"ABA" (space) message & send to 7575

گرفتاریاں

گرفتاریوں کی کہانیاں نئی بھی ہیں اور پرانی بھی۔ دیسی بھی ہیں اور گورے مغرب سے بھی۔
گزرے ہوئے پیر کے دن اپنے ہاں لنگر شریف کی رونقیں کووڈ19 کے بعد پھر سے لوٹ آئی ہیں، الحمدللہ۔ میں لا آفس پہنچا، اور میٹنگ کے بعد دوسری منزل پر ریکارڈ روم میں چلا گیا‘ جہاں سیاسی گرفتاریوں کی تاریخی فائلیں پڑی ہیں۔ میرا ارادہ ہر طرح کی فائلیں پڑھنے کا تھا لیکن دو تین نے تو جیسے مجھے پڑھنے پر مجبور ہی کر دیا۔ ان میں سے پہلی فائل جنرل حمید گل صاحب کی رِٹ پٹیشن تھی، جو ہمارے لا آفس کے ذریعے لاہور ہائیکورٹ، لاہور میں دائر ہوئی۔ اس آئینی پٹیشن کے ذریعے جنرل حمید گل صاحب مرحوم نے ایمل کانسی کی گرفتاری اور اسے بغیر کسی قانونی عمل سے گزارے ماورائے عدالت گوروں کے حوالے کرنے کا معاملہ اٹھایا تھا۔ یہ نواز شریف صاحب کا دورِ حکومت تھا، جو آج کل کہتے پھرتے ہیں کہ ہم بھیڑ بکریاں نہیں ہیں، ہمارے ساتھ آئین کے مطابق سلوک کیا جائے۔
اگر ایمل کانسی کے ساتھ آئین کے مطابق سلوک کیا جاتا تو اس مقتول کو گرفتاری کے فوراً بعد یعنی 24 گھنٹے کے اندر اندر نزدیکی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جاتا۔ مجسٹریٹ صاحب کو گرفتاری کی وجوہ لکھ کر بتائی جاتیں۔ مجسٹریٹ صاحب ضابطہ فوجداری کی دفعہ30 کا اختیار رکھنے والے ہوتے‘ ایگزیکٹو مجسٹریٹ نہیں۔ پھر ایمل کانسی کو گرفتاری کی وجوہ بتائی جاتیں اور ساتھ یہ بھی کہ وہ اپنی مرضی کا دفاع اپنی مرضی کے وکیل کے ذریعے سے کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ پھر ایک عدالتی حکم کے ذریعے مجسٹریٹ صاحب ایمل کانسی کی کسٹڈی پولیس سے واپس لے کر، اسے جوڈیشل حوالات میں بھجوا دیتے‘ جس کے بعد گرفتاری کی وجوہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کی جاتیں جو ایمل کانسی صاحب کو جیل سے طلب کرتا۔ کُھلی عدالت میں سرکار بنام ایمل کانسی کی آواز لگائی جاتی۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ چارج شیٹ اور اس کے سپورٹنگ ڈاکومنٹس ایمل کانسی کے حوالے کرتے۔ ایمل کانسی کے وکیل ان کاغذات پر ابتدائی اعتراض داخل کرتے۔ پھر شہادت ریکارڈ کی جاتی اور پاکستان میں ضابطہ فوجداری کے قانون کی دفعہ میں درج مجرمان کی حوالگی کی کارروائی مکمل کرتے، اور اس کے بعد دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد ایمل کانسی کو بیرونِ ملک بھیجنے یا نہ بھیجنے کا فیصلہ صادر ہوتا۔
میں اس فائل کو اس سے آگے نہیں پڑھ سکا۔ پتہ نہیں کس پر غصہ آیا اور کیوں ذہن میں بے حساب سوال آگئے۔ سب سے پہلا یہی کہ کیا ایمل کانسی پاکستانی شہری تھے؟ ظاہر ہے اس کا جواب ہاں میں ہے۔ زہر سے مارے جانے کے بعد ایمل کانسی صاحب کی میت اسی کوئٹہ شہر میں واپس لائی گئی تھی، جہاں پاکستان کی ''ڈی ریلنگ‘‘ موومنٹ نے اپنا پہلا جلسہ انائونس کیا تھا۔ اسی پی ڈی ایم میں شامل اکثر لوگ اس وقت بھی نواز شریف صاحب کے ساتھ تھے، جب ایمل کانسی کی آزادیوں کو بیچا گیا، اور اُنہیں وہ تب بھی اپنی سیاست کا امام مانتے تھے۔ ایسی سیاست جس میں ملک غریب سے غریب تر ہوتا چلا گیا اور اس کے حکمران، حکمرانوں کے بیٹے، بیٹیاں، بھتیجے، سمدھی بلکہ داماد بھی ڈالروں، پائونڈز اور ریال کے کنٹینروں میں ڈوبتے چلے گئے۔ اتنا مال کہ نہ گنا جا سکے نہ کوئی سنبھال سکے۔ جس نے اس مال کی ہلکی سی جھلک دیکھنی ہو، وہ پارک لین، سینٹرل لندن مے فیئر جا کر دیکھ لے یا پھر گھر بیٹھے بیٹھے اسے گوگل کرلے۔
میں اُٹھا، جا کر دو اور فائلیں اُٹھا لیں۔ ان میں سے دوسری فائل ڈسٹرکٹ اینڈ سپیشل جج اسلام آباد کی عدالت کی تھی جن کے پاس تب سپیشل جج سینٹرل کے اختیارات نوٹیفائڈ تھے۔ ملزم کا نام دیکھ کر مجھے کچھ عجیب سا لگا کیونکہ یہ وہی صاحب تھے جنہوں نے کسی زمانے میں محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کے خلاف مہم چلانے کے سلسلے میں نواز شریف کے میڈیا سیل کو ہیڈ کیا تھا۔ 
پلیز مجھے معاف کر دیں، میں نفرت پر یقین نہیں رکھتا لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں مجھے کچھ ایسا ہی لگ رہا تھا۔ مجھے لگا‘ اس فائل نے جیسے مجھے جکڑ لیا ہو۔ اس فائل میں نامزد ملزم کو اس کی بیوی کی بہن کے فارم ہائوس سے اٹھایا گیا، جو اسلام آباد کے نواحی علاقے میں واقع ہے۔ اسی فارم ہائوس کے بائیں طرف گائوں بنی گالہ اور موڑا نور کی پرانی سڑک مڑتی ہے۔ کبھی اسلام آباد کا شہر آباد ہونے سے پہلے یہ سڑک پنڈی کو سیاحتی شہر کوہ مری سے ملایا کرتی تھی۔ تب یہ صاحب پاکستان کی لیڈی پرائم منسٹرکی پرسنل سیکرٹری کے بہنوئی بنے تھے۔ بعض لوگ تو شادی کو بھی آگے بڑھنے کیلئے سیڑھی بنا لیتے ہیں۔ان صاحب نے بھی ایسا ہی کیا۔ جس سیڑھی کے ذریعے وہ اقتدار کے ایوان میں پہنچے، اُسے چھوڑ کر امریکہ بھاگ گئے۔
سننے میں آیا ہے کہ آج کل یہ صاحب امریکہ میں بیٹھ کر نواز شریف صاحب کی ہمدردی مہم چلا رہے ہیں۔ کبھی یہ انہی نواز شریف کے قیدی تھے اور اس حیثیت میں ان کے سسرال نے ہماری لاء فرم کی خدمات حاصل کیں۔ سیشن جج اسلام آباد کی اجازت سے کڑے پہرے اور کالے نقاب میں لپٹے ہوئے شخص سے میرے والد صاحب کو بطورِ وکیل بات کرنے کی اجازت مل گئی۔ اس کے بعد چند منٹ میں سماعت شروع ہوئی اور ریاست کے خلاف سنگین جرائم کے الزام میں نواز شریف سرکار کے وکیلوں کی طرف سے ملزم کا جسمانی ریمانڈ مانگا گیا۔ اسی دوران میرے والد صاحب نے عدالت میں اپنے ہاتھ سے شارٹ سی درخواست لکھی جس میں قانون کا حوالہ دیا اور جج صاحب سے درخواست کی کہ وہ ملزم کو جسمانی ریمانڈ پر بھیجنے سے پہلے اس کے جسم کا اپنی آنکھوں سے خود معائنہ کریں؛ چنانچہ عدالت نے اجازت دے دی۔ معائنہ کیا گیا تو تشدد کے واضح نشانات موجود تھے۔ یہ دیکھ کر عدالت نے ملزم کا سرکاری ہسپتال سے طبی معائنہ کرانے کا حکم جاری کیا، اور جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کیلئے نواز حکومت کے وکیلوں کی درخواست مسترد کر دی۔
میں نے پرانی فائل بند کی اور لائبریری میں آکر بیٹھ گیا۔ میرا خیال آج کے مفرور لیڈروں کی وی آئی پی گرفتاریوں کی طرف گیا۔ ابھی 4،5 روز پہلے شہباز شریف صاحب نے لاہور ہائیکورٹ کے فاضل ڈویژن بینچ سے اپنی قبل اَز گرفتاری ضمانت کی پٹیشن اَز خود واپس لے لی‘ جس کے نتیجے میں وہ نیب کی حوالات جا پہنچے۔ شہباز شریف صاحب کو اپنی پسند کے ریستوران اور گھر سے کھانے کو کھابے بھجوائے جاتے ہیں۔ جمہوریت کے اس عظیم چیمپئن نے لاہور کی احتساب عدالت کے جج صاحب کے سامنے اپنا مقدمہ خود لڑا۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایک مرتبہ اُن کے بڑے بھائی جناب نواز شریف کو جیل سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں طلب کیا گیا تھا‘ جہاں انہوں نے تاریخی خطاب فرمایا۔ کہنے لگے ''مجھے مچھر لڑتے ہیں‘‘ جج صاحبان نے پوچھا ''کوئی اور بات؟‘‘ نواز شریف نے فرمایا: مجھے کھانا اچھا نہیں ملتا۔ شہباز شریف نے اپنی اس عظیم الشان خاندانی روایت کو زندہ رکھا۔ احتساب عدالت لاہور کے جج صاحب کو بتایا کہ میرے گھر سے آنے والا کھانا نیچے رکھ دیا گیا۔
جہاں پہ آل، مال اور کھال بچانے والے اتنے بہادر لیڈر ہوں۔ وہاں مے فیئر ہو یا حوالات، وہ پی ڈی ایم کے ذریعے انقلاب لا کر رہیں گے۔ داغی کا باغی انقلاب، دونوں غیر حاضر۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں