"ABA" (space) message & send to 7575

چیخنے کا حق

کچھ دن پہلے دنیا نیوز کے فیلڈ رپورٹر نے کراچی کے مختلف علاقوں میں ویڈیو سروے کیا۔ محنت سے تیار ہونے والے اس سروے کے کلپس کامران خان کے شو میں چلائے گئے۔ ان ویڈیو کلپس کے ذریعے ایک نازک موضوع چھیڑا گیا‘ جس کی وجہ سے یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر فوراً وائرل ہو گئی؛ چنانچہ ہمارے وزیر اعظم جناب عمران خان نے اِن آوازوں کا حوالہ دے کر سماجی رابطے کی اپنی سائٹ سے اِسے ٹویٹس کا موضوع بنا دیا۔
محنتی رپورٹر کا سوال یہ تھا کہ کورونا کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے اور اس پر پاکستانی عوام کا طرزِ عمل کیا ہونا چاہئے؟ عرصے بعد کسی ٹی وی نے شہری آبادی کے تمام طبقوں کی رائے پر مبنی سیمپلنگ کی۔ اب دل تھام کر آپ اس سروے کے جواب سن لیں۔ مختلف لوگوں کے جوابات کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ پہلا حصہ وہ ہے جہاں جواب دینے والوں نے کہا؛ ''بھائی صاحب! کوئی کورونا، وورونا اِدھر نہیں ہے۔ یہ سب فراڈ ہو رہا ہے اور ہم کو کسی عالمی سازش کا حصہ لگتا ہے‘‘۔ دوسرے جواب میں بتایا گیا کہ یہ ڈاکٹرز وغیرہ اور دوائیاں بنانے والی کمپنیاں ہمیں چکّر دے کر اپنا اپنا مطلب نکال رہے ہیں۔ تیسری طرح کے جواب میں یہ رائے سامنے آئی کہ یہ سب پروپیگنڈا حکومت کے ادارے کر رہے ہیں تا کہ وہ کورونا وبا کے نام پر ساری دنیا سے پیسے بٹور سکیں۔
اس سروے کے دوران ایک سوال کا جواب سب بولنے والوں میں کامن ہی تھا جن میں خواتین و حضرات اور یوتھ کے لوگ بھی شامل ہوئے۔ سب نے یہی کہا کہ کورونا وائرس ہے کدھر؟ اس کے مریض کہاں ہیں؟ پھر جواب آیا، ہر مرنے والے پر کورونا وائرس کا لیبل لگایا جا رہا ہے۔ جواب دینے والوں نے ساتھ ہی پوری سنجیدگی سے یہ بھی فرما دیا کہ ان کے جاننے والوں میں کسی شخص کو بھی کورونا وائرس کی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ لُطف کی بات یہ ہے کہ اس سَروے میں جہاں باریش مردحضرات اور با پردہ خواتین شامل تھیں، وہیں پر کھلنڈرے نوجوان، وِنڈو شاپنگ کرنے والے گاہک اور چھوٹے بڑے دکان دار بھی شامل جواب دیتے پائے گئے۔
میری رائے میں یہ سروے ہمارے ملک کے سماجی ڈھانچے کا ایک علیحدہ سے پورا ''کیس سٹڈی‘‘ ہے۔ ہم کس حد تک اپنی انا کی پوجا کرنے والے اور اپنی مرضی کو مسلط کرنے والے لوگ ہیں جو دیوار پر لکھی ہوئی انسانی خون کی تحریر پڑھنے کو بھی تیار نہیں۔
دوسری جانب کا منظر نامہ بھی دیکھنے کے قابل ہے۔ ٹی وی سکرینوں پر کورونا وائرس کے نام پر سیاست کرنے والے اپوزیشن سیاست دانوں اور شعبہ میڈیکل کی بعض تنظیموں کے لیڈروں کے درمیان پریس ٹاک کا مقابلہ لگا ہوا ہے۔ یہاں بھی دونو ں جانب سے ایک ہی بات مسلسل کہی جا رہی ہے اور وہ یہ کہ کورونا کے حوالے سے ان کی تسلی کے مطابق حکومت فنڈز اور سہولتیں نہیں دے رہی ہے۔ چیختی ہوئی سکرینوں کا تیسرا پارٹنر سینئر ڈاکٹرز بنے ہوئے ہیں جو لوگوں کو COVID-19 کے حوالے سے احتیاتی تدابیر پر عمل کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں بلکہ اب تو کوئی بھی ایسا نہیں بچا جس کے مُنہ میں زبان ہو اور اس نے کورونا کے موضوع پر اپنی ماہرانہ رائے کی ویڈیو نہ بنائی ہو۔ ایسی ویڈیوز میں سوشل میڈیا کے وی لاگرز سب سے آگے ہیں۔ کئی ایک نے تو وبا کے پہلے ہفتے میں ہی قوم کو یہ خوش خبری سُنا دی تھی کہ کورونا وائرس کا علاج دریافت ہو گیا ہے، فکر مت کرو۔ اس طرح کے وی لاگرز کے یُو ٹیوب چینلز پر کمال کے گرافکس پوسٹ کیے جاتے ہیں مثال کے طور پر چڑیا نے ہاتھی کیسے نگل لیا۔ دو منٹ میں دو سو پائونڈ وزن کم کرنے کا 100 فیصد کامیاب تجربہ۔ یہ ماہرین ایسی ایسی سرٹیفائیڈ رائے دے رہے ہیں جو ثابت کرتی ہے کہ قوم کو کورونا وبا میں سے نجات دہندہ مل چکا ہے‘ اور یاد رکھئے وہ نجات دہندہ کوئی اور نہیں ہو سکتا بلکہ ویڈیو بلاگ یا پریس کانفرنس کے ذریعے خطاب فرمانے والا ہی ہے۔
اب آئیے ذرا اپنے قومی ایوانوں پر بھی ایک نظر ڈال کر دیکھیں وہاں کیا ہو رہا ہے۔ ہمارے ملک کے سب سے بڑے صوبے کی صوبائی اسمبلی کا اجلاس شہر کے ایک بڑے ہوٹل میں برپا ہو رہا ہے۔ صوبہ سندھ کی صوبائی اسمبلی مسلسل الزامات کی میراتھن ٹریڈنگ میں مصروف پائی جاتی ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں پچھلے جمعہ کی شام کو قومی پارلیمنٹ کے سپیکر اسد قیصر صاحب کو کہنا پڑ گیا کہ اگر نیشنل اسمبلی کے ممبران ایک دوسرے کے درمیان سماجی فاصلہ برقرار نہیں رکھیں گے‘ اپنی ٹولیاں نہیں توڑیں گے، گپ شپ اور کانا پھوسی بند نہیں کریں گے، تو میں اُٹھ کر جا چلا جائوں گا اور اجلاس کو معطل کر دوں گا۔ سپیکر اسد قیصر صاحب نے کورونا وبا کے ہاتھوں اپنی ذاتی تکلیف اور اپنی فیملی کے تلخ تجربے بھی شیئر کیے‘ لیکن اپنے ہی بنائے ہوئے قانون توڑنے کے لئے مشہور قوم کے منتخب نمائندوں نے اپنے ہی منتخب کئے ہوئے سپیکر کی رُولنگ کو اسمبلی ہال میں لائیو کیمرے کے سامنے توڑ مروڑ کر رکھ دیا۔
ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ رمضان شریف کے خاتمے پر چاند رات اور عید کے تین دن میں یار لوگوں نے سماجی فاصلوں کا اپنے ہاتھوں سے تین لاکھ مرتبہ جنازہ نکالا، ہر شہر میں ہر گلی کُوچے اور ہر بازار میں۔ لہٰذا اس مخلوط شاپنگ کا خوف ناک رزلٹ آج ہم سب کے سامنے آ چکا ہے۔ COVID-19 میں خطرناک سپائیک کی شکل میں‘ جس کی دو علیحدہ علیحدہ انتہائیں ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان میں سے پہلی انتہا دکان داروں اور ان کے خریداروں کے درمیان ہے۔ سارے ملک کے دکان دار اپنی اپنی شاپ میں کسی طرح کی احتیاط کروانے کے لئے تیار نہیں ہیں‘ جبکہ کورونا کے باغی ان دکان داروں کے خریدار، کسی بھی بازار میں کسی طرح کے قومی ایس او پیز پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں حالانکہ یہ ایس او پیز بنانے والی قومی کمیٹی برائے کورونا اور کنٹرول اینڈ کمانڈ کے اجلاس ایک دن میں ایک سے زیادہ مرتبہ ہو رہے ہیں۔ بڑی محنت سے قومی خزانے کا ایک ایک پیسہ سنبھال کر‘ پورے ٹرانسپیرِنٹ طریقے سے کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں لگایا جا رہا ہے‘ لیکن دن را ت کی اس محنت کا نتیجہ بڑا تکلیف دہ ہے‘ کیونکہ جن کے لیے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے وہ لوگ کورونا کو وبا تو کیا سِرے سے کوئی بیماری ماننے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں۔ میں دعا کرتا ہوں‘ اللہ تعالیٰ ہر پاکستانی اور ہر انسان کو COVID-19 جیسی مہلک وبا سے محفوظ رکھے۔ لیکن ہمیں پہلے یہ تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس وبا کا صرف ایک ہی علاج ہے۔ وہ علاج ہے احتیاط اور احتیاطی تدابیر۔ اس کے علاوہ ابھی تک ساری دنیا کے سارے ماہرین مل کر بھی کورونا وبا کا کوئی کلینیکل علاج یا دوائی تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
ایک دوسرا پُر جوش طبقہ بھی ان دنوں ہسپتالوں کے دروازے توڑتے دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ جنہیں احتیاطی تدابیر اپنے پیر تلے کُچلنے کے بعد کورونا وائرس لگتا ہے۔ وہ ڈاکٹروں اور پیرا میڈکس کو گلے سے پکڑ کر اپنا علاج کروانا چاہتے ہیں۔ جی ہاں 100 فیصد اپنی مرضی کا علاج۔
وکالت نامہ کے آغاز میں وزیر اعظم جناب عمران خان کے جس ٹویٹ کا ذکر ہوا، اس میں دُکھی لہجے میں کہا گیا، قوم کورونا وبا کو سنجیدگی سے لا علاج مرض سمجھے۔ خود سوچئے! جو ڈاکٹر کا کہا نہ مانے اسے ہسپتال جا کر چیخنے کا حق کس نے دیا۔
کتنا مشکل ہے جلانا کسی رَستے میں چراغ
کتنا آساں ہے، ہوائوں کو اشارہ کرنا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں