"ABA" (space) message & send to 7575

افغانستان میں امریکی جنگ ختم ؟

ہمارے خطے میں دلچسپی رکھنے والے ملکوں اور اداروں کی نظریں قندھار ایئر فیلڈ اور افغانستان پر لگی ہوئی تھیں۔یہ مارچ کے مہینے سال 2021 کا چھٹا دن تھا۔گرے کلر کا ایک امریکن ٹرانسپورٹ طیارہ بہت سارا امریکی ایمیونیشن ‘سی آئی اے کی تنصیبات ‘ ایئر بیس پر تعینات ایک بڑا فلیٹ‘ فوجیوں کے دستے ‘ حساس سکرینیں اور آئی ٹی سے متعلقہ سامان لوڈ کرکے قندھار ایئر فیلڈ کے رن وے پر ٹیکسی کر رہا تھا۔
آئیے ذرا پیچھے چلتے ہیں ‘George W. Bushجونیئر کے دور ِصدارت میں کوئی سیاسی رہنما سوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ آخر کار امریکہ کو افغانستان چھوڑنا ہے۔اس زمانے میں کون کس طرف کھڑا تھا‘کسی کو ڈھیر کرنے کے لیے صرف ایک ٹیلی فون کال پر ایک ہوائی دھمکی کا فی سے زیادہ ثابت ہوئی۔ کس نے مال بنایا ‘ پرمٹ لیے پیسے کمائے‘یہ سب تو ہمیں یاد ہی ہوگا‘لیکن ایک آواز پاکستان کی سیاست کے اندر ایسی تھی جو افغانستان سے نیٹو اور امریکہ کی فوجوں کے انخلا کے حق میں اُٹھی۔ اُس زمانے میں یہ نقار خانے میں طوطی کی آواز جتنی کمزور تھی ‘وقتی طور پر صدا بصحرا جیسی لگ رہی تھی۔ اس تسلسل کا دوسرا منظر نامہ تب سامنے آیا جب وائٹ ہائوس کے اوول آفس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ داخل ہوئے۔ موصوف نے قلم کے بجائے ٹوئٹر کا استعمال زیادہ کیااور جس طرح سے پہلے امریکی صدر کرتے آئے تھے صدر ڈی جے ٹرمپ نے بھی پاکستان سے انہی دو لفظوں میں''ڈو مور‘‘کا مطالبہ کردیا۔ڈی جے ٹرمپ چونکہ سیاست میں نئے تھے اس لیے انہیں شاید معلوم نہیں تھا کہ اب پاکستان میں ڈو مور ‘نغمۂ جاں فزا نہیں رہا۔اس ٹوئٹ کا جواب وزیر اعظم عمران خان نے کسی وضاحتی ٹیلی فون کے ذریعے نہیں دیا بلکہ ٹوئٹ کا جواب جوابی ٹوئٹ کے ذریعے یوں دے ڈالا:
''پاکستان کے خلاف مسٹر ٹرمپ کے tiradeکا ریکارڈ سٹریٹ کرنے کی ضرورت ہے: نمبر (1) کوئی بھی پاکستانی 9/11میں ملوث نہیں تھالیکن پاکستان نے امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ نمبر(2)اس جنگ میں پاکستان نے 75ہزار افراد کی قربانی دی اور 123 ارب ڈالر کا مالی خسارہ برداشت کیا جبکہ اس بارے میں امریکی امداد محض 20ارب ڈالر ہے۔(3)اس جنگ میں پاکستان کے قبائلی علاقے تباہ ہوئے اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔ اس جنگ نے عام پاکستانیوں کی زندگیوں کو متاثر کیا۔نمبر (4)پاکستان آج بھی امریکی افواج کو اپنے زمینی اور فضائی راستے استعمال کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔کیا وہ اپنے کسی دوسرے اتحادی ملک کا نام بتا سکتے ہیں جس نے اتنی قربانیاں دی ہوں؟‘‘
یہ یو ایس اے بہادر کے صدر کے لیے نیا تجربہ تھا۔اس کے فوراً بعد ایک امریکی وفد پاکستان پہنچ گیا جس نے نئے منتخب وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی ۔امریکی وفد کے ارکان یہ جان کر حیران رہ گئے کہ پاکستان میں وزارت عظمیٰ کی کرسی پر ایک ایسا سپورٹس مین بیٹھ گیا ہے جس نے پاکستان کے لیے امریکی امداد کا مطالبہ ہی نہیں کیابلکہ اس نے امریکہ کی جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج ‘سکیورٹی اداروں‘پولیس ‘رینجرز ‘اہلکاروں اور عام شہریوں کی قربانی کا ذکر چھیڑ دیا۔یہی نہیں بلکہ امریکہ کو بتایا کہ اس کی جنگ میں شرکت کرکے پاکستان کو کس قدر مالی نقصان بھی اُٹھانا پڑا ‘جس کے مقابلے میں مونگ پھلی جتنی امداد دے کر امریکہ ان قربانیوں کو بلڈوز نہیں کرسکتا(اس موضوع پر مزید تفصیل آپ اس صفحے پر چھپنے والے وکالت نامے مورخہ 26 جولائی 2019ء میں دیکھ سکتے ہیں ‘جس کا عنوان تھا''Do More.....IMRAN‘‘)۔ یہاں پہ پاکستان کے اندرونی سیاسی نوٹنکی کا ایک منظر یاد آرہا ہے جس کا ذکر بہت مناسب ہوگا ۔ پاکستان میں انصاف کو آزاد کرانے اور ریاست کو ماں جیسا بنانے کے لیے بہت بڑے بڑے سپانسرز کے مال پر دھمال نما تحریک چل رہی تھی۔ جس میں سیاسی شیر اور غیر سیاسی بکری جیسے کردار ایک ہی ٹرک پر نجات دہندہ بن کر انگلیوں سے وکٹریاں بنا کر دکھاتے نظر آرہے تھے۔میڈیا دیکھ کر ایسے لگتا تھا جیسے پنجابی فلم کا دل فریب مگر فریب سے بھرپور یہ نغمہ ہر طرف چھایا ہوا ہو۔
سیّو نی میرا ماہی‘ میرے بھاگ جگاون آ گیا
اینج لگدا اے ‘ جیویں رانجھن مینوں ہیر بناون آ گیا
تب بھی کچھ لوگ ایسے تھے جو نقار خانے میں طوطی کی صدا بن کر اکیلے گونجتے رہے۔سیاسی جج کی بحالی کے انویسٹر اور جاں نثار‘بے شمار بے شمار کے نعرے گڈ مڈ ہوگئے تھے۔پھر موسم بدلا تو لوگوں کو پتہ چلا کہ اس دل فریب منظر نامے میں دل سے کچھ بھی نہیں تھا‘ اور سب کے ساتھ بہت بڑا فریب ہونا تھا اب جو ہوکر رہا۔آج اس دور کے ہیرو اور امریکی جنگ کے تخلیق کاروں کا حال ایک جیسا ہے۔ صدر جو رابنیٹ بائیڈن نے وعدہ کیا ہے کہ یو ایس اے 11 ستمبر 2021ء تک افغانستان سے فوجی طور پر مکمل withdrawکر جائے گا‘ جس کے نتیجے میں کسی غیر ملکی سرزمین پر امریکہ کی سب سے لمبی جاری جنگ ختم ہو جائے گی۔ قندھار ایئر فیلڈ سے اُڑنے والا امریکن آرمی ٹرانسپورٹ طیارہ اسی پُل آئوٹ کا حصہ ہے جو ستمبر سے بہت پہلے شروع ہوچکا ہے۔ یو ایس اے اور اس کےNATOاتحادیوں نے کئی عشروں تک قندھار ایئر فیلڈ کو ''وار ٹائم سٹی‘‘ کی شکل میں تعمیر کرنے میں لگا دیے۔ اسے شہرِ ستم گر بھی کہا جاسکتا ہے جہاں فائٹر اور بمبار طیاروں کے ہینگرز‘ آپریشن سینٹرز‘ ہر طرح کی گنیں اور گن شپ ہیلی کاپٹرز تو تھے ہی لیکن ساتھ ساتھ یہاں رہائشی بیرکس ‘ باسکٹ بال کورٹس ‘گولہ اور بارود ‘پوسٹ آفس‘ سنیک شاپس ‘چین ریسٹورنٹس ‘ہاکی فیلڈ‘یہاں تک کے اہم سٹورز بھی موجود تھے جو ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوگئے تھے۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ عسکری شہر کبھی ویرانہ بن جائے گا۔ اب جس طرح سے اس ایئر بیس کو خالی کرنے کی رپورٹس سامنے آرہی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی اور نیٹو‘ لینڈ لارڈز کے حساب سے حساس سمجھی جانے والی ہر چیز اس ایئر بیس سے اُٹھاتے جارہے ہیں۔جس کے بعد قندھار ایئر بیس کا ڈھانچہ افغان سکیورٹی فورسز کے حوالے کردیا جائے گا‘جس کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ اب افغان سکیورٹی فورسز اندرونی سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے صرف اپنے حال پر ہی چھوڑ دی جائیں گی۔
بین ا لاقوامی رپورٹنگ ایجنسیوں میں شائع ہونے والی آنکھوں دیکھی رپورٹس بتاتی ہیں کہ یو ایس اے اور نیٹو فورسز کے ہزاروں فوجی جو کبھی یہاں مقیم تھے‘انہوں نے آدھے مسمار شدہ آئوٹ ڈور جمز اور طیاروں کے خالی ہینگرز 20 سال سے استعمال ہونے والے سامان اور جمع ہونے والے سکریپ سے بھر دیے ہیں۔ اس ایئر فیلڈ کے مسافر ٹرمینلز جہاں سے نیٹو فوجی دستے آپریشنل ایریا زمیں جاتے تھے وہ سب اندھیرے میں ڈوب چکے ہیں جبکہ کرسیاں اور بینچ گرد و غبار سے بھر گئے ہیں۔فوجی دستوں کے کھانے پینے والے ایریاز اور میس ہالز تک بند ہو چکے ہیں۔
ہمارے مغربی بارڈر کے پڑوس میں اتنی بڑی تبدیلی آرہی ہے جس کی خبر ہم سے زیادہ ان ملکوں کے میڈیا میں چل رہی ہے جن کے فوجی اس طویل ترین مغربی جنگ کے مشرقی محاذ سے وطن واپس پہنچ رہے ہیں۔کہتے ہیں کوئی خلا کبھی باقی نہیں رہتا۔اس تناظر میں خطے کے اندر جو آفٹر شاکس آسکتے ہیں پاکستان ان سے پوری طرح باخبر ہے۔بھارت کووڈ کی ہلاکت خیزی سے نمٹے گایا ہمارے مغربی بارڈر پر پرانا کردار ادا کرنے کی کوشش کرے گا؟افغان جنگ ختم ہونے کا سوال بھارت کے کردار سے جڑا ہوا ہے۔ستمبر 2001ء کے حملوں کے نتیجے یا آڑ میں یہ جنگ شروع ہوئی مگر 20سالوں میں ملٹی ٹریلین ڈالر اسلحہ کی انڈسٹری ڈویلپمنٹ منصوبے میں تبدیل ہوگئی۔پرچھائیاں میں ساحر لدھیانوی نے ٹھیک کہا تھا:
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں