"ABA" (space) message & send to 7575

کتابیں فُٹ پاتھ پر، جوتے شوکیس میں

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی مفاد کے لئے اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہے ہیں۔ صدر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران ایم آر ڈی متحرک رہی۔ مشرف دور میں اے پی ڈی ایم وجود میں آئی۔ مگر حال ہی میں 20 ستمبر 2020ء کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے غیر فطری سیاسی اتحاد وجود میں آیا۔ اِس گٹھ جوڑ نے نہ تو اپنی عوامی پالیسیاں‘ اور قوم کیلئے کوئی لائحہ عمل صحیح طرح سے بیان کیا اور نہ ہی یہ اتحاد کوئی واضح منشور پیش کرسکا۔ اس مفاداتی جتھے نے مولانا فضل الرحمن کو سربراہ بناکر حکومت کے خلاف طبلِ جنگ بجا دیئے۔ جلسوں کے طویل شیڈول کا اعلان کیاگیا اور یوں ملاقاتیں، ظہرانے اور قربتیں بڑھنا شروع ہوئیں۔ پی ڈی ایم کی سیاسی کہانی میں عروج کم اور زوال زیادہ ہیں۔ پی ڈی ایم کے لیڈران کے بلند بانگ دعووں کے باوجود یہ موومنٹ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ پی ڈی ایم کی مرکزی قیادت نے اپنے ورکرز اور سپورٹرز سے 2بڑے وعدے کئے جو پورے نہ ہوسکے۔
پہلا: لانگ مارچ۔ جب سے پی ڈی ایم وجود میں آئی ہے اِس کے سربراہ مولانا صاحب کی زبان سے ایک جملہ بار بار ادا ہوا، ''ہم حکومت کے خلاف لانگ مارچ کریں گے۔‘‘ 2019 میں بھی مولانا فضل الرحمن لانگ مارچ کرنے کا wrong فیصلہ کر بیٹھے تھے۔ اپنے پرائیویٹ لشکر سمیت اسلام آباد پہ یلغار کرنے پہنچے تو خود کو مکمل طور پر اکیلا پایا۔ سیاسی دوستوں، بھتیجے اور بھتیجی نے لفظی، کلامی کارروائی کے علاوہ کوئی خاص مدد نہ کی۔ مولانا کو چند مخصوص علاقوں میں crowd puller تو مانا جاتا ہے مگر دھرنے اور لانگ مارچ کے dynamics، عام جلسے جلوسوں اور ریلیوں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ کسی بھی جلسے کو کامیاب بنانے کیلئے مولانا صاحب کا دارومدار مدارس کے طلبا پر ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ہر جلسے سے قبل بسیں، کوسٹرز، وینز اور ویگنیں بھرکر خیبر پختونخوا کے دوردراز علاقوں سے طلبا کو جلسے کے مقام پر پہنچایا جاتا ہے۔ دھرنے میں بھی انہوں نے یہی سٹریٹیجی اپنائی تھی۔ جیسے جیسے دن گزرتے گئے، ویسے ویسے مولانا صاحب اور ان کی پارٹی پر پریشر بڑھتا چلا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان کا استعفا تو دور کی بات، وہ گزرتے دنوں کے ساتھ اور پُراعتماد لگنے لگے۔ صرف 18دن گزرنے کے بعد مولانا کا صبر جواب دے گیا۔ اس طرح، تحریک انصاف کی 126 روزہ اننگز کے جواب میں، مولانا کی ساری ٹیم 18پر ڈھیر ہوگئی۔
اس سیاسی سبکی کے بعد کہیں کی اینٹ اور کہیں سے روڑا اکٹھا کرکے پی ڈی ایم بنایا گیا تو مولانا نے ایک بار پھر لانگ مارچ کی کال دے ڈالی۔ ہوائی طور پر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت نے مولانا کے فیصلے کی تائید کی، پھر اپنے غیر متاثرکن جلسوں اور ریلیوں میں کارکنان کو لانگ مارچ کی تیاری کرنے کا حکم بھی صادر کردیا۔ یہ لانگ مارچ سال 2020 کے آخر میں ہونا تھا‘ پھر جنوری کے آغاز پر، بعد میں لانگ مارچ کی تاریخ جنوری کے اختتام پر جا ٹھہری‘ مگر اللہ اللہ کرکے 26 مارچ کی ڈیٹ فائنل ہوسکی۔ اس سے ٹھیک 10دن قبل پی ڈی ایم کے بڑوں کا اجلاس ہوا تو زرداری صاحب نے لانگ مارچ کو نوازشریف کی وطن واپسی سے مشروط کردیا۔ نون لیگ نے اِس شرط کو قبول کرنے سے انکار کیا تولانگ مارچ آغاز سے پہلے ہی انجام سے دوچار ہوگیا۔
دوسرا: قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ سینیٹ سے بھی استعفے دینے والا وعدہ تھا۔ پی ڈی ایم کے 11عدد لیڈروں نے گزرے سال کے بارہویں مہینے میں اسمبلیوں سے استعفے دینے کا اعلان کیا تھا۔ ابتدا میں پیپلز پارٹی نے اِس فیصلے کی حمایت کی اور کہا تھاکہ ضرورت محسوس ہونے پر سندھ حکومت سے علیحدگی پربھی غور کیا جائے گا۔ اسی دوران پی ڈی ایم نے اپنے ممبران سے استعفے جمع کرنے شروع کئے تو غلطی سے 2 ممبران کے استعفے پارٹی کے بجائے سپیکر قومی اسمبلی کے ڈیسک تک جا پہنچے۔
یہ ایک منظرنامہ تھا جس پر پی ڈی ایم کی ناکامیوں، بے وفائیوں اور ایک دوسرے کو دھکا مار کر آگے کرنے کی دردناک وارداتیں ہی وارداتیں ہیں‘ جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ پہلے جلسوں میں، پھرسڑکوں پر، اوراب بیٹھکوں میں بھی سیاسی بیروزگار آپس میں لڑگئے۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں!!
اب آئیے! ذرا ہٹ کردیکھتے ہیں، سیاسی روزگار سے محروم، اَصل میں ہیں کون؟ اس سلسلے میں پاکستان کے سب سے بڑے ہائوس آف کارڈز کو سب سے پہلے دیکھنا ہوگا۔ اس ہائوس کے ہیڈآف ٹیبل نوازشریف صاحب سپریم کورٹ سے تاحیات نااہل قرار دیئے گئے۔ سب جانتے ہیں کہ وہ عدالتی طور پر سزایافتہ ہیں، اور ساتھ ساتھ عدالتی مفرور بھی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نوازشریف کو پارٹی قیادت کیلئے بھی نااہل قرار دے رکھا ہے۔ یہ تو بھلا ہو، پلیٹ لیٹس کا جن کی مدد سے موصوف ایج ویئر روڈ لندن کی مہنگی کافی شاپس پر علاج کروانے کی سہولت سے فیض یاب ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ دنیا کے پہلے اور اکلوتے شیر ہیں، جن کواپنی ہی اس آبائی کچھار میں واپس آنے سے ڈرلگتا ہے جہاں پہ وہ پیدا ہوئے اور جہاں سے انہوں نے پائونڈ سٹرلنگ، یوایس ڈالرز، یورپین یورو کے انبار اکٹھے کرنے کا عالمی ریکارڈ بنایا۔ اسی لئے ہائوس آف کارڈ کے ہیڈ ٹیبل کی 'ووٹ کوعزت دو‘ والی سیاست ابھی تک ڈائننگ ٹیبل سے آگے نہیں بڑھ سکی جس کے تین کُھلے کُھلے ثبوت سب کے سامنے ہیں:
پہلا ثبوت‘ ووٹ کو عزت دینے والی مہم کی مرحلہ وار ناکامی تھی۔ یہ بے چاری آیوڈین کی کمی کی وجہ سے مخصوص ٹی وی شوز اور Westo-Fixed دانشمند، جن میں سے اکثر بیرون ملک مفرور ہیں، کی حمایت سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکی۔ یہ جمہوریت کے ایسے آزاد منش ترقی پسند ہیں، جو صر ف موم بتی جلانے کے وقت پرگھر سے باہر نکل سکتے ہیں، وہ بھی درجنوں میں۔ گُرس، سینکڑے اور ہزاریے یا لکھیے تو بڑی دور کی بات ہے۔
دوسرا ثبوت: سیاسی شوبازی کی مارکیٹ میں اس کا دوسرا ثبوت پارلیمنٹ سے استعفا پروگرام تھا‘ جس کیلئے پی ڈی ایم کے نام سے سیاسی فرنٹ مین اکٹھے کئے گئے۔ ان میں سے مولانا ذاتی طور پر پچھلے ڈھائی سال سے مکمل سیاسی بیروزگار ہیں‘ اس لئے وہ شاہراہِ دستور پر پارلیمنٹ کے اردگرد، ماہانہ سات پھیرے تو لگا سکتے ہیں، مگر لمبے عرصے بعد پہلی بار اُن کے لئے پارلیمنٹ کے اند جانے والا دروازہ بند ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اگرچہ آج بھی ان کی فیملی کے 9 ستارے سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں پائے جاتے ہیں مگر ان کے پاس وہ چمک کہاں؟ جو مولانا کی دھمک میں ہے۔ عین اسی طرح سے ہائوس آف کارڈز کے بھی 21 رشتہ دار مختلف ایوانوں کے رُکن ہیں‘ جہاں سے ان کو سرکاری طور پر ''محنتانہ‘‘ بھی روزانہ کی بنیاد پر مل رہا ہے‘ مگر ان میں سے کسی ایک نے بھی ووٹ کو عزت دینے کیلئے اسمبلی سیٹ سے ابھی تک استعفا دینے کی ہمت نہیں کی۔
یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ خود مریم نواز نے باقاعدہ جلسے میں اپنے ایک عزیز ایم این اے کو اپنا استعفا حکومت کے منہ پر مار دینے کی ہدایت کی تھی‘ مگر اُن کا یہ عزیز اس ہدایت کاری سے متاثر ہونے سے انکاری ہوگیا۔
تیسرا ثبوت لاہور جلسے کی ڈور ٹو ڈور مہم، اور پھر جلسے کی تاریخی ناکامی ہے۔
پی ڈی ایم اتحاد کیوں فیل ہوا؟ اس کے لیڈروں نے قومی اداروں پر حملے کے علاوہ کوئی قومی ترجیح قوم کو نہ دکھائی۔ ان کی ترجیحات ایسے ہی تھیں، جیسے کتابیں فُٹ پاتھ پر اور جوتے شو کیس میں سجا کر بیچے جائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں