"ABA" (space) message & send to 7575

کُرسی… اے کُرسی

ویسے تو انڈین سَب کانٹی نینٹ میں کُرسی کی جتنی قسمیں پائی جاتی ہیں، اس سے زیادہ کُرسی کی داستانیں موجود ہیں۔ سب 100 فیصد سچے واقعات پر مبنی ہیں۔ مثال کے طور پر پارٹیشن آف انڈیا ایکٹ پاس ہونے سے پہلے کی تاریخِ کُرسی اور پھر 14اگست 1947 کے بعد کا موضوع ایک سَوپ سیریل بن کر سامنے آیا ہے۔ کُرسی کے حوالے سے مغلِ اعظم جلال الدّین محمد اکبر اور اُن کے بیٹے نورالدین جہانگیر کو ہی دیکھ لیں جنہوں نے کُرسی کو سب رشتوں پر بھاری ثابت کردیا۔ پھر شاہ جہان کا زمانہ آیا تو اس کے سب سے پرہیزگار بیٹے اورنگزیب عالمگیر نے اپنے محبوب والد کو 8 سال کیلئے کُرسی کی خاطر آگرہ کے قلعے میں قید کر دیا۔ اس شاہی قید سے ابّا تو کبھی زندہ برآمد نہ ہو سکے مگر اُن کا جنازہ، تاج محل کی نچلی منزل تک آزادانہ پہنچ گیا۔
پارٹیشن آف انڈیا کے بعد کرسی کے لئے قائدِ ملّت لیاقت علی خان صاحب کو برسر عام کمپنی باغ پنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ اس لئے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اقتدار کی کُرسی کوئی میوزیکل چیئر ٹائپ کھیل ہرگز نہیں ہے جس میں میوزک بند ہوتے ہی ایک دوسرے سے کُرسی چھین لینے کا تماشہ ختم ہو جاتا ہے۔
ویسے تو میں نے بچپن سے ہی سن رکھا تھا کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے بیٹے مرتضیٰ بھٹو صاحب کو دن دہاڑے، کُھلے عام گولیوں کی بوچھاڑ سے مار دیا گیا تھا‘ لیکن میں نے ان کی آواز کبھی نہیں سنی تھی۔ ہاں البتہ ہمارے گھر میں مرتضیٰ بھٹو صاحب کے آنے کی ایک تصویر ضرور دیکھ رکھی تھی‘ جس کے بارے میں بڑے ہو کر پتہ لگا کہ یہ تصویر مرتضیٰ بھٹو کے اسلام آباد کے آخری دورے کی تصویر بھی ہے‘ جس کے 24 گھنٹے کے اندر اندر وہ کراچی واپس چلے گئے اور اپنی جان بھی ہار بیٹھے۔ 
جب مرتضیٰ بھٹو صاحب ہمارے گھر آئے تھے‘ تب میری عمر صرف چند مہینے تھی۔ میرے چچا ہمایوں جوانی میں نیند کے دوران برین ہیمرج ہو جانے سے فوت ہوئے تھے۔ بڑے بتاتے ہیں کہ تب سے اب تک میرے بابا نے کبھی عید پر نیا لباس نہیں پہنا۔ ہمایوں انکل کا جب بھی ذکر آتا ہے‘ ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ وہ میرا یار تھا۔
اُن دنوں ہمارا گھر بلیو ایریا اسلام آباد کے جناح ایونیو پر واقع سیکٹر ایف سِکس ون میں تھا‘ جہاں ہمایوں انکل کی وفات پر فاتحہ خوانی کے لئے جناب ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے صاحبزادے مرتضیٰ بھٹو مرحوم میرے بابا کے پاس آئے تھے۔ اُن کے ساتھ اس وقت پی پی پی شہید بھٹو گروپ اور اب پی ٹی آئی کے رہنما جمیل عباسی بھی تھے۔ جب میں نے سکول جانا شروع کیا تو گھر میں پڑی ایک فوٹو البم میرے ہاتھ لگ گئی جس میں مجھے مرتضیٰ بھٹو مرحوم کی ہمارے گھر فاتحہ والی تصویر نظر آ گئی۔ بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ کُرسی کی کشمکش میں مردانہ وجاہت کا یہ چلتا پھرتا نمونہ بے موت مارا گیا۔
چند روز سے سوشل میڈیا پر مرتضیٰ بھٹو مرحوم کی راجہ بازار راولپنڈی کے جلسے میں کی گئی آخری تقریر کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے۔ اس تقریر کا کلپ سُن کر پاکستان میں کُرسی کی سیاست کے حوالے سے مجھے تین واقعات یاد آ رہے ہیں‘ جو آپ سے شیئر کر لیتا ہوں۔ آج مرتضیٰ بھٹو کے جس جلسے کی بات کر رہا ہوں اس میں سٹیج پر مرتضیٰ بھٹو مرحوم کے ساتھ ان کی والدہ محترمہ نصرت بھٹو صاحبہ اور بیٹی فاطمہ بھٹو بھی بیٹھی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ میں نے مرتضیٰ بھٹو کی آواز پہلی مرتبہ ان کی عوامی تقریر کے اسی ویڈیو کلپ میں سنی ہے۔ ویڈیو کلپ میں مرتضیٰ بھٹو کی تصویر پر نظر ڈالے بغیر تقریر سنیں تو یہ ہو بہو ان کے والد صاحب کی آواز میں لگتی ہے۔ اس تقریر کے دوران وہ اپنی بی بی صاحبہ کے طرز سیاست پر طنز کے تیر چلاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں‘ جس پر ان کی والدہ محترمہ نصرت بھٹو صاحبہ بے اختیار، زوردار قہقہے لگاتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ مرتضیٰ بھٹو مرحوم نے کُرسی کا قصہ چھیڑا اور بتایا کہ ایک مولوی صاحب نے لیڈی پرائم منسٹر صاحبہ سے پوچھا آپ تسبیح پر کیا پڑھ رہی ہیں تو جواب آیا: آیت الکرسی۔ مولوی صاحب بولے: وہ تو خاصی طویل ہے مگر آپ منکے تیز تیز گھما رہی ہیں۔ جواب آیا: ہم صرف کُرسی، کُرسی،کُرسی پڑھتے ہیں۔25 جولائی 2018 کے جنرل الیکشن کے نتیجے میں اسی سال 18 اگست کے دن جناب عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ تب سے اب تک کُرسی، کُرسی، کُرسی کا منترا اپوزیشن کو مسلسل جادو دکھا رہا ہے۔ آئیے اس میجیکل کرسی کے کچھ کمال ہم یہاں بھی دیکھ لیں۔
پہلا کمال: کرسی کا پہلا کمال یہ ہوا کہ لاہور اور لاڑکانے کے وزیر اعظموں میں فرق ختم کر دیا گیا بلکہ لاہوری صدر جسٹس تارڑ کی پارٹی اور لاڑکانہ والوں کے داماد صدر آصف زرداری صاحب دونوں ایک ہی سکے کے دو رُخ بن گئے۔ جس طرح کہ ٹیلنٹڈ کزن ہوتے ہیں۔ پی پی پی کے سربراہ بلاول صاحب نے بجٹ کلوزنگ ڈیبیٹ میں (ن) لیگ سے مطالبہ کیا کہ میرے خاندان پر آپ نے جو ظلم کئے ہیں اس پر معافی مانگیں‘ جس کے جواب میں (ن) لیگ والوں نے اسمبلی میں زوردار ڈیسک بجائے۔ ایسے لگا جیسے وہ ڈیسک بجا کر کہہ رہے ہیں‘ ہم نے نواب شاہ والوں پر تو کوئی ظلم نہیں کیا۔ آپ کے والد صاحب کا پیٹ پھاڑنے کا صرف اعلان کیا تھا۔ ہم نے تو ان کو گھسیٹا تک بھی نہیں ہے۔
دوسرا کمال یہ ہے کہ شوگر کمیشن رپورٹ کو اِن ساری پارٹیوں کے لوگوں نے‘ جن کا نام کمیشن رپورٹ میں آیا، عدالت میں اکٹھے چیلنج کیا۔ ایک ہی وکیل صاحب کی پیش کردہ رِٹ پٹیشن کے ذریعے۔ جو اس بات کا کُھلا ثبوت ہے کہ کرسی کے لئے ہر ظلم پر این آر او ہو سکتا ہے۔ شاید اسی حوالے سے عمران خان صاحب نے بھی اسی اسمبلی سیشن میں کہہ دیا، 7-8 تو لوگ ہیں۔ سب کو یقین دلا دوں کہ ان کے جرائم پر نظر نہیں پڑے گی تو وہ جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے۔ پورے 5 سال کے لئے۔
تیسرا کمال یہ ہے کہ چینی مافیا کمیشن رپورٹ کی زَد میں آنے والے سارے کردار صرف ایک شخص سے تنگ ہیں۔ ساری ناراضگی، تمام نفرت اور ہر طرح کے حملوں کا شکار صرف وزیر اعظم عمران خان صاحب ہیں۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔
ہاں ایک کمال تو رہ ہی گیا۔ وہ بھی سُن لیں۔ یہ ہے قومی اسمبلی میں وزیر اعظم جناب عمران خان کی ''مائنس وَن‘‘ والی تقریر ہے۔ وہ لوگ جو اس تقریر کی وجہ پوچھتے پھرتے ہیں وہ سابق اقامہ ہولڈر کابینہ کی پریس کانفرنس کیوں نہیں دیکھتے‘ جو وزیر اعظم صاحب کی تقریر سے چند دن پہلے اسلام آباد میں ہی ہوئی تھی‘ جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کے لوگ ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ذرا اس سے بھی پیچھے چلیں جب شہباز شریف صاحب کے ذریعے نئی کابینہ بنانے والی خبر لیک کی گئی تھی۔ کُرسی کے حوالے سے دو واقعات وہ ہیں جن میں ایک جگہ کُرسی کو مضبوط کہا گیا جبکہ عمران خان نے بتا دیا کُرسی اے کُرسی، تو کچھ نہیں۔اختیار اور اقتدار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ پھر اپنے لوگوں سے مخاطب ہو کے کہا: جو آج یہاں بیٹھے ہیں، وہ کل نہیں ہوں گے۔
اسے سمجھنے کے دو طریقے ہیں۔ پہلا نواز شریف صاحب والا مجھے کیوں نکالا، چار لوگ کیسے ہٹا سکتے ہیں، یہ مُنہ اور مسور کی دال وغیرہ۔ دوسرا طریقہ وزیر اعظم عمران خان والا ہے، ہر چیلنج کا سامنا کرو، ہر چیز کھول کر قوم کے سامنے رکھ دو۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں