"ABA" (space) message & send to 7575

یہ ہے جمہوریت کا حُسن

تاجرانِ ووٹ کا جتھا شہرِ اقتدار پہنچا۔ سیاسی بیوپاری متحرک ہوئے‘ضمیر کی منڈی لگی ‘ووٹ فروشوں نے ریٹ لگائے۔ یہ ریٹ کسی زمانے میں لاکھوں میں ہوا کرتے تھے‘پھر کون بنے گا کروڑپتی کی مارکیٹنگ ہوئی‘مگر اب تو جمہوریت کو حسین بنانے کیلئے اربوں کی گیم چل نکلی ہے۔ پوری قوم کے سامنے میڈیا کیلئے لائیو اور آن ایئر ایسی Bidding-War لڑی گئی جس نے قومی اسمبلی کے وقار کے ساتھ وہ کیاجسے 'جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ کہا گیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں اور صحافی حلقوں نے یہ مقابلہ حسنِ جمہوریت جیتنے والوں کو ویل پلیڈ کے بجائے ویل پیڈ کہنے پر مجبور کردیا۔
نئے Millennium کی نئی صدی کے نئے عشرے میں سال 2021ء کے سینیٹ الیکشن کے مقابلے میں ماضی کے سینیٹ انتخابات کو متنازع یا پھر مشکوک کہنا 100فیصد ایک کھلی انڈر سٹیٹمنٹ ہے۔ ہائوس آف فیڈریشن میں نمائندگی کیلئے منتخب ایوانوں کے آس پاس لگنے والی ہارس اینڈ کیٹل منڈیوں نے عوام کا اعتماد سینیٹ کے موجودہ انتخابی عمل پر سے اُٹھا دیا ہے۔ انتخابی پراسیس کو صاف اور ٹرانسپیرنٹ بنانے کیلئے سیاسی جماعتوں کے مالکان کی طرف سے مطالبات تو ہوتے رہے مگر اقتدار خود ان کے پاس ہونے کے باوجود بھی کسی نے ریفارم کا ایک قدم تک نہ اُٹھایا۔ اسی تسلسل میں آج کی دو بڑی اپوزیشن پارٹیوں کے 2006ء میں دو سابق وزیر اعظم مل کر بیٹھے تو ایک میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے جس کی روشنی میں قوم کو خوشخبری سنائی گئی: سینیٹ الیکشن میں ہارس اینڈ کیٹل شو بند کرنے پر اتفاق ہو گیا‘ لہٰذا اب سینیٹ آف پاکستان کے الیکشن اوپن بیلٹ سے کروائے جائیں گے۔حُسنِ اتفاق یہ ہوا کہ اس چارٹر آف ڈیموکریسی کے اعلان کے فوراًبعد پی پی پی کی حکومت برسر اقتدار آگئی۔ پھر طے شدہ باری لگانے کیلئے نواز شریف والی( ن) لیگ اکثریت کے ساتھ اقتدار کی باری لینے ایوانوں میں آبیٹھی‘مگر ان دونوں سیاسی جماعتوں نے چارٹر آف ڈیموکریسی کے کاغذ کو سیاسی پکوڑے کھانے کیلئے تو استعمال کیا‘ لیکن سینیٹ کے طریقہ انتخاب میں کسی بھی تبدیلی کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا سچّا ایونٹ ہے‘کوئی سیاسی مذاق نہیں۔
پھر یوں ہوا کہ ان پہ اک دیوارآ گری۔ آپ ٹھیک سمجھے‘ملک میں تبدیلی کی ہوا چلی۔ پہلی بار‘ اقتدار کی باریاں لینے والی دونوں سیاسی پارٹیوں کو پیچھے چھوڑ کر تیسری سیاسی قوت سامنے آگئی۔ عمران خان کی قیادت میں وہ کرشمہ ہوگیا جو اسلامک فرنٹ‘یکجہتی کونسل‘ظالموقاضی آگیاسمیت کوئی بھی سیاسی قوت نہ کرسکی۔ یہ کام پی ٹی آئی کے سونامی نے کر کے دکھا دیا۔ آئیے اس کے تازہ مرحلے پر چلتے ہیںجہاں عمران خان بمقابلہ آل کا یہ رائونڈ آئی سی ٹی سے ہائوس آف فیڈریشن کی خالی نشست پر ہونا تھا۔ اس مرحلے پر الیکشن سے پہلے ہی وزیر اعظم اور اُن کی آئینی اور قانونی ٹیم حرکت میں آچکی تھی۔ ہارس ٹریڈنگ ‘بھوربن ‘چھانگا مانگا اور 1990ء کی '' ڈارک ڈی کِیڈ ‘‘کی شرمناک سیاست سے بچنے کیلئے سٹریٹیجی‘ تجاویز اور مؤثر اقدامات پر غور کیا گیاجس کے نتیجے میں سینیٹ الیکشن اوپن اور قابلِ شناخت ووٹنگ کے ذریعے منعقد کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔عمران خان پہلے سے ہی اس طریقہ کار کے حق میں تھے اور اوپن ووٹنگ کو کرپٹ پریکٹسزسے نجات کا بہترین طریقہ مانتے تھے۔
حکومت نے آگے بڑھتے ہوئے دو فرنٹ پر Strategic Movementکا آغاز کردیا۔ایک طرف سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا گیا‘جہاں 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کے سامنے یہ سوال رکھا گیا کہ آیا سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کروائے جاسکتے ہیں؟اس ضمن میں صدر پاکستان نے ریفرنس بھجوا کر سپریم کورٹ سے رائے طلب کرلی ‘جبکہ دوسری جانب صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت سینیٹ الیکشن میں اوپن بیلٹ کے حوالے سے صدارتی آرڈیننس پہ بھی دستخط کر دیے۔ دسمبر 2020ء میں فائل ہونے والے صدارتی ریفرنس پر یکم مارچ 2021ء کو سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ صادر کیا جس میں سینیٹ انتخابات آرٹیکل226کے تحت خفیہ بیلٹ سے کروانے کا کہا۔ساتھ ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان کو سینیٹ انتخابات میں ٹیکنالوجی استعمال کرنے پر زور دیا تاکہ انتخابی عمل کی شفافیت پر کوئی حرف نہ آسکے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے فوری طور پر چار رکنی Cabinet مشن الیکشن کمیشن کے پاس بھجوایا اور حکومت کی طرف سے پرنٹنگ پریس آف پاکستان اور کرنسی نوٹ چھاپنے والے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سکیورٹی پرنٹنگ پریس کی خدمات پیش کردیں۔ Cabinetمشن نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ کرنسی نوٹ چھاپنے والی ٹیکنالوجی کے ذریعے 1500 یا 2000 بیلٹ پیپر نظر نہ آنے والا دھاگا یا بارکوڈ شامل کرکے چھپوا لیں تاکہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے حکم پر عمل در آمد ہوجائے ۔ اس مرحلے پر الیکشن کمیشن نے ہاتھ کھڑے کردیے اور وقت کی کمی کا کہہ کر ٹیکنالوجی کے استعمال پر معذرت کرلی۔ اس کے بعد وہی ہوا جس کے بارے میں عمران خان نے قوم کو پہلے ہی خبر دار کر رکھا تھا۔
دھاندلی ‘ دھونس ‘ دھن سے جیت گیا
ظلم پھر مکروفن سے جیت گیا
پوری قوم نے کیپٹل آف نیشن کی سیٹ پر قانونی شفافیت کے چیتھڑے اُڑتے ہوئے دیکھے اور قومی اسمبلی میں ووٹ کا یہ مقابلہ دھاندلی‘ دھونس اور دھن کی نذر ہوگیا۔ پی ڈی ایم کے امیدوار نے حکومت کے امیدوار کو شکست دے تو دی مگر ساتھ ہی پورے انتخابی عمل پر ایک بڑا سوالیہ نشان آگیا۔ الیکشن سے ایک روز پہلے جو آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگز سامنے آئی تھیں ان پر کوئی برائے نام ایکشن تک نہ لیا گیا۔ اس کا نتیجہ اسلام آباد کی سیٹ پر تنازع کی صورت میں نکلا۔ آئین کا آرٹیکل218 سب آرٹیکل (3) الیکشن کمیشن کی ذمہ داری لگاتا ہے کہ الیکشن honest‘فیئر اور قانون کے مطابق منعقد ہو۔الیکشن میں کرپٹ پریکٹسزکو گارڈ کیا جائے۔ مگر جو ہوا اس نے پاکستان کے سیاسی نظام اور عوام کے اعتماد کو خوب ٹھیس پہنچائی۔ وزیر اعظم عمران خان کئی ماہ تک انتخابی اصلاحات کیلئے اسمبلی میں تگ و دو کرتے رہے مگر مافیاز ان کے راستے میں رکاوٹیں ڈالتے نظر آئے۔مافیاز جانتے تھے کہ وزیر اعظم کی کامیابی کی صورت میں ان کی منڈیاں اور ضمیر فروشی کے انتخابی کاروبار ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائیں گے۔
ایسے میں جمہوریت نے جمہوریت سے ایسا انتقام لیا ہے جس پہ پوری قوم چلا اٹھی‘کیونکہ جب تک انتخابی طریقہ ریفارم نہیں کیا جائے گا ‘نہ دھاندلی اور دھن کا زور رکے گا نہ ہی تب تک سینیٹ الیکشن ہماری جمہوریت کو غیر مستحکم اور بدنا م کرنے سے باز آئے گا۔ دھاندلی زدہ الیکشن کے ساتھ ہی وزیر اعظم نے بڑے دل کا مظاہرہ کر کے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا۔ ایسے ملک میں جہاں کرسی سے آخری دم تک چمٹے رہنے کی مثالیں موجود ہوں وہاں نئے ووٹ آف کانفیڈنس کا رسک لینا ہرگز معمولی بات نہیں۔ وزیر اعظم نے کیوں نکالا‘ لوہے کے چنے اور بڑھک سے کام چلانے کے بجائے اپنے آپ کو اسمبلی کے سامنے ریفرنڈم کیلئے پیش کردیا۔ اعتماد کے ووٹ سے قبل ایک تاریخ ساز خطاب کیا جس میں اپنے ہی ایم این ایز کو اپنی مرضی کے مطابق ووٹ ڈالنے کا کہا۔
اپوزیشن پہلے استعفے سے بھاگی تھی اب اسمبلی سے فرار ہوگئی۔اس روز بغیر کسی کال کے تحریک انصاف کے کارکن ڈی چوک میں عین اُسی جگہ جمع ہوئے جہاں عمران خان اپنی ٹیم کے ہمراہ 126 دن تک انتخابی اصلاحات کے حق میں اور دھاندلی کے خلاف دھرنا دیتے رہے۔ 176 کے مقابلے میں پی ایم 178 ارکان کے ووٹ لے کر پھر واپس آئے ۔جمہوریت کا حُسن ووٹ فروشی میں ہے یا ووٹ آف کانفیڈنس میں ‘فرق صاف ظاہر ہے !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں