"ABA" (space) message & send to 7575

کراچی کی مسیحائی

ان دنوں ایک بار پھر لنکنز اِن اور برسٹل کے درمیان سفر جاری ہے۔ COVID-19کی وجہ سے تدریس کے سلسلے میں جو کام باقی رہ گئے تھے اُن کو نمٹانے کیلئے ایک بار پھر آنا پڑا ہے۔ اے ڈی آر-اوڈی آر آربٹریشن سرٹیفکیشن ‘ان میں سے ایک مرحلہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی سے وہ بھی مکمل ہوگیا۔
ابھی گزرے فروری کے مہینے کی بات ہے لندن کی سڑکوں پر ہر طرف انسان ہی انسان نظر آتے تھے۔ انسانوں کے اس سمندر میں دو طبقات کی بہت بڑی تعداد نظر آتی تھی۔پہلے نمبر پر یورپ ‘امریکہ اور چائنہ سے آئے ہوئے ٹورسٹ خواتین و حضرات‘جبکہ دوسرے نمبر پر دنیا بھر کے لا تعداد طالب علم جو‘ مختلف شہروں کی یونیورسٹیز اور کالجز میں ایجوکیشنل ایکسیلنس کی ڈگریاں حاصل کرنے آئے ہوئے تھے۔ پھر مارچ کے مہینے میں COVID-19 کا سایہ بڑھتا چلا گیا اور بیچاری ٹورزم انڈسٹری روز بروز سکڑتی چلی گئی۔آج یہاں سڑکیں تقریبا ًخالی ملتی ہیں۔ ٹورسٹ تو نام کو بھی نہیں جبکہ انٹرنیشنل سٹوڈنٹس میں سے بھی کوئی کوئی ہی نظر آتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے ان سڑکوں کی ویرانی بول بول کر کہہ رہی ہو کہ راستے بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے۔ جس طرح پوسٹ 9/11 ہماری دنیا بدل کر رہ گئی تھی بالکل اسی طرح سے پوسٹ COVID-19 بھی دنیا کا کلچر تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔ہاں البتہ اپنے ہاں اور یہاں کے پوسٹ کورونا وبا کلچر میں دو بڑے فرق صاف دکھائی دیتے ہیں۔ اپنے ہاں کورونا curve کے فلیٹ ہوتے ہی‘لوگ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے اور گلے ملنے کیلئے بے تا بی سے لپکنا شروع ہوچکے ہیں‘لیکن یو کے میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ 8 سے 12 فٹ کا سوشل ڈسٹنس‘آرڈر آف دی ڈے بن گیا ہے۔ہر کوئی اس نئی طرزِ زندگی کی سختی سے پابندی کرتا ہوانظر آرہا ہے۔خاص طور پر انگلش فیملیز اور دوسرے مقامی لوگ ‘ ماسک کے علاوہ کم ہی دکھائی دے رہے ہیں۔
بات شروع ہوئی تھی شہروں کے حالات بدلنے سے۔شہرِ قائد اور شہرِ پاکستان کراچی میں بھی وقت کا پہیہ پیچھے کے بجائے آگے کی طرف چلنا شروع ہوگیا ہے۔ کراچی کا شہر سطح سمندر سے صرف 30فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس شہر کا جغرافیہ سب سے ممتاز ہے کیونکہ یہ جنوبی پاکستان میں بحیرہ عرب سے عین شمال میں واقع ہے۔ شہر کراچی کا ٹوٹل رقبہ 3527کلومیٹر بتایا جاتاہے ۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ 1979ء کے بعد یہاں قبضہ مافیا نے سرکاری زمینوں کو لوٹ کے مال کی طرح آپس میں بانٹ کر شہر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا‘جس کی دو بڑی بڑی مثالیں ہمیں کراچی کے ڈرینیج سسٹم اور کراچی سرکلر ریلوے سے ملتی ہیں۔ ان دونوں کی تفصیل کی طرف بعد میں چلتے ہیں۔ پہلے آئیے کریمنل سنڈیکیٹ اور جرائم مافیا کے زخم خوردہ شہر کراچی کی مسیحائی کی طرف۔ یہ بات تردید کے کسی خوف کے بغیر کہی جاسکتی ہے کہ کراچی کے بڑے بڑے اثاثے ‘ جرائم پیشہ مافیاز کی جنگوں کے عرصے میں ریاست کے قبضے سے نکل گئے‘ جس کے نتیجے میں ملک کے سب سے بڑے شہر میں''نو گو ایریاز‘‘ کی مشروم گروتھ شروع ہوگئی۔ اس لیے سوک سہولتوں کو بہتر بنانے کیلئے ملنے والا بجٹ شہری محکموں کے گھوسٹ ملازمین کے نام منتقل ہونے لگا‘ جہاں سے منی لانڈرنگ کے ذریعے یہ رقم مڈل ایسٹ ‘لندن‘اور افریقہ کے ساتھ ساتھ امریکہ تک بھی پہنچتی رہی۔ اس طرح کراچی ‘اس میں بسنے والے لوگ اور اُس کی آمدنی کے ذرائع ان مافیاز کے ہاتھوں یرغمالی بن گئے ۔ پھر شہر کراچی کی قسمت کا فیصلہ بھی سات سمندر پار ہی ہونے لگا۔ ایک ٹیلیفون کال پر 70‘ 80ارب روپے کا نقصان اس شہر کے مقدر میں لکھ دیا جاتا رہا۔
پھر2020ء کی مون سون بارشوں کا سیزن آگیا۔ ان بارشوں نے کراچی میں جیسے قیامت برپا کردی ہو ‘ جس کے نتیجے میں دور دراز کے سیاسی کھلاڑی بھی کراچی میں آنے جانے لگے مگر بارش کے پہلے دن سے لے کر آج تک صوبائی اور شہری حکومت ‘دونوں کی کارکردگی کا یہ عالم رہا کہ ابھی تک سندھ اسمبلی کی بلڈنگ‘مسجد اور لائبریری میں کھڑا بارش کا پانی نہیں نکالا جاسکا۔ جس کی رپورٹس اور وہ بھی فوٹیج کے ساتھ ‘ اتوارکے دن تک ٹی وی چینلز کی سکرین پر چل رہی تھیں۔ ہفتے کے دن وزیر اعظم عمران خان کراچی کی مسیحائی کیلئے تاریخی پیکیج دینے کراچی پہنچے۔ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز‘سٹاک ایکسچینج‘ مختلف پارٹیوں کی سیاسی قیادت اور پارلیمنٹیرینز کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد وزیر اعظم صاحب نے کراچی شہر کی تقدیر بدلنے کیلئے‘ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کا اعلان کیا۔ اس پلان کیلئے سارے سیاسی سٹیک ہولڈرز کو پہلے ہی آن بورڈ لیا گیا ہے۔ اس پلان کو جنگی بنیادوں پر تیار کرنے کیلئے پی ایم آفس نے دن رات ایک کردیا۔ آئیے اس پلان کے چند بڑے حصے شیئر کرتے ہیں۔
پہلا حصہ: کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کا پہلا حصہ کراچی میں واٹر سپلائی کی کمی کو دور کرنے کیلئے مخصوص ہے‘جس کے ذریعے پانی کی سپلائی کے منصوبوں کیلئے 92 بلین روپے مختص کردیئے گئے ہیں۔
دوسرا حصہ: پانی کی نکاسی اور سیوریج کے ٹریٹمنٹ کے بارے میں ہے۔جس کی وجہ سے کراچی میں واٹر بورن بیماریوں پر قابو پایا جاسکے گا۔اس مقصد کیلئے 141ارب روپے کی بڑی رقم خرچ کی جائے گی۔
تیسرا حصہ: سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا ہے ‘تاکہ کراچی کے 40نالے چلتے رہیں ۔بارشی پانی شہر سے باہر سمندر تک پہنچتا رہے اور کراچی کو کبھی پھر سے ڈوبنے سے بچایا جاسکے ۔سوک سہولتوں کے اس ہیڈ میں 267ارب روپے خرچ کئے جائیں گے۔
چوتھا حصہ:بارش کے دوران برباد ہونے والے روڈ سسٹم کیلئے مخصوص کیا گیا ہے۔ کراچی میں بارش سے تباہ ہونے والی پرانی سڑکوں کی بحالی اور نئے روڈ زکی تعمیر پر 41ارب روپے خرچ کئے جائیں گے ۔
پانچواں حصہ: کراچی میں ماس ٹرانزٹ‘ ریلوے لائن اور روڈ ٹرانسپورٹ پر مشتمل ہے۔یہاں یہ بات نہ کہنا بہت کنجوسی ہوگی کہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد صاحب نے پچھلے دو ‘تین سال میں اس سسٹم کو درست کرنے کیلئے اور خاص طور سے کراچی سرکلر ریلوے کو بحال کرنے اور اُس کے اثاثے قبضہ مافیا کے پنجے سے چھڑانے کیلئے تاریخی کارنامے سر انجام دیئے ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد صاحب اور سپریم کورٹ کی انہی کوششوں کے نتیجے میں 571 ارب روپے کی بھاری رقم کراچی سرکلر ریلوے اور ماس ٹرانزٹ کی ریکوری اور بحالی پر خرچ کئے جائیں گے۔یہ سب اکٹھا کر کے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کیلئے کل ایک ہزار113ارب روپے کراچی کی تقدیر بدلنے کیلئے مختص کردئیے گئے ہیں۔
کراچی کو زخم لگانے اور ڈبونے والے مسیحائی نہ دے سکے۔زبان و بیان کے شور سے کسی سے کچھ بھی نہ ہوسکا‘اسی لیے ایک دن پہلے پی پی پی کے سربراہ نے یہ بیان جاری کیا تھا''کراچی میں بہت تاریخی بارش ہوئی ہے۔میں وزیر اعلیٰ کو اپنے ساتھ لے کر آپ کے پاس آگیا ہوں‘‘۔وزیر اعظم عمران خان کے کراچی ٹرانسفارمیشن پلان پر عمل درآ مد یقینی بنانے کیلئے اسے ایک سال کے شارٹ ٹرم ‘دو سال کے میڈیم ٹرم اور تین سال کے لانگ ٹرم پلان میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ کراچی کیلئے 1113 بلین اور فاٹا اضلاح کیلئے 400 بلین‘ گورننس میں تبدیلی کا ویژن نہیں تو اور کیا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں