"ABA" (space) message & send to 7575

کراچی کس نے ڈبویا؟

اس کوسٹل شہر کے دو سب سے بڑے سہر ے ہیں۔ پہلا، بنو ہاشم کے ایک شاہزادے حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ یہاں شہید ہوئے، اور اسی شہرِ بیمثال کے ایک سمندری ٹیلے پر اُن کا مقدس مزار خلقِ خدا کے لئے محبتوں کا مرکز ہے۔ شہرِ پاکستان کا دوسرا عظیم سہرا، مسلم دنیا کے عظیم رہنما بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا شاندار مزار ہے۔
یوں تو کراچی کی عمر 1000 سال سے بھی زیادہ ہے لیکن پہلی بار 1885 میں کراچی کے ایک انگریز کمشنر ہنری برٹل ایڈورڈ فریئر نے اس کے کمرشل پوٹینشل کو سمجھا۔ فرنگی کمشنر کی محنت اور توجہ کے نتیجے میں یہاں باقاعدہ پہلی بحری پورٹ تعمیر ہوگئی۔ فریئر کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے کراچی کے کئی آئیکونک پروجیکٹس کو برٹش راج میں ان کے نام سے بنایا گیا۔ برٹش راج کے دوران ہی کراچی کو خطے کا کمرشل اور تجارتی حب بنانے کیلئے مرچنٹ آفسز، بڑے بڑے گودام اور بحری تجارت کیلئے مناسب سہولت کی چَین اور اِنفراسٹرکچر بھی بچھایا گیا۔ قیامِ پاکستان سے پہلے ہی کراچی کی زیادہ تر ہندو آبادی بھارت کے مختلف علاقوں‘ خاص طور پر بمبئی شفٹ ہو گئی تھی۔
14اگست 1947 سے بہت پہلے بڑھتے ہوئے معاشی مواقع نے کراچی کو برصغیر، مڈل ایسٹ اور پرشیَن گلف کے علاقے میں خاص شہرت دے دی تھی‘ جس کے نتیجے میں کئی نسلوں اور مذاہب کے لوگ ہندوستان، ایران اور عرب ملکوں سے آ کر یہاں آباد ہونے لگے۔ اِن میں یہودی آبادکار بھی خاصی تعداد میں شامل تھے۔ 1941 میں کراچی کی آبادی کا جو سروے کیا گیا، اس کے مطابق یہاں مسلمان اقلیت میں تھے‘ کُل آبادی کا 42 فیصد۔ 1941 تا 1952 کراچی کی آبادی میں تیز ترین، تین گُنا اضافہ ہو گیا۔ آبادی کے اس بڑے مائیگریشن نے صرف 11 برسوں میں کراچی کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 96 فیصد تک پہنچا دیا۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق 1947 میں کراچی کی آبادی صرف 4 لاکھ 50 ہزار لوگوں پر مشتمل تھی۔
کراچی کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لئے دو باتوں کو سامنے رکھنا ضروری ہے: اس شہر سے فارمل اکانومی کے ذریعے ملک کو حاصل ہونے والا ریونیو یا سرمایہ‘ اور کراچی کی پسماندگی اور اُجڑی ہوئی بستیاں۔ بدترین انتظامی ڈھانچہ، چائنہ کٹنگ، شہری سہولیات پر ناجائر تجاوزات۔ زیرو پبلک ٹرانسپورٹ، پولیٹیکل کریمنلز کے ایجاد کردہ ''نو گو ایریاز‘‘ خاص طور سے شہر کو جنگل کی تہذیب میں بدلتے چلے گئے۔
کراچی کو کس نے ڈبویا؟ اس اہم ترین سوال کا جواب جاننے کیلئے کراچی کی سیاست کی طرف جانا ہوگا۔ 1965 میں ایوب خان کے مقابلے میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح صدر کے عہدے کی امیدوار کے طور پر سامنے آئیں۔ تب شہرِ قائد نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی بہادر ہمشیرہ کا ساتھ دیا۔ اس کے صرف 5 سال بعد 1970 میں ملک کے پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے۔ اس الیکشن کے نتیجے میں کراچی شہر میں دو مذہبی جماعتوں کو قومی اسمبلی کی 5 میں سے 4 سیٹوں پر کامیابی مل گئی۔ سندھ کے باقی علاقوں میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ اس طرح سے پی پی پی کو کراچی کے علاوہ پورے سندھ میں لینڈ سلائیڈ وِکٹری مل گئی۔
کراچی کو ڈبونے کا سبب بننے والے کریمینل سنڈیکیٹس اور مافیاز صرف کراچی کے ہی نہیں، کیماڑی سے کالام تک ساری قوم کے مجرم ہیں۔ اندازہ لگا لیں کہ جو شہر پورے پاکستان کی جی ڈی پی کا 20 فیصد حصہ جنریٹ کرتا ہے، وہاں ہر روز تقریباً 15ہزار ٹن کچرا برسر عام ڈَمپ کیا جارہا ہے۔ پچھلے 12 سال سے صوبہ سندھ میں پی پی پی کے پاس اقتدار اور مکمل اختیار ہے۔ باخبر لوگ بتاتے ہیں کہ کراچی کی متبادل اکانومی فارمل اکانومی سے 2 گُنا بڑی ہے‘ جس کا ثبوت فالودے والے، پاپڑفروش‘ زیر تعلیم بچے اور ٹریکٹر والے کے اکائونٹ سے بر آمد ہونے والے اربوں روپے ہمارے سامنے ہیں۔ یہ لائنیں لکھنے کے دوران ٹی وی چینلز پر خبر آئی کہ واپڈا کے ایک ریٹائرڈ بزرگ لائن مین کا معمولی سا اکائونٹ بھی نوٹوں کی بوریوں سے بھر دیا گیا ہے۔ کراچی ڈبونے والوں کی وارداتوں کی تفصیل پر ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ پورے پاکستان میں لگائی گئی صنعتوں سے وصول ہونے والی پیداوار کا 30 فیصد صرف کراچی پیدا کرتا ہے۔ اس قدر مالدار شہر میں کچرا کُنڈیوں کے جمعہ بازار لگ گئے ہیں۔ ہر چوک پر، ہر سڑک کے کنارے اور برساتی نالوں میں‘ ہر طرف کچرا ہی کچرا نظر آرہا ہے۔ اس سے بھی اگلی واردات یہ سامنے آئی کہ کچرے پر عوامی غصے اور میڈیا کوریج سے بچنے کیلئے اب کچرا سیدھا سمندر میں پھینکا جارہا ہے۔ ایسے میں کراچی کی سوِل سوسائٹی‘ ایک ''فکس اِٹ‘‘ کے سوا‘ لگتا ہے گونگی ہو گئی ہے‘ جس کی وجہ یہ ہے کہ کچرا پھینکنے والے روشن خیال اور لبرل ماڈرن حکمران ہیں‘ جنہوں نے کچرے کے ڈسپوزل کا دنیا میں یہ نیا فارمولا ایجاد کیا ہے‘ اس لئے پانی اور سمندری حیات کی بربادی پر احتجاج کیسا؟
سوِک سروسز کے ماہرین کے مطابق کچرا ڈَمپِنگ سائٹ شہری آبادی سے دُور، پہاڑوں کے درمیان میں بنائی جاتی ہے۔ لینڈ فِل کا آئیڈیل ایریا 2 سے 3 ہزار ایکڑ ہوتا ہے۔ اس لینڈ فِل میں کچرا شیٹ کو کیک کی طرح بچھایا جاتا ہے۔ اس کچرا شیٹ کیک کے نیچے پائپ لگائے جاتے ہیں جو گلتے سڑتے کچرے کی زہریلی گیسز کو انسانی آبادیوں سے دُور لے جاتے ہیں۔ کراچی میں خاص طور سے اور پورے پاکستان میں عام طور پر جھاڑو اور ٹریکٹر کو کچرا ختم کرنے کی ٹیکنالوجی سمجھ لیا گیا ہے۔
اب آئیے ایک اور سنگین واردات کی طرف جس کے نتیجے میں کراچی ایک لمبے عرصے سے آفت زدہ شہر بن چکا ہے۔ صرف اتنا فرق پڑا ہے کہ اس دفعہ ایلیٹ مافیاز کو جھنجھوڑنے کے لئے آفت اپنی شکل بدل کر آ گئی، بارش اور سیلاب کی صورت میں۔ واردات یہ ہے کہ پچھلے 12 سالوں میں ہر سال وفاق اور کراچی سے کھربوں کا ریونیو حاصل ہوا لیکن اسی شہر کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے ایک ٹیڈی پیسہ خرچ نہیں کیا گیا۔ کراچی کا اگلا مسئلہ سیوریج کا ہے۔ یہاں 98 فیصد گھرانے انڈر گرائونڈ پبلک سیوریج سسٹم سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک تازہ سٹڈی کے مطابق 72 فیصد گھرانوں نے بتایا: یہ سسٹم اکثر بلاک رہتا ہے اور ایک مہینے میں 2 سے 7 مرتبہ اووَرفلو ہوکر گھر اور گلیاں گٹر کی گندگی سے بھر دیتا ہے۔ اس کی ذمہ داری صوبائی وزارتِ بلدیا ت اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ پر آتی ہے‘ جس کی پائپ لائنز برساتی نالوں سے جُڑ کر بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے اتنی بڑی آبادی کا سیوریج سمندر میں ڈمپ کر رہی ہیں۔ ہائی رائز بلڈنگز بغیر کسی پلاننگ اور سٹڈی کے ڈیلنگ ویلنگ کے ذریعے بن گئیں۔ یہاں کا سیوریج سسٹم 60-65 سال پرانا ہے‘ اس لئے 2015 کی ایک سٹڈی کہتی ہے: کراچی میں ہر سال 30 ہزار لوگ گندے پانی سے لگنے والی بیماریوں سے مر رہے ہیں۔
جناب جسٹس گلزار احمد صاحب جب سے چیف جسٹس آف پاکستان بنے ہیں‘ تب سے ڈوبے ہوئے کراچی کو تلاش کرنے کی آئینی اور قانونی کوششیں کر رہے ہیں۔ دوسری جانب کراچی کو ڈبونے والے ہر دفعہ کاسمیٹک ایکشن کرکے قوم کو بے وقوف بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں‘ لیکن حالیہ قدرتی آفت نے ان کے چہروں سے سارا میک اَپ دھو ڈالا۔
اگلے روز تجاوزات کے خلاف جو ایکشن ہوا وہ چند دیواریں اور تھڑے توڑ کر اس کا میٹریل وہیں پھینک گئے تاکہ چند گھنٹے بعد وہ تھڑے اور پتھاڑے پھر تعمیر ہوجائیں۔ اگر سوِک رائٹس کے ہر مسئلے پر جوڈیشل کال اٹینشن نوٹس کی ضرورت ہے، تو پھر کھربوں کی تنخواہیں، اربوں کی پنشن اور کروڑوں کا پروٹوکول لینے والے انتظامی اداروں کا کام کیا ہے؟
کراچی کو ڈبونے والوں نے گٹر کے پانی سے بھرے علاقے میں کھڑے ہو کر اے پی سی بلانے کا اعلان کردیا۔ شکر ہے وہ پیٹ پھاڑنے والا رسّہ، اوزار اور کھمبا کراچی جانے والی فلائٹ پر رکھنا بھول گئے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں