"ABA" (space) message & send to 7575

ہٹ مین اور کورونا بھارتی…(1)

جب سے دنیا عالمی گائوں میں تبدیل ہوئی ہے‘تب سے ہر روز نئے تصورات سامنے آرہے ہیں۔ پُرانی قدریں بڑی تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں اور ساتھ ساتھ نئی تعریفیں بھی سامنے آرہی ہیں۔مثال کے طور پر کسی زمانے میں اُجرتی قاتل کو ہِٹ مین یا کرائے کا گوریلا کہا جاتا تھا‘اب ایک نئی اصطلاح سامنے آئی جو ہے ''اکنامک ہِٹ مین‘‘ یعنی معاشی قاتل ۔اسی طرح سے لٹیرے اور ڈاکو کی تعریف بھی متوازی معیشت سامنے آنے کے ساتھ ہی تبدیل ہوگئی ہے۔اب صرف طاقت ‘فائر پاور یا مَسل کی قوت کے ذریعے لوگوں کولوٹنے والے ہی ڈاکو اور لٹیرے نہیں کہلاتے بلکہ ڈاکے کی نئی قسم مَنی لانڈرنگ کے ذریعے پوری پوری معیشت کو لوٹ لینے والے سب سے بڑے ڈاکو اور لٹیرے کہلاتے ہیں۔
بھارت اور پاکستان میں معاشی ہِٹ مین اور مَنی لانڈررزدونوں ہی راج اور تخت و تاج کے والی وارث بھی بن گئے ہیں۔ہماری اپنی معیشت کا حال ہم سب کے سامنے ہے جوکہ بین الا قوامی ڈکیتی کی وارداتوں کا کھلا کھلا نتیجہ ہے ۔اس معاملے میں بھارت بھی کسی سے کم نہیں۔جس طرح ہمارے ہاں حکمران خاندان منی لانڈرنگ کے ذریعے کتنا مال چوری کر کے باہر بھجوا چکے ہیں ‘اس کی تفتیش کے لیے دن اور مہینے نہیں بلکہ سال بھی کم پڑنا شروع ہوگئے ہیں‘ اسی طرح سے بھارت میں جندال خاندان اور امبانی فیملی دونوں ہی خود کِنگ بھی ہیں اورکِنگ میکر بھی ۔ 
پاکستان کو COVID-19کی وبا کے دور میں وزیر اعظم عمران خان جیسی لیڈرشپ دستیاب تھی۔ اس لیڈرشپ نے دبائو کے باوجود تین نکات کی قومی پالیسی پر کمپرومائز کرنے سے انکار کردیا۔اس پالیسی کا پہلا حصہ بیمار معیشت کا پہیہ چلانے کے بارے میں تھا۔آج 17سال کے لمبے عرصے کے بعد فیصل آباد کی 30ہزار پاور لومز پھر سے پروڈکشن میں ایکٹوہو گئی ہیں جبکہ سمال اینڈ میڈیم انڈسٹری اور ایکسپورٹ کی بنیاد پر قائم میگا انڈسٹری بھی صرف چل نہیں رہی بلکہ ہفتے میں 7 دن اور 7 راتیں اس کا پہیہ مسلسل گھوم رہا ہے۔ سیالکوٹ اور کراچی کے انڈسٹریلسٹ فیصل آباد کی بیماری سے بحال ہونے والی انڈسٹری سے بھی زیادہ خوش ہیں۔اس پالیسی کا دوسرا رُخ 22کروڑ لوگوں کے بہت بڑے ملک میں کھانے پینے اور ہر روز استعمال ہونے والی اشیا کی فوڈ چین کو برقرار رکھنا تھا۔وہ فوڈ چین جو انڈیا سے امریکہ اور برطانیہ تک ہر جگہ کوروناوائرس کے عرصے میں ٹوٹی۔پاکستان میں چینی مافیا سے گندم مافیا تک ہر کارٹل نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔لاکھوں ٹن چینی اور گندم کی مصنوعی قلت پید اکی گئی ۔وقتی طور پر آرٹیفشل مہنگائی بھی پیدا کی گئی‘ لیکن حکومت کی زیرو ٹالرنس پالیسی نے ملک کے کسی بھی علاقے میں فوڈ چین کو ٹوٹنے نہیں دیا۔اس پالیسی کا تیسرا اہم حصہ دیہاڑی دار ‘بے روزگار اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے کمزورطبقات تھے جن کو ایشیا کی تاریخ میں سب سے بڑی براہ راست 100فیصد ٹرانسپیرنٹ کیش ٹرانسفر کے ذریعے نقد امداد ملی‘ جس کے نتیجے میں صرف اپوزیشن کے زیرِ اقتدار صوبہ سندھ میں 65ارب نقدی کی بھاری مالی امداد گھر گھر میں تقسیم کی گئی۔ 
ان پالیسیوں کے نتیجے میں اللہ تعالی کا کرم ہوا کہ آج پاکستان کا گروتھ ریٹ اوپر اٹھتے ہوئے بنگلہ دیش سے بھی آگے بڑھ گیا ہے اور ایشیا کی تیسری بڑی اکانومی بھارت سے بھی کئی فیصد اوپر اُٹھ چکا ہے ۔ آٹے کی قیمت اصل کی طرف لوٹ آئی ہے اور( ن) لیگی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے دور میں جو چینی 140روپے کلو پر جاپہنچی تھی وہ 81 روپے فی کلو سے بھی نیچے آگئی ہے۔
پلیز !یہاں ایک منٹ کے لیے رُک جائیے۔ہمارے ہاں مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کو خوش نما بریکنگ نیوز بنا کر چلایا جاتا ہے۔نہ کوئی مہنگائی مافیا کے خلاف بات کرتا ہے اور نہ ہی بے رحم ذخیرہ اندوزوں کے مجرمانہ فعل کے خلاف۔سارا ملبہ ریاست اور اداروں پر ڈالا جاتا ہے۔آئیے آپ سے ایک مثال شیئر کروں ۔آپ اپنے اپنے شہروں میں اس تجربے کو دُہرا کر دیکھ لیں ۔اسلام آباد کی تین بڑی مارکیٹوں میں جو سیکٹر Fمیں واقع ہیں کیلا 280روپے فی درجن ہے۔ان سے چند کلومیٹر دور آب پارہ مارکیٹ میں 100روپے فی درجن۔ فیض آباد انٹرچینج کراس کریں تو یہی کیلا 70روپے فی درجن بک رہاہے۔ پاکستان کے شماریات والے اور مہنگائی پر گفتگو کرنے والے تحقیقاتی رپورٹر اور تجزیہ کار گھرکے نزدیک کی ایلیٹ شاپس سے باہر نکل کر قوم کو کیلے کا وہی ریٹ بتاتے ہیں جو ان کے ڈرائیور یا باورچی مارکیٹ سے واپس آکر انہیں دیتے ہیں حالانکہ کہیں بھی کوئی ایسا میکنزم موجود نہیں ہے جس کے ذریعے کوئی ضلع وار پرائس کنٹرول اور پرائس لسٹ کے اصلی اعداد و شمار بتا سکے ۔
اس کے مقابلے میں بھارت اپنی تاریخ کے سب سے بڑے Recession میں گھر چکا ہے۔ بھارت کی Statistics Ministryکے آفیشل اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ انڈین جی ڈی پی اس سہ ماہی میں پچھلے سال کے مقابلے میں 7.5فی صد تک کم ہوگیا ہے ۔یہ کمی بلوم برگ کے ایک سروے میں ماہرین معیشت کی طرف سے کی گئی پیش گوئی سے بھی 8.2فی صد مزید کم ہے۔اس سے پہلی سہ ماہی میں یہ 24فی صد تک کریش کر گئی تھی۔آئیے تھرڈ لارجسٹ ایشین اکنامک پاور کے ریورس گیئر کی کچھ آن ریکارڈ مثالیں دیکھ لیں۔
پہلی مثال: Care Ratings Ltd کے چیف اکنامسٹ شری مدن سبناوس کی تحقیق کہتی ہے کہ ''یہ حقیقت ہے کہ انڈیا معاشی طور پر منفی زون میں جا رہا ہے اور اگلے کوارٹر میں بھی بھارت منفی زون میں ہی رہے گا۔یہ اس بات کی کھلی نشانی ہے کہ آگے جا کر اور مشکل وقت آئے گا ‘‘۔
دوسری مثال : بھارت کے روپے کی قدر میں 0.2فیصد کی مزید کمی واقع ہوئی ہے۔اب ایک امریکی ڈالر74.4انڈین روپے کا ہوگیا ہے۔
تیسری مثال:انڈین گورنمنٹ اور سینٹرل بینک آف انڈیا نے 405ارب یو ایس ڈالر کا کل Stimulus Packageدیا ہے ۔Reserve Bank of Indiaکو انٹرسٹ ریٹ میں صرف 2020ء کے سال میں 115 point basisکی کمی کرنا پڑی جس سے بھارت میں Recessionکی گہرائی کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
چوتھی مثال :بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے مارچ 2020ء میں دنیا کا سخت ترین لاک ڈائون اپنے ملک پر مسلط کیا تھا۔مودی حکومت نے اسی تسلسل میں غیر ضروری اشیا اور سروسز کی ڈیمانڈ کو بری طرح سے ہِٹ کرکے کمزور کر ڈالا۔بظاہر کوروناکے پینڈیمک کو روکنے کے ان اقدامات نے اصل میں اس ملک میں امریکہ کے بعد سب سے زیادہ کوروناکے کیسز پیدا کردیے۔جن کی رپورٹ شدہ تعداد 93لاکھ سے بڑھ کرتقریباً ایک کروڑ انفیکشن کیسز تک پہنچ چکی ہے۔
مودی حکومت کی ان ناکام پالیسیوں نے جی ڈی پی میں دوسرے سہ ماہی کے عرصے میں حشر برپا کر ڈالا ؛چنانچہ سال 1996ء سے اب تک کے معاشی ریکارڈ کے مطابق بھارت کو اپنی تاریخ کی پہلی ٹیکنیکل کساد بازاری کی طرف دھکیلا جا چکا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب ڈاکو بھی اعلیٰ ظرف ہوا کرتے تھے ‘اب ڈاکو بہت کم ظرف ہوگئے ہیں ۔اس تفصیل میں اگلی بار جائیں گے۔یہاں بھارتی حکومت کے چیف اکنامک ایڈوائزر کرشنا مورتھی سُبرامنین کا میڈیا رپورٹرز کے سامنے اعترافی بیان دیکھ لیں جس میں کوروناکی وجہ سے معیشت ڈوبنے کا اقرار کیا گیا ہے۔ بھارت کے اکنامک ہِٹ مینوں کی ذاتی معیشت کے لیے کوروناسوپر سیزن ثابت ہوا ہے۔ اپنا حال دیکھنا چاہیں تو لندن کی ریجنٹ مسجد کے باہر دنیا کی قیمتی ترین گاڑیوں پر سوار مفروروں کے ویڈیو کلپ دیکھ لیں۔ اصلی بات تو ابھی رہتی ہے...(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں