"ABA" (space) message & send to 7575

انقلابیے

لگتا یوں ہے جیسے باقی سارے کے سارے بے چارے سی ایس ایس کے امتحان میں فیل ہوگئے تھے‘ لیکن ایک سپر Intellectual نے مقابلے کا یہ امتحان ایک دفعہ نہیں بلکہ تین دفعہ پاس کر دکھایا۔ اس لیے صرف وہ ایک ہی دیسی ارسطو ایسا تھا جو 100 فیصد محنت کی حلال کمائی اور سویلین سپرمیسی جیسے جائز ذرائع استعمال کرکے پرائم منسٹر آف پاکستان کی کرسی پر بیٹھتا چلا گیا۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان سمیت باقی جتنے بھی پی ایم بنے‘ اُن سب کا انتخاب پاک فوج نے کیا۔ اسی لیے اس سرزمین پر صرف تین دفعہ صاف‘ شفاف اور گڑبڑ سے پاک الیکشن ہوئے۔ ظاہر ہے اس گھریلو ٹوٹکا سچائی کو بنیاد بناکر دیکھا جائے تو باقی سارے دھاندلی کے ذریعے وزارتِ عظمیٰ پاکستان کی کرسی پر چڑھتے نظر آتے ہیں۔ چلئے جناب! ووٹ کو عزت دو‘ برینڈ بیانیہ مکمل ہوا‘ اور وہ یوں کہ اس وقت پلینٹ آف ارتھ پر صرف جناب نواز شریف ''انقلابیے‘‘ ہیں۔ باقی جو کچھ بچتا ہے وہ سب انقلاب دشمنی کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہاں البتہ اس انقلاب میں سامراج کون ہے یا سامراج کا گماشتہ کون‘ یہ ڈھونڈنا پڑے گا۔
سال1960ء سے 1980ء کے عشرے تک انقلاب کے بہادر کمان دار اور شاعری میں انقلاب کے سپوکس پرسن حضرتِ فیض احمد فیض نے انقلابی ہونے کا نسخہ کچھ اس طرح سے بیان کیا تھا:
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم 
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم 
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
جناب فیض احمد فیض کے دور میں انقلابی کا مطلب ولادیمیر لینن‘ چیئرمین مائوزے تنگ‘ لیون ٹراٹسکی اور چی گویرا سے متاثر ہونا ضروری سمجھا جاتاتھا۔ کسی پراپرٹی ڈیلر‘ منی لانڈرر‘ انڈسٹریلسٹ‘ بزنس ٹائیکون یا تاجر کی اس انقلاب کے لیڈروں کی صف میں کوئی جگہ نہ تھی۔ فیض‘ جالب اور ساحر لدھیانوی کے زمانے میں انقلاب کا فلسفہ اور جدوجہد کے درجات پر لٹریچر چھپتا تھا‘ سٹڈی سرکل منعقد ہوتے تھے۔ ایسے انقلابیے دنیا کے ہر ملک میں گولیوں سے بھون دیئے گئے‘ یا پھانسیوں پہ لٹکائے گئے۔ پاکستان میں بھی اس انقلاب پر یقین کرنے والے ہر دور میں موجود تھے۔ ان میں سے ایک طبقہ اب بھی انقلاب کے خواب کو سینے میں چھپائے پھرتا ہے۔ یہ عام انقلابی ورکرز ہیں۔ مِل مزدور اور ایگریکلچرل لیبر سمیت دیہاڑی دار۔ ان کے لیڈر مگر پروموشن پر چلے گئے ہیں۔ اسی پروموشن کے نتیجے میں کچھ سات سمندر پار مغربی ملکوں میں جاکر کیپیٹل ازم کی گود میں خوشحال بیٹھے ہیں‘ جبکہ کچھ انقلاب کو بھارت نوازی سے ہی آگے نہیں نکلنے دے رہے۔ اسی بھارت نواز انقلابی جدوجہد سے شام کا سامان بنتا ہے اور اسی میں سپانسر شدہ غیرملکی دورے ہاتھ آتے ہیں۔ بہرحال 2020ء کے تازہ انقلابیے اور کبابیے میں صرف اتنا سا فرق رہ گیا ہے‘ جتنا فرق نان کباب میں اور قیمے والے نان میں پایا جاتا ہے۔
اسی ہفتے گوجرانوالہ میں کبابیے انقلابیے اکٹھے ہوئے۔ یہ 2020ء کے انقلابیے اپنے پیچھے کچرے کے ڈھیر‘ پلاسٹک لفافوں اور قیمے والے نانوں کی سرانڈ کے علاوہ چار سوال بھی چھوڑ گئے۔
سوال نمبر1: ان میں سے پہلا سوال سب سے دلچسپ ہے۔ بہت مختصر اور سادہ سا ''کتنے آدمی تھے؟‘‘
آیئے سوال نمبر ایک کو حل کرتے ہیں۔ کبابیے انقلابیے جلسے کا افتتاح اپنے گوجرانوالہ میں ہوا‘ جس کے ارد گرد تقریباً 60کلومیٹر کی رینج میں واقع قومی اسمبلی کے کُل حلقے تعداد میں 21 بنتے ہیں۔ کبابیہ انقلابیہ‘ بیانیہ کہتا ہے کہ سال 2018ء میں الیکشن نہیں ہوئے بلکہ سلیکشن ہوئی۔ اگر یہ بیانیہ مان لیا جائے تو پھر ان 21 حلقوں میں سے 19سیٹوں پر (ن) لیگ کے ایم این اے سلیکٹ ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ گوجرانوالہ شہر‘ کینٹ‘ سیالکوٹ اور نارووال کی ساری کی ساری قومی اسمبلی کی نشستوں سے پی ایم ایل این کے امیدواروں کی کلین سویپ سلیکشن ہوئی تھی۔ سرگودھا سے ایک ایم این اے کی سیٹ کے علاوہ باقی تمام سیٹوں پر پی ایم ایل این کے امیدوار سلیکٹ ہوگئے۔ انقلابیہ کبابیہ‘ بیانیہ کے مطابق پی ایم ایل این کے جیتے ہوئے ان 19حلقوں پر سے (ن) لیگ کو مجموعی طور پر 23 لاکھ سے بھی زیادہ ووٹ ملے۔ ظاہر ہے ان حلقوں میں کئی جگہ پی پی پی کے امیدوار بھی کچھ ووٹ لے گئے جبکہ ان علاقوں میں موجود جے یو آئی (ف) کے کنٹرول والے مدرسوں میں بھی 20 سے 25 ہزار کے قریب رہائشی طالب علموں کی تعداد تقریباً ہر وقت موجود ہوتی ہے۔ مختلف سورس کہہ رہے ہیں کہ گوجرانوالہ میں 15ہزار سے لے کر 18ہزار تک انقلابیے جمع ہوئے تھے۔ اب بنیادی سوال یہ ہے کہ ان میں سے پی ایم ایل این والے 23 لاکھ ووٹر کہاں چلے گئے؟ کیونکہ اس جلسے میں چاروں صوبوں سے 11 سیاسی جماعتوں کے لیڈر اپنے ساتھ جلوس اور قافلے لے کر آئے۔ ان جلوسوں اور قافلوں کو اگلے دن صبح تک مختلف علاقوں میں گھمایا پھرایا گیا۔ اس گھومنے پھرنے کی ویڈیوز اور تصویریں نیٹ پر موجود ہیں۔ یہ تصویریں خود بولتی ہیں کہ کس طرح 10 سے 15 گاڑیاں آگے لگا کر سینکڑوں روڈ رنرز‘ موٹر بائیک‘ کار‘ ویگن ‘چنگ چی‘ ٹرالر اور ٹرک ریلیوں کے غبارے میں ہوا بھرنے کے لیے زبردستی راستہ روک کر رکھے گئے۔ لاہور کی (ن) لیگ جاتی امرا پر اکٹھی ہوئی تھی۔ شہر بھر اور شاہدرہ کی ریلیاں کہاں گئیں؟ 
دوسرا سوال: ''گوجرانوالہ جلسے کا مخاطب کون تھا؟‘‘
غریب مزدور‘ کسان‘ بے روزگار یا پھر انڈیا‘ امریکہ‘ برطانیہ اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ؟ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا لیڈر پیدا ہوا ہو جو کہے کہ میرا ایجنڈا پاکستان ہے۔ پاکستان میں ووٹ کی عزت بھی‘ لیکن وہ بیٹے‘ بھتیجے‘ داماد‘ سمدھی‘ ڈاکٹر‘ باورچی‘ نوکر چاکر‘ کیش کیری بوائز ساتھ لے کر ملک سے مفرور ہو۔ وہ غریبوں کے بچوں کو چیخ چیخ کر پکارے کہ سڑک پر جائو‘ قربانی دو‘ مگر اپنے بچوں کو اُن اربوں کھربوں کی غیرملکی رہائش گاہوں میں بچا کر جمع کرلے جہاں اس کے محافظ‘ریسیپشنسٹ‘ آپریٹر اور مسیحا‘ فرنگی اور غیرملکی ہوں۔ اگر یہ این آر او کا کباب نہیں عوامی انقلاب ہے تو اس کے انقلابی لیڈر‘ غریب عوام کو لیڈ کرنے کے بجائے کروڑوں روپے کی گاڑیوں میں بڑھکیں مار کے فرار کیوں ہوئے؟ (ن) لیگ کے رہبر اور مریم صاحبہ کے والد صاحب کی گفتگو کا مخاطب پاکستان میں کوئی نہ تھا۔ صرف اس کا رخ پاکستان کے اداروں کی طرف تھا۔
تیسرا سوال: گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم نے کس کو خوش کیا؟ پاکستان کے اداروں کو شاباش دی؟ پاکستان کے لوگوں کو امید کی کرن دکھائی؟ قومی یکجہتی کا کوئی پیغام‘ یا پھر سندھ میں مسلسل 13 سال سے برسر اقتدار پی پی پی کی حکومت کی طرف سے کوئی ایسا انقلابی اعلان جو سب کو حیران کردے؟ واہگہ سرحد کی دوسری طرف‘ ہاں البتہ اس جلسے کے بعد ابھی تک مقررین کو داد مل رہی ہے۔ آپ غلط نہیں سمجھئے گا‘ میں نے امداد نہیں کہا۔ صرف داد کہا ہے۔ وہی داد جو صرف وہ دے سکتا ہے جو آپ پہ خوش ہو یا آپ کی باتوں پر۔
چوتھا سوال یہ ہے کہ ایک دوسرے سے متصادم ایجنڈا رکھنے والی پارٹیاں 11 رنگ اور گیارہ ہی ایجنڈے۔ اب یہ سرکس نہیں تو اور کیا ہے کہ 11 امام اکٹھے امانت‘ دیانت‘ شرافت اور صداقت کی جماعت کروارہے ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑے جتھے کا امام ویڈیو ٹاک سے آگے نہیں بڑھنا چاہتا۔
ارے یاد آیا! اس انقلاب میں کامریڈ کہاں‘ صرف کباب پائے جاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں