"ABA" (space) message & send to 7575

بوسٹن پولیس کی شیو اور عزت

آج کا وکالت نامہ تین طرح سے شروع کیا جا سکتا ہے۔ پہلا، بوسٹن پولیس کی شیو سے۔ دوسرا، سندھ پولیس کے منظورِ نظر افسروں کی عزت سے، اور تیسرا، ووٹ کو عزت دو اداروں کے ساتھ جو چاہے کرو۔ چلئے سات سمندر پار یو ایس بہادر کے شہر بوسٹن کی ایک سستی آبادی کا چکر پہلے لگا لیتے ہیں۔ یہ آبادی آج سے 45 سال پہلے بہت سستی ہوا کرتی تھی۔ کہانی ایک پولیس والے کے چھوٹے سے فلیٹ کی ہے‘ جہاں بوسٹن پولیس کا یہ ملازم اپنی بیگم اور تین بچوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے لیے یہ شام عام سی تھی، عام آدمی کے لیے ہر شام کی طرح۔ عام آدمی کی شام سے والد صاحب کے دوست فرحت عباس شاہ کا شعر یاد آ گیا، جو شام غریباں کی تصویر کشی کرتا ہے۔ شاہ صاحب نے کہا:
تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تو کسی روز مرے گھر میں اُتر، شام کے بعد 
یہ کہانی آج سے 45 سال پہلے کی ہے۔ ان دنوں یو ایس اے کے ٹی وی پر بچوں کی ایک بلاک بسٹر سیریز چل رہی تھی، جس کا ہیرو ایک معروف امریکی ایکٹر تھا۔ سیریز کا نام تھا ''The Ideal Dad‘‘۔ بوسٹن کی شام کے سائے لمبے ہو رہے تھے۔ بوسٹن کا پولیس مین اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھا گپ شپ لگا رہا تھا۔ اسی دوران پولیس مین کے چھوٹے سے اپارٹمنٹ کی گھنٹی بجی۔ اُس کی بیگم نے اُٹھ کر دروازہ کھولا تو اُس کی چیخ نکل گئی۔ اُس کے سامنے وقت کی سب سے مقبول ٹی وی سیریل کا ہیرو کھڑا فلیٹ کے اندر آنے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ بیوی نے کہا: Oh my God ذرا دیکھو تو ہمارے گھر کون آیا ہے؟ پولیس مین کے بچے بھی اس اداکار کو دیکھ کر اُچھل پڑے۔ خاتون خانہ نے ایکٹر کو بیٹھنے کو کہا، لیکن اُس نے کوئی توجہ نہ دی۔ پولیس مین کو کہنے لگا: میں نے تم سے بات کرنی ہے۔ پولیس مین نے کہا: جناب بتائیں کیا بات ہے؟ ٹی وی ایکٹر بولا: یہاں نہیں علیحدگی میں بات کرنی ہے۔ پولیس مین اُسے اپنے اپارٹمنٹ کے چھوٹے سے کچن میں لے گیا اور کہنے لگا: جی فرمایئے۔ ایکٹر نے ہینڈ بیگ سے ڈالروں کا ایک بنڈل نکالا اور پولیس مین سے کہا کہ یہ آپ رکھ لیں۔ بوسٹن کا پولیس مین حیران ہو گیا۔ اُس نے اداکار سے سوال کیا: جناب یہ کس سلسلے میں رکھ لوں؟ اداکار بڑے فرینڈلی لہجے میں بولا: یہ آپ کے لیے ہے۔ پولیس مین مزید حیران ہوا اور کہا: کیوں میرے لیے کیوں؟ اداکار نے کہا: بس آپ نے کل عدالت میں صرف اتنا کہنا ہے کہ میں نے ہوٹل کے بیرے کو تھپڑ نہیں مارا تھا۔ بوسٹن کے پولیس والے نے جھوٹ بولنے سے انکار کر دیا جس پر ٹی وی ایکٹر نے ڈالروں کا دوسرا بنڈل نکالا اور پولیس مین کو کہا: چلیں یہ بھی رکھ لیں۔ پولیس مین کو یاد آیا کہ چند ہفتے پہلے اداکار بوسٹن کے جس ہوٹل میں رات گزارنے کے لیے آیا تھا‘ وہاں اس پولیس والے کی سکیورٹی ڈیوٹی تھی اور کسی بات پر پاپولر ٹی وی ایکٹر نے ویٹر کو تھپڑ مار دیا تھا۔ تھپڑ کھانے والے ویٹر نے ٹی وی ایکٹر کے خلاف تشدد کی کمپلینٹ فائل کی جس کا ایک ہی چشم دید گواہ تھا، بوسٹن کا پولیس والا۔
ایکٹر نے ڈالروں کے بنڈل ٹھکرانے پر حیران ہو کر پولیس مین سے پوچھا: آپ اتنے ڈالر کیوں ٹھکرا رہے ہیں؟ کہنے لگا: آپ کا مسئلہ کیا ہے، آپ نے ذرا سی بات ہی تو بدلنی ہے۔ اس پر پولیس مین کہنے لگا: جناب میں ہر روز شیو کرتا ہوں۔ یہ سن کر ٹی وی ایکٹر مزید چکرا گیا۔ کہنے لگا: شیو کا گواہی کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ پولیس مین بولا: میں ہر روز آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر شیو کرتا ہوں، ہر صبح مجھے اپنی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے آپ کو جواب دینا پڑتا ہے کہ میں نے کل کیا کیا؟ اس لیے نہ تو میں ڈالر پکڑ سکتا ہوں، نہ ہی عدالت میں جھوٹ بول سکتا ہوں۔ یہ پولیس مین کی عزت کا سوال ہے۔ ان دنوں کچھ لوگوں نے عزت کو مزید عزت دار بنانے کی مہم چلا رکھی ہے‘ جس کے نتیجے میں ایک داماد کراچی میں پکڑ اگیا۔ اُسے پکڑنے والی دوسرے داماد کی پولیس تھی جبکہ قانون وہ جو 1976ء میں فادر آف دی نیشن حضرت قائد اعظم صاحب کے مزار کی عزت اور مینجمنٹ کے لیے بنایا گیا تھاتقدسِ مزارِ قائد اعظم محمد علی جناح ایکٹ 1976ء۔ اسے بھی آپ اتفاق کہہ لیں کہ یہ قانون دوسرے داماد کے سُسر صاحب نے اپنے دور میں بنایا تھا۔ اس کے نتیجے میں پچھلے 13 سال سے حکمرانوں کے ارد گرد گھومنے والے پولیس افسروں کی عزت جاگ گئی۔ اسی دور میں چند ہفتے پہلے لاڑکانہ کے تھانے میں منتخب باعزت نمائندے کے منشی نے ایس ایچ او کو مارا اور اس کی وردی پھاڑ دی تھی۔ ایس ایچ او دربدر فریاد کرتا رہا، ویڈیو بنائی، پھر پتہ چلا اس نے خود کشی کر لی۔ عزیر بلوچ کے احکامات سننے والے لوگ۔ فیک اکائونٹس کیس میں گواہوں کو دھمکانے والے‘ 300 مزدوروں کو زندہ جلتا دیکھ کر کسی ایک آفیسر نے چھٹی کی درخواست دی نہ محکمے کی عزت پر کوئی حرف آنے دیا۔ اسی دور میں لاکھوں سٹریٹ کرائمز، اغوا برائے تاوان اور 19000قتل ہوئے۔ حکومت کا بہادر بچہ، سینکڑوں پشتونوں کے خون سے کھیل گیا۔ جب بھی کراچی کے حالات ان کے بس سے باہر ہوئے، شہر کی سکیورٹی فوج اور رینجرز کے حوالے کی گئی۔ تب کسی ایک کو بھی شیو کرنے کا خیال آیا نہ کسی کی غیرت جاگی۔ لیکن جب دامادوں کی عزت بچانے کا حکم ہوا تو غیرت کی لائنیں لگ گئیں۔
اس زمانے میں غیرت اور عزت، شخصی کے بجائے قومی ہوا کرتی تھی۔ اب صرف وقت ہی نہیں بدلا، بلکہ غیرت اور عزت کے پیمانے بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔ مثال کے طور پر پچھلے 30 دن میں پاک دھرتی کے 42 بیٹے مادرِ وطن پر جان نچھاور کر گئے۔ پرچی کے لیے عزت مانگنے والے پرچی برداروں نے قومی غیرت کی بحالی کے لیے جو مہم چلائی ہے اس کے کسی اجتماع میں ان جوانوں کی قربانی پر ایک لفظ نہیں بولا گیا۔ پھر اس میں بھی کوئی شک ہے کہ قائد اعظم کے مزار پر شدید بد تہذیبی اور ہُلڑ بازی ہوئی؟ قومی تقدیس کے اسی مرکز میں مادرِ ملت ڈاکٹر فاطمہ جناح صاحبہ بھی آرام فرما ہیں۔ 1976ء کا ایکٹ پائوں تلے روندا گیا مگر وہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ اصل بات داماد پر، داماد کے عہد میں ویڈیو پر پکڑی گئی واردات کا پرچہ ہے۔
مزار قائد والی ایف آئی آر کے تسلسل میں لاہوری آئیڈیل ڈیڈ کی بہادر بیٹی کی للکار سنائی دی، ہمت ہے تو مجھے پکڑ کے دکھائو۔ اس پر کراچی والے ہنس پڑے کیونکہ جس اردو میں یہ دھمکی دی گئی اُسی اردو زبان کو آئیڈیل ڈیڈ والے جلسے میں پی ڈی ایم کے ایک مرکزی لیڈر نے قومی زبان ماننے سے انکار کا اعلان کیا۔ کراچی والوں کی ہنسی کی دوسری وجہ لندن میں بیٹھا ہوا آئیڈیل ڈیڈ ہے؛ جو پاکستانی اداروں کو للکار کے کہہ رہا ہے کہ ہمت ہے تو مجھے پکڑ کے دکھائو۔ ووٹ کے قانون کے لیے عزت مانگنے والے نیب کے قانون، مزارِ قائد کے قانون، سینیٹ میں حلف اُٹھانے کے قانون، اسلام آباد اور لاہور ہائیکورٹ کی قانونی عدالتوں کے قانونی معاملات کو عزت دینے سے بھاگ رہے ہیں۔ آپ یقین کریں یہ کُھلا تضاد بالکل بھی نہیں ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے، تضاد، مفاد اور داماد تینوں میں لفظِ دال مشترک ہے۔ یہ بھی یقین کریں کہ اس دال میں کچھ بھی کالا نہیں۔ 
جو خاندانی رئیس ہیں، وہ مزاج رکھتے ہیں نرم اپنا
تمہارا لہجہ بتا رہا ہے، تمہاری دولت نئی نئی ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں