"ABA" (space) message & send to 7575

سماج کے چار پلرز کی ذمہ داری

1973ء کے پاکستانی آئین میں اس ایک بحث کی تو سرے سے گنجائش ہی نہیں ہے کہ سماج کے چار بنیادی پِلرز کون سے ہیں۔ گنجائش اس لیے نہیں کہ بنیادی آئینی حقوق کے اگلے چیپٹر میں ریاست کے لیے پرنسپلز آف پالیسی فریم کر دیئے گئے ہیں جن کی رُو سے آئین کا آرٹیکل نمبر 35 ان چار بنیادی پِلرز کو نہ صرف باقاعدہ نامینیٹ کرتا ہے۔ بلکہ ساتھ ساتھ اِن چاروں پِلرز کی ہر طرح سے حفاظت کرنے کی ذمہ داری ریاست کے سر ڈالتا ہے۔
ان دنوں مو ٹر وے پر شرم ناک گینگ ریپ کی واردات ہوئی جو سرا سر درندگی ‘وحشت اور خوف ناک مکروہ کرائم کے زمرے میں آتی ہے۔ اس بے رحمانہ واردات پر شروع ہونے والی بحث کے دوران ریاستی ذمہ داری کے حوالے سے بہت سے سوال اُبھر کر سامنے آئے ہیں‘اس لیے یہاں ضروری ہوگا کہ پہلے ہم ریاستِ پاکستان کے بنیادی ریاستی اُصولوں میں دی گئی پالیسی کے الفاظ دیکھ لیں‘جو یہ ہیں:
35. Protection of family etc.The state shall protect the marriage, the family, the mother and the child.
آئین کے آرٹیکل 35کی زبان پر ایک نظر ڈالیں تو یہ بات سو فیصد وا ضح ہو جاتی ہے کہ ریاست اور اس کے کارندوں کے لیے سماجی فیبرک کے چار بنیادی پلرز کی حفاظت کے بارے میں کوئی ''چوائس‘‘ نہیں چھوڑی گئی۔
پاکستان کے سپریم لاز قرآن اور سنت ِنبی آخرالزماںﷺ ہیں۔اس بارے میں بھی آئین پاکستان میں علیحدہ سے آرٹیکل 227شامل ہے ‘جس کے بعد پاکستان کا آئین ملک کا سپیرئیر لاء کہلاتا ہے‘جبکہ باقی سارے قوانین کو سب آرڈینیٹ لیجسلیشن کہا جاتا ہے۔انسان کے ہاتھوں سے پارلیمنٹ کے ذریعے بننے والے ان دونوں قوانین میں قانون دو طرح سے کسی پالیسی ‘سزا یا پروسیجر کی کارروائی کو واضح کرتا ہے۔جہاں کسی ریاستی ادارے یا عدالت اور حکومت کو کسی معاملے میں چوائس (discretion) کا اختیار دینا ہو‘ وہاں لفظ mayاستعمال ہوتا ہے اور جس جگہ کسی آرگن آف سٹیٹ کو قانونی مینڈیٹ کا پابند بنانا ہو ‘وہاں لفظ shallلکھا جاتا ہے۔ اگر آپ آئین کے آرٹیکل 35کی لینگویج پر دوبارہ نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارے سب سے بنیادی چار سوشل یونٹس کے بارے میں ریاست کو سختی سے پابند کردیا گیا ہے۔ اس لیے ریاست ان چاروں کے ہر طرح سے تحفظ کرنے کی ذمہ دار ہے۔
پہلا یونٹ : شادی کا انسٹیٹیوشن :ریاستی سماج کا سب سے پہلا یونٹ ہے‘اس لیے کہ ماں باپ ‘میاں بیوی‘بہن بھائی ‘ بیٹی‘ بہو جیسے سارے رشتے سوشل کنٹریکٹ آف میرج ہی سے شروع ہوتے ہیں۔ اپنے ہاں مسلمانوں کیلئے مسلم فیملی لاز‘ جبکہ اقلیتوں کے لیے کرسچین میرجز ایکٹ وغیرہ جیسے قانون موجود ہیں۔ان قوانین کے نیچے شادی اور اس کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے دوسرے مسائل اور ایشوز کو ریگولیٹ کیا جاتا ہے۔ دوسرا یونٹ : خاندان:میرج کا کنٹریکٹ صرف میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے‘ لیکن فیملی کا یونٹ کئی حوالوں سے میرج کی ایکسٹینشن اور توسیع سمجھا جاتا ہے۔ تیسرا یونٹ: ماں:جس کی ذمہ داری سب سے بڑی اور ہر رشتے کے حوالے سے ذمہ داریوں کی ایک مسلسل سیریز ہے۔ اس سیریز میں دو علیحدہ علیحدہ خاندانوں اور اُن کے معاملات بھی آتے رہتے ہیں۔ چوتھا یونٹ : بچہ ‘ جو کسی بھی قوم کا مستقبل کہلاتا ہے اور جسے لڑکپن ‘طالب علمی‘جوانی ‘خاندان‘ شادی ‘سب منزلوں سے گزرنے کے ساتھ ساتھ قوم کے مستقبل کی حفاظت کا ذمہ بھی اُٹھا نا پڑتا ہے۔
موٹر وے گینگ ریپ کیس کی تفتیش کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس دل سوز واردات کے دو ملزم شناخت کر لیے ہیں جبکہ ان دونوں کے ساتھ ایک خاتوں سہولت کار بھی بتائی جارہی ہے۔ہو سکتا ہے کہ جتنی دیر میں یہ کالم چھپ کر آپ کے ہاتھ میں آئے تفتیش کے مراحل تیزی سے آگے بڑھ گئے ہوں۔
معصوم بچوں اور خواتین کے خلاف اخلاقی جرائم میں پچھلے دس‘ بارہ سال میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ۔موٹر وے کیس کے بعد بھی ہر روز ایسے مقدمے کراچی سے خیبر تک رپورٹ ہو رہے ہیں‘جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری سوسائٹی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے اب روٹین کے کرائم میں شامل نہیں رکھ سکتے ‘کیونکہ خواتین اور بچوں کے خلاف یہ جرائم بڑھ کر وبا کی صورت پھیلنے کا خطرہ تیزی سے ہمارے سامنے آرہا ہے۔اس لیے ملک کے دو اہم ترین آئینی اداروں یعنی پارلیمنٹ اور جوڈیشری کو اس کرائم پر کنٹرول کے لیے آئوٹ آف باکس حل دینا ہوگا۔ پارلیمنٹ وقت کی ضرورت کے مطابق قانون سازی کرے‘جبکہ فاضل عدلیہ کے لیے یہ ایک کیس سٹڈی ہے ‘کہ کس طرح ریپ کے دو مقدموں میں ملوث ملزم پھر سڑکوں پہ واپس آگیا اور اس نے تیسری لرزہ خیز واردات کر ڈالی۔
آج سوموار کی شام کو قومی اسمبلی کا اجلاس بھی شروع ہورہا ہے‘جس میں لازماً موٹر وے گینگ ریپ کیس پر بحث ہوگی۔ اس سے اگلے دن منگل کی شام ایوانِ بالا کا سیشن ہو گا ۔ جہاں پھر یہی موضوع چھایا رہے گا۔ پارلیمنٹری اور جوڈیشل حوالے سے کچھ اقدامات ایسے ہیں جن کی فوری ضرورت ہے۔ ان کے ذریعے عورتوں اور بچوں کے خلاف مکروہ کرائم پہ فوری کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ان میں سے چند یہ ہیں۔
1۔ انسدادِ دہشتگردی کے قانون میں ترمیم کر کے ہم بچوں اور خواتین کے خلاف زیادتی کے جرائم کو schedule ATAکا حصہ بنا سکتے ہیں ‘اس طرح مجرموں کو سزائے موت دینا ممکن ہوسکتا ہے۔ڈیتھ پینلٹی کے علاوہ ایسے جرائم کی متبادل یعنی کم سزا بہت سے ممالک میں موجود ہے‘ جس کے ذریعے مجرموں کے جینیٹلز کو نا کارہ بنا دیا جاتا ہے۔
2۔ ہمیں CRPCکے قانون میں فوری طو رپر ترمیم لانا ہوگی ‘جس کے ذریعے کریمنل ٹرائل کے پروسیجر میں دو ترامیم ضروری ہیں ۔پہلی ترمیم کے ذریعے ٹرائل کورٹ کو پابند بنایا جائے کہ وہ اس کیٹیگری کے کیسز کا فیصلہ 7دن کے اندر اندر سنا ڈالے۔دوسری شرط یہ کہ جب تک ایسے کیس کے ٹرائل کا فیصلہ نہ آجائے‘عدالت کسی اور دوسرے کیس میں ٹرائل کی کارروائی شروع نہ کرے۔لندن کے اولڈ  بَیلے اور بہت سے دوسرے مغربی ملکوں میں ایسی قانونی اور عدالتی مثالیں موجود ہیں۔
3۔اس طرح کے مجرموں کو مچھ جیل نوٹیفائی کرکے وہاں رکھا جائے اور ایسے مقدمات کی سماعت گواہوں کو عدالت میں بلانے کے بجائے ویڈیو لنکس کے ذریعے کی جائے۔
4۔ ہر صوبے میں ایسے جرائم کی کارروائی صرف سپیڈی ٹرائل کورٹس کے جج کریں ‘جن کے پاس کسی اور کیٹیگری کا مقدمہ نہ بھیجا جائے۔
5۔ سزائے موت پر عمل درآمد مظلوموں کے سامنے ہو۔
6۔ مجرموں کی پراپرٹی ہر جانے کے طور پہ مظلوم کو دے دی جائے۔ 
7۔ اس طرح کے مجرموں کا نیشنل کرائم رجسٹر علیحدہ سے بنایا جائے۔ اس این سی آر سسٹم کو میڈیا کے ذریعے ایسے مجرموں کی تصاویر اور دوسرے کوائف عوام تک پہنچائے جائیں۔
8۔ ان جرائم میں ہر اپیل کا فیصلہ دوہفتے کے اندر ہونا لازمی قرار دیا جائے۔
9۔ Mercy Periodجیسا کوئی Interim reliefنہ دیا جائے۔
یہ ریکارڈ کی بات ہے کہ پارلیمنٹ ہر روز دعویٰ کرتی ہے کہ عوام اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔موٹر وے گینگ ریپ کیس کے جلد فیصلے کے لیے کیا پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون دے سکتی ہے‘ جس سے اس کرائم پر عملی طور پر کنٹرول کیا جا سکے ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں