"ABA" (space) message & send to 7575

مجھے لختِ دلِ مہر علی شاہ یاد آتے ہیں

لندن کا ہیتھرو ایئر پورٹ اُس روز گنجائش سے بڑھ کر بھرا ہوا تھا جس کی خاص وجہ یہ تھی کہ ایشین لڑکیاں، لڑکے تعلیمی ادارے بند ہونے پر کرسمس کی چھٹیاں گزارنے اپنے گھروں کو واپس جا رہے تھے۔ میں نے جلدی پہنچ کر جہاز کا بورڈنگ پاس لیا اور پھر جلد ہی ویٹنگ لائونج میں چلا گیا۔ اسلام آباد واپسی پر میری مصروفیات کے ایجنڈے میں محترم بزرگ اور مہربان ہستی جناب لالہ جی سے ملاقات کی خواہش سرِفہرست تھی۔ اُسی سال نومبر کے مہینے میں دو دفعہ تعلیمی چھٹیوں کے دوران وطن واپسی کا خیال آیا تو دونوں مرتبہ حضرت پیر مہر علی شاہؒ صاحب کے پوتے شاہ عبدالحق گیلانی صاحب کا سراپا نظروں کے سامنے آتا رہا۔ مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے گولڑہ سے یہ آواز میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔
خیالوں کے اُفق پر ماہ و انجم مسکراتے ہیں
مجھے لختِ دلِ مہر علی شاہ یاد آتے ہیں
میری خوش قسمتی یہ ہوئی کہ محض 9 دن کی مختصر ترین چھٹیوں میں پیر معین الحق صاحب اور پیر قطب الحق صاحب کی مہربانی سے میں اپنے بابا کے ہمراہ اس دور کے موجود صاحبِ حال بزرگ کی خدمت میں حاضر تھا۔ لالہ جی صاحب مسلسل ورد کی کیفیت میں تھے۔ ہم نے اُن کے ہاتھ کا بوسہ لیا اور دعا کی عطاء لے کر حضرت پیر مہر علی شاہؒ کے جاری کردہ 130 سال سے بھی پرانے لنگر خانے جا پہنچے۔ حضرت پیر مہر علی شاہؒ کے آستانے پر ہر حاضری ان لفظوں میں ڈھل جاتی ہے:
ناموسِ مصطفیؐ کے نگہدار زندہ باد
بادہ گسارِ احمدِؐ مختار، زندہ باد
یہ کہتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے کہ جناب لالہ جی 31 جولائی 2020 کو گلشنِ حضرت مہر علی شاہ سے وابستہ اَن گنت چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر اس فانی دنیا سے کُوچ فرما گئے۔
الَّذِینَ اِذَا اَصَٰبَتْھُم مُّصِیبۃٌ قَالُواْاِنَّا للہ وَ اِنَّا اِلیہِ رَٰجِعُونَ
''وہ لوگ کہ جب آتی ہے اِن پر کوئی مصیبت تو کہتے ہیں، بیشک ہم اللہ ہی کے ہیں اور بیشک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں‘‘۔
نماز جنازہ میں ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے۔ گولڑہ سے شروع کرکے F-10 چوک تک ایک جانب اور I-11 سمیت سارا علاقہ سوگواروں سے بھرا ہوا تھا۔ پیر شاہ عبدالحق گیلانی کی وصیت کے مطابق اُن کی نماز جنازہ، اُن کے بڑے فرزند پیر معین الحق نے خود پڑھائی۔ میں اور بابا تدفین کی آخری دعا تک مزار پر موجود رہے، جہاں ہر طرف یاس و اُمید کی کیفیت طاری تھی۔ ان دوران پیر حسام الدین گیلانی صاحب اور پھر پیر شمس الدین صاحب سمیت آپؒ کی فیملی کے دیگر حضرات سے بھی تعزیت کی۔
درج بالا سطور میں محترم لالہ جی صاحب کے لئے صاحبِ حال ہستی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ تصوف کی دنیا میں سادہ لفظوں میں اس کا مطلب ایسا درویش ہے جسے دل کا حال بتانے کی ضرورت ہی نہ ہو۔ لقمان حکیم کی طرح اگر کوئی اُس کے سامنے سے گزرے تو صاحبِ حال کو پتہ چل جائے کہ آنے والے کو کس تکلیف نے ستا رکھا ہے۔ محترم لالہ جی کے حوالے سے صاحبِ حال کے درجے پر فائز ہونے کا ذاتی تجربہ بیان کرتا ہوں۔ ہماری فیملی کے ایک انتہائی قریبی نوجوان کو ایک بڑی سرجری کے لئے اے ایف آئی سی کے ڈاکٹر بریگیڈیئر عاشور، جو بعد میں میجر جنرل بن کر ریٹائر ہوئے، نے ہسپتال میں ایڈمٹ کیا۔ قربت کی وجہ سے میرے والدین بھی آپریشن تھیٹر کے باہر موجود تھے۔ آپریشن شروع ہوا تو ایک کے بعد ایک پیچیدگی سامنے آنا شروع ہو گئی جس کے نتیجے میں سرجری کا عمل پانچویں گھنٹے میں داخل ہو گیا۔ اسی دوران بابا نے ہسپتال کے سٹاف سے کسی کو بلوایا جنہوں نے پریشان کن خبر سنائی کہ مریض کے ایسے آرگن‘ جن کو میڈیکل کی زبان میں Vitals کہا جاتا ہے‘ ایک ایک کرکے کام کرنا چھوڑ گئے ہیں۔ یہ خبر سنتے ہی بابا ہسپتال سے نکل گئے۔ رات دیر سے واپس آئے تو بتانے لگے کہ دل بوجھل تھا، اس لئے میں چوہڑ، ہڑپال کے راستے سے گولڑہ شریف چلا گیا تھا‘ جناب لالہ جی تب حضرت مہر علی شاہ صاحب کے مزار سے جڑی ہوئی مسجد میں عصر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تھے‘ میں پاس پہنچا اور سلام کرکے اُن کا ہاتھ تھام لیا۔ لالہ جی جان چکے تھے کہ معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ انہوں نے تین دفعہ وقفے وقفے سے فرمایا: بابر اعوان، بابر اعوان، بابر اعوان۔ اس دوران والد صاحب خاموش رہے۔ حضرت لالہ جی پھر پوٹھوہاری زبان میں پوچھنے لگے: ''خیریت تو ہے؟‘‘ بابا نے کہا: خیریت نہیں ہے‘ اور پھر میجر سرجری کا سارا ماجرا سنا دیا۔ اب ایک ایسا واقعہ سُن لیں جس میں ایک ایسی شخصیت جس کی محض جھلک دیکھنے کے لئے لوگ دور دور سے آتے ہوں‘ اُس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے، اللہ تعالیٰ کی مشیت کے سامنے اپنی ذات اور نفس کی کس قدر نفی کر رکھی ہے‘ اُس کا سبق آموز ثبوت ملتا ہے۔ تفصیل سننے کے بعد لالہ جی نے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے اور انتہائی دھیمی آواز میں فرمایا ''آئو! سب مل کر دعا کرتے ہیں۔ زندگی دینے والے سے بچے کی زندگی کی بھیک مانگتے ہیں‘‘۔
تصور میں جو ان کی دلربا تصویر کھنچتی ہے
بلادِ معرفت میں شاہ جیلاںؒ یاد آتے ہیں
میں نازاں ہوں مجھے لطفِ فراواں یاد آتے ہیں
عاجزی، انکساری اور مہمان داری‘ حضرت لالہ جی اِن تینوں کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ پہلے زمانے کے فقر والے حقیقی درویش۔ حضرت لالہ جی کی دعا کا طریقہ بھی بڑا دل گداز تھا۔ جب کوئی ملاقاتی دعا کروانے کی درخواست کرتا تو فوراً ہاتھ اُٹھا دیتے۔ دل ہی دل میں ورد کی صورت میں آواز بلند کئے بغیر‘ ہمیشہ دعا کرنے کا یہی طریقہ رہا۔ ملنے والوں سے لازماً پوچھتے، کہاں سے آئے ہو‘ ٹھہرنے کی کوئی جگہ ہے یا نہیں ہے۔ فوراً کسی کی ڈیوٹی لگاتے کہ آنے والے مہمان کو لنگر کروائو۔ مہمان کو لنگر کے بغیر مت جانے دینا۔ تکلیف بتائیں تو فوراً جواب ملتا، اللہ خیر کرے گا۔ جو شخص بیعت کرنے پر اصرار کرتا، اُسے مناجات اور دعا کے بعد پنج وقتی نماز ادا کرنے کی نصیحت کے ساتھ ہی خود درود شریف پڑھ کر نبی آخرالزماںﷺ پر درود شریف بھیجتے رہنے کی ہدایت کرتے۔ 
اللہ کی مخلوق کی دلداری اور دینی امور پر حضرت لالہ جی کی گہری گرفت تھی جبکہ بناوٹی رویّے اور نمائشی گفتگو سے پرہیز کی تلقین کرتے‘ جس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنے مریدوں یا تعلق داروں کی کریکٹر بلڈنگ، راستی اور سلامتی پر خاص توجہ فرماتے۔
لالہ جی اپنی نگرانی میں سماع کی محفل روزانہ برپا کرواتے۔ ڈسپلن کا یہ عالم کہ سننے والوں کی خاموشی بھی ترنم میں تبدیل ہو جاتی۔
آغا شورش کاشمیری یوں تو پکّے احراری تھے‘ مگر ساتھ ساتھ گلشنِ مہر علی شاہ کے اسیر بھی تھے۔ شورش صاحب کہتے ہیں:
کھڑا ہوں مہر علی شاہ کے آستانے پر
اُن ہی کے در کی بدولت تو با مقام ہوں میں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں