"ABA" (space) message & send to 7575

تکمیلِ پاکستان میپ

پانچ یا چھ نہیں پورے 60 سال بعد یہ آواز یو این سکیورٹی کونسل میں گونج رہی تھی۔ یہ تھی کشمیر کی آواز۔ پھر دوسری دفعہ بھی بھارت کے سفارتکاری اور لابنگ کے ایکسپرٹ اُسی کمرے میں مُنہ لٹکائے بیٹھے تھے جہاں کشمیر کے مظلوموں کی صدا بلند ہو رہی تھی۔ تیسری بار 365 دن کے اندر اندر بھارتی فوج کے جبر کا شکار مظلوم کشمیریوں کی اسی آواز نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔
اس سے پہلے کیا تھا؟ مودی کا وفد جاتی امرا کے لئے بغیر ویزا لئے پاکستان کے امیگریشن قوانین کو روند کر یاری پکی کرنے کے لئے بلوایا گیا۔ مودی کی امّاں کے لئے ساڑھی، سجن جندال کے لئے افغانستان میں لوہے کے پہاڑوں والے ٹھیکوں تک رسائی۔ اجیت دووَل (بھارتی سکیورٹی کے انچارج ایڈوائزر) کے لئے وزیر اعظم ہائوس کے اندر ڈرائنگ روم میں کرسی لگائی گئی جبکہ سرحدوں کے رکھوالے باہر ننگی سڑک پر کھڑے رکھے گئے۔
صرف یہی نہیں ہوا! بلکہ گریٹ سرینڈر بھارت کے مودی کے سامنے بچھ بچھ کر آگے بڑھتا چلا گیا۔ اس دورکی صرف ایک شرمناک مثال اس اوڑھنے بچھونے کو 100 فیصد واضح کر دیتی ہے۔ یہ مثال 2 جنوری 2016 کے دن ہندوستانی پنجاب میں واقع پٹھان کوٹ میں انڈیا کی طرف سے سجائے گئے ڈرامے والی تھی۔ اس سرکاری ڈرامے کی ساری کی ساری ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی گئی۔ نہ کوئی ثبوت،نہ معلومات تک رسائی‘ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پٹھان کوٹ واقعے کا پرچہ گوجرانوالہ کی سی ٹی ڈی پولیس نے پاکستانی پنجاب میں فروری 2016 میں درج کرکے دکھا دیا کہ حکمران کہاں کھڑے ہیں۔
اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی کی حکومت نے محض 2 سال کے عرصے میں مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر مظالم کے خلاف انٹرنیشنل بیانیہ بنا دیا۔ 2018 میں عمران خان صاحب نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے نیویارک ٹائمز کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی سرکار کے مظالم کے خلاف ایک آرٹیکل بھجوایا جس میں آر ایس ایس اور مودی راج کو ہٹلر اور نازی اِزم سے جوڑا گیاتھا۔ اخبار نے یہ کہہ کر آرٹیکل چھاپنے سے انکار کردیا کہ بہت سخت ہے اور اس دعوے کے پیچھے کوئی ثبوت بھی موجود نہیں۔ جب وزیر اعظم عمران خان امریکہ گئے تو انہوں نے نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ‘ دونوں کے ایڈیٹوریل بورڈز کو بریف کیا‘ انہیں بتایا کہ آپ آر ایس ایس کی تاریخ، ہٹلر کے لئے اُس کی تعریفیں اور نازی اِزم کے فلسفے پر مبنی لٹریچر گوگل کرکے خود ہی دیکھ لیں۔ وہی اخبار جو ان کا آرٹیکل چھاپنے سے بھاگ رہا تھا‘ اُس نے عمران خان صاحب کے بریف کرنے کے بعد آر ایس ایس اور بی جے پی کے طرز سیاست پر ایک باقاعدہ تحقیقی مقالہ چھاپ ڈالا۔ ایڈیٹوریل بورڈ میں اکثریت نازی اِزم کے مخالفوں کی تھی اس لئے وہ اس خطرے کو بھانپ گئے جس کی جانب وزیر اعظم عمران خان نے ان کی توجہ دلائی تھی۔
اس کے مقابلے میں (ن) لیگ کے تیسرے دورِ حکومت کے پہلے وزیر اعظم جناب نواز شریف نے امریکہ سمیت ہر انٹرنیشنل فورم میں اپنے یار بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ون آن ون، کان میں گفتگو کی۔ ملٹری سیکرٹری سمیت، فارن آفس کو ایسی ملاقاتوں سے بہت دور رکھا گیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم نے کبھی مودی کی مذمت نہ کی، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم سے ہمیشہ آنکھ چرائی۔ انڈین جاسوس نیول کمانڈر کلبھوشن سدھیر یادیو کا نام تک نہ لیا‘ بلکہ سب سے بڑھ کر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو آن ریکارڈ اپنا خاندانی دوست اور یار بتایا۔
اسی دوران 5 اگست 2019کا دن آ گیا، جب بھارت کے وزیر اعظم نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کے آئین میں دی گئی ضمانتیں اپنے پیروں تلے کچل ڈالیں‘ جس کے لئے انڈین آئین سے آرٹیکل 35-A اور 370 کو نکال کر ہندوتوا کے گٹر میں پھینک دیا گیا۔
اس سے اگلا مرحلہ اور بھی آنکھیں کھول دینے والا تھا۔ جناب عمران خان کی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیرکے علاقوں میں غیر انسانی لاک ڈائون کے خلاف پوری قوم کو متحرک کر ڈالا۔ کئی ہفتے تک مین سٹریم میڈیا، متبادل سوشل میڈیا، الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر ہر طرف مودی کے غیر انسانی رویّے کی بیشنگ ہوتی رہی۔ ایسے میں اچانک پرائیو یٹ لاریوں میں بھر کر لوگ اسلام آباد پہنچائے گئے۔ مسلم لیگ (ن)، سندھ کی سرکاری پارٹی سمیت سب کے سب ایک مذہبی سیاسی جماعت کے منچ پر چڑھ بیٹھے۔ مودی اور بھارت کے حق میں لکھنے اور بولنے والے ہم نوا بھی پیچھے نہ رہ سکے۔ متبادل قیادت کے نام پر چُوں چُوں کا یہ مربّہ وزیر اعظم عمران خان کو تو گھر نہ بھجوا سکا‘ ہاں مگر ایک کام انہوں نے بہت باریکی سے کر دکھایا۔ وہ تھا مودی کے لئے ریلیف کیونکہ اس سیاسی دھرنے یا دھرنی کے نتیجے میں ہمارے سارے میڈیا کا فوکس مقبوضہ کشمیر میں مودی کے لاک ڈائون سے ہٹ کر اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی حکومت گرانے کی نا کام کوشش کی طرف مُڑ گیا۔
اب آتا ہے سال 2020، 5 اگست کا دن‘ جس روز ریاستِ پاکستان نے پاکستان کا نیا نقشہ جاری کر دیا۔ ہم اسے تکمیلِ پاکستان میپ یا پھر آزادیٔ کشمیر کا روڈ میپ بھی کہہ سکتے ہیں۔ آئیے پاکستان کے اس نئے جغرافیائی نقشے کو سامنے رکھ کر اس کے نتائج کے اندر جھانک لیتے ہیں۔
پہلا نتیجہ: اگر آپ پاکستان کے نئے نقشے کو سامنے رکھ کر غور سے دیکھیں تو اس کے ذریعے ہماری ریاست ایک نئے سیاسی مستقبل کو منظر عام پر لائی ہے۔ اس نقشے کی کارٹوگرافی کے ذریعے تازہ پیدا ہونے والے مسائل کی سیریز میں ایک نیا قدم اُٹھا ہے۔ یہ مسائل مئی 2020 کے مہینے سے ہمالیہ ریجن میں چلے آ رہے ہیں۔ اس میں بھارتی اور چینی فوجیوں کے مابین جون کے مہینے میں لڑائی اور بھارتی فوج کی شدید پٹائی بھی شامل ہے۔ پاکستان کا یہ نقشہ ہمارے ملک کو چین کے ہمالیائی زیرِ انتظام علاقے سے جوڑ چکا ہے‘ جس سے اس بات کی طرف کھلا اشارہ ملتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا ممکنہ صورتحال سامنے آ سکتی ہے۔ 
دوسرا نتیجہ: ایشیائی اور بین الاقوامی ماہرین کا رد عمل اس بات کو واضح کرتا ہے کہ پاکستان کا نیا میپ ایشیا کی اندرونی سیاست میں اہم پیش رفت ہے‘ جس کے نتیجے میں پاکستان، چین اور نیپال ایک طرف اکٹھے ہیں جبکہ اس کانفلکٹ میں خطے کا کوئی دوسرا ملک بھارت کے ساتھ کھڑا ہونے کو تیار نہیں ہوا۔ یہ نقشہ پاکستان کے علاقے کو بڑھا کر درّہ قراقرم تک لے جاتا ہے جو اس وقت چین کے کنٹرول میں ہے۔ یہ علاقہ شکسگام ویلی کہلاتا ہے جو پاکستان نے 1963 میں سرحدی معاہدے کے تحت چین کو دیا تھا۔ چین کے پاس ہندوستان سے 1962 کی جنگ میں جیتا ہوا علاقہ بھی موجود ہے۔ عین درمیان میں سیاچن گلیشئر آتا ہے۔ سارا، ہمارا سیاچن گلیشئر، اِنشاء اللہ۔
تیسرا نتیجہ: ماہرین کے مطابق اب پورے کشمیر پر پاکستان کا کلیم ایکچوئل کنٹرول کے نزدیک آ گیا۔
کنگز کالج لندن کے پروفیسر ایج وی پانٹ، ولسن سینٹر واشنگٹن کے مائیکل کوگلمین سمیت چین کے فارن منسٹر مسٹر وانگ جی نے کہا کہ ٹرانس ہمالین اکنامک کوریڈور، نیپال اور پاکستان کو تبت اور سنکیانگ کے ذریعے جوڑ دے گا‘ جہاں سے وہ 650 بلین ڈالر کے سی پیک منصوبے کے ساتھ ملیں گے‘ جس کا اختتام بحیرہ عرب کی گوادر پورٹ پہ ہو گا۔ 
جی ہاں! سری نگر سے گوادر تک یہی تکمیل پاکستان کا میپ ہے۔ 
اُفقِ ذہن پہ احساس کی ہلکی سی لکیر! 
چاندنی رات کے پہلو سے کِرن پُھوٹی ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں