"ABA" (space) message & send to 7575

من موجی منجیت کور

70 سالہ منجیت کور، سنگھوتکری بارڈر پہ کئی ہفتوں سے دھرنا دے رہی ہے۔ اس کی جوانی سے لے کر اب تک کی زندگی بھارتی پنجاب کے سرسبز و شاداب کھیتوں میں دن رات محنت مزدوری اور کاشتکاری کرتے گزری ہے۔ سفید بال، رعب دار آواز اور باوقار انداز کی مالک منجیت کی آنکھوں میں تمام عمر کی گئی مشقت جھلکتی ہے۔ بدترین حالات اور موسم کی سختیوں کے باوجود ماتھے پر ایک شکن تک نہیں لپکی۔ منجیت کور انڈین اور فارن میڈیا سے گفتگو کرتی ہے تو چہرے پر مسکراہٹ اور اندازِ گفتگو میں شائستگی بھری ہوتی ہے۔ نوجوان سکھ لڑکے لڑکیاں اِن کے حوصلے اور ہمت سے سیکھتے نظر آتے ہیں۔ یہ خاتون اکیلی نہیں بلکہ اس کے ساتھ سارے مشرقی پنجاب اور دیگر ریاستوں کے تمام کسان بھی سراپا احتجاج ہیں۔ مودی سرکار انہیں قومی غدار اور انتہا پسند جبکہ بھارتی میڈیا اِن محنت کشوں کو دہشتگرد قرار دے رہا ہے۔ ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ اِنہی دہشتگرد کہلانے والے کسانوں کے کھیتوں کی گندم، چاول، سبزیاں، پھل اور دالیں پورے بھارت کو سپلائی کی جاتی ہیں۔ یہی بھارتی Staple کا Food Bank ہے‘ لیکن نہ جانے کیوں مودی نے اس محنت کش اور بہادر طبقے کا سر کچلنے کی ٹھان رکھی ہے۔
یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سکھوں سے انتہاپسند ہندو پارٹیوں کی نفرت اور تعصب کسی سے ڈھکی چھپی بات کبھی نہیں رہی۔ سکھوں کے روحانی مرکز گولڈن ٹیمپل ہرمندر صاحب پر انڈین فوج کے بے رحمانہ آپریشن بلیو سٹار کے نتیجے میں اور اکتوبر 1984 میں سکھوں کا بہیمانہ قتل عام کس کو یاد نہیں؟ تب یہی پُرامن سکھ برادری اپنے قتل عام کے خلاف آواز اُٹھانے خالی ہاتھ نکلی تھی۔ آج بھی یہی نہتے کسان اپنے معاشی قتل عام کے خلاف بھارت کی سڑکوں پر ہیں۔ غیور اور بہادر سکھ برادری، مودی کی فرعونیت، کسان دشمن پالیسیوں اور ریاستی جبر کے خلاف شمشیر بکف ہے۔ اس تازہ احتجاجی تحریک کو ایک متنازعہ قانون نے جنم دیا ہے، جس کا واحد مقصد پنجابی کسانوں کو مودی کے حامی سرمایہ داروں اور بی جے پی کی سرپرست کارپوریشنز کے رحم و کرم پر چھوڑنا ہے۔
چار سال قبل، بھارتی سرکار نے زراعت کے شعبے میں اصلاحات کا اعلان کیا تھا مگر اس ضمن میں کوئی واضح پالیسی ترتیب نہ دی گئی۔ 2020 میں مودی حکومت نے یہ غیر منصفانہ قوانین‘ پہلے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے جاری کئے‘ پھر یہی قوانین Acts of Parliament کے طور پر اپوزیشن کو بلڈوز کرکے پارلیمان سے منظور ہو گئے۔ ان بلز کی منظوری کے ساتھ ہی ایک نہ تھمنے والے احتجاجی سلسلے کا آغاز ہوا۔ 9 اگست 2020 کو protests کا سلسلہ شروع ہوگیا، جو آج 8ماہ گزر جانے کے بعد بھی پُر زور طریقے سے جاری ہے۔ اس 8ماہ کے عرصے میں درجنوں کسان مودی کے ریاستی تشدد کی وجہ سے ہلاک اور سینکڑوں گرفتار ہو چکے ہیں۔ ہریانہ پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق، چالیس ہزار کسان اس وقت دہلی کے بارڈر پر موجود ہیں، جس کے باعث بھارتی شہرِ اقتدار کے entry points مکمل طور پر مفلوج اور لاک ڈائون کا شکار ہیں۔ مودی کے راج سنگھاسن دہلی کے داخلی راستوں کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ، دہلی کے تمام سرحدی علاقوں پر خیمہ بستیاں آباد ہو گئی ہیں۔ احتجاجیوں کو عام volunteer شہری اپنی مدد آپ کے تحت اشیائے خور و نوش، کپڑے، دوائیاں اور دیگر روزمرہ ضرورت کی چیزیں فراہم کر رہے ہیں۔
مودی سرکار نے سکھ برادری اور کسانوں کے بڑوں سے مذاکرات کے کئی رائونڈ کئے، مگر بی جے پی کی دھوکہ بازی کی وجہ سے کوئی بھی نتیجہ نہ نکل سکا۔ عوامی سطح پر مذاکرات میں ناکامی کی وجہ سرکار کی غیر سنجیدگی کو سمجھا جا رہا ہے۔ کسان رہنمائوں کا سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ لوک سبھا کا خصوصی اجلاس بلا کے، ان قوانین کو مودی حکومت واپس لے لے جس کے بعد کسانوں سے مشاورت کرنے کے بعد ہی نئے بلز پاس کئے جائیں‘ علاوہ ازیں گرفتار کسان نیتائوں کو فوری رہا کیا جائے۔ مظاہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مودی صوبائی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں، جس کے نتائج Union of India کیلئے خطرناک ہوں گے۔ یہاں دلچسپ اور بھارت کیلئے شرمندگی کی بات یہ ہے کہ مودی کے Republic Day خطاب کے چند گھنٹوں بعد، مظاہرین لال قلعہ دہلی میں داخل ہو گئے تھے اور ان میں سے ایک نوجوان نے بھارتی قومی پرچم کو اُتار کر وہاں سکھ برادری کا مذہبی جھنڈا ''نشان صاحب‘‘ لہرا دیا تھا‘ جس کی فوٹیج پوری دنیا کے تمام بڑے ٹی وی چینلز پر براہ راست نشر کی گئی۔
مودی سرکار نے اپنے اقتدار کے دوسرے دور کے آغاز سے ہی بھارتی پنجاب اور پنجابیوں کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ مودی آزاد منش پنجاب کو بی جے پی، آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند اور بنیاد پرست ہندو organizations کی دہشت گردی کے سامنے نہ جھکنے کی سزا دے رہا ہے۔ 2014 اور 2019 کے لوک سبھا چنائو میں مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے حق میں بھرپور لہر اُٹھی تھی‘ مگر یہ لہر پنجاب کی سرحد پر پہنچ کر غیر متاثر کُن ہوجاتی رہی۔ سکھ برادری نے بلا خوف و خطر ووٹ کاسٹ کئے اور مودی کی نفرت انگیز اور تقسیم پسند سیاست کو مکمل طور پر مسترد بھی کیا۔ مودی نے تخت امرتسر کو فتح کرنے کے لئے اپنے پرانے قابل اعتماد کھلاڑی ارُون جیٹلی کو بھی میدان میں اُتارا تھا‘ مگر کیپٹن امریندر سنگھ اور کانگریسیوں کے سامنے جیٹلی اور مودی دونوں کی ایک نہ چلی‘ لہٰذا اربوں روپے خرچ ہونے اور سالوں تک کیمپین کرنے کے باوجود بی جے پی پنجاب میں سنجیدہ سیاسی قوت کے طور پر کبھی اُبھر نہ سکی۔ کیا واقعی مودی پنجاب میں مزاحمتی آوازوں کی زبان کھینچ کر اُن کا گلا گھونٹ رہا ہے؟
وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی انتخابی پارٹنرشپ کا جائزہ لیا جائے تو ایک pattern صاف طور سے ظاہر ہوتا ہے، اور وہ یہ کہ بی جے پی نے نہ صرف بھارت کی ہر ایک ریاست میں پیش قدمی کی بلکہ ہر قسم کے غیر قانونی ہتھکنڈوں کے ذریعے اپوزیشن پارٹیوں کو کامیابی کے ساتھ دیوار سے لگا دیا۔ کانگریس پارٹی کی نااہلی اور کرپشن کی کئی داستانوں نے مودی اور شاہ کا کام مزید آسان کردیا۔ اس وقت پنجاب ہی وہ واحد بھارتی ریاست ہے، جہاں ریاستی ظلم و تشدد کے باوجود، مزاحمتی تحریکیں پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکی ہیں۔ بھارتی پنجابی، مودی کا فرنٹ فُٹ پر مقابلہ کر رہے ہیں۔ بھگت سنگھ، رام پرساد بسمل اور چندر شیکھر آزاد کی تصویریں اُٹھائے یہ نوجوان اور بزرگ شہری اپنے حق کی خاطر ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔ اس سب صورتحال کا بھارت کے مجموعی سیاسی لینڈ سکیپ پر کیا اثر پڑے گا؟ اور کیا مودی کی سیاسی طاقت میں بہت بڑی کمی آئے گی؟
ایسے سارے سوالوں کا جواب من موجی 70 سالہ منجیت کور کے نہ ٹوٹنے والے حوصلے کو دیکھ کر ملتا ہے جو سکھوں کی مزاحمتی سیاست کے لئے نیا آئیکون ہے۔ منجیت کور کے بعد بھارتی پنجابیوں کی تیسری نسل جوان ہو کر میدان میں اُتر آئی ہے۔ آپ اسے اتفاق کہیں یا قدرت کا انتقام، ہر عمر کے سکھوں کے تین پسندیدہ نعروں میں سے ایک بھارتی مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں لگتا ہے جبکہ دوسرا آزاد خالصتان کے حق میں اور تیسرا پاکستان کے حق میں۔
منجیت کور زبانِ حال سے کہتی ہیں:
مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے
میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے
زباں نے جسم کا کچھ زہر تو اُگل ڈالا
بہت سکون ملا تلخیٔ نوا سے مجھے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں