"ABA" (space) message & send to 7575

سیاست کی ’پتھریلی‘ لیزر گن

ایک بار پھر تاریخ نے اپنے آپ کو دہرا کر کے دکھا دیا۔جی میرا مطلب ہے دہرا کر دکھا دیا۔کردار سارے وہی پرانے ہی تھے۔ اس لیے اسے 1997ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان پر چڑھ دوڑنے کا ایکشن ری پلے بھی کہا جا رہا ہے۔
نازی جرمنی کے گریٹ فیوہرر ایڈولف ہٹلر کا وزیراطلاعات و نشریات پال جوزف گوئبلزتھا۔پیشے کے اعتبار سے وہ فوجی جرنیل تھا‘ جس نے سیکنڈ ورلڈ وار کے دوران جھوٹ بولنے کے فن کو کمال کے درجے پر پہنچادیا۔پال جوزف گوئبلزکا نظریہ نورمبرگ وار کرائم ٹریبونل کی کارروائی کے دوران بہت مشہور ہوا۔دوسری جنگِ عظیم جیتنے والے اتحادی کہتے ہیں کہ پال جوزف گوئبلز کا جھوٹ ایسا ہوتا تھا جس کے سامنے سچ کو کھڑا رکھنا بڑا مشکل کام بن گیا۔طوفانِ جھوٹ کے بارے میں جنگ کے میدان کا نظریہ اس سے بھی پرانا ہے۔جس کے مطابق‘ جنگ میں سب سے پہلے حضرت ِسچ کا قتل کیا جاتا ہے۔جنگ اور محبت کے بارے میں شاعرانہ خیال کہتا ہے: آل از فیئر‘اِن لَو اینڈ وار‘‘۔
ایم- 2کی بغل میں ملتان روڈ پر احتساب کے قومی ادارے کے لاہوری ہیڈکوارٹر کے باہر بھی ایسا ہی ہوا۔کہاں 1997ء کا سال اور کہاں 2020عیسوی کی برسات کا موسم۔1997ء میں ایک سرکاری ٹی وی ہوا کرتاتھا۔آج ٹی وی چینلز کی برسات ہے۔ہر طرف خبروں اور ویڈیوز کی بارش کے ساتھ ساتھ۔اسی لیے احتساب کے ادارے تک پہنچنے والے وی آئی پی پتھر اور عالی قدر روڑے ایس یو وی گاڑیوں میں لائے گئے۔بڑے سلیقے کی پروفیشنل پیکنگ سمیت اس پتھریلے جمہوری نازی اِزم کو ملک بھر کے ٹی وی کیمروں نے جمہوریت کے حُسن کی طرح سب سے پہلے دکھادیا۔اب اس پر ہر روز ایک ہزار داستان چل رہی ہے۔ہندکو زبان کے ایک مزاحیہ شاعر نے پتہ نہیں کس سے یہ کہا تھا:
مینوں وَٹّے مارو‘ مینوں روڑے مارو
بھانویں بُہتے مارو‘ چاہے تھوڑے مارو
ماضی مرحوم کی حکمران جماعت کے ہیڈکوارٹر سے اس آڈیو ویڈیو گواہی پر مزے کا جواب آیا ہے۔کہتے ہیں: ہماری گاڑی پر لیزر گن سے حملہ کیا گیا۔ویسے آپس کی بات ہے‘ فکشن پر مبنی ایکشن فلموں اور بچوں کے کارٹونز یا پھر خلائی مخلوق کے تصوراتی کرداروں کے حملے کے علاوہ یہ لیزر گن ہوتی کہاں ہے؟ پاکستان میں اگر کسی نے لیزر گن دیکھ رکھی ہے تو قوم کی رہنمائی کرے۔لیزر گن کہاں بنتی اور بکتی ہے؟اور اگر کسی نے لیزر گن اپنے پاس چھپا رکھی ہے تو وہ لارجر پبلک انٹرسٹ میں اس کی ہوائی فائرنگ کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کردے۔ اُسے بے شمار لائکس ملنے کے ساتھ ثواب بھی حاصل ہوجائے گا۔ورنہ لوگ اسے رنگا رنگ کی سیاسی بیماریوں کی طرح پال جوزف گوئبلز والی پتھریلی لیزر گن ہی سمجھتے رہیں گے۔ایک اور بڑی سچائی یہ ہے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے اسی لیے لمبی پریس کانفرنسیں بھی آڈیو ویڈیو سے ہمیشہ مار کھا جاتی ہیں۔اور پھر ایسی پریس کانفرنس جو اول سے آخر تک سپاٹ فکسنگ کی مثال ہو‘ اُسے میڈیا اور اخباری رپورٹروں سے زیادہ اور کون سمجھ سکتا ہے۔
چلئے باقی کام تفتیش کاروں پر چھوڑ دیتے ہیں‘ذرا چلتے ہیں ملک کی لارجرپکچر کی طرف جس میں سب سے اہم COVID-19کا تازہ مرحلہ قوم کو درپیش ہے۔ یہ ہے پوسٹ کورونا وائرس ری اوپننگ۔ اس ری اوپننگ میں بہت بڑے پیمانے پہ خوشیاں اور خطرات چھپے ہوئے ہیں۔پہلے اگر اچھی خبر کی طرف چلیں تو وہ ہمیں مائیکروسافٹ آئیکون بِل گیٹس کے ایک تازہ انٹرویو سے ملتی ہے۔یہ انٹرویو بل گیٹس صاحب نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این پر میزبان فرید زکریا کو دیا۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو نے اس نیوز سٹوری کے آغاز میں کہا کہ ہم پاکستانیوں کے منہ سے کورونا کے خلاف جنگ اور اس پر کنٹرول کی باتیں توسنتے رہتے ہیں‘آئیے ایک غیر جانب دار انٹرنیشنل سلیبرٹی کے منہ سے سنتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کے سمارٹ لاک ڈائون کا نتیجہ کیا نکلا۔انٹرویو کرنے والے میزبان نے یوں سوال پوچھا''دنیا میں سری لنکا اور پاکستان جیسے ممالک کی مثالیں بھی موجودہیں۔خاص کر پاکستان جہاں میری معلومات کے مطابق انہوں نے کورونا پر قابو پانے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا‘یقینا وہاں پہ بہت سے متاثرین رپورٹ بھی نہیں ہوئے ہوں گے۔لیکن اس کے باجود پاکستان میں متاثرین اور اموات کی شرح انتہائی کم ہے۔اس کے علاوہ ہمارے پاس ویتنام اور تائیوان جیسے ممالک کی مثالیں موجود ہیں اور دوسری طرف اٹلی اور نیو یارک کی صورتحال ہے۔تویہ سب دیکھ کر آپ وائرس کی نوعیت کے متعلق کوئی نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں؟‘‘
بل گیٹس نے اس طویل سوال کے جواب میں پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ''اس سال جنوری سے اگست تک کی صوتحال کا گراف پہلے دیکھ لیں۔کراچی میں COVID-19 متاثرین کی شرح خاصی خطرناک رہی‘لیکن اب وہاں یورپ جیسی صورتحال ہے اور متاثرین کی تعداد کم ہوچکی ہے‘لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ انڈیا میں ابھی بھی جنوبی امریکہ جیسی صورتحال ہے‘‘۔ ساتھ ہی بل گیٹس کا موقف یوں بھی تھا : ''ہمارا ماننا ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں رہنے والے افراد میں وائرل بیماری کے خلاف بہتر قوت ِمدافعت موجود تھی اس لیے وہاں وائرس زیادہ نہیں پھیلا (اس کے علاوہ ان ممالک میں زیادہ نوجوان آبادی بھی ایک وجہ رہی)‘‘۔آج یومِ آزادی ہے۔ایک وہ آزادی جو 14 اگست1947میں ہندو بنئے اور فرنگی سامراج دونوں کے چُنگل سے حضرت قائد ِ اعظم محمد علی جناح ؒکی قیادت میں حاصل ہوئی۔دوسری آزادی کورونا اور لاک ڈائون سے ہمیں وزیر اعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق ملی ہے۔لیکن ایک خطرناک حقیقت سے ہم کبھی آنکھیں نہیں پھیر سکتے‘وہ حقیقت یہ ہے کہ لاک ڈائون معیشت اور غریب طبقات کی روزی روٹی بچانے کے لیے ختم کیا گیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ COVID-19کے سارے خطرات ٹل گئے ہیں۔کورونا وائرس کے خطرے سے بچنے کا نسخہ بہت آسان ہے۔قوم کا ہر فرد بہت تھوڑے سے خرچ سے اس پر عمل کر سکتا ہے۔جسے تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
پہلا حصہ: ایک دوسرے سے 6فٹ کا فاصلہ رکھیں۔آپ بیمار ہیں تو گھر پر رہیں۔دوسروں کو بیمار کرنے کے لیے گھر سے باہر مت نکلیں۔سماجی فاصلہ انسانی زندگی کو COVID-19سے بچانے کی پہلی ویکسین ہے۔100فیصد مفت دوائی۔دوسرا حصہ: منہ کپڑے رومال‘عبایا‘پرنے یا پھر سستے سے نیلے رنگ کے ماسک سے ڈھانپیں۔اگر دو لوگ مل رہے ہیں اور ایک نے ماسک پہنا ہوا ہے تو ماسک پہننے والا کورونا وائرس سے محفوظ رہے گا۔اور اگر دونوں نے ماسک پہن رکھے ہیں تو پھر دونوں COVID-19سے دور رہیں گے۔ تیسرا حصہ: بہت سے لوگوں کی مجلس‘دفتروں میں غیر ضروری گپ شپ‘پارکوں میں مل کر بیٹھنا اور ہر طرح کے انسانی اجتماع میں جانے سے پرہیز کریں۔یہ کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔
یومِ آزادی منانا ہماری قوم کے لیے بہت ضروری ہے‘لیکن اوپر لکھے گئے تین نکات کے مطابق احتیاط کر کے خوشی خوشی جشن منایا جا سکتا ہے۔بیماری سے حفاظت کے ساتھ ساتھ۔ہم سب کو ایک دوسرے سے درخواست کرنی ہے کہ خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ کورونا سے بچائو کا واحد علاج یہی ہے۔
منائو جشنِ بہاراں اس احتیاط کے ساتھ
کسی چراغ کی لَو سے کسی کا گھر نہ جلے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں