے بل گرایا۔ یہ تھامس کے لین، الیگزینڈر کنگ، ڈیرک شَووِن، اور ٹو ٹھائو تھے۔ ڈیرک شَووِن نے جارج فلائیڈ کے منہ کے بل گرتے ہی اپنے گھٹنے کے ذریعے باڈی کا سارا وزن فلائیڈ کی گردن پر ڈال دیا۔ پھر اس کی گردن کو 8 منٹ 46 سیکنڈ تک پورے زور سے دبائے رکھا۔ ارد گرد کے لوگوں کو ایسے لگا جیسے ڈیرک شووِن کالے نیگرو کے مرجانے کے انتظار میں ہے۔
نسلی تعصب کی اس بدترین واردات کے حوالے سے معروف امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے ایک تفتیشی رپورٹ شائع کی ہے‘ جس میں جارج فلائیڈ کو مارے جانے کے وقت موقع پر موجود دو چشم دید گواہوں کے بیان بھی شامل کیے گئے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز میں چھپنے والی اس رپورٹ کے مطابق سین آف کرائم پر موجود دو چشم دید گواہوں نے دل دہلا دینے والا یہ انکشاف کیا کہ ان کی موجودگی میں جارج فلائیڈ نے گردن کا منکا ٹوٹنے سے پہلے 5 منٹ میں تقریباً 16 مرتبہ بتایا کہ اُسے سانس نہیں آرہی وہ مر جائے گا۔ دونوں گواہ موقع کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ اسی دوران ان کے سامنے جارج فلائیڈ کے جسم میں حرکت بند ہوگئی۔ ساتھ لگ رہا تھا کہ وہ بیچارہ پولیس تشدد سے مر چکا ہے۔ خوف زدہ ہونے کے باوجود محض انسانی ہمدردی میں موقع پر موجود لوگوں نے پولیس والوں سے کہا کہ جارج فلائیڈ کی مدد کریں‘ لیکن پولیس والوں کا رویّہ ایسا تھا کہ جیسے کچھ ہُوا ہی نہیں ہے۔ اسی طرح سے موقع پر موجود پولیس والوں نے ایمبولینس کو بھی بہت دیر کر کے بلوایا جیسے وہ چاہتے ہوں کہ جارج فلائیڈ مر جائے۔ ایک اور رپورٹ میں ایمبولینس سٹاف کا انٹرویو شامل کیا گیا ہے۔ ایمبولینس سٹاف نے انکشاف کیا کہ جب انہوں نے جارج فلائیڈ کو اُٹھا کر ایمبولینس میں ڈالا تو اس کی نبض پہلے ہی بند تھی اور اس کے جسم میں کوئی حرکت نہیں ہو رہی تھی۔
ستم بالائے ستم والے محاورے کی عین مطابق ڈاکٹروں نے جارج فلائیڈ کے جسدِ خاکی کا معائنہ کرنے کے بعد پہلی مرگ رپورٹ غلط جاری کی۔ جارج فلائیڈ کی پہلی میڈیکل رپورٹ میں اس کی موت کی جو وجہ لکھی گئی اس کا اردو ترجمہ ہے ''دل کے معاملات‘‘۔
ریاست Minnesota کے اہلکار اور پولیس ڈیپارٹمنٹ اس وقت سکتے میں آ گئے جب جارج فلائیڈ کے قتل کی پوری واردات والی ویڈیو سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ ہوئی۔ Minneapolis کے چاروں پولیس والوں کے وہم و گُمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کی جانب سے جارج فلائیڈ کا قتل کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کرلیا ہے اور اسے کروڑوں امریکی سوشل میڈیا پر دیکھ بھی چکے ہیں۔
جارج فلائیڈ کے بے رحمانہ کسٹوڈیل کِلنگ کے واقعے کو دبانے کے لئے جعلی میڈیکل رپورٹ کا سہارا لیا گیا‘ بالکل اسی طرح سے جس طرح پاکستان سے ایک کرپشن میں سزا یافتہ کاروباری سیاست کار کو جیل سے فرار کروانے کے لئے جعلی میڈیکل رپورٹس استعمال ہوئیں۔ Minneapolis شہر کا لاہور سے فاصلہ 11,410 کلومیٹر بنتا ہے‘ لیکن قابلِ نفرت سنگین جرائم سے ملزموں کو بچانے کے لیے جعلی میڈیکل رپورٹس کے استعمال نے بہت بڑی حقیقت کھول کر رکھ دی ہے‘ اور وہ یہ کہ مجرمانہ ذہن دنیا کے جس علاقے میں بھی موجود ہوں، ہر مجرم کی سوچ ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔
نسلی تعصب پر کام کرنے والے غیر مسلم ماہرین میں ان دنوں حضرت محمد مصطفیﷺؐ کا بہت چرچا ہے‘ جس کا بنیادی سبب 632 عیسوی میں الوداعی حج کے موقع پر انسانیت کے سب سے بڑے محسنﷺ کا خطبہ ہے۔ خطبہ حجۃ الوداع میں آپؐ کے یہ جملے خاص طور سے بہت مقبول ہوئے ''کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، اور نہ ہی کسی گورے کو کسی کالے پر فضیلت حاصل ہے۔ نہ کسی عرب کو کسی غیر عرب پر اور نہ ہی کسی غیر عرب کو عرب پر کوئی فضیلت حاصل ہے سوائے اچھے کردار اور اچھے کام کے‘‘۔
میں اسے خاتم المُرسلیں حضرت محمدﷺ کا جاری معجزہ سمجھتا ہوں کہ نہ آپ کی تشریف آوری سے پہلے اور نہ ہی آپ کے ظاہری پردہ فرما جانے کے بعد نسلی تعصب کے خلاف کوئی ایسا ڈیکلریشن جاری ہوا۔ مغرب کا المیہ یہ ہے کہ وہاں نسلی تعصب کے حامی اور مخالف تو موجود ہیں لیکن کوئی غلامی کی اس نئی قسم کے خاتمے کے لئے غلامی کے خلاف ڈیکلریشن جاری کرنے پر تیار نہیں۔ ہاں البتہ جعلی میڈیکل رپورٹس ہر جگہ پائی جاتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں