"ABA" (space) message & send to 7575

پارلے مان…(1)

یہ قصہ مڈل ایجز سے شروع ہوتا ہے جب فرانسیسی لوگوں نے اپنے مسائل کے حل کیلئے ''Parle‘‘ کا لفظ ایجاد کیا۔جس کا مطلب ہے ساتھ بیٹھنا ‘گفتگو کرنا ‘ایک دوسرے کی بات سننا ‘ اپنے مؤقف پر رائے دینا اور گفتگو کے ذریعے سے اپنی بات منوانے کی کوشش کرنا ہے۔اس کیلئے ضروری تھا کہ دو یا اس سے زیادہ لوگ ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھیں۔ایسی ملاقاتیں اکثر لکڑی کے سٹول پر بیٹھ کر ہوتی تھیں۔وقت گزرنے کے ساتھ بینچ اور گفتگو اکٹھے ہوگئے‘ جس نے پارلیمنٹ کو جنم دیا۔ وقت کا پہیہ آگے بڑھا ؛چنانچہ 930عیسوی میں آئس لینڈ میں موجودہ پارلیمنٹری سسٹم کی ابتدائی شکل والی اسمبلی قائم ہوئی۔
پارلیمانی نظام کا دوسر امرحلہ 1188 عیسوی میںAlfonso IX of León(موجودہ سپین)کے بادشاہ نے تین ریاستوں کو اکٹھا کرکے ''کورٹس آف لیون ‘‘کے نام سے پارلیمنٹ قائم کی ۔ مگر پارلیمانی نظام کو اصل ترقی ایک ایسی گورنمنٹ کے زمانے میں ملی جو موجودہ نیدرلینڈا ور بلجیم کے علاقوں میں1581 عیسوی میں برپا ہونے والے ڈچ انقلاب کے نتیجے میں دنیا کے سامنے آئی۔ اسی عوامی انقلاب کے بعد ہی کنگ فلپ دوئم آف سپین کے دورِ بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور پہلی پارلیمانی حکومت کا نام سٹیٹس جنرل آف دی نیدر لینڈرکھا گیا۔اسی تسلسل میں ڈچ انقلاب کے 107 سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد کنگڈم آف انگلینڈ میں 1688 عیسوی کو انگلش تاریخ کی اولین پارلیمنٹری گورنمنٹ قائم کی گئی۔
یہاں دو دلچسپ باتیں بھی آپ سے شیئر کرتا ہوں۔ان میں سے پہلی یہ ہے کہ کنگڈم آف انگلینڈ کی پارلیمانی حکومت نے پارلے مان کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے ہائوس آف پارلیمنٹ کے لکڑی کے پھٹوں کے بینچ بنوائے جن پر بیٹھ کر فلاحی حکومتیں اور گورننس چلانے کا سلسلہ شروع ہوا۔اگر آپ اس کا موازنہ اپنے ہاں کی پارلیمانی سیٹوں سے کریں تو ایسے لگتا ہے جیسے یہ خواب آور‘ آرام دہ سیٹیں اپنے اوپر بیٹھنے والے کو اس قدر ری لیکس کر دیتی ہیں کہ جو ایک بار بیٹھ جائے وہ اُٹھنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے ایوانوں میں رکھی ہوئی ان سُپر لگژری صوفہ نما نشستوں پر بیٹھنے والے 85 سے 95 فیصد پارلیمنٹ کے ارکان پانچ سال خواب آور گولیاں کھائے بغیر سو کر گزار دیتے ہیں۔یہ ہماری پارلیمانی تاریخ کا کارنامہ نہیں بلکہ معرکہ ہے کہ ایک فاضل ممبر نے بجٹ سیشن کے دوران پانچ سال میں صرف ایک تقریرکی جو اپنی مثال آپ اور ورلڈ ریکارڈ بن گیا۔موصوف نے شاید عربی محاورہ سن رکھا تھا جس میں کہتے ہیں کہ سب سے اچھی تقریر وہ ہے جو قلیل ہو اور دلیل سے ۔فاضل ممبر نے کہا ''جناب ِسپیکر بڑی ٹھنڈ ہوگئی ہے‘ ایئر کنڈیشنر بند کروادیں‘‘اور تقریر کٹ گئی!
کنگڈم آف انگلینڈ کے پارلیمنٹری فارم آف دی گورنمنٹ کو ویسٹ منسٹر پارلیمانی ماڈل کے نام سے دنیا کے سارے براعظموں میں کسی نہ کسی شکل میں فالو کیا جارہا ہے۔فالو کرنے سے یاد آیا اس ویسٹ منسٹر ماڈل ‘جسے کنگڈم آف انگلینڈ سے شہرت ملی ‘اس طرز ِحکومت کو سویڈن میں ایج آف لبرٹی کے عرصہ‘1718عیسوی سے شروع کرکے 1772عیسوی تک فالو کیا گیا۔یہاں یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ کے ارکان کا اختیارساری دنیا میں دو نکتوں کے گرد گھومتا ہے۔پہلا نکتہ ہے عوام کے حق میں قانون سازی پر توجہ ۔ دوسرا نکتہ ہے عام آدمی کو آسانیاں فراہم کرنے کیلئے قانون سازی پر توجہ۔اپنے ہاں قانون سازوں کے قانونی معرکے دیکھنے ہوں تو کسی گائوں یا محلے کی تنگ گلی میں 25ہزار سے شروع ہونے والا پختہ گلیات کا بورڈ دیکھ لیں‘ جو سرکاری خرچ پر لوہے کے بڑے بڑے پِلر لگا کر یوں لکھا جاتا ہے''ترقیاتی کمیٹی کے ممبران جناب سے جناب تک کی سفارش پر جناب محترم قبلہ ممبر صاحب کی کاوش سے اور قائد محترم حضور خادم الخُدما کی منظور کردہ گرانٹ سے منصوبہ شروع ہوا‘‘۔
میں نے اور میرے جیسے قانون کے لاکھوں طالب علموں نے جب بھی پاکستان کا آئین کھولا تو اس میں گلیاں‘ نالیاں‘ منڈیاں‘پُلیاں بنانے کا کوئی اختیار ملک کے آٹھوں ایوانوں میں سے کسی ممبر کو دینے کا کوئی آرٹیکل 1973ء کے متفقہ آئین پاکستان میں ڈھونڈنے کے باوجود ہمیں نہیں ملا۔
ویسٹ منسٹر ڈیموکریسی ماڈل میں کابینہ کے ارکان صرف ریاست کے سرکاری اورقومی کام کرتے ہیں ‘ یہ ارکانِ کابینہ نہ تو کوئی پراجیکٹ انائونس کرسکتے ہیں اور نہ ہی انہیں ایسے پراجیکٹ کا افتتاح کرنے کی اجازت ہے۔فرض کریں اگر لندن میں وزیر وں اور وزیر اعظموں نے اپنے اپنے دور کے کاموں پر بورڈ لگائے ہوتے تو 1688 عیسوی سے شروع کرکے 26اپریل2021ء تک 333سال میں لندن کی سڑکوں‘ گلیوں‘ پلوں‘ روشوں ‘پارکوں ‘ہسپتالوں پربورڈ زیادہ ہوتے‘ٹورسٹ کم۔
انڈیا کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے 3جون 1947ء کے روز برصغیر کے سارے لیڈروں کی کانفرنس بلائی اور انہیں انگلش گورنمنٹ کے ٹرانسفر آف پاور منصوبے سے آگاہ کیاجسے 26جولائی1947ء کے دن گزٹ آف انڈیا میں نوٹیفکیشن جاری کرکے قانونی حیثیت دے دی گئی۔اسی نوٹیفکیشن کے ذریعے پاکستان کی پہلی آئین سازاسمبلی کو 69ممبرز کے ساتھ تشکیل دیا گیا۔بعد میں ایک خاتون ممبر سمیت یہ تعداد بڑھ کر 79ہوگئی۔یوں سٹیٹ آف پاکستان آزادی ایکٹ 1947 کے تحت وجود میں آئی۔اس ایکٹ کے نتیجے میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء جس کے تحت تاجِ برطانیہ کی حاکمیت تھی ‘سٹیٹ آف پاکستان میں شامل علاقوں سے لپیٹ دی گئی۔پاکستان کی اسمبلی کا پہلا سیشن 10اگست 1947ء کو سندھ اسمبلی بلڈنگ میں منعقد ہوا‘11اگست 1947ء کے روز قائد اعظم کو اس اسمبلی کا صد رمنتخب کیاگیا اور پاکستان کاجھنڈا منظور کیا گیا۔
آئیے اب ذرا بانی ٔپاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی پاکستان کے پارلیمان کے حوالے سے ترجیحات دیکھ لیں۔
ترجیح نمبر 1:پہلے اجلاس کے 24گھنٹے کے اندر اندر بابائے قوم نے 11 اگست1947ء کے دن Constituentاسمبلی سے تاریخی خطاب کیا جس میں انہوں نے ایک inclusiveاور impartialطر ز کی حکومت کے قیام کا اعلان کیا جہاں سب شہریوں کیلئے مذہبی آزادی‘قانون کی بالادستی اور مساوات پر مبنی سو سائٹی جیسے رہنما اصول وضع کردیے۔ترجیح نمبر 2:اگلے ہی روز 12اگست 1947ء کو ''کمیٹی آف فنڈامینٹل رائٹس آف سٹیزنزاینڈ مینارٹیز آف پاکستان‘‘ کے نام سے پہلی سپیشل پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی۔قائد نے کمیٹی کو ہدایت دی کہ وہ فوری طور پر سفارشات پیش کرے تاکہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے آئین اور قانون بنایا جاسکے۔ترجیح نمبر 3:تاج ِبرطانیہ کی طرف سے ٹرانسفر آف پاور کا دن 14اگست 1947ء تھا۔اسی دن انڈیا کے گورنر جنرل (جو آزادبھارت کے پہلے گورنر جنرل بھی بنے )نے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی سے خطاب کیا۔بانی ٔپاکستان نے لارڈ مائونٹ بیٹن کے خطاب کا جواب دیا‘ جس میں ریاست پاکستان کے بنیادی اصول کھول کر سامنے رکھ دیے۔ ترجیح نمبر 4: سسٹم آف گورننس کو قائم کرنا تھا ؛چنانچہ15اگست 1947ء کے دن قائد اعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل منتخب ہوئے اور عہدے کا حلف اٹھایا۔
یہاں المیہ یہ ہوا کہ قائد اعظم کی سانسوں نے وفا نہ کی اور وہ پاکستان کے قیام کے ایک سال 28دن بعد 11ستمبر1948ء کے روز پاکستان ہمارے ہاتھوں میں دے کر خود وطن کی مٹی کے آغوش میں جا سوئے۔
دین و دانش کا مُرقّع آدمی کے روپ میں
اس طرح اُٹھّا حرم کی پاسبانی کیلئے
جیسے آغازِ سحر میں طائرانِ خُوش نما
چہچہاتے ہیں صَبا کی ہمزبانی کیلئے (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں