"ABA" (space) message & send to 7575

مشرقِ وسطیٰ

پاکستان نے اپنی پوزیشن فوری طور پہ واضح کر دی۔ ہماری وزارت خارجہ نے اس حوالے سے وضاحتی بیان جاری کیا جس میں فلسطینیوں کے ساتھ مکمل یکجہتی اور لازوال دوستی کا اعادہ کیا‘ لیکن اس حوالے سے ایک حقیقت دیوار پر لکھی گئی ہے، اور وہ یہ کہ خلیج عرب اور فارس کی خلیج میں ایک نئی بہت گہری خلیج مزید پیدا ہو گئی ہے۔ یو اے ای کی ریاست کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کر لینے اور اس کے ساتھ اپنے ملک کے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے دو طرفہ اعلان نے اس نئی خلیج کو جنم دیا ہے۔
آئیے ذرا پیچھے چلتے ہیں‘ عرب سپرنگ کے دور میں، جس کے تحت اُلٹی جانے والی پہلی حکومت عراق کے صدر صدام حسین کی تھی۔ صدام حسین عرب قوم پرستی کے علمبردار تھے اور اپنے طرز حکمرانی کی وجہ سے کئی مغربی طاقتوں نے انہیں مشرق وُسطیٰ میں اپنا پہلا حریف سمجھنا شروع کر دیا تھا‘ جس کی تاریخ سال 1979 سے شروع ہوتی ہے۔ تب آپریشن بابُل کے ذریعے اسرائیل نے عراق کی ایٹمی تنصیبات پر لڑاکا طیاروں سے حملہ کیا تھا۔ اس حملے کے حوالے سے عراق اور سعودی عرب میں ایک کُھلا زبانی اور سفارتی جھگڑا تب پیدا ہوا جب یہ خبر سامنے آئی کہ اسرائیل کے حملہ آور جہازوں کو سعودی عرب کی فضائی پٹی اور ہوا میں ری فیولنگ کی سہولت حاصل تھی۔ دوسری جانب ایران اور عراق کی طویل جنگ کی وجہ سے خلیج فارس کی سیاست کرنے والے جزیرہ نُما ملکوں نے عراق میں Regime change یعنی صدر صدام حسین کی حکومت کا تختہ ُالٹنے کی مہم میں انویسٹمنٹ شروع کر رکھی تھی۔ اس بیک گرائونڈ میں صدر صدام حسین کی حکومت کے خاتمے پر خلیج عرب اور خلیج فارس میں ایک دوسرے کے مخالفین نے بھی اکٹھے تالیاں بجا کر غیرملکی فوجوں کو خوش آمدید کہا تھا۔
پھر چل سو چل‘ کئی ایفروعرب مسلم ملک خاک اور خون میں نہلا دیئے گئے۔ دکھ اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ جس جس افریقی اور عرب مسلم ملک کو بہار عرب کی گھات لگا کر برباد کیا گیا‘ وہاں خلیج کے دونوں جانب کرائے کے گوریلوں کو سپورٹ کرنے کے الزامات لگتے رہے۔
اب کئی عشروں سے جاری اس کانفلکٹ نے علاقے کو بارود کا ڈھیر بنا کر رکھ دیا ہے۔ خاص طور سے یمن اور شام کی طویل جنگوں کے نتیجے میں انسانی اور معاشی المیے حد سے بھی آگے نکل گئے۔ اس لحاظ سے شام اور یمن پر قبضے کی لڑائیوں میں انٹرنیشنل پراکسی وار لڑنے والے بھی ایک دوسرے کے خلاف میدان میں کود پڑے۔ خلیج عرب اور خلیج فارس کے اس کانفلکٹ کے پس منظر میں اگر کسی کو فائدہ ہوا تو وہ نہ عربی تھا اور نہ ہی فارسی بلکہ اس صورتحال میں سارے کا سار ا سٹریٹیجک بینیفٹ عجم کے اجنبیوں پر مشتمل ریاست اسرائیل کے ہاتھ آ گیا‘ جس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ان میں سے پہلی وجہ تو بن گوریان کے دور سے لے کر 2020 تک مغرب کی بڑی طاقتوں کی طرف سے اسرائیل کی غیر مشروط اور لگا تار حمایت ہے‘ جبکہ اس کی دوسری اہم وجہ مسلمان حکمرانوں کے آپس میں اختلافات ہیں۔ آپ اسے محض اتفاق کہہ لیں، لیکن یہ اختلافات دو طرح کے ہیں۔ ایک، کئی ملکوں میں رجیم چینج کا خوف دن بہ دن زور پکڑتا رہا۔ دوسرے، جزیرہ نما عرب کے منطقہ حجاز کے حوالے سے اسرائیل اور فارس کے حکمرانوں کی طرف سے بعض لیک ہونے والی خبریں سبب بنتی آئی ہیں۔ یہاں یہ کہنا بہت مناسب ہو گا کہ پاکستان کا بچہ بچہ حرم مکہ اور مدینہ شریف کا اسی طرح سے محافظ ہے جس طرح سے پاکستان کی مسلح افواج یہ کردار ادا کرتی آئی ہیں‘ جس کی تفصیل کبھی پھر سہی۔
اسی تسلسل میں ایک کے بعد دوسرے، دو عدد واقعات ایسے ہوئے جن کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کی تلخی اسرائیلی ریاست کے حوالے سے موقف پر مسلم اُمّہ کی تقسیم کی شکل میں سامنے آ گئی۔ ان میں سے پہلا اور تازہ واقعہ چین، ایران دفاعی معاہدے ہیں‘ جن کی وجہ سے خطے کے بعض ملکوں نے مغرب سے لائف لائن لینے میں عافیت سمجھی۔ اس حوالے سے ابھی متحدہ عرب امارات کا نام سامنے آیا ہے‘ لیکن پردے کے پیچھے اور بھی بہت کچھ ایسا چل رہا ہے جو مزید حیران کُن خبریں سامنے لا سکتا ہے۔ دوسرا جھگڑا بہت عرصے سے یو اے ای اور ایران کے مابین چل رہا ہے۔ یہ ہے جزیرہ کِش (Kish Island) کا تنازع جس پر یو اے ای اور ایران دونوں کا مشترکہ قبضہ ہے۔ یو اے ای اور اس کے ارد گرد واقع ملکوں میں کام کرنے والے پاکستانی جانتے ہیں کہ ان ملکوں میں ایک خاص عرصے تک قیام کے بعد یو اے ای سے باہر جا کر پھر واپس آنا پڑتا ہے۔ ایسے خروج یا Exit کے لئے غیرملکی تارکین وطن یو اے ای اور ایران کے درمیان اسی متنازع جزیرے کا رُخ کرتے ہیں‘ جہاں یو اے ای کے علاقے سے ایگزٹ کی مہر لگوانے کے بعد ایرانی علاقے میں سرائے ٹائپ سستے ہوٹلوں میں رات قیام کر کے اگلے دن پھر یو اے ای میں دخول یعنی انٹری کا ٹھپہ لگ جاتا ہے۔
اس کے علاوہ کچھ کانفلکٹ آف انٹرسٹ کہہ لیں‘ اور بھی ہیں‘ جن کے حوالے سے خطے میں لاوا پک رہا ہے۔ ان میں سے بڑا تنازع سلطنت عثمانیہ کے خاتمے والے یورپ ترک معاہدے (Treaty of Lausanne) کا ہے۔ یہ معاہدہ سال 2023 میں ختم ہو رہا ہے‘ یعنی آج سے دو سے ڈھائی سال بعد‘ جس کے بہت سارے اہم نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ کچھ نتائج کو ہم جان بوجھ کر نہیں چھیڑیں گے‘ لیکن سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ترکوں کی بہت سی تنصیبات اور انتہائی قیمتی پراپرٹیز کئی خلیجی ملکوں میں واقع ہیں۔ صرف خلیج کے ممالک میں ہی نہیں بلکہ یورپی ملکوں میں بھی ایسی پراپرٹیز، اثاثے اور محلّات موجود ہیں‘ جن کو ''پراپرٹیز آف ٹرلین ڈالرز‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ 
اب ذرا یہاں رُک جائیے۔ پاکستان خلیج کی گرما گرمی میں کبھی بھی فریق نہیں بنا۔ ہاں البتہ! یہ بات فخر سے کہنے والی ہے کہ ہماری ساری عسکری طاقت اور وسائل ہمیشہ سے حرمین شریفین کی خدمت اور تحفظ کے ساتھ 100 فیصد کمٹمنٹ رکھتے ہیں۔ پاکستان کے لئے ڈائبولک مڈل ایسٹ میں تین چیلنجز سامنے ہیں۔
پہلا چیلنج: سعودی عرب سے دوستی ہماری اوّلین ترجیح ہے۔ تُرکی ہمارا عزیز دوست ہے جبکہ ایران ایسا پڑوسی ملک جس کے ساتھ 2 ہزار کلومیٹر لمبا بارڈر ہم شیئر کرتے ہیں۔ یو اے ای سے حال ہی میں سعودی عرب کے بعد ہماری دوسری بڑی سٹریٹیجک پارٹنرشپ بنی۔ اس تازہ صورت حال میں ہمیں کیا کرنا ہے؟
دوسرا چیلنج: یہ کہ کسی طرح ترکی ملائیشیا جیسے ملکوں کو ساتھ ملا کر پاکستان مشرق وسطیٰ میں ثالثی کا ویسا کردار ادا کرے جو یمن کے تنازعے میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان ادا کرتا آیا ہے۔ ہمارے لئے یہ دوسرا چیلنج جتنا مشکل ہے، اتنا ہی ضروری بھی۔
تیسرا چیلنج: 57 ممالک کے اس اتحاد کو قائم رکھنا ہے‘ جسے ''آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز‘‘ کہتے ہیں۔ او آئی سی کو فی الحال علامتی فورَم کہہ لیں‘ جہاں پر مسلم ممالک اکٹھے ہو کر مسلم کشی، اسلاموفوبیا جیسے اجتماعی مسائل پر دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں۔
یو اے ای کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد پاکستان کے لئے جتنے چیلنجز نظر آرہے ہیں‘ اسلامی دنیا کی پہلی اور آخری ایٹمی قوت ‘22 کروڑ آبادی اور دہشت گردی کے خلاف اکیلے لڑ کر فتح پانے والے واحد ملک کے طور پر اتنے ہی مواقع بھی کھلیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں