"ABA" (space) message & send to 7575

دسمبر لوٹ آیا ہے!

پچھلے سال اسی موسم میں یہی چہرے ایک سالہ پرانی جمہوریت پر شب خون مارنے آئے تھے۔ شہرِ اقتدار میں ریاستی سربراہوں سے استعفے لینے کے لیے۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ ایک سال بعد ایسا کیا ہوا کہ اب وہی چہرے اسی موسم میں دو سال پرانی جمہوریت کو استعفے پیش کرنے کے لیے شہر اقتدار میں واپس آ رہے ہیں۔ پچھلے سال مولانا صاحب نے تین دن میں استعفے حاصل کرنے کی فرمائش ہی نہیں کی بلکہ ساتھ ساتھ جنرل الیکشن کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت کو توڑ دینے اور پی ایم ہائوس پر قبضہ کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ پی ڈی ایم میں شامل آج کے سارے کردار تب بھی لشکرِ شب خون میں شامل تھے۔ بلکہ ذرا اس سے بھی پیچھے چلتے ہیں۔ یہ اگست 2018ء کا مہینہ ہے‘ تاریخ 17‘ پاکستان کے 22ویں وزیر اعظم عمران خان وزارتِ عظمیٰ کے انتخاب کے بعد اوپننگ تقریر کے لیے قائدِ ایوان کے مائیک پر بول رہے ہیں۔ ارد گرد شب خونی ٹولا نعرے لگا رہا ہے۔ ان میں سے اکثر چہرے وہ ہیں جو اپنے سیاسی مرشد جنرل پرویز مشرف صاحب کے لیے ساڑھے نو سال تک پارلیمان کے اسی ایوان میں قدم بڑھائو‘ ہم تمہارے ساتھ ہیں کے نعرے لگاتے رہے۔ اس سے بھی پہلے ان کے بزرگ ساڑھے گیارہ سال جنرل ضیا صاحب کے لیے مردِ حق کے نعرے بلند کرتے رہے۔ تازہ منتخب جمہوری حکومت کے پہلے دن حکومت کو 30 دنوں کے اندر‘ اندر گھر بھجوانے کا اعلان ہوا تھا۔ جب 30 دن کے الٹی میٹم کا عرصہ پورا ہو گیا تو حکومت کی رخصتی کا ٹائم بڑھا کر 90 روز کر دیا گیا۔ حکومت توڑنے کے اعلانات کے اسی شور میں پہلا دسمبر آن پہنچا۔ دسمبر کیا آیا‘ قیامت کا شور اُٹھا کہ جنوری میں پی ٹی آئی کی حکومت نہیں رہے گی۔ اس طرح اسی شورِ مسلسل میں 2019ء میں پی ٹی آئی حکومت نے پہلا سال پورا کر لیا اور اس کا دوسرا دسمبر بھی آ گیا۔ اس دسمبر کو سیاسی شو بازوں نے ستم گر قرار دیا اور اگلے سال جنوری میں حکومت کو گھر بھیجنے کا ایک بار پھر اعلان دُہرا دیا۔
آج پی ٹی آئی کی حکومت سوا دو سال مکمل کر چکی ہے۔ حکومت توڑنے والے اس شورکو جاری رکھنے کے لیے جتنی بڑی انویسٹمنٹ اب ہو رہی ہے اس کی مثال پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ پچھلے دو سال کے عرصے میں ''مجھے کیوں نکالا‘‘ کہہ کر نظامِ عدل پر مسلسل چاند ماری کی گئی۔ پھر سیاست میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر دفاعی ادارے کو لفظی گولہ باری کے پریشر میں لانے کی کوشش ہوتی رہی‘ جبکہ اس نئے سال میں نئے الیکشن کروانے کی فرمائش سے پیچھے ہٹنے کو گناہِ کبیرہ قرار دے کر گلی گلی مال کے ذریعے ہنگامے کرنے کا جال بچھانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ پچھلے 35 سال تک دو سیاسی جماعتوں کے درمیان اقتدار کی باریاں لگتی رہی ہیں‘ مگر کسی نے اتنی بے چینی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس دوران پی ڈی ایم کے سارے کردار کسی نہ کسی شکل میں چونکہ اقتدار میں آتے رہے‘ اس لیے اُن دنوں اپوزیشن کی تحریک گناہِ کبیرہ‘ جمہوریت کے خلاف سازش اور غیر قانونی بلکہ غیر آئینی جتھا بندی ہوا کرتی تھی۔ آج جو چہرے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار برسر اقتدار آنے والی پی ٹی آئی کو ''استعفیٰ دے دو‘‘ کی گردان سنا رہے ہیں‘ گزرے ہوئے کل یہی لوگ استعفے کے بارے میں کیا کیا کہتے رہے تھے‘ آئیے وہ اُن کے اپنے الفاظ میں جانتے ہیں‘ ایسے ویڈیو کلپس سے جو سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔
سب سے پہلے پی ڈی ایم کے سربراہ کی وہ تقریر دیکھ لیں جو انہوں نے پارلیمنٹ کے فلور پر کی اور نواز شریف قائدِ ایوان کی کرسی پہ بیٹھ کر اس تقریر پر مولانا کو داد دینے کے لیے مسلسل بینچ کھڑکاتے رہے۔ تقریر یہ تھی ''استعفیٰ دینا‘ یہ ایک سازش کاحصہ تھا۔ اس ایوان کو ہلانے کا ایک حصہ تھا۔ پارلیمنٹ کو ہلانے کے لیے کچھ جماعتیں استعفیٰ دیا کرتی ہیں۔ سازش بے نقاب ہو گئی۔ سازش پکڑی گئی لہٰذا اب وہ کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اب یہ سارے پارلیمنٹیرین‘ یہ تمام جماعتیں اگر خدا نخواستہ پارلیمنٹ اور اس جمہوریت کے خلاف کوئی ایک شب خون مارا جاتا ہے‘ تو ان شاء اللہ رات کی تاریکی میں بھی یہ میدان جنگ میں اُتر کر جمہوریت کی جنگ لڑیں گے اور فتح و کامرانی حاصل کریں گے‘‘۔ پی ڈی ایم کے مولانا کی یہ تقریر غور سے دیکھیں تو آپ کو صاف پتہ چلے گا کہ اس میں استعفے مانگنے کو شب خون قرار دیا گیا ہے۔ ساتھ ساتھ مولانا نے استعفیٰ مانگنے والوں کے خلاف جنگ لڑنے کا بھی اعلان کیا تھا۔
پی ڈی ایم بنانے کے لیے فنانس کرنے والے تا حیات نا اہل وزیر اعظم نواز شریف صاحب نے اپنے استعفے کے مطالبے پر دھرنے کو پاکستان کے خلاف بغاوت قرار دیا تھا‘ ان الفاظ میں ''پارلیمنٹ پاکستان کے 18 کروڑ عوام کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں فیصلے سڑکوں‘ چوراہوں اور میدانوں میں کئے جائیں‘‘۔ وہ لوگ جو اُن سے غم خواری کرتے ہیں‘ نواز شریف صاحب کے بارے میں کھل کر کہتے ہیں کہ وہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے۔ وہ قریبی لوگ جن کو کھلایا گیا اور جن پر لگایا گیا وہ آج کل سرکاری خرچ پر کھانے سے محروم ہیں‘ اسی لیے کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ جعلی ہے‘ اُن کے لیے عرض ہے کہ درج بالا نواز شریف صاحب کے جملے سب غور سے پڑھیں‘ جن میں نواز شریف صاحب کہتے ہیں کہ ہماری پارلیمنٹ پاکستان کے 18 کروڑ لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے اس لیے فیصلے سڑکوں‘ چوراہوں اور میدانوں کے بجائے پارلیمنٹ کے اندر ہی ہونے چاہئیں۔ نواز شریف صاحب کے خیال میں احتجاج‘ احتجاج نہیں ہوتا‘ دھرنا دھرنا نہیں ہوتا‘ سیاسی اجتماع‘ سیاسی نہیں ہوتا بلکہ یہ پاکستان کے خلاف بغاوت کا اعلان ہوتا ہے۔
پی ڈی ایم میں شریک دوسری بڑی سیاسی پارٹی پی پی پی کے مختارِ کل آصف علی زرداری صاحب نے بھی پی ٹی آئی کے دھرنے کے خلاف اپنی جانب سے حصہ ڈال رکھا ہے۔ آصف علی زرداری صاحب درد سے بھرپور لہجے میں فرماتے ہیں ''پولیٹیکل فورسز اس میں مل کے اس بحران کو جتنا کم کر سکتی ہیں اتنا کم کریں۔ جتنا satisfy کر سکتے ہیں‘ اتنا satisfy کریں ایک دوسرے کو اور کسی حال میں Democracy should not be derailed‘‘۔
عمران خان کی قیادت میں دھرنے اور احتجاج پر سابق خادمِ اعلیٰ پنجاب نے عام لوگوں کو اُکسایا کہ وہ جا کر تحریک انصاف کے احتجاجی دھرنے پر حملہ آور ہو جائیں۔ شہباز شریف صاحب کا ویڈیو کلپ کہتا ہے ''اس مرتبہ اگر یہ دھرنے ڈالیں تو ان کا دھڑن تختہ آپ کر دیں اور ان کو آپ جا کر یہاں سے بھگائیں‘‘۔
جناب بلاول زرداری صاحب بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے ''یہ لوگ نہیں سمجھتے‘ یہ وقت سیاست کا نہیں‘ یہاں پنجاب ڈوب رہا ہے۔ اسلام آباد میں سچ کو جھوٹ میں ڈبونے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ سیاست ہو گی مگر ابھی نہیں‘‘۔
بلاول صاحب کے فرمان کا آخری جملہ خاصا شاعرانہ ہے‘ بالکل ویسے ہی جیسے شاعرِ محبت منیر نیازی مرحوم کا یہ خیال:
محبت اب نہیں ہو گی‘ یہ کچھ دن بعد میں ہو گی 
گزر جائیں گے جب یہ دن‘ یہ ان کی یاد میں ہو گی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں