"ABA" (space) message & send to 7575

فاتحِ القدس

یہ عیسائی بادشاہوں کا بازنطینی دور تھا۔ عیسوی سال 638 ہے۔ رومن ایمپائر کا اہم ترین مقام تھا اُرسلم۔ کئی سال بعد اسے مغرب کے کروسیڈر حملہ آوروں کے دور میں یروشلم کے نام سے پکارا گیا۔ آج وہ پھر سے بیت المقدس بننے جا رہا تھا۔ ابوالانبیا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے سلسلۂ نسب کے تینوں مذاہب کے لیے بیت المقدس کے دروازے کھل رہے تھے۔ بیت المقدس کے باسیوں اور فاتحین کی تاریخ نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ فاتح القدس پیدل چلتے شہر فتح کرنے تشریف لا رہے تھے۔ اونٹ کی سواری پر اُن کے ہمراہی کی باری تھی۔ یہ ہیں خطاب بن نفیل اور حنتمہ بنت ہشام کے عظیم فرزند۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نانا عرب کے مشہور سردار ہشام بن مغیرہ تھے جبکہ حضرت عمر بن خطابؓ کا نسب نویں پشت پر جا کرخاتم المرسلین حضرت محمدﷺ سے مل جاتا ہے۔ رسولِ محترمﷺ کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے تھے ‘جن کے نام تھے مرّہ اور عدی۔ رسول خدا حضرت محمدمصطفیﷺ مرّہ کی اولاد میں سے ہیں جبکہ خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب ؓ عدی کی اولاد میں سے تھے۔ حضرت عمر ؓ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓاُن چند عرب سرداروں میں سے ایک تھے جن کو لکھنا پڑھنا آتا تھا۔ حضرت عمرؓ کو بہت سے علوم پر عبور حاصل تھا‘ جن میں علم الکلام ‘علم الانساب‘ فنِ حکمرانی‘ سپہ گری اور جنگی سٹریٹیجی جیسے اہم ترین علوم شامل ہیں۔ 634 عیسوی میں خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق ؓکا وصال ہوا جبکہ خلافت کا منصب سنبھالنے کے چوتھے سال میں فاتح القدس حضرت عمر فاروق ؓنے سلطنت روم کو پچھاڑ کے رکھ دیا۔ فاتح القدس حضرت عمر ؓ جب بیت المقدس مہم پر روانہ ہوئے اُس وقت آپ محض فوجی لشکر کے سربراہ نہیں بلکہ 13 خودمختار صوبوں کے مقتدر خلیفہ تھے۔ کروسیڈز کے ماننے والوں نے حضرت عمرفاروق ؓ کے ہاتھوں القد س کی فتح کو عظیم سانحے کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا۔ اس موضوع پر آگے بڑھنے سے پہلے آئیے اُن خصوصی اعزازات کا ذکر کریں‘ جو سیدنا عمر فاروق ؓ کو دربارِ رسالت مصطفیﷺسے حاصل ہوئے۔ پہلے کا ذکر حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے روایت کی گئی تین احادیث شریف میں آتا ہے۔ ان روایات کے مطابق ‘اللہ تعالیٰ کے رسول حضرت محمد مصطفیﷺ نے ایک دن یوں دعا فرمائی: ''اے اللہ عمر بن ہشام (ابو جہل) یا عمر بن الخطاب ‘دونوں میں سے کسی ایک کو اسلام کے لیے قبول فرما‘‘۔ اس کے اگلے ہی روز حضرت عمر بن خطابؓ صبح سویرے دربارِ رسالت مآبﷺ میں حاضر ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ یہ خبر مکہ کے مشرکین تک پہنچی تو وہ تڑپ اُٹھے۔ مشرکین نے پریشان ہو کر کہا ''آج ہماری قوم آدھی رہ گئی‘‘۔ حضرت عمر بن خطاب ؓکو دربارِ رسالت مآبﷺ سے ملنے والا دوسرا اعزاز یہ تھا کہ آپ ؓ کا لقب فاروق ہوا اور کُنیت ابو حفص ٹھہری۔ آپ ؓ کا لقب اور کنیت دونوں ہی خاتم الانبیا حضرت محمدﷺ کے عطا کردہ ہیں۔ ایک اور روایت حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے یہ ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ کا قبولِ اسلام ‘اسلام کی پہلی فتح تھی۔ اس سے پہلے مسلمان بیت اللہ شریف میں نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ حضرت عمر بن خطابؓ اسلام لائے تو فوراً مشرکین مکہ کا سامنا کیا۔یہاں تک کہ مشرکین مکہ راستے سے ہٹنے پر مجبورہو گئے اور مسلمانوں نے خانہ کعبہ میں نماز ادا کی۔
فاتح القدس حضرت عمر فاروق ؓ نے634 عیسوی میں حضرت ابو بکر صدیق ؓکے وصال کے بعد خلافت سنبھالی جس کے فوراً بعد آپؓنے اسلامی سلطنت کو اتنی زیادہ وسعت دی کہ جس کے مقابلے میں جدید دور میں کسی سپر پاور کے پاس بھی اتنی بڑی سلطنت فتح سے آنا مشکل ہے۔ سیدنا عمر فاروق ؓ کو جدید گورننس کے کئی شعبوں کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ ان کے دور خلافت میں پہلی بار Unitary Form of Governmentقائم ہوئی ‘جہاں خلیفہ راشد کے پاس مکمل سیاسی اقتدار تھا۔ اس سے نیچے سلطنت کئی صوبوں اور خود مختار علاقوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ان میں ایسے خودمختار علاقے شامل تھے‘جن کے لوگوں نے اسلامی خلافت کو خوشی خوشی تسلیم کرلیا۔ ان میں آذربائیجان اور آرمینیا بھی شامل ہوئے۔ اسلامی سلطنت کو 13صوبوں میں تقسیم کردیا گیاجن میں افریقہ ‘عریبیہ اور پرشیا بلکہ قیصر وکسریٰ کی ایمپائرز بھی شامل ہوگئیں۔خلیفہ ثانی کے دور ِحکومت میں صوبوں کی تقسیم یوں بنی۔
1۔ مکہ(عرب)‘ 2۔ مدینہ(عرب)‘ 3۔ بصرہ(عراق)‘ 4۔ کوفہ (عراق)‘ 5۔ جزیرہ (دریائے دجلہ و فُرات کا اوپری حصہ)‘ 6۔ سیریا‘ 7۔ اِلیا(فلسطین)‘ 8۔ رملہ(فلسطین)‘ 9۔ لوئر مصر‘ 10۔ اَپر مصر‘ 11۔ خراساں (ایران)‘ 12۔ آذربائیجان(ایران)‘ 13۔ فارس(ایران)
حضرت عمر فاروق ؓکے دورِ خلافت کی ریفارمز: جغرافیائی فتوحات‘خلافت کی وسعت کے ساتھ ساتھ کئی انتظامی محکمے قائم کیے گئے۔ عام شہریوں کی شکایات اور انصاف کی فراہمی کیلئے بہت بڑی ریفارمز کی گئیں۔چند کی تفصیل اس طرح ہے۔ 1۔احتساب: حضرت عمر ؓ کے دور میں مالی اور انتظامی احتساب کو ادارے کی حیثیت دی گئی۔احتساب کا ایسابے لاگ اور شفاف نظام قائم ہو اکہ ایک جوڑا کپڑے پہننے پر خود خلیفہ ثانی جواب دہی کے عمل سے گزرے۔ اس نظام میں کسی کے عہدے یا رشتے کا کوئی لحاظ کبھی نہ رکھا گیا۔
2۔ پولیس کا محکمہ: اسلامی فلاحی ریاست کے داخلی امن اور جرائم پیشہ لوگوں کو پکڑنے کیلئے باقاعدہ پولیس کا محکمہ قائم ہوا۔اس محکمہ پولیس کا حیران کن رول یہ بھی تھا کہ وہ ناپ تول میں کمی کو روکنے کی ذمہ دار تھی۔ تعمیرات میں تجاوزات کو کنٹرول کرنا اسی پولیس کے ذمہ لگایا گیا۔جانوروں پر بے رحمی‘ بے جا بوجھ لادنے سے روکنا بھی محکمہ پولیس کی ذمہ داری میں آیا۔بلکہ شراب سمیت کنٹرول آف نارکوٹکس بھی پولیس کے دائرہ اختیار میں آگئے۔
4۔جیل خانہ جات: جب اسلامی سلطنت میں محکمہ پولیس قائم ہو ا تو اُس کا قدرتی نتیجہ نکلا کہ مجرموں کو گرفتار کرکے سزائیں ملنے لگیں؛چنانچہ جیلوں کا نظام بنا۔پہلا جیل خانہ‘ مکہ معظمہ میں قائم ہوا ۔ صفوان بن امیہ کی بڑی حویلی ریاست نے خریدی اور پھر اسے جیل میں تبدیل کردیا گیا۔
فائٹنگ آرمی کے ذریعے ظالموں کا خاتمہ:فاتح القدس کی فتوحات نے نئے ورلڈ آرڈر کو جنم دیا جو تقریباً900سال تک مغرب و مشرق میں مسلم ورلڈ آرڈر کی صورت میں طلوع رہا۔سیدنا عمر ؓ کے دورمیںدو سپر پاورز کے ساتھ ساتھ ‘ایفرو عرب ممالک بھی فتح ہوئے جن میں مصر ‘عراق ‘شام اور فلسطین ہی نہیں بلکہ عجم کا کچھ حصہ بھی شامل ہے۔کئی رومی علاقے جنگ کے بغیر ہی سایۂ اسلام میں آگئے۔صرف 10سال کے عر صے میں فاتح القدس نے 22لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کر دکھایا۔
1095عیسوی میں پا پائے روم نے یورپ بھر سے فوجیں اور چندے اکٹھے کیے جس کے نتیجے میں 1099ء میں بیت المقدس میں یروشلم کے جھنڈے لہرا گئے۔90سال بعدسلطان صلاح الدین ایوبی ؒنے قبلہ اوّل کو آزاد کرادیا۔ جب تک صلاح الدین ایوبی ؒکی تلوار اُس کے ساتھ ہی سپر د خاک نہ ہوئی‘ کروسیڈرز کو مار پڑتی رہی۔ 1229ء میں مملوک حکمران الکامل نے لڑے بغیر قبلہ اوّل فریڈرک دوم کے حوالے کردیا۔ صرف 15 سال بعد خوارزمیہ نے پھر بیت المقدس آزاد کروایا۔ اگلے673 برس بیت المقدس ابراہیمی مذاہب کے لیے کھلا رہا۔ 1517ء سے 1917ء تک بیت المقدس عثمانی سلطنت کا حصہ رہا۔پُر امن اور ترقی یافتہ ۔
اور...پھر تلوار ٹوٹ گئی!!
ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصیٰ تیرا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں