"ABA" (space) message & send to 7575

انڈر ٹیکنگ اینڈ انڈرٹیکر

پاکستان میں خاندان پر مبنی کاروباری سیاست کاری کی دنیا میں پہلی انڈرٹیکنگ پاکستان بننے کے صرف 11 سال دو مہینے 13 دن بعد سیاست کے آسمان پر طلوع ہوئی تھی۔ انڈرٹیکنگ دینے والا برصغیر کے انتہائی متنازع تاریخی بیک گرائونڈ سے وابستگی رکھتا تھا‘ اسی نے ملک میں سب سے پہلا مارشل لاء بھی لگایا۔ سات اکتوبر کے روز سال 1958 میں جنرل اسکندر مرزا کا مارشل لاء آیا جس میں اُس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ایوب خان کو ڈیفنس منسٹر بنا دیا گیا۔ کابینہ میں بیٹھنے کے ساتھ ہی نئے وزیر دفاع صاحب کو اپنے ہاتھ میں پکڑی چھڑی کی طاقت کا اندازہ ہو گیا‘ ساتھ ہی اس بات کا احساس بھی ہوا کہ باقی سب اس کے سامنے محض کٹھ پتلیاں ہیں۔ پھر فوراً ہی انڈرٹیکنگ آ گئی۔
اس طرح سے پاکستان میں ''لٹو تے پُھٹو سیریز آف انڈرٹیکنگ‘‘ کا پہلا سیزن اکتوبر 1958ء میں شروع ہوا جب اسکندر مرزا کے نیچے سے کرسی کھینچ کر ایوب خان بذاتِ خود اس پر بیٹھ گئے۔ اسکندر مرزا نے انڈرٹیکنگ دی کہ سیاست سے میری توبہ‘ پاکستان جانے اور آپ جانیں۔ یوں وہ اپنے بھاری بھرکم بریف کیسوں سمیت لندن جا پہنچے جہاں ان کی باقی ساری زندگی انڈرٹیکنگ کے سہارے پر گزر گئی۔
آئیے یہاں لمبی سی گہری سانس لیتے ہیں اور وطنِ عزیز کی تاریخ کی پہلی معجزاتی انڈرٹیکنگ کی عالمی طاقت کو خراج تحسین بھی پیش کرلیتے ہیں جس نے اپنے دارالحکومت کو مال دار مفروروں کا انٹرنیشنل کیپٹل بنا ڈالا۔ انڈرٹیکنگ سیزن ٹو آغا محمد یحییٰ خان نے خود اپنے دست مبارک سے وصول کی‘ یہ مارچ کا مہینہ سال 1969 تھا‘ جب جنرل ایوب خان صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ تاحیات سیاست میں کسی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیں گے اور سارا اقتدار ایک انڈرٹیکنگ کی عوض ٹرانسفر ہوگیا۔ 11 سال کے دورِ حکمرانی پر الزامات کی دھول مارگلہ کی صبحِ بہاری اُڑا لے گئی۔ یہ انڈرٹیکنگ سیزن ٹوکی ہیپی اینڈنگ تھی۔
عین اسی طرح سے انڈرٹیکنگ وقتاً فوقتاً سیاسی مطلب براری کا تسلسل ثابت ہوتی چلی گئی یا پھر مسلسل ڈرامائی سوپ سیریل چل نکلی۔ حکمران تو آتے جاتے رہے‘ دور بھی بدلتے چلے گئے مگر نہ انڈرٹیکنگ بدلی اور نہ ہی انڈرٹیکر۔ ویسے تو انڈرٹیکر گورکن کو کہا جاتا ہے‘ آسان اُردو میں جس کا مطلب قبر کی کھدائی کرنے والا شخص ہے لیکن سیاست میں انڈرٹیکر وہ کہلاتا ہے جو ملک کی معیشت کی قبر کھودے‘ ہم وطنوں کے مستقبل کو تابوت میں بند کرکے دفنائے اور پھر انڈرٹیکنگ سیزن ون کے نقشِ قدم پر چلتا ہوا ہیپی اینڈنگ کے لئے لندن یاترا کو چل نکلے۔
معین الدین احمد قریشی انڈر ٹیکنگ سیزن تھری کے شائننگ سٹار تھے۔ ایسا سُپر سٹار جس کے پاس پاکستان کا نہ تو قومی شناختی کارڈ تھا‘ نہ ہی کسی صوبے کا ڈومیسائل سرٹیفکیٹ۔ اس کے باوجود اس نے انڈرٹیکنگ دی کہ وہ پاکستان کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا؛ چنانچہ سیاست اور بیوروکریسی میں ریفارم کر کے انقلاب لانے کے نعرے پر عالمی فنکار پاکستان پہنچا جہاں 48 گھنٹے میں اس کا شناختی کارڈ بنا اور 18 اگست سال 1993ء کے دن وطن کی مٹی کا یہ غم خوار ''کیئر ٹیکر پرائم منسٹر آف پاکستان‘‘ بن گیا۔ 19 اکتوبر سال 1993ء تک معین الدین احمد قریشی نے امریکن اکانومسٹ اور سول سرونٹ ہونے کی بنیاد پر پاکستان کی ایسی تقدیر بدلی کہ رہے نام اللہ کا۔ بس صرف ایک لائن سب کچھ بتادے گی کہ 26 جون سال 1930ء کو برٹش انڈین پنجاب میں پیدا ہونے والے قریشی صاحب مرحوم نے 86 سال کی عمر عزیز پائی اور 22نومبر 2016ء کو وہ واشنگٹن ڈی سی میں فوت ہوگئے لیکن خدمت کی انڈرٹیکنگ نے ان کو پاکستان کی طرف مڑ کر بھی دیکھنے کا موقع نہ دیا۔ بریف کیسوں کا ذکر رہنے دیتے ہیں۔
انڈرٹیکنگ کے حوالے سے جو مختصر حقائق اوپر لکھے گئے ان میں انڈرٹیکنگ تو ایک جیسی ہی رہی مگر انڈرٹیکر بدلتے گئے۔ اب جس بطلِ حریت کا ذکر آرہا ہے وہ آپ کو جگر تھام کے سننا پڑے گا کہ جب سے وہ مردِ میدان انڈرٹیکنگ کے گھمسان میں گھسا تو اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ انڈرٹیکنگ والا جادو کا چراغ اب یا انقلابی لیڈر نواز شریف صاحب کے پاس ہوتا ہے یا جب وہ اس چراغ کو رگڑ رگڑ کر تھک جاتے ہیں یا پھر چراغ کا ''جن‘‘ تھک ہار جاتا ہے تو وہ پھر سمیع اللہ سے کلیم اللہ کی طرح چراغ نواز شریف کے دستِ مبارک سے شہباز شریف کے ہاتھوں میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ درمیان میں ایک آدھ سمدھی اور درجن بھر بچے‘ بھتیجے‘ داماد وغیرہ کو بھی چھو کر گزرتا ہے۔ قائد ثانی کی یہ تاریخ 2000ء میں 9‘ 10 دسمبر کی رات 'مڈ نائٹ جیکالز‘ کے شور سے شروع ہوتی ہے جس کا شور سعودی رائل جیٹ جہاز کے انجنوں میں اس وقت ڈوب جاتا ہے جب تب کے چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف کے سامنے نواز شریف اور آل شریف کی انڈرٹیکنگ پیش ہوتی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس انڈرٹیکنگ کے ساتھ کتنے 100 بریف کیس‘ ٹرنک اور بکس ملک سے باہر گئے‘ کتنے باورچی‘ کتنے شیف۔ چلئے باقی کی تفصیل بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ اس تفصیل میں بھی جانے کی ضرورت نہیں کہ محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کے سوئم پر نوڈیرو میں بھٹو ہائوس جاکر نواز شریف صاحب نے متاثرہ خاندان کو کون سی انڈرٹیکنگ پیش کی تھی‘ جس کے نتیجے میں 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین پاکستان میں تیسری دفعہ وزیر اعظم بننے کی پابندی اُٹھا کر باہر پھینک دی گئی۔
یہ بھی دہرانے کی ضرورت نہیں کہ تیسری بار کے آر او برانڈ الیکشن کے نتائج کا اعلان الیکشن کمیشن سے پہلے نواز شریف نے اپنے گھر کی بالکونی میں کھڑے ہوکر خود ہی کردیا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے جس Voting Pattern کی پیش گوئی کی تھی وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب ابھی ووٹوں کی گنتی جاری تھی‘ غیبی امداد کی وجہ سے ان انتخابات کے نتائج عین اسی طرح سے سامنے آئے۔ بات بڑھ جائے گی اس لئے کہ تفصیلات بات سے کئی ہاتھ آگے ہیں؛ چنانچہ آئیے دو عدد تازہ انڈرٹیکنگز کا بھی ذکر کردیا جائے۔
پہلی انڈرٹیکنگ نواز شریف‘ شہباز شریف‘ دونوں نے ایک معزز عدالت میں سٹامپ پیپر پر لکھ کر پیش کی۔ یہ انڈرٹیکنگ ریکارڈ کا حصہ بنی جس میں کہا گیا کہ نواز شریف واپس آجائیں گے۔ لندن جاکر انہوں نے اپنا علاج کروانا ہے۔ اس طرح وہ لندن پہنچ گئے‘ جہاں غریب الوطنی کی وجہ سے نواز شریف صاحب نے ٹاپ برانڈ کے کافی کارنرز‘ ایلیٹ کلاس کے آئس کریم پارلرز‘ انگریزی بادشاہوں اور ملکائوں کی ہائیڈ پارک والی اُن روشوں پر دوڑیں لگائیں جو صرف شاہی خاندان کیلئے بنی تھیں‘ مگر نہ ان کی بیماری ان کے ہاتھ آئی اور نہ ہی کوئی معالج ان کے قابو آ سکا۔ اس لئے مجبوراً انہیں ایک دیسی ڈاکٹر لاہور سے لندن ایکسپورٹ کرنا پڑگیا۔ جی ہاں آپ ٹھیک سمجھے! لاہور میں پلیٹ لیٹس گننے والا ڈاکٹر۔
دوسری انڈرٹیکنگ ابھی ابھی شہباز شریف نے ایک معزز عدالت کے سامنے پیش کی۔ یہ انڈرٹیکنگ سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ اس لئے خود پڑھ کر دیکھ لیں کہ اس میں اور نواز شریف والی انڈر ٹیکنگ میں کیا فرق ہے۔ لگتا ہے ٹائپسٹ بھی ایک ہی ہے۔ نواز شریف کیلئے پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر ان کے بڑے لیڈروں نے قسمیں کھائی تھیں کہ نواز شریف فوراً واپس آئیں گے۔ اب ہائی پارلر کی آئس کریم کون کھائے گا اور اس کی جگہ پاکستان میں قسمیں کون کھائے گا؟ یہ انڈرٹیکنگ جانے یا انڈرٹیکر۔
انقلاب آیا‘ پرانے پیرہن بدلے گئے
وقت نے تیور بدل ڈالے‘ وطن بدلے گئے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں