"ABA" (space) message & send to 7575

چلئے ایکسپرٹ کی سُن لیتے ہیں!

اسلام آباد میں اس ہفتے کی تیسری بارش ہوئی۔ تیز ہوا اور ٹھنڈے میٹھے تھنڈَر سے بھرپور۔ موسم کا موڈ بتا رہا ہے کہ پری مَون سون بارش کا سیزن شروع ہو چکا ہے۔ 15 جولائی کے بعد ہر طرف ساون ہی ساون ہو گا۔ کون نہیں جانتا کہ ساون میں کیا کیا بوٹیاں اور بوٹے مشروم گروتھ پکڑ لیتے ہیں۔ کورونا وبا تکلیف کا ایک ایسا ساون بن کر سامنے آیا جو واپس جانے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ایسے میں موسمی ایکسپرٹس کی لائنیں لگ گئی ہیں۔ شروع شروع میں کچھ ایم بی بی ایس ڈاکٹرز اور صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے سینئر سامنے آئے۔ چند دن گزرے کہ لوگوں کو پتہ چل گیا ماہرانہ رائے دینا مشہوری کا سستا ترین اور فوری راستہ بن گیا ہے‘ لہٰذا فرضی حکیم، جعلی بابے، پھونکیں مارنے والے، کَکھ اور پھکّی بیچنے والے ہر طرف ساون کے مینڈکوں کی طرح بر آمد ہو گئے۔ ایسے ایسے مشورے کہ سُن کر حیرانی کم اور پریشانی زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشوروں کا یہ طوفان یہ سوچے سمجھے بغیر برپا ہے کہ COVID-19 جیسی عالمی وبا کی ابھی تک کوئی دوائی، ویکسین یا علاج نہیں سامنے آ سکا۔ یہ COVID-19 ایکسپرٹس کی ویڈیو والی وبا صرف پاکستان میں ہی نہیں پھیلی بلکہ یہ دوسری عالمی وبا ہے جو ویڈیو پیغامات کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلا دی گئی۔ پاکستان میں تو سیاست دانوں نے کورونا وبا کے حسرت ناک موسم میں خوفناک حصہ ڈالا۔ اس سے بھی سوشل میڈیا بھرا ہوا ہے۔
سنجیدہ حلقوں کا شروع دن سے کہنا ہے کہ COVID-19 جیسی موذی وبا پر میڈیکل شعبے کے سنجیدہ ماہرین کی بات ہی سُنی جانی چاہئے۔ ایسے میں ایک امریکی پروفیسر کا نام ذہن میں آتا ہے۔ ان کا شُمار دنیا کے بڑے عالموں میں ہوتا ہے۔ وہ سٹینفورڈ یونیورسٹی یو ایس اے کے ایسے سکالر ہیں، جنہوں نے سال 2013 میں کیمسٹری کی فیلڈ کا نوبیل پرائز بھی جیت رکھا ہے‘ اس لئے یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ پروفیسر صاحب نا صرف ایک سنجیدہ سائنسدان ہیں بلکہ اصلی تحقیق کار میڈیکل ایکسپرٹ بھی۔
پروفیسر مائیکل لیوٹ صاحب سٹینفورڈ یونیورسٹی میڈیکل سکول میں سٹرکچرل بائیالوجی کے استاد ہیں۔ ان دنوں COVID-19 وبا کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات پر ان کا تجزیہ سامنے آیا ہے۔ اس کے کچھ حصے ایسے ہیں جو ہمارے ہاں چلنے والے لاک ڈائون کی بحث سے براہِ راست متعلقہ بھی ہیں۔ اس لئے آیئے سٹرکچرل بائیالوجی کے اس نوبیل انعام یافتہ ایکسپرٹ کی رائے کے کچھ نکا ت پر نظر ڈالیں۔
پہلا نکتہ پروفیسر مائیکل لیوٹ نے ان لفظوں میں اُٹھایا، میرے ذہن میں کوئی شک باقی نہیں ہے کہ جب ہم سب واپس مُڑ کر پیچھے دیکھیں گے تو ہمیں ایک دردناک حقیقت نظر آئے گی۔ یہ تلخ حقیقت کہ کورونا وبا کے پھیلائو کی وجہ سے نافذ کئے گئے لاک ڈائون کے نتیجے میں ہونے والا نقصان، بچائی ہوئی زندگیوں سے کہیں زیادہ ہو گا۔ پروفیسر مائیکل نے اپنی بات کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا، دوسرے الفاظ میں یہ لاک ڈائون کورونا وائرس سے بھی زیادہ لوگوں کی جان لے جائے گا۔
دوسرا نکتہ: کیمسٹری نوبیل پرائز وِنر پروفیسر کا اٹھایا ہوا اگلا نکتہ یہ ہے کہ ابھی کورونا وائرس کے حوالے سے صرف انسانی جانوں کے نقصان پر لوگوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں‘ لیکن انسانی زندگیوں کے حوالے سے ہونے والا نقصان ہماری سوچ سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔
تیسرا نکتہ بے روزگاری کے حوالے سے ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کی معیشت کا واحد سہارا، ان کی نوکریاں‘ ختم ہو گئی ہیں۔ پروفیسر مائیکل لیوٹ نے طبقاتی تقسیم کی طرف واضح اشارہ کرتے ہوئے کہا ''اشرافیہ‘‘ کی نوکریاں نہیں جاتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اشرافیہ کے دلوں میں اُن لوگوں کے لئے بڑی حقارت ہوتی ہے جو ہوش مندی سے شہروں کے کُھلنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 
چوتھا نکتہ: پروفیسر صاحب کے مطابق اس وقت دنیا اپنی تاریخ کے ایسے میگا بحران سے دوچار ہے، جو ماہرین کا پیدا کیا ہوا ہے۔ یاد رکھیں ان کمرشل ماہرین نے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں اور کیریئر برباد کر دیئے ہیں۔ یہ وہ کام ہے جو وائرس سے نہیں ہو سکا۔ پروفیسر مائیکل لیوٹ کہتے ہیں، یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ بڑا انسانی سانحہ یہ لاک ڈائون ہے کورونا کا وائرس بالکل نہیں۔
پانچواں نکتہ کورونا وائرس کے اندر سے نکلنے والی سیاست کے بارے میں ہے، کہا گیا ہے کہ ان سیاست دانوں نے جن کمرشل ماہرین کی بات پر عمل کیا وہ بھی بحران کے ذمہ دار ہیں‘ جیسے کہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی۔ انڈیا کی آبادی اس وقت ایک ارب چالیس کروڑ کے قریب ہے۔ کورونا وائرس سے چند سو اموات ہوئیں (رَوڈ سائیڈ ایکسیڈنٹ اور روزانہ دل کے مریض کی اموات سے بھی کم) لیکن بھارت کے وزیر اعظم نے اپنا پورا کا پورا ملک لاک ڈائون کے حوالے کر دیا۔ سوال یہ بنتا ہے، کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت مودی کے نیچے بھارت میں کتنے کروڑ لوگ فاقہ کشی کے مُنہ میں جا رہے ہیں۔
چھٹا نکتہ ایک سوال کی صورت میں اٹھایا گیا ہے‘ جس میں ایکسپرٹ نے کہا، مجھے امید ہے کہ آپ کے دوست جو لاک ڈائون کی حمایت کرتے ہیں، بھارت کے اندر جھانکیں گے اور جواب دیں گے۔ میں جانتا ہوں وہ آپ کو بتائیں گے کہ میں کتنا بُرا آدمی ہوں۔ میں کتنا غلط سوچ سکتا ہوں۔ لیکن یہ کوئی جواب نہیں ہے۔ ان کو اس بات کا جواب دینا ہے جس کے بارے میں سوال پوچھا گیا ہے۔ سامنے دیوار پر لکھا ہوا سوال۔ کیا اس وقت دنیا میں زیادہ تباہی زندہ رکھنے والی معیشت کی وجہ سے ہوئی ہے یا مار دینے والے کورونا وائرس کی وجہ سے؟ پروفیسر مائیکل لیوٹ کہتے ہیں‘ یہ اس وقت کا حتمی سوال ہے۔ ہم سب کو اس کا جواب پتہ ہے‘ لیکن اصل سوال یہ ہے، کیا اشرافیہ میں اس سوال کا سامنا کرنے کی ہمت ہے؟
اب آیئے پاکستان کے ایک ایسے فَورم کی طرف جسے سوال اُٹھانے کا قانونی حق حاصل ہے۔ جی ہاں! یہ ملک کی پارلیمنٹ ہے۔ جہاں پچھلے دو ہفتوں سے سال 2020-21 کے بجٹ پر ڈیبیٹ چل رہی ہے۔ صبح سے شام تک۔ جن لوگوں نے اس ڈیبیٹ کو فالو کیا ہے وہ میری بات سے اتفاق کریں گے، کورونا کے حوالے سے پارلیمانی بجٹ ڈیبیٹ میں تین دلائل کُھل کر سامنے آ سکے۔ پہلی دلیل یہ کہ جناب وزیر اعظم عمران خان کو مودی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پورا پاکستان پہلے دن ہی بے رحم لاک ڈائون اور کرفیو کے حوالے کر دینا چاہئے تھا۔ دوسرے نمبر پر کہا گیا کہ پاکستان کی معیشت سخت مندے کی جانب دوڑ رہی ہے‘ اس لئے معاشی مسئلے کا کوئی فوری حل نکالا جائے۔ تیسرے نمبر پہ لاک ڈائون کے حامیوں نے جو مطالبہ کیا اس نے پہلے کی دونوں دلیلوں کو بلڈوز کر دیا۔ مطالبہ یہ تھا کہ مری، گلیات اور ناردَرن ایریا میں ٹورِزَم کے سارے ادارے کھول دیئے جائیں کیونکہ دہاڑی دار مزدوروں اور چھوٹے کاروباری دُکان داروں کو روٹی روزی چلانا مشکل ہو گیا ہے۔ فرض کریں‘ اگر پہلے دن ہی لاک ڈائون اور کرفیو لگانے کا فیصلہ کر لیا جاتا، تو کیا پاکستان بھر میں کھانے پینے کی چیزوں کی فوڈ چین برقرار رکھی جا سکتی تھی؟ اس کا جواب یقیناً 'نہیں‘ میں ہو گا۔ دنیا کے باقی سارے ملکوں میں سب لوگ مل کر کورونا سے لڑ رہے ہیں۔ اپنے ہاں کے منظر دیکھ لیں، کوئی ڈاکٹروں اور نرسوں سے لڑنے کے لئے ہسپتال جاتا ہے۔ اگلے دن پشاور کا ایک نوجوان کیمرا لے کر پولیس کو گالیاں دینے کے لئے ویڈیو بنانے بازار پہنچ گیا۔ ٹی وی رپورٹر جس سے بھی پوچھتے ہیں، ''آپ نے ماسک کیوں نہیں پہن رکھا؟‘‘ وہ جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے اور کہتا ہے ''جناب یہ ہے ماسک۔ باقیوں نے بھی تو نہیں پہن رکھا‘‘۔ گورے ایکسپرٹ کی بات سنیں یا دیسی ارسطوئوں کی؟؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں