"ABA" (space) message & send to 7575

فریڈم آف ایکسپریشن

ہمارے ہاں‘ اس ملک میں اظہارِ رائے کی مکمل آزادی موجود ہے۔جو لوگ یہ بات کرتے ہیں کہ اُن کیلئے فریڈم آف ایکسپریشن اس وطن میں ختم ہوگئی ہے اور وہ آزادی سے بات نہیں کرسکتے‘میری طرف سے اُن کیلئے کھلا پیغام یہ ہے کہ اگر آپ اونچی آواز میں کھل کر اپنی رائے کا اظہار کریں گے تو پھر اس حقیقت کا سامنا کرکے زندہ رہنا پڑے گاکہ دوسروں کو تمہاری رائے سے اختلاف کرنے کا حق حاصل ہے۔وہ تمہیں کنٹراڈِکٹ کریں گے ۔
کسی مسئلے پر بھی فریڈم آف ایکسپریشن کسی کو بھی'' زیرو کاسٹ‘‘کے ساتھ نہیں مل سکتی ‘اُس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ فریڈم آف ایکسپریشن پر میرا یہ بھی پیغام ہے کہ فریڈم آف ایکسپریشن کا نعرہ لگانے والے یہ بھی یاد رکھیں کہ آزادانہ رائے کا اظہار ''فری فار آل‘‘ نہیں بلکہ اُس کی اپنی کچھ پابندیاں ہیں۔ان میں سب سے بڑی اور پہلی پابندی تب لگتی ہے جب کوئی نفرت کی زبان پھیلانا چاہتا ہے۔ دوسری پابندی کا آغاز اُس وقت ہوتا ہے جب کہیں دوسرے لوگوں کی عزت ‘ناموس اور انا کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔
''میرا اس ایوان سے کہنا ہے کہ اس ہائوس کو ایکسٹریم سپیچ کو 100فی صد روکنا ہوگا۔اگر فریڈم آف ایکسپریشن کے نام پر ایکسٹریم سپیچ کو نہ روکا گیا تو پھر ہماری سوسائٹی اور ہمارا ملک ایک آزاد سماج اور ملک نہیں رہ سکے گا‘‘یہ الفاظ جرمن قوم کی دلیر لیڈر اورچانسلر اینجلا مرکل کے ہیں‘ جو انہوں نے اپنی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے ادا کئے۔یہ کہنے کی ضرورت ہر گز نہیں کہ جرمنی‘ فرانس کا طاقتور ترین پڑوسی ہے ‘جس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران محض نوگھنٹے میں فرنچ حکومتی اشرافیہ کی چیخیں نکلوا کر اُسے سرنڈر کروادیا تھا۔ جر من چا نسلر اینجلا مرکل کی اس تقریر کی ٹائمنگ تاریخی اہمیت رکھتی ہے ۔ اس لیے کہ فرانس کے بد بخت صدر میکرون نے نفرت کی زبان کو سرکاری سرپرستی کا Cover فراہم کردیا ہے۔ اسی لیے دنیا بھر کے پونے 200کروڑ مسلمان ہی نہیں بلکہ جرمن چانسلر کو بھی دوسروں کی دل آزاری کوآزادیٔ رائے کہنے کے خلاف بولنا پڑا۔ فرنچ صدرامینوئل میکرون کی جانب سے مسلم اُمہ کو اجتماعی طور پر الزام دینے اور تمام جہانوں کیلئے اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیﷺ کے حوالے سے دل آزاری کے بعد فریڈم آف ایکسپریشن کی حدود پر بحث پھر سے چھڑ گئی ہے۔ فرنچ صدر کے بیان نے تہذیبوں کے تصادم کا مسئلہ پھر سے کھڑ اکر دیا ہے ‘ لیکن 49مسلم ملکوں کے سربراہوں ‘وزرائے اعظم ‘ فرمانرواؤں ‘صدور اورامرا میں سے صرف دوسربراہانِ ریاست نے فرنچ صدر کے پھیلائے گئے اسلاموفوبیا پر دلیرانہ مؤقف کا اظہار کیا ہے۔وزیر اعظم عمران خان اور ترکی کے صدر جناب رجب طیب اردوان۔اپنے ہاں‘ اپنے ان لوگوں کو‘ جو مذہب پر سیاست کرنے کو ذاتی اجارہ داری سمجھتے ہیں‘ اسلاموفوبیا پر عمران خان صاحب کی عالمی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے ''عظیم بخیلی ‘‘کا سامنا کرنا پڑتا ہے ‘حالانکہ یہ پوری اُمہ کے اجتماعی حق کا کاز ہے‘اسے گروہی سیاست کا شکار نہیں بننا چاہیے۔
ہمارے وزیر اعظم نے رسول اکرمﷺ کے ساتھ مسلمانوں کی دلی محبت اور تابعداری کو اُجاگر کرتے ہوئے مغرب کے بعض نفرت فروشوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ مذہب اسلام کی بنیاد ہی اللہ تعالیٰ کے آخری نبی محمد مصطفیﷺ سے حد درجہ محبت اور عقیدت ہے۔جو لوگ بلاگ لکھتے ہیں‘کالم نگار ہیں‘فیچر رائٹر ہیں‘ دوسرے فورمز یا یو ٹیوب وغیرہ پر بولتے ہیں ان سب کی توجہ کیلئے مسلم معاشرے میں رسول پاکﷺ سے نسبت اور عقیدت کے اظہار کے چند قرآنی حوالے یہاں پیش کئے جارہے ہیں۔
پہلا حوالہ: اس سلسلے کا پہلاحوالہ قرآن حکیم کے پارہ نمبر 14 میں سورۃ النحل کی آیت نمبر 114میں ملتاہے‘جہاں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ تم اللہ کی نعمتوں کا شکر اداکرو۔ دوسرا حوالہ :پارہ نمبر 30سورۃ الضحیٰ آیت نمبر 11 میں ارشاد ہے کہ اپنے رب کی نعمت ملنے کا خوب چرچا کرو۔ تیسرا حوالہ :سورۃ ابراہیم آیت نمبر 34پارہ نمبر13میں موجود ہے‘جس میں ارشاد فرمایا گیا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کرسکتے۔ چوتھا حوالہ:سب سے بڑا حوالہ سورہ آلِ عمران ‘ آیت نمبر 164پارہ 4میں آیا ہے‘جس کو اللہ رب العزت نے ایمان والوں پر اپنا احسان کہہ کر فرمایا ‘بے شک اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر احسان کیا کہ ان میں انہیں میں سے اپنا رسول مبعوث کردیا‘جو ان پر اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے۔
ان قرآنی حوالوں کے ساتھ ساتھ رسولِ خدا حضرت محمد ﷺ کی پیروی اور تابعداری کو گویا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری قرار دیا گیا‘اس لیے دین اسلام اور ہر مسلمان کی ساری محبتوں کا سب سے بڑا حوالہ نبی پاک ﷺ کی ذاتِ پاک اور حیاتِ طیبہ ہے۔
اسے اُن انسانوں کی بدبختی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ مغرب کے معاشروں میں اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں کی تقدیس کے قانون تو موجود ہیں‘ لیکن وہاں ان مقدس ترین ہستیوں پر دل آزار فلمیں بنانا اور فقرے کسنا ‘اظہارِ رائے کی آزادی کا سِمبل بن چکا ہے۔ یہی مغرب اور مسلم تہذیب کا سب سے بنیادی فرق ہے‘مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام‘حضرت یونس علیہ السلام‘حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت دائود علیہ السلام سمیت اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبروں‘ آسمانی صحیفوں پر ایمان رکھتے ہیں‘بلکہ جب تک اللہ تعالیٰ کے تمام رسولوں اور اُن پہ نازل ہونے والی کتابوں پر ایمان نہ لایا جائے کوئی شخص مسلمان ہی نہیں ہو سکتا‘ لہٰذا مسلم سکالرز ‘حکمران اور ہم سب کو مغرب کو تہذیبوں کو یہ فرق سمجھانا پڑے گا۔اسی نکتے پر وزیر اعظم عمران خان نے مسلم ملکوں کے سربراہوں اور حکمرانوں کو ایک خط بھی لکھا ہے ‘جس کے دو نکات بہت اہم ہیں ۔
پہلا یہ کہ ہمیں مغربی دنیا پہ یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ مختلف سماجی‘ مذہبی اور نسلی گروپس کے ویلیو سسٹم مختلف ہوتے ہیں۔یورپینز اور یہودیوں کیلئے ہولوکاسٹ ‘جو نازیوں کی قتل عام مہم کا عروج تھا‘بہت حساسیت کا معاملہ ہے۔مغربی‘خاص طور سے یورپی ریاستوں میں ہولوکاسٹ سے متعلق کسی بھی قسم کی تنقید یا سوال کے عمل کو criminalize کر دیا گیا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں اور اس کی عزت کرتے ہیں۔ دوسرا‘ اب وقت آگیا ہے کہ مسلم دنیا کے تما م حکمران واضح اور متحد ہو کر یہ پیغام باقی دنیا تک پہنچائیں‘خاص طور پر مغربی دنیا تک ‘تاکہ اسلاموفوبیا اور اسلام اور ہمارے نبی ﷺ کے خلاف حملوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔دنیا اب مزید اس نفرت کے راستے پہ نہیں چل سکتی ہے‘جس سے صرف انتہا پسندوں کے ایجنڈوں کو فائدہ ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ یک طرفہ سوسائٹی اور تشدد ہے۔ ہمارے ایمان کی نمائندگی امن اور برداشت سے ہوتی ہے ‘بالکل ریاستِ مدینہ اور میثاق مدینہ (مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان نبی ﷺ کے ذریعے ہونے والے معاہدے)کے مطابق۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دنیا کو اپنے ایمان‘ اسلام کی اس بنیاد سے آگاہ کریں۔
اسی موضوع پہ بابر اعوان صاحب کی تازہ نظم کا آخری بند پیش ہے۔
تمہارے تین سو تیرہ ‘ بڑے لشکر پہ بھاری تھے
وہ اللہ کے سپاہی تھے ‘ جو ڈر جانے سے عاری تھے
تیرے حصے میں حیدرؓ ہے ‘ تیر ی جھولی میں خیبر ہے 
تو قاتل سے صلح کیسی ؟ تو ظالم سے تعلق کیا؟؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں