"ABA" (space) message & send to 7575

جے آئی ٹی

نیشن سٹیٹس کے دور میں سب سے بڑا اور اہم چیلنج گُڈ گورننس کا ہے جس کے دو اہم پہلو گورننس کے دو بنیادی پلرز سمجھے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک پہلو عوام کی اقتدار میں پارٹنرشپ کو یقینی بنانا ہے‘ جبکہ دوسرا پہلو سوشل، جوڈیشل اور اِکنامک زندگی بہتر گزارنے کے لئے ریلیف کو عام آدمی کے دروازے تک پہنچانے کا ہے۔ اسی لئے نئے دور کی فلاحی ریاستوں نے انصاف اور روٹی تک عوام کی پہنچ کی گارنٹی والی پالیسیاں بنا رکھی ہیں۔ ہمارے ہاں رائج سسٹم کے مطابق اِن دونوں میدانوں میں ریفارمز کی کوشش کو طعنہ نہیں بلکہ باقاعدہ گالی سمجھا جاتا ہے۔ اس کا ایک عام سا ثبوت ہر جگہ سے مل جاتا ہے اور وہ یوں کہ اگر کسی پبلک سرونٹ کو ایک سیٹ سے اُسی گریڈ کی دوسری سیٹ پر ٹرانسفر کر دیا جائے تو فوراً سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اس کے ہمدردوں کے ''کریکر‘‘ چلنے شروع ہو جاتے ہیں۔ بات اسی پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ٹرانسفر رُکوانے کے لئے آئینی اور قانونی فورَمز سے بھی رُجوع ہوتا ہے۔
ہمارے جوڈیشل سسٹم کے اعداد و شمار کے مطابق اِس وقت ملک کی پانچوں ہائی کورٹس میں سب سے زیادہ رِٹ پٹیشنز آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت دائر ہو رہی ہیں۔ ان آئینی پٹیشنز میں سب سے زیادہ درخواستیں سروس آف پاکستان میں موجود سرکاری ملازم دائر کرتے ہیں‘ جبکہ سب سے زیادہ رِٹ پٹیشنز کا موضوع بھی سرکاری نوکری میں پوسٹنگ اور ٹرانسفر کو ہی بنایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو جس سیٹ پر ایک دفعہ بیٹھ گیا وہ اسے اپنی خاندانی جاگیر یا ذاتی پراپرٹی سمجھ لیتا ہے۔ پھر یہ بھی ایک اور بہت بڑی سچائی ہے کہ ہر سیٹ کے ارد گرد ''مُرید ‘‘ جمع ہو جاتے ہیں‘ جو سیٹ پر بیٹھے ہوئے اپنے مہربان کی جدائی کو بالکل بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ پولیس کا محکمہ بھی اسی گولڈن پرنسپل پہ چلتا آیا ہے۔ صوبائی پولیس ہو یا مرکزی قانون کے نیچے آنے والی پاکستان پولیس سروس، دونوں میں کام کے بندے ایک ایک سیٹ پر ملازمت کی ساری مدّت گزار لینے کے گُرو ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو سروس آف پاکستان کو اصلی معنوں میں پبلک کے سرونٹ بن کر گزارتے ہیں ان کی نوکری راستے کا پتھر بنی رہتی ہے۔
اتنے بڑے مسئلے پر اس تھوڑی سی تمہید باندھنے کا مطلب یہ ہے کہ اب پبلک سرونٹ ہونے کا مطلب ہے پبلک کے اوپر لگا ہوا داروغہ‘ جس کی ڈیوٹی صوبے دار، کمان دار اور ان کے دربار کے بڑوں کی سروس میں حاضر رہنا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات تردید کے کسی بھی خوف کے بغیر کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے قومی ادارے سیاست کی فائرنگ رینج میں کھڑے ہیں۔ اس Institutional Politicization کے انتہائی خوفناک نتائج نکل رہے ہیں۔ نہ صرف قومی زندگی کے لئے یہ نتائج زہرِ قاتل ہیں، بلکہ غریب اور بے آواز نچلے طبقات کے قتلِ عام کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ میں کوئی شاعرانہ خیال پیش نہیں کرنا چاہتا، جس کا کوئی سیاسی مقصد یا مطلب نکالنا ہو، بلکہ ان خوفناک نتائج کے چند زندہ ثبوت آپ سے شیئر کر لیتا ہوں۔
پہلا ثبوت: 11ستمبر 2012 کو پاکستان کے سب سے بڑے کاروباری حب، شہر کراچی کی آتشزدگی سے ملتا ہے‘ جہاں بلدیہ ٹائون کی علی انٹرپرائز گارمنٹ فیکٹری میں دیکھتی آنکھوں، سُنتے کانوں، چلتے کیمروں اور چیختی ٹی وی سکرینوں کی موجودگی میں ورکرز اور مزدوروں پر ایسا ظلم ہوا جسے دیکھ کر شکاگو کے مزدوروں والا یکم مئی بھی شرما کے رہ گیا۔ 260 غریب اور بے آسرا مزدوروں اور وَرکرز کو شہر کے بھتّہ مافیا نے دیدہ دلیری سے آگ کے شعلوں میں جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ اہلکاروں نے پہلے اس انسانیت سوز واردات کو حادثہ کہا۔ پھر شدید عوامی ردّ عمل کی وجہ سے مجبوراً ڈھیلی ڈھالی ایف آئی آر کاٹ دی۔ اس کے بعد Joint Investigation Team سیریز چل نکلی۔ بھتّہ مافیا اس قدر طاقت ور تھا کہ اس نے سیاسی بدمعاشیہ کی چھتری کے سائے میں 8 سال تک جے آئی ٹی کو کارپٹ کے نیچے دبائے رکھا۔ یہ جے آئی ٹی 2017 سے شروع ہونے والی مقدمہ بازی کے نتیجے میں چوتھے سال میں 2020‘ جولائی کے مہینے میں تین ٹکڑے بن کر بر آمد ہوئی۔ وہ بھی تب جب بھتّہ مافیا کے سرکاری سرپرستوں کو صوبہ سندھ کی اعلیٰ ترین عدالت نے توہین عدالت کی کارروائی میں طلب کر لیا۔
اس سے پہلے بھی جے آئی ٹی کی تاریخ بڑی بڑی وارداتوں پر ایک جیسی رہی۔ جس کا سب سے پُرانا حوالہ کمپنی باغ راولپنڈی کے جلسہ عام میں شہید ملت خان لیاقت علی خان کے قتل کی واردات سے شروع ہوتا ہے۔ پاکستان کے اس عظیم لیڈر اور پہلے وزیر اعظم کے سانحہ قتل کی جے آئی ٹی کی رپورٹ لاہور جا کر مکمل ہوئی۔ تفتیشی افسر ڈی ایس پی رینک کا دیانت دار شخص تھا۔ مقتول وزیر اعظم کے اس مقتول تفتیشی نے دبائو اور دھمکیوں میں آنے سے انکار کر دیا‘ جس کے بعد لیاقت علی خان قتل کے سہولت کاروں نے اُسے چھوٹے سیسنا طیارے میں لاہور سے سوار کر دیا۔ تھوڑی سی فلائٹ کے بعد جب یہ طیارہ گوجرانوالہ کے قریب راہ والی کینٹ کے علاقے پر پہنچا تو وہ فضا میں ہی پھٹ کر آگ اور خون کے شعلوں میں ملبے کی صورت لینڈ کر گیا۔ اس جے آئی ٹی کی فائل تھانہ کوتوالی سٹی راولپنڈی میں فائلوں کے ڈھیر میں دفنا دی گئی۔ لیاقت علی خان شہید مقدمہ آج بھی زیر تفتیش بتایا جاتا ہے‘ جس کے قاتل نامعلوم افراد کہے جاتے ہیں۔ 
جے آئی ٹی کا تازہ حوالہ مسلم لیگ (ن) تیسرے دور کے سانحہ ماڈل ٹائون سے ملتا ہے۔ ساری دنیا میں ٹی وی کیمروں کے ذریعے لائیو چلنے والی اس میراتھون کوریج کے مقتول اور ان کے وارث آج بھی انصاف کا نوحہ بنے ہوئے ہیں۔ 
دوسرا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کے کریمینل جسٹس سسٹم کی مثال مکڑی کے جالے کی طرح ہے۔ بڑے شیر، لگڑ بگڑ اور ہاتھی اسے چیر پھاڑ کر نکل جاتے ہیں جبکہ کمزور تتلیاں اس جالے میں پھنس کر جان سے ہاتھ دھونے پر مجبور ہیں۔ 7 ارب 40 کروڑ قومی وسائل سے چوری ہوئے۔ ملک کی اعلیٰ ترین فاضل عدالت نے نوٹس لیا۔ ریفرنس بنا، متعلقہ جرائم میں احتساب کرنے والی ٹرائل کورٹ میں مقدمہ چلایا گیا۔ ملزم کو سزائے قید اور بھاری جُرمانے ہوئے۔ پھر فرضی نعروں اور بے جان رپورٹوں پر مبنی دعویداری جیت گئی۔ 100 روپے کے نان جوڈیشل سٹیمپ پیپر پر دنیا کی تاریخ میں پہلی بار سزا یافتہ ملزم علاج کے بہانے لندن پہنچ گیا۔ آج 223 دن گزر چکے ہیں۔ ملزم نہ ہسپتال داخل ہوا نہ ہی کسی ڈاکٹر کو نبض کے لئے ہاتھ پکڑایا اور اس کا قیام مے فیئر کے اسی محل میں ہے جس کے بارے میں اس نے جوڈیشل فورمز پہ کہا کہ اسے معلوم ہی نہیں اس محل کا مالک کون ہے۔ ہاں البتہ! یہ جان کر آپ کو دلی سکون ملے گا کہ مرغی چور ابھی تک پھنسا ہوا ہے۔ ایسے میں بلدیہ ٹائون، لیاری گینگ وار اور کراچی قتل عام میں مارے جانے والے 50 ہزار بے گناہوں کے وارث یقینا سوچتے ہوں گے کہ مرغی کتنی خوش قسمت ہوتی ہے۔ 
کراچی کی جے آئی ٹی نمبر1، نمبر2 اور نمبر3 میں ایک بات مشترک ہے۔ ان تینوں کے حوالے سے ہر طرح کی بحث مکمل ہو چکی ہے‘ لیکن اس پر تینوں جے آئی ٹی اور انصاف کے مندر کی گھنٹیاں خاموش ہیں کہ اجتماعی قتل، ٹارگٹ کلنگ، بھتّہ خوری، اغوا برائے تاوان کس کے کہنے پر ہوئے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں