"ABA" (space) message & send to 7575

کتاب کشتی

گورننس کے حوالے سے راج نیتی کی تکنیک پر بہت سے تاریخ دانوں اور ماہرین نے قلم اُٹھایا ہے۔ ریاست میں سیاست کے موضوع پر مگر تین کتابیں باقی سب کو پیچھے چھوڑ گئیں۔ اس سلسلے کی سیاسی تاریخ میں بڑی شہرت یافتہ کتاب‘ خطۂ پوٹھوہار کی ایک قدیم یونیورسٹی کے ہندو پروفیسر نے لکھی۔ یہ کتاب ''اَرتھ شاستر‘‘ کے نام سے مشہور ہے‘ جو ابتدائی طور پہ سنسکرت زبان میں لکھی گئی مگر اب یہ کتاب اردو سمیت کئی زبانوں میں ترجمہ ہو کر شائع کی جا چکی ہے۔ ریاست کی معاشی پالیسی اور راج نیتی میں ملٹری سٹریٹیجی اس کتاب کے خاص موضوعات ہیں۔ کوٹلیا چانکیا ٹیکسلا کی یونیورسٹی میں استاد تھا‘ جس کی یہ کتاب قبل از مسیح دوسری صدی میں سامنے آئی تھی۔ تیسری صدی قبل از مسیح میں یہ کتاب پہلی بار پبلش ہو چکی تھی۔ کتاب میں سوشل ویلفیئر اور اجتماعی اخلاقیات جیسے موضوعات بھی شامل ہیں۔
کوٹلیا چانکیا نے عملی سیاست اور آرٹ آف گورننس میں حصہ لیا۔ اسی لیے چانکیا کو ہندوئوں کی سیاست میں گُرو سمجھا جاتا ہے۔ چانکیا نے ارتھ شاستر میں اچھی گورننس کیلئے حکومت کی ساخت‘ قانون سازی‘ سول اور کرمنل کورٹ سسٹم اور بادشاہ کے وزیروں کیلئے سکریننگ اور احتساب کا نظام بھی وضع کیا۔
دوسری کتاب 1513ء عیسوی میں اٹلی سے تعلق رکھنے والے Niccolò Machiavelli نے تحریر کی ''The Prince‘‘۔ اس کتاب کو شائع کرنے کیلئے Medici Pope Clement VII نے 1532ء میں اجازت دی‘ مگر The Prince کے مینوسکرپٹ نے 1513ء میں ہی ریاستی سیاست کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ کتاب پہلی بار اٹالین زبان کے بجائے ورنیکلر اٹالین میں تحریر کی گئی۔ آج یہ کتاب دنیا کی تقریباً ساری بڑی زبانوں میں ماڈرن پولیٹیکل فلاسفی کے عنوان سے ٹرانسلیٹ ہو چکی ہے‘ جسے Machiavellian تھیوری بھی کہا جاتا ہے۔
اوپر درج دونوں کتابوں کے لکھے جانے اور پبلشنگ میں کئی صدیوں کا فاصلہ ہے لیکن اس کے باوجود ان دونوں کتابوں میں تین نظریے ایسے ہیں جن کو قدرِ مشترک کہا جاسکتا ہے۔ پہلا نظریہ: سیاست میں سب کچھ جائز ہے۔ ریاست چلانے کیلئے راج نیتی کے سینے میں دل‘وِل کچھ نہیں ہوتا۔ دوسرا نظریہ: راج نیتی کی سیاست‘ مکاری‘ عیاری اور دھوکہ دہی کی بائونڈری وال میں پروان چڑھتی ہے۔ تیسرا نظریہ: مخلوق راج نیتی کا ایندھن ہے۔
تیسری کتاب ان دونوں کتابوں سے ہٹ کر ہے‘ جس کا حوالہ 6مارچ 2021ء کو ووٹ آف کانفیڈنس لینے کے بعد اپنے پارلیمانی خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے دیا تھا۔ کتاب کا نام:'The Great Arab Conquests: How the Spread of Islam Changes the World we Live In' ہے۔ اس کتاب کو پرائم منسٹر نے نوجوانوں اور آرٹ آف گورننس میں دلچسپی رکھنے والوں کے نام کرتے ہوئے سب سے درخواست کی تھی کہ اسلام کے ابتدائی دور کو جاننے اور اس دورِ عرج کو سمجھنے کیلئے Hugh Kennedy کی یہ کتاب ضرور پڑھیں۔
وزیر اعظم عمران خان کی اس تقریر کے بعد اس کتاب کے اقتباس اور مختلف پہلو سوشل میڈیا پر مباحث اور معلومات کے طور پر شیئر کئے جارہے ہیں۔ معروف قلم کار Max Rodenbeck نے مسٹر کینیڈی کی اس کتاب پر بڑا دلچسپ اور پڑھنے کے قابل ریویو لکھ رکھا ہے۔ یہ ریویو سچے واقعات اور ابتدائی اسلامی تاریخ کی فتوحات کا اکائونٹ بھی ہے اور مسٹر میکس کا تقابلی جائزہ بھی۔ Max Rodenbeck نے طلوعِ اسلام کے دور کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ 632ء میں حضرت محمدﷺ (کے ظاہری حیات سے پردہ فرمانے) کے بعد صرف 15سال کے مختصر عرصے کے اندر اندر حضرت محمدﷺ کے ساتھیوں نے قریبی مشرقی تہذیبوں کے سارے مراکز کو فتح کر لیا تھا۔ میکس کے بقول ان صحرائی مسلمانوں نے عظیم enduring علاقائی عسکری‘ سیاسی اور ریاستی طاقت پرشیا کو مٹا کر رکھ دیا۔ Max Rodenbeck کا مزید کہنا ہے کہ گھوڑوں کی پیٹھ پر بیٹھ کر ناکافی ہتھیاروں کے ساتھ حضرت محمدﷺ کے صحرا نشین ساتھیوں نے اپنے سب سے بڑے اور فوجی شان والی حریف‘ بازنطینی سلطنت کو رگڑ کر rump-state میں تبدیل کردیا‘ جسے شاعر کی زبان میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے: کھنڈر کہہ رہے ہیں‘ عمارت عظیم تھی۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ان علاقوں کو فتح کرکے انہی سرزمینوں میں سے صحرا نشین مسلمانوں نے ایک ایسی سلطنت کی بنیاد بنا کر دکھا دی جو روم کی سلطنت کے عروج کے زمانے جتنی وسعت رکھتی تھی۔ میکس روڈنبیگ مدینے کی ریاست کے پہلے 100 سال کی تاریخ ساز فتوحات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ حقیقت بھی بتاتے ہیں کہ محض ایک صدی کے اندر اندر صحرائی مسلم افواج نے مشرق میں اُس وقت کے چین کی طاقتور ترین Tang Dynasty کے فرنٹیئرز کو اُجاڑنا شروع کردیا تھا جبکہ دوسری جانب 5000 میل کے فاصلے پر واقع مغربی سمت میں ان صحرا نشین مسلم فوجیوں نے سپین کو فتح کرنے کے بعد Merovingian princess سے لڑنے کیلئے آج کے فرانس پر بھی چڑھائی شروع کر رکھی تھی۔
مسٹر کینیڈی نے قبل از طلوعِ اسلام اور ریاستِ مدینہ کے تقابلی جائزے میں بنیادی نکتہ یہ سامنے رکھا ہے کہ دوسری ایمپائرز اور اُن کا نظریہ‘ کلچر اور زبان اُس وقت تک فتح کئے جانے والے علاقوں میں قائم رہے جب تک بادشاہت طاقتور رہی‘ لیکن اس کے مقابلے میں اسلامی فتوحات نے وقت کا یہ دھارا اُلٹا کر رکھ دیا۔ مثال کے طور پر ایران میں پہلوی زبان بولی جاتی تھی‘ سیریا کی زیادہ تر آبادی گریک آرمینک زبان بولتی تھی‘ مصر کے علاقے میں کاپٹک بولی جاتی تھی‘ شمالی افریقہ میں لاطینی‘ گریک میں بَربر زبان تھی۔ مصر اور شمالی افریقہ کی زمینوں میں‘ جہاں آج کے زمانے میں اسلامی نیشن سٹیٹس ہیں‘ جہاں نہ تو کوئی مسلمان تھا اور نہ ہی کوئی عربی بولنے والا۔ یہی بات ایران اور افغانستان کے بارے میں بھی سچ تھی۔ اس کتاب میں پہلی اسلامی ریاست کے ذریعے آنے والی تبدیلی کی جغرافیائی پیمائش اور رفتار کو حیرت انگیز قرار دیا ہے۔ پہلی صدی ہجری میں سپین‘ پرتگال‘ ازبکستان‘ ترکمانستان اور جنوبی پاکستان (صوبہ سندھ) پر عربی بولنے والے مسلمان اشرافیہ کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ ان سب ملکوں میں مقامی آبادی اپنا مذہب تبدیل کرکے اس نئے مذہب کی طرف آنا شروع ہوچکے تھی۔ کتاب میں بڑی دیانت داری سے کہا گیا ہے کہ اسلامی فتوحات دیکھ کر سکندر اعظم اور چنگیز خان کی فتوحات فوراً ذہن میں آتی ہیں‘ لیکن فرق یہ ہے کہ مسلمانوں کی فتوحات نے فتح کی ہوئی زمینوں کی زبان اور مذاہب پر مستقل اثرات چھوڑے ہیں۔
اگلے روز رئوف کلاسرا صاحب کے گھر حاضری دی‘ 90 منٹ کی نشست میں انہوں نے کتابوں کی اہمیت پر زور دیا اور یہ ہدایت بھی دی کہ اپنے والد صاحب کی لائبریری سے دوستی پکی کرلو۔ اُن کی گفتگو سے واضح ہوا کہ انفارمیشن کے اس سمندر میں کتاب ایسی کشتی ہے جو علم کے طالب کی سمت کو گم کردہ راہ نہیں ہونے دیتی۔ کلاسرا صاحب کے پاس اُن کی تازہ کتاب ''گمنام گائوں کا آخری مزار‘‘ ساتھ لے کر گیا تھا‘ جس پر کمال مہربانی سے انہوں نے حوصلہ افزائی کے لفظ لکھے۔ ساتھ ہی اپنی دو کتابیں ''تاریک راہوں کے مسافر‘‘ اور ''ایک قتل جو نہ ہوسکا!‘‘ مجھے گفٹ بھی کردیں۔
Hugh Kennedy نے طلوعِ اسلام کے بعد روشن طرزِ حکمرانی کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرکے ہمیں سبق دیا کہ ہم کون ہیں‘ ہمارے مشاہیر کون اور ہمارے رول ماڈل کیا ہیں۔ یہی بات ترکی کے ڈرامہ نگار اور ڈرامہ ساز سمجھ چکے ہیں۔ ہمارے لکھنے والے نہ اپنی کتاب پر کچھ لکھتے ہیں نہ اپنے ہیروز پر کچھ بناتے ہیں۔ ہمیں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے‘ کیا ہم وہ ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں