"ABA" (space) message & send to 7575

عمران خان کے دو سال

اس ہفتے وطنِ عزیز کی 73ویں سال گرہ منائی گئی۔ ایسا تاریخ ساز جوش و خروش، پرچمِ ستارہ و ہلال کی قطاریں اور نئی نسل کی اس برتھ ڈے پر تجدید وفا میں حصہ داری اپنی مثال آپ رہی۔
نئے دنوں کی مسافتوں کو اُجالنا ہے
وفا سے آسودہ ساعتوں کو سنبھالنا ہے
اُمیدِ صبح جمال رکھنا، خیال رکھنا...
اسی ہفتے پاکستان تحریک انصاف کی مخلوط حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت کے پہلے دو سال کامیابی سے پورے کر لئے۔ یہاں یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ وزیر اعظم جناب عمران خان پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے اور پہلی مرتبہ ہی اقتدار ان کی جماعت پی ٹی آئی کو ملا۔ اس سے پہلے کے 72 سالوں میں سے بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو 14 اگست 1947 سے 11 ستمبر 1948 تک اپنے تخلیق کئے ہوئے پاکستان کی قیادت ملی۔ بانیِٔ پاکستان کے دستِ راست شہیدِ ملت خان لیاقت علی خان 15 اگست 1947 سے 16 اکتوبر 1951 تک برسرِ اقتدار رہے۔ شہیدِ ملت نے بھی بڑی بہادری سے نوزائدہ وطن کو لیڈ کیا۔ 
پاکستان میں قیادت کا تیسرا مرحلہ لیاقت علی خان شہید کے بعد خواجہ ناظم الدین سے شروع ہوتا ہے‘ جس کے بعد وزیر اعظم عمران خان سے پہلے 21 وزرائے اعظم اور 12 صدورِ مملکت اقتدار کی کرسی پر بیٹھے۔ ہماری گورننس کی تاریخ کا ایک بڑا پہلو یہ بھی ہے کہ ایوب خان اور ضیاالحق کے علاوہ ملک میں سب سے لمبا عرصہ اقتدار جاتی اُمرا کے شریف خاندان، لاڑکانہ کی بھٹو فیملی اور نواب شاہ کے زرداری گھرانے کے ہاتھوں میں گھومتا آیا ہے۔ گورننس کی اس تاریخ میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو مختلف پوزیشنز پر لمبے اقتداروں والے ان خاندانوں کے سہولت کار اور خدمت گزار کا کردار ادا کرتے رہے‘ اُنہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو ان کے اقتدار کے پہلے دن کے پہلے گھنٹے سے ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ صبح، دوپہر، شام اور رات، حکیم کی دوائی کی طرح پوچھتے چلے آئے ہیں کہ کہاں ہے تبدیلی؟؟ یہی ہمارا آج کا موضوع ہے کہ یہاں ہے تبدیلی۔ پہلے آئیے وہ چند عدد ''میکرو اشاریے‘‘ ایک نظر دیکھ لیتے ہیں جہاں ملک کی تاریخ میں پہلی بار تبدیلی آئی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلی کے باقی ثبوت دیکھنے کے لئے پی ٹی آئی حکومت کی دو سالہ رپورٹ، نیٹ پر موجود ہے:
پہلا اشاریہ: پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے پہلے دن سے ہی وقت گزارو پالیسی سازی سے کُھل کر بغاوت کی۔ لمبے عرصے سے چلنے والے اس 'سٹیٹس کو‘ کے مقابلے میں نئی حکومت نے طویل مدت کی پالیسیوں کو اختیار کیا‘ جس کی وجہ سے بیلنس آف پے منٹ کے مسلسل کرائسس کو روکنے میں پی ٹی آئی گورنمنٹ کامیاب ہو گئی‘ جس کا کُھلا ثبوت یہ ہے کہ سال 2018 میں جب ملک نئے وزیر اعظم جناب عمران خان کے حوالے کیا گیا تو تب کرنٹ اکائونٹ خسارہ 19.9 بلین امریکی ڈالرز پر پہنچا ہوا تھا‘ جبکہ اب پہلے دو سالوں میں کرنٹ اکائونٹ ڈیفیسٹ کم ہو گیا ہے‘ 3 بلین ڈالر تک گر گیا ہے۔
دوسرا اشاریہ: یہ تسلیم شدہ معاشی حقیقت ہے کہ پچھلی حکومت کے آخری تین سالوں میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانی برادری کی جانب سے بھیجی ہوئی رقم معطل ہو کر رہ گئی تھی۔ اب صرف دو سال کے مختصر عرصے میں زرِ مبادلہ کی اس رقم میں 3.2 بلین امریکی ڈالرز کا تاریخ ساز اور ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ اب تک بیرونِ ملک سے پاکستانیوں کی طرف سے بھیجے ہوئے زرِ مبادلہ میں یہ سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ جولائی 2020 میں یہ رقم 2.768 بلین ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔ یہاں ریکارڈ کے لئے یہ واضح کر دینا بھی ضروری ہے کہ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں ہی کورونا نے بڑی بڑی معاشی طاقتوں کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ یہاں یہ بہتری اس کے باوجود ہوئی ہے۔
تیسرا اشاریہ: ہماری سٹاک ایکسچینج مارکیٹ (PSX) نے حال ہی میں 40 ہزار پوائنٹس کا مارک کراس کر لیا ہے‘ جو فروری 2020 سے اب تک سٹاک ایکسچینج بزنس میں سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ اس اضافے کا بڑا سبب وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بزنس فرینڈلی ماحول پیدا کرنے کے لئے کئے گئے بڑے بڑے اقدامات ہیں۔ یاد رہے کہ پی ایس ایکس میں اس اضافے کے نتیجے میںکورونا کی وجہ سے ہونے والے سارے نقصانات ریکور کر لئے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کراچی سٹاک ایکسچینج کو جولائی 2020 میں عالمی طور پر سیکنڈ بیسٹ پرفارمر ڈکلیئر کر دیا گیا۔ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے باوجود پاکستان کی دُرست معاشی پالیسی سازی اور معاشی کارکردگی کی تعریف بڑے عالمی ادارے بھی کر رہے ہیں‘ جن میں آئی ایم ایف، موڈیز اور Fitch جیسے بین الاقوامی ادارے بھی شامل ہیں۔
چوتھا اشاریہ: صرف دو سال کے عرصے میں وزیر اعظم عمران خان نے کشمیر کے تنازعے کے حل کے لئے یو این جی اے اور یو این ایس سی جیسے پلیٹ فارمز پر مسلسل کارروائیاں شروع کروائیں، جن کے نتیجے میں بھارت بیک فُٹ پر چلا گیا۔ وہی مودی جس کا جہاز پاکستان میں بغیر اجازت کے دندناتا ہوا لاہور آیا تھا‘ اس کے دو جہاز عمران خان کے دور میں در اندازی دُہرانے آئے تو ان کے پرخچے اُڑا کر مودی کی منہ پر مار دیئے گئے۔ پاکستان کا نیا پولیٹیکل نقشہ جاری ہونے پر بھارت پہلی مرتبہ کائونٹر ڈپلومیسی میں پریشان ہے۔ 
پانچواں اشاریہ: وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے کورونا جیسی گلوبل وبا کا کامیابی سے دفاع کیا۔ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے پاکستانی قیادت کی سٹریٹیجی کی تعریف بل گیٹس جیسے عالمی لیڈرز نے بھی کی ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت سمیت دنیا کے بڑے بڑے ممالک پالیسی سازی میں پاکستان سے پیچھے رہ گئے جس کا ثبوت عالمی میڈیا ہر روز دکھاتا ہے۔
چھٹا اشاریہ: احساس کیش پروگرام کے ذریعے دنیا کی جدید تاریخ میں پہلی بار ملک کے طول و عرض میں 1 کروڑ 20 لاکھ دیہاڑی دار مزدور خاندانوں میں 145 ارب روپے کا بھاری کیش نقدی کی صورت میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے کے سارے پروگرام بری طرح سے سیاسی مداخلت اور سفارش کا شکار ہوئے۔ احساس کیش پروگرام میگا سوشل پروٹیکشن ڈرائیو ثابت ہوا۔ یہ پروگرام ابھی جاری ہے اور اس کے ذریعے 1 کروڑ 60 لاکھ ایسے لوگوں تک کیش پہنچ جائے گا، جن پر کورونا وبا کا بحران بری طرح سے اثر انداز ہوا ہے۔
ساتواں اشاریہ: پاکستان اور چین کے تعلقات میں عمران خان صاحب کی قیادت نے نئی بلندیاں حاصل کی ہیں جن کے تحت سی پیک کا نیا مرحلہ شروع ہو چکا ہے جو انڈسٹریلائزیشن کے ذریعے پاکستان کو معاشی طور پر ناقابلِ تسخیر بنا دے گا۔ اس مضبوط پاک چین پارٹنرشپ کے ساتھ ہی دفاعی حوالے سے بھی نئے میدان سامنے آئے ہیں۔ اسی دور میں 3 نئے ڈیموں کی تعمیر پر عملی کام شروع ہو چکا ہے جن میں سے ایک عمران خان کے پہلے دورِ حکومت میں انشاء اللہ آپریشنل بھی ہو جائے گا۔
آٹھواں اشاریہ: پاکستانی معیشت کا سب سے بڑا کینسر، سرکلر ڈیٹ ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے 2 سال کے عرصے میں ترجیحی بنیاد پر اسے ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے‘ جن میں اسلامک فنانسنگ کے ذریعے چار سے پانچ سو ارب روپے ڈیٹ سٹاک کو ختم کرنے کے لئے موبلائز کئے گئے۔ جناب عمران خان پہلے وزیر اعظم ہیں جو اپنے گھر میں رہتے ہیں‘ جن کی نہ کوئی بزنس ایمپائر ہے، نہ ہی کوئی خاندانی لائن آف تھرون۔
تبدیلی ہر جگہ ہے، مسلسل سفر کی پہلی منزل پانچ سال بعد۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں