"ABA" (space) message & send to 7575

دھاندلی

کہتے ہیں کہ جونہی بستیاں آباد ہوئیں‘ لٹیرے آگئے۔ بالکل اسی طرح جونہی الیکشن ایجاد ہوئے‘ ان میں دھاندلی گھس گئی۔ الیکشن میں دھاندلی صرف غریب ملکوں ہی میں نہیں ہوتی‘ بلکہ دھاندلی کی آوازیں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بھی اُٹھتی ہیں۔ امریکی تاریخ کے تازہ ترین دو واقعات ہمارے سامنے ہیں‘ جن میں سے پہلا مقدمہ پام بیچ کائونٹی کا ہے۔ عالمی شہرت یافتہ اس الیکشن کیس کا عنوان الگور بنام جارج ڈبلیو بُش تھا۔ اسی مقدمے میں انتخابی مشینری کو امریکہ کے سابق صدر بش پر اپنے بیٹے کے حق میں انتخابی نتائج بدلوانے کا الزام لگا۔ کہا گیا کہ اس دھاندلی کے نتیجے میں جونیئر بش کے حق میں الیکٹورل انجینئرنگ ہوئی ہے۔ حرفِ عام میں اسی کو دھاندلی کہتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں جیتا ہوا الگور بے چارہ الیکشن ہار گیا جبکہ عوام کے ہاتھوں ہارا ہوا بُش دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں دھاندلی باز صدر کہلایا۔
امریکی مینڈیٹ کی اس چوری کا دوسرا الزام سینئر ترین عدلیہ کے جج حضرات پر لگا تھا‘ جن میں سے اکثر جارج بُش سینئر کے دوست تھے یا ان کے نوازے ہوئے۔ امریکہ کی تاریخ کی دوسری دھاندلی انٹرنیشنل کہلائی۔ اس دھاندلی کی وجہ سے موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ وائٹ ہائوس پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ دھاندلی کے پس منظر میں الزام کے مطابق روس سمیت کچھ بین الاقوامی طاقتوں نے الیکشن کے نتائج کو ڈی جے ٹرمپ کے حق میں موڑنے کے لیے باریک الیکٹرونک اور فنانشل واردات ڈالی۔ اتنا شور ہوا کہ ورلڈ وار کے بعد روس اور امریکہ کے درمیان ورڈز وار چھڑ گئی۔ ڈی جے ٹرمپ کی پہلی صدارت والی انتخابی دھاندلی کے الزامات پر تین طرح سے تحقیقات شروع ہوئی تھیں۔ اب دوسری اور آخری ٹرم کے لیے انتخاب میں ڈی جے ٹرمپ پھر سے انتخابی میدان میں اُترے ہوئے ہیں‘ مگر اس دھاندلی کے الزام کی کارروائیاں بھی ساتھ ساتھ ہی چل رہی ہیں۔ ان میں سے پہلی طرح کی کارروائیاں ٹاپ امریکی تحقیقاتی اداروں کے پاس ہیں۔ دوسری طرح کی کارروائیاں جوڈیشل فورمز پر جا پہنچیں جبکہ تیسری کارروائیاں امریکن پارلیمنٹ کے دونوں ایوان کی مختلف کمیٹیوں میں پچھلے چار سال سے گونج رہی ہیں‘ لیکن دھاندلی سمیت جمہوریت کا حُسن ہے کہ آگے ہی بڑھتا چلا گیا۔ انتخابی واچ کے وہ ادارے جو غیر جانبدار ہیں‘ جیسے فافن اور یورپی یونین کے نمائندے‘ ان کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں صرف دو الیکشن ہی فیئر اور فری ہو سکے۔ آپ پیچھے جانا چاہیں تو 1970ء کا الیکشن اور تازہ تاریخ میں 2018ء کا الیکشن ایسا ہوا‘ جس کا نتیجہ ووٹ ڈالنے والوں نے نکالا‘ ووٹوں کی گنتی کرنے والوں نے نہیں‘ کیونکہ اکثر دیکھنے میں آتا رہا ہے کہ دھاندلی کے حُسن کے سامنے جمہوریت کے حُسن کا جادو کبھی نہیں چل سکتا۔ اپنے ہاں‘ الیکشن ہو اور دھاندلی کے الزام کے بغیر ہو‘ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے جمہوریت ہو اور اس میں منی لانڈرنگ نہ ہو۔
ان دنوں اسی حوالے سے جمہوریت کی خوبصورتی کا ناٹک عروج پہ پہنچانے پر بھاری سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ حسن تازہ کی سٹوری میں ایک نہیں دو طرح کے ڈبل ٹریک چل رہے ہیں۔ ان میں سے پہلے دو عدد ٹریکس سات سمندر پار والے ہیں‘ جبکہ ٹریک کی دوسری جوڑی خالص دیسی اور گھریلو ہے۔ آیئے! پہلے چلئے دیسی اور گھریلو ٹریک کی طرف۔ پچھلے ہفتے اس ٹریک کا سب سے اہم ٹریلر شاہراہِ دستور پر پارلیمنٹ ہائوس میں چلایا گیا‘ جس میں پرانی گھاگ اپوزیشن اور نئی تبدیلی سرکار نے اپنے اپنے نصیب کا کردار ادا کیا۔ اپوزیشن والے ریلوے ٹی ٹی والی سیٹی لے کر آئے تھے اس لیے تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے کے پارلیمانی سیشن میں یہ سیٹی‘ نعرے اور ناقابل بیان اشارے سپیکر ڈائس کے ارد گرد جمہوریت کے حسن کے جلوے بکھیرتے رہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے الیکٹورل ریفارمز کا وعدہ پورا کر دکھایا؛ چنانچہ پارلیمنٹری افیئرز کی وزارت نے سینیٹ کے 2021ء والے الیکشن میں دھاندلی روکنے کے لیے الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترمیم قومی اسمبلی میں پیش کردی۔ اس اہم ترین انتخابی ریفارمز کے قانون کو الیکشنز ایکٹ کا ترمیمی بل مجریہ 2020 قرار دیا گیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ کی اس اہم ترین قانون سازی کی طرف کسی کی بھی نظر نہیں گئی۔ اس میں کسی کا بھی قصور نہیں ہے‘ کیونکہ پاکستان‘ اس کے نظام اور مستقبل کے بارے میں اچھی خبر اس قابل کہاں ہے کہ وہ پاکستان کے منظرنامے پر چھا جائے۔ یہ ایک ایسی خبر ہے‘ جس کے بارے میں 1973ء کا آئین بننے کے فوراً بعد شور شرابا اُٹھنا شروع ہو گیا تھا۔ یہ شورِ مسلسل دو حوالوں سے اندھیرے فروشی کا لنڈا بازار بن چکا ہے۔
پہلا حوالہ: سینیٹ آف پاکستان کے الیکشنز میں ضمیر بیچ کر منصب خریدنے والوں کی کامیابیوں کی مسلسل سٹریک تھی۔ خاص طور پر کے پی اور صوبہ بلوچستان میں ہمیشہ سینیٹ الیکشن کے موقع پر قیامت کا شور اُٹھتا رہا۔ ووٹ فروخت ہو گئے‘ ضمیر بک گئے‘ دھاندلی ہو گئی مگر جیتنے والوں نے کبھی اس بات کو گھاس نہیں ڈالی کہ الیکٹورل ریفارمز کے ذریعے سینیٹ کے الیکشن کا طریقہ کار ہی بدل کر رکھ دیا جائے تاکہ دھاندلی بازی کے لیے نہ رہے دھاندلی کا بانس اور نہ ہی بجے دھاندلی کی بانسری۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے سینیٹ کے الیکشن میں جب دھاندلی کا شور اُٹھا تو اس کے نتیجے میں ملک کی تاریخ میں پہلی بار وزیر اعظم صاحب نے دھاندلی کے سانڈ کو سینگوں سے پکڑ دکھایا تھا۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان تحریک انصاف کے اندر تحقیقاتی کمیٹی بنی اور 21 ارکان کو کے پی اسمبلی کی اپنی نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑ گئے حالانکہ آدھی سیاسی جماعتیں ملا کر کے پی کے کی صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی کو صرف تین سیٹوں کی برتری پہ حکومت ملی تھی۔ 
اگلے سال فروری کے مہینے میں سینیٹ کے الیکشن پھر سے ہورہے ہیں۔ اگر سینیٹ کے الیکشن کے قانون کو نہ بدلا گیا تو پھر وہی خطرہ جو ہر الیکشن میں ووٹ کو باعزت بنانے کے بجائے بے عزت کردیتا ہے‘ اب بھی منڈلا رہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ملک میں دھاندلی روکنے کے لیے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت قومی اسمبلی میں دھاندلی روکو بل پیش کر رہی تھی‘ جس کے جواب میں اپوزیشن نے ہاں کہنے کے بجائے‘ نو نو اور نامنظور کے نعرے بلند کر کے جمہوریت کا حسن دو آتشہ کر دیا۔
دوسرا حوالہ سینیٹ الیکشن کے پیچیدہ طریقہ کار کو تبدیل کرنا ہے‘ جس میں پچھلے الیکشن سمیت کئی جیتے ہوئے‘ پوائنٹس کی گیم ہار گئے۔ وہ بھی زیادہ ووٹ لینے کے باوجود۔ سینیٹرز کے انتخابات میں یہ دھاندلی کی سب سے بُری اور ٹیکنیکل گیم ہے۔ 
اب آیئے نئے ترمیمی بل کی جانب جس کے ذریعے ہائوس آف فیڈریشن کے الیکشن میں سے دھاندلی مکمل طور پہ بے دخل ہو جائے گی۔ پہلا یہ کہ پولیٹیکل پارٹیز کو اُن کی عددی طاقت کی بنیاد پر سینیٹ کی سیٹیں مل سکیں گی۔ اس طرح چھوٹی سیاسی جماعتیں اپنا شیئر لازماً حاصل کر لیں گی۔ دوسرے نمبر پر سینیٹ کے الیکشن کے لیے خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کی طرح پارٹی ارکان نامزد ہوں گے۔ تیسرا یہ کہ اسی ہفتے پی ٹی آئی کی حکومت‘ سینیٹ الیکشن سیکرٹ بیلٹ کے بجائے شو آف ہینڈز کے ذریعے منعقد کروانے کے لیے پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کا بل بھی لا رہی ہے۔ یہ ایسی گارنٹیاں ہوں گی جن کے ذریعے ووٹ فروشی اور دھاندلی کا راستہ ہمیشہ کیلئے رُک جائے گا۔ ووٹ کو عزت دینے کی مہم کے فنکار دیکھ کر لوگوں کو نہ جانے کیوں مشرقی پاکستان کے ووٹرز یاد آتے ہیں؎
آگ لگنے پر اُنہی پتوں نے دی فوراً ہوا
جن کو پائے آشیاں کا پاسباں سمجھا گیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں