"ABA" (space) message & send to 7575

تصادم اور پسپائی

میکرون اب مُکر رہا ہے‘ لیکن فرانسیسی صدر نے تہذیبوں کے تصادم کو سیاسی سرپرستی دینے کی جو مکروہ حرکت کی ہے ‘اُس کے نتائج دیر تک نکلتے رہیں گے۔میکرون کا مکر جانا بالکل ایسا ہی ہے‘ جیسے کسی کے خلاف اخبارکے پہلے صفحے پر یا ٹی وی کے مین بلیٹن میں نیوز چیختی شہ سُرخیوں سے چلتی رہے۔پھر دوسرے یا تیسرے دن غلط خبر چلانے پر''اعتذار‘‘ کہہ کر چھوٹی سی معذرت کو آخری درجے کی نچلی لائینوں میں چھاپ یا چلا دیا جائے ۔
مغرب میں لبرل ازم کے نام پر ایک نئی سیاست کی لہر 9/11کے بعد شروع ہوئی ہے ‘جس میں بعض لیڈر اچھا بننے کے لیے مسلمانوں کو برا کہنے کا آسان راستہ دھونڈ لیتے ہیں۔اسی انتہا پسندانہ پالیسی کی انتہا کو اسلاموفوبیا کہا گیا ہے۔ اسلاموفوبیا نامی اس وبا کا تازہ ترین بڑا مریض فرانس کا صدر امینوئل میکرون ہے۔فرانس کے صدرا مینوئل میکرون کو اسلام کے خلاف بیان بازی کرنا کس قدر مہنگا پڑے گا ‘یہ فرانس کے صدر نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا ۔اسلاموفوبیا کی سیاست والے ٹرک کی سب سے بڑی بتی کا نام شدت پسندی رکھا گیا ہے ۔اس وقت دنیا میں شدت پسندی نامی اصطلاح کی کوئی متفقہ Definition کسی فورم پر بھی موجود نہیں ۔اس لیے کہ توسیع پسند قابض فوجیں جس سرزمین پر چڑھ دوڑتی ہیں وہاں لوگ غیر قانونی قبضے کے خلاف لازماً مزاحمت کرتے ہیں۔ قابض فوج اسے شدت پسندی کہتی ہے ‘جبکہ اپنی آزادی کے لیے لڑنے والے اس جدوجہد کو حریت پسندی کہتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ایک اصطلاح اور بھی ہے جسے جدید دنیا میں خوب استعمال کیا جارہا ہے ‘یہ اصطلاح ہے دہشت گردی‘لیکن اس پر بھی کسی عالمی فورم نے کوئی قابل قبول یا متفقہ تعریف ابھی تک نہیں بنائی۔اگرچہ ہمارے ہاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے پچھلے چند سالوں میں دہشت گردی والے جرائم کو واضح کرنے کے لیے قابلِ قدر فیصلے جاری کر رکھے ہیں لیکن نیشن سٹیٹس کے اس دور میں کسی بھی سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ ‘کسی دوسری خود مختار ریاست میں قوت نافذہ (Force of Implementation) نہیں رکھتا۔اس لیے آزادیٔ اظہار رائے کے حوالے سے عالمی سطح پر تین سوال اہم ہو کر سامنے آرہے ہیں۔آپ اس بحث کو انٹرنیشنل کانفلکٹ آف لاء کاایریا بھی کہہ سکتے ہیں۔سوال یوں ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ اظہار ِرائے کی آزادی کی حدود کہاں ہیں؟پاکستان میں اس حوالے سے اظہار ِرائے اور پریس کی آزادی کی گارنٹی کے ساتھ ہی آئین کے آرٹیکل19میں حدود نافذ کردی گئی ہیں۔اس آرٹیکل کا ایک حصہ تبصرے اور خبر میں نشر کیا جاتا ہے‘ لیکن جان بوجھ کر لوگ حدود کی طرف نہیں جاتے اس لیے ضروری ہے کہ ان بھولی بسری حدود کو وکالت نامہ کے ذریعے آپ تک پہنچا دیا جائے۔
مثال کے طور پر 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 19کی زبان جتنی واضح ہے اتنی دلچسپ بھی۔آئین کا آرٹیکل 19کہتا ہے: ''اسلام کی عظمت یا پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سا لمیت ‘سلامتی یا دفاع ‘غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات ‘امن عامہ‘ تہذیب یا اخلاق کے مفاد کے پیش نظر یا توہین عدالت کے کسی جرم (کے ارتکاب )یا اس کی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعے عائد کردہ مناسب پابندیوں کے تابع ‘ہر شہری کو تقریر اور اظہارِ خیال کی آزادی کا حق ہوگا‘اور پریس کی آزادی ہوگی‘‘۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ آزادی اظہار رائے اور فریڈم آف پریس کی آخری چوٹی کہاں واقع ہے؟اس سلسلے میں وہ مغرب‘ جہاں سے آزادیٔ اظہار کے چشمے بہتے ہیں اور نعرے نکلتے ہیں‘خود وہاں نازی جرمنی دورکی فوجی کارروائی ہولوکاسٹ پر بات کرنا قابلِ دست اندازیِ پولیس جرم بنادیا گیا ہے۔جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ہولوکاسٹ کے ذکر سے یہودی مذہب کے ماننے والوں کا دل دکھتا ہے۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ رائے ظاہر کرنے کی اس فریڈم میں رکاوٹ کہاں ہے؟جس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ سب کچھ جو آپ کہنا چاہتے ہیں‘کیا وہ اظہارِ رائے کی آزادی ہے؟سب کچھ کہہ ڈالو!ایک سیاسی نعرہ تو ہوسکتا ہے ‘لیکن کسی قانون کا منشا یا سماج کا رواج ہر گز ایسا نہیں ہوسکتا ۔جس کی بہت ساری چلتی پھرتی مثالیں ہماری روز مرہ کی زندگی سے مل سکتی ہیں۔مثال کے طور پر اگر آپ کی ملاقات کسی معذور شخص سے ہو ‘تو کیا اسے آزادی اظہار رائے کے نام پر ماں باپ کے رکھے ہوئے نام سے بلانے کے بجائے لنگڑا یا کانا کہہ کر پکارا جا سکتا ہے؟ایسا ہر گز نہیں کیا جاسکتا اور جیسے کسی شادی میں نہ تو ماتمی گیت چھیڑے جاسکتے ہیں اورنہ ہی کسی جنازے میں ڈھول باجے بجائے جا سکتے ہیں۔ان چھوٹی چھوٹی پابندیوں اور حدود کو قانون کے تناظر میں بڑ اکر کے دیکھا جائے تو کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مسلم کمیونٹی کی روایات پر حملہ آورہو ۔
ان دنوں ایک مغربی ملک میں مقیم ‘سر پر سکارف پہنے ‘جینز کی پینٹ اور شرٹ زیب تن کئے پتلی سی لڑکی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے ۔اس لڑکی کو ایک یورپی ملک کے پولیس سٹیشن میں چار‘ پانچ پولیس کے مشٹنڈوں کا سامنا ہے ۔ایک اسے اپنی طرف سے سی سی ٹی وی کیمرے سے ہٹ کر راہ داری میں لے جاتا ہے ۔پھر زبردستی اس کا سکارف اس کے سر سے کھینچ رہا ہے۔جب سکارف آسانی سے نہ اُترا تو اس مسلم لڑکی سے کئی100 گُنا زیادہ طاقت ور پولیس والے نے پہلے اُٹھا کر دیوار سے اس لڑکی کا سر مارا‘ اور پھر وہ منہ کے بل پکے فرش پر گرادی گئی۔جہاں اس بے چاری بے بس کا بہتا ہوا خون ویڈیو میں صاف نظر آرہا ہے۔
آپ اس ویڈیو کو اسلاموفوبیا کا کیس سٹڈی بھی بنا سکتے ہیں۔ایسا ہی ایک دوسر اکیس سٹڈی ہمارے مشرقی بارڈرکی دوسری طرف بھارت میں بھی موجود ہے‘جہاں ہندوتوا اور مُو دوتوا کے سرکاری لیڈر اور وزیر کھلے عام انٹرویوز میں کہہ رہے ہیں کہ بھارت کے مسلمان ہمارے برابر کے شہری ہیں اور نہ ہی ہمارے برابر کے انسان ہیں۔میں اس صورتِ حال کو تہذیبوں کے تصادم کے علاوہ اور کیا نام دے سکتا ہوں؟کیا یہ محض اتفاق ہے‘ کہ فرانس کے گورے صدر امینوئل میکرون سے شروع کر کے گجرات کے مسلم خون میں رنگے ہوئے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی‘ دونوں اسلاموفوبیا کے محاذ پر اکٹھے لڑ رہے ہیں‘اور میکرون کی طرح مودی بھی مُکر جانے کا ماہر ہے ۔
اس وقت مسلم ملکوں میں عوامی سطح پہ فرانس کے صدر امینوئل میکرون کی نفرت انگیز اسلاموفوبیا کی بیماری کے خلاف بہت بڑا احتجاج چل نکلا ہے۔اس احتجاج کو سمجھنے کے لیے جان لیں کہ فرانس کا انٹرنیشنل ٹریڈ والیوم 100ارب ڈالر کے قریب بنتاہے۔ مسلم ملکوں میں فرانسیسی سامان کے بائیکاٹ اور مارکیٹوں سے اخراج کے بعد یہ 100ارب ڈالر کا فرینچ ٹریڈ دائو پر لگ چکا ہے ۔فرانس کو خاکہ چھاپنے کی گستاخی کتنی مہنگی پڑے گی ‘فرنچ اسٹیبلشمنٹ کا خیال اس بارے میں 100فیصد خام نکلا۔میکرون کے بے ہودہ اور دل آزار بیان کے فوراً بعد ترکی ‘ قطر ‘ پاکستان ‘ ملائیشیا‘ بنگلادیش‘ اردن ‘شام ‘مراکش ‘ایران اور انڈونیشیا سمیت بے شمار مسلم ملکوں میں فرانس کے امپورٹڈ سامان کو سیلز ریک سے خارج کردیا گیا ہے۔اسلام آباد کی جناح سپر مارکیٹ کے سب سے معروف سٹور پر فرانس کے سامان کو ہر فلور پر علیحدہ رکھ کے اس پہ بڑ ا بڑا لکھا ہوا ہے ''فرانسیسی اشیاNot for Sale‘‘۔اس میں پرفیوم سے کراکری تک سب کچھ شامل ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں