"ABA" (space) message & send to 7575

پرسنل پروٹیکشن یا نیشنل انٹرسٹ

اس وقت پاکستان کے بارے میں دو منظر ناموں پر علیحدہ علیحدہ آنکھ سے نظر ڈالیں تو لوگوں کے ذاتی مفاد ریاست پر بھاری نظر آتے ہیں۔ ان میں سے پہلے منظر کو آپ پرسنل انٹرسٹ کہہ سکتے ہیں اور دوسرے کو نیشنل انٹرسٹ۔
گھر کے اندر سے شروع کرنے کے بجائے آئیے پاکستان کو پہلے باہر کی آنکھ سے دیکھ لیں۔ اس سلسلے میں نارتھ سی انرجی سٹریٹیجی گروپ کے سیکرٹری مسٹر Vanand Meliksetian کا تازہ ترین تجزیہ دیکھ لینا کافی رہے گا۔ یہ بین الاقوامی پروجیکٹ نیدرلینڈز میں قائم ہے اور اس کے سیکرٹری‘ جن کا نام ہم مختصر کر کے مسٹر وی ایم ) (V.M رکھ لیتے ہیں، نے ہیگ سے جاری کیا ہے۔ وی ایم نے ایک غیر جانب دار ادارے کی جانب سے چین اور پاکستان کو اکٹھے اپنے تجزیئے کی بنیاد بنایا‘ جس میں اُٹھائے گئے نکات پاکستان کے مستقبل کے بارے میں عالمی رائے نامہ کی صحیح تصویر پیش کرتے ہیں۔ تجزیئے کے پہلے حصے میں مسٹر وی ایم نے چین کے لینڈ مارک مگر کراس بارڈر منصوبے ون بیلٹ ون روڈ‘ جو دنیا میں بی آر آئی (BRI) کے نام سے مشہور ہوا‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، بی آر آئی کو جس قدر تعریف اور جتنی زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ وہ بہت کم عالمی منصوبوں کے حصے میں آیا ہے۔ اس پہ مشرق اور مغرب کی رائے اپنی اپنی ہے‘ لیکن اس حقیقت سے کوئی منہ نہیں موڑ سکتا کہ بی آر آئی، چینی صدر مسٹر شی کا دنیا بھر میں سب سے زیادہ پہچانا جانے والا پروجیکٹ ہے۔ بی آر آئی پروجیکٹ کے ٹوٹل اخراجات، مورگن سٹینلے کے مطابق مجموعی طور پر 1.2 ٹریلین امریکی ڈالر سے شروع کر کے 1.3 ٹریلین ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔
میرے خیال میں پاکستان کی جغرافیائی لوکیشن‘ جو کئی اعتبار سے ملک کو مسائل میں دھکیلے کا باعث بنتی چلی آئی ہے‘ کا سب سے بڑا فائدہ چین کی پارٹنرشپ اور بی آر آئی پروجیکٹ میں شرکت کی صورت میں نکل کر سامنے آیا ہے۔ یہ بات بھی ساری دنیا میں کُھلے طور پر تسلیم کی جا رہی ہے کہ بیجنگ نے بی آر آئی میں نا صرف بہت بڑی مالی سرمایہ کاری کر رکھی ہے‘ بلکہ بیجنگ کے اس منصوبے میں سیاسی سرمایہ کاری بھی شامل ہے۔ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ اس سیاسی سرمایہ کاری کا اہم ترین بینی فشری ہمارا پاکستان ہے۔ مسٹر وی ایم نے ایک زبردست انکشاف کیا ہے۔ یہ انکشاف مختلف بہانے گھڑ کر CPEC‘ جو کہ ون بیلٹ ون روڈ عالمی منصوبے کا پاکستانی حصہ ہے، کی مخالفت کرنے والوں کے منہ لٹکا دینے کے لئے کافی ہے‘ اور وہ یہ کہ CPEC پروجیکٹ کا اعلان بیجنگ نے اپنی ترقی کے ماڈل کی کامیابی کی نمائش کرنے کے لئے ہی نہیں کیا تھا بلکہ CPEC کا اعلان پاکستان کی معاشی اور علاقائی ضرورتوں کو پورا کرنے کے نتیجے میں ہوا۔
ہیگ، نیدرلینڈز کے ماہر مسٹر وی ایم کے اس تجزیئے کے دوسرے حصے میں پاک چین تعلقات کے سب سے مشکل مرحلے کی نشان دہی بھی کر دی گئی‘ جس کا علم اکثر لوگوں کو نہیں ہے یا پھر وہ اس پر کھل کر بات کرنا مناسب نہیں سمجھتے‘ اور جس کے مطابق سال 2018 کے عام انتخابات ہوئے، جن کے نتیجے میں وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار ملا تو اُس وقت چین اور پاکستان کے تعلقات بہت مشکل مرحلے میں چلے گئے تھے جس کی وجہ پاکستانی حکومت پر قرض لینے کی شرائط کے نتیجے میں ہونے والی تنقید، لابنگ اور اندرونِ ملک اور بین الاقوامی کئی طاقتوں کا دبائو تھا‘ لیکن عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے چین سے مل کر کئی بڑے مسائل وقت پر حل کر لیے‘ ہر طرح کے دبائو کو ایک طرف رکھا اور اس طرح نئے ملٹی بلین ڈالر معاہدے کرنے میں پی ٹی آئی کی حکومت کامیاب ہو گئی۔ 
یہاں تھوڑی دیر رُک جاتے ہیں‘ ایک اور بڑے پہلو کو جاننے کے لئے جس کو ابھی تک کارپٹ کے نیچے دبایا جاتا رہا ہے۔ بہت ضروری ہے کہ اس پہلو کو آپ کے سامنے رکھا جائے۔ جس کے تین بڑے حصے ہیں:
حصہ نمبر1: پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے حکومت سنبھالتے ہی پچھلی نون لیگی حکومت کے دور میں طے ہونے والی قرض کی شرائط پر دوبارہ بات چیت شروع کی۔ اس کے علاوہ دوسرا سب سے بڑا مسئلہ‘ جو پاکستان کے آگے بڑھنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا‘ بھی حل کیا گیا۔ وہ تھا‘ قرض ادا نہ کرنے (Debt Insolvency) کی صلاحیت کا معاملہ جو طے کر لیا گیا۔ بات چیت کے اس مشکل ترین دور کے بعد اسلام آباد نے دوست ملک چین سے کئی بڑی مراعات حاصل کر لیں۔ یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یو ایس اے کی جانب سے بڑا دبائو برداشت کیا‘ جس کے بعد کامیاب مذاکرات کے ذریعے آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکج بھی لے لیا۔ اس طرح سے ملک پر فوری ڈیفالٹ کی لٹکتی تلوار ہٹ گئی۔
اس وقت پاکستانیوں کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ CPEC کے بہت سے بڑے منصوبے شروع ہو چکے ہیں‘ جیسا کہ 9 انڈر ٹیکنگز جو کہ 5.32 میگا واٹ بجلی کا منصوبہ ہے‘ جس کی مجموعی قیمت 7.9 بلین ڈالر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 4.47 میگا واٹ کا ایک اور منصوبہ بھی بن رہا ہے۔ اس حوالے سے کویت انویسٹمنٹ کمپنی کے شعبہ ریسرج برائے انویسٹمنٹ کے سربراہ سمیع اللہ طارق کا تبصرہ دیکھنے کے قابل ہے۔ سمیع اللہ طارق کہتے ہیں، پاکستان چین کا اہم ترین ایسا اتحادی ہے جس میں گروتھ کا عمل نہیں رُک سکتا‘ اس کے ہاں نئی ضرورتوں کے مطابق پاور پروجیکٹس ایسے ہیں جس کے فروٹس پاکستان کے سامنے پڑے ہیں۔
حصہ نمبر2: نئے عالمی حالات میں بہت ہی کم انٹرنیشنل بینک یا انویسٹمنٹ کے ادارے اور کمپنیاں چین کے جیسے رسک لینے کے لئے تیار ہیں۔ CPEC منصوبے کے حوالے سے دونوں دوست ملکوں کے لئے کچھ خطرات ضرور ہیں لیکن ان منصوبوں کے انعامات خطرات سے بہت زیادہ ہیں۔
حصہ نمبر3: پاکستان میں دو بڑے پن بجلی کے منصوبوں کا تازہ ترین اعلان اور برٹش راج کے زمانے میں لگائے گئے ٹرین سسٹم کی ری فربشمنٹ رُکے ہوئے بہت سے منصوبوں کو پھر ترقی کی راہ پر ڈال دے گی۔ پھر چند دن پہلے وزیر اعظم عمران خان نے دیامر بھاشا ڈیم پر عملی کام کا آغاز کیا ہے؛ وہ بھی ایک گیم چینجر منصوبہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نئی دہلی کے ساتھ بیجنگ کا بارڈر کانفلکٹ بھی دنیا بھر میں ڈیم کی تعمیر کے اعلان کی ٹائمنگ کی ایک خاص وجہ بتایا جا رہا ہے۔
عالمی سطح پر تقریباً تمام انٹرنیشنل فورمز اور ادارے پاکستان کو آگے بڑھتا دیکھ رہے ہیں‘ لیکن ملک کے اندر معاشی بے یقینی اور عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے یہ آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔
1۔ ملک ڈوب رہا ہے۔
2۔ معیشت کا بیڑا غرق ہو گیا ہے۔
3۔ پاکستان اَن گوَرن ایبل ہے۔
4۔ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہے۔
5۔ انویسٹرز کے لئے پاکستان میں کوئی دلچسپی نہیں۔
6۔ پورا ملک اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔
7۔ آٹا، چینی، دال کچھ نہیں ملتا؛ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔
یہ سارا کچھ کہنے والے ملک کو ڈوبتا کہہ کر کروڑوں روپوں کی ایس یو وی میں بیٹھتے ہیں اور اپنے محلات میں اے سی والے کمروں میں جا کر سو جاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں