تازہ معرکہ فلسطین نے عربوں کی فی زمانہ تاریخ بدل کر رکھ دی۔ وہ تاریخ جو 1967ء اور پھر 1970ء میں حرب الرمضان سے اسرائیل نے بنائی تھی۔ جدید اسلحے اور بے پناہ فوجی وسائل کے خوف کی تاریخ‘ مگر 2021ء میں یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جارہی ہے کہ اس وقت خوف کی لہر اسرائیلی شہریوں کی ریڑھ کی ہڈی میں شفٹ ہوگئی ہے جبکہ عرب دنیا کے بسنے والے خوشگوار حیرت کے ساتھ اسرائیل کے پروپیگنڈے کے خوف سے آزاد ہوچکے ہیں۔ دو تازہ حوالے آپ کے سامنے رکھنا ضروری ہیں۔
پہلا حوالہ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی ایک تقریر ہے جو اس نے پہلی بار بین الاقوامی عوامی ردعمل کے خوف میں کی۔ نیتن یاہو نے کہا کہ ہم اسرائیلیوں کو اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ بیانیہ یا عوامی رائے کس کے ساتھ ہے‘ اس لئے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن ہمارے ساتھ ہیں۔
دوسرا حوالہ: دوسری جانب اسرائیل کے سابق فوجی سربراہ سمیت یہودی عسکری ماہرین کھل کر کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل نے تازہ جنگِ فلسطین میں بہت زیادہ نقصان اُٹھایا ہے۔ یہ 100 فیصد خسارے کا سودا ثابت ہوا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جنگ بندی کے ساتھ ہی غزہ کی پٹی میں لاکھوں فلسطینیوں اور مقبوضہ فلسطین کے ہر شہر میں مقیم عربوں نے مسجد اقصیٰ سمیت جگہ جگہ اپنی فتح کا جشن منایا۔
2021ء کی حرب الرمضان کی تاریخ محمدالزواری کا ذکر کئے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ یہ تاریخ اُسی سال شروع ہوئی جب قبلہ اوّل پر 1967ء میں اسرائیل نے مغربی اسلحے کے زور پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا۔ مہندس محمدالزواری 1967ء میں تیونس کے فلسطینی مہاجر کیمپ کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے‘ جو وہاں ہجرت کی زندگی گزاررہا تھا۔ مہندس محمدالزواری‘ جن کو عرب فلسطین دنیا اپنا نیوٹن مانتی ہے‘ بچپن سے ہی ایروناٹیکل انجینئرنگ میں دلچسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم تیونس کے سکول آف میکینکل انجینئرنگ میں حاصل کی‘ پھر سوڈان سمیت مختلف عرب ممالک میں میکینکل انجینئرنگ کے مختلف شعبوں میں علم اور تجربہ حاصل کرتے رہے۔ مختلف عرب ممالک میں سفر کے دوران انہوں نے مراد کے نام سے ٹریولنگ ڈاکومنٹس استعمال کئے اور میکینکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ 2006ء میں انجینئر الزواری عرب دنیا کے ڈاکٹر عبدالقدیر بن گئے۔ اس سال انہوں نے بغیر پائلٹ کے اُڑنے والا طیارہ ابابیل کے نام سے بنا لیا۔ اس پراجیکٹ کے لیے انہوں نے غزہ کی پٹی کا انتخاب کیا۔ ان کا پہلا سنگل انجن طیارہ یا ڈرون تین کلومیٹر تک اُڑنے کے بعد ایک بلڈنگ میں جالگا۔ دوسرا ابابیل سات کلومیٹر بعد ایک کار سے ٹکراگیا۔ 2012ء اور 2013ء کے دوران مہندس محمدالزواری نے ڈرون ٹیکنالوجی کا گہرا مشاہدہ کرنے کے لیے مراد کے نام سے سوڈانی پاسپورٹ پر کئی ملکوں کا دورہ بھی کیا۔ سوڈانی پاسپورٹ انہیں میکینکل انجینئرنگ کی تعلیم کے دوران شاندار کارکردگی پر ملا تھا۔ 2014ء میں اسرائیل نے غزہ کے علاقے پر حملہ کرکے فلسطینیوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ اسی دوران اپنے آبائی شہر میں مہندس محمدالزواری نے پرائیویٹ فلائنگ کلب بنا لیا جس کا نام نادی طیران الجنوب رکھا۔ اسی کلب کے ذریعے چھوٹے چھوٹے ابابیلوں نے اسرائیل میں مقبوضہ فلسطین کے اندر جاکر حملے شروع کردیئے۔ 2015ء میں مہندس محمدالزواری نے ''قسام‘‘ کے نام سے 80 کلومیٹر‘120 کلومیٹر اور 220 کلومیٹر تک اُڑنے والے ابتدائی درمیانی اور دور تک مار کرنے والے میزائل کے تجربات کامیابی سے مکمل کئے۔ 2016ء تک وہ مہندس محمد کے نام سے پوری دنیا کے فلسطینیوں میں پہچانے جانے لگے۔ اسی سال ایک صبح مہندس محمدالزواری تیونس کے شہر صفاقس میں اپنے گھر کے باہر اسرائیلی ایجنٹوں کے ہاتھوں فائرنگ کے نتیجے میں شہید ہوگئے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ قومی وقار کے اس پہاڑ پر 20 گولیاں برسائی گئیں۔
آپ ترکی کے ایک عظیم مردِ جری کا قدیم قصہ ضرور سننا چاہیں گے جس کا تعلق اس زمانے سے ہے جب خلافت عثمانیہ ابھی قائم تھی لیکن عربوں میں تیل تلاش کرنے کے نام پر برطانوی فوجی ایجنٹوں کے ذریعے سے باغی خریدے جارہے تھے۔ یہ 18ویں صدی کے آخر اور 19ویں صدی کے پہلے تین عشروں کا زمانہ تھا‘ لیکن پہلے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان جغرافیہ کے اعتبار سے موجودہ تقسیم دیکھ لینا دلچسپی کا باعث ہوگا۔ اس وقت فلسطینی بحیرہ روم اور دریائے اُردن کے درمیان مقبوضہ فلسطین کا ایریا خود کو اسرائیل کہلاتا ہے‘ جبکہ فلسطینیوں کی زبان میں اسے Occupied Palestinian Territory (OPT) کہا جاتا ہے جس میں ویسٹ بینک‘ ایسٹرن بیت المقدس اور غزہ کی پٹی بھی شامل ہیں۔ اسرائیل کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ان علاقوں میں 68 لاکھ فلسطینی اور 68 لاکھ یہودی آبادکار ہیں۔ عملی طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی کو گھٹا کر صہیونی آباد کاروں کی تعداد کو بڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ کہ اس علاقے میں گورننگ اتھارٹی کے تمام تر اختیارات اسرائیل کے پاس ہیں‘ جہاں آبادی کے کسی آزادانہ سروے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مڈل ایسٹ اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے فلسطینیوں کی تعداد کروڑوں میں ہے جبکہ ساری دنیا کے یہودیوں کو اسرائیلی پاسپورٹ اور نیشنلٹی امیگریشن کائونٹر پر ہی دے دی جاتی ہے تاکہ دنیا بھر میں رہنے والے یہودی اسرائیل کے شہری گنے جا سکیں۔
غزہ کی پٹی چھوٹا سا علاقہ ہے جو صحرا کی جانب سے مصر کے ساتھ جڑتا ہے جبکہ اس کا 80 فیصد بارڈر ساحلِ سمندر کے ساتھ ساتھ ہے‘ جس کے دوسری جانب اسرائیل ہے۔ اس وقت اسرائیل کے قبضے میں 6220 مربع کلومیٹر کا فلسطینی عرب علاقہ ہے‘ جس کے مقابلے میں غزہ کی پٹی صرف 365 مربع کلومیٹر ہے۔ اسرائیل کے قبضے میں عرب فلسطینی علاقوں کے پڑوسی ملکوں میں مصر‘ اردن‘ شام اور لبنان ہیں جبکہ سعودی عرب کے تاریخی علاقے تبوک اور تل ابیب کے درمیان بحیرہ احمر کی تنگنائے آتی ہے۔ تل ابیب ایئرپورٹ سے اُڑنے والے جہاز تبوک سے دیکھے جاسکتے ہیں‘ دوسری جانب شام کی جانب سے گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں پر بیٹھی اسرائیلی فوج صوبہ دمشق کی حدود سے صرف سات کلومیٹر دور ہے۔
تاریخی طورپر اسرائیل کو مغرب کا ناجائز بچہ کہنا جائز ہے‘ جس کا ثبوت یہ ہے کہ ترکی کے سلطان عبدالحمید دوئم (1876تا 1909ء)کو آفر کی گئی کہ آپ 150 ملین پائونڈ سٹرلنگ (سونے کی اشرفیاں) لے لیں اور فلسطین فرنگیوں کے ہاتھوں بیچ ڈالیں۔ سلطان عبدالحمید ثانی یہ سن کر جذباتی ہوگئے اور ان لفظوں میں تاجِ برطانیہ کو جواب دیا ''اگر تم مجھے ساری دنیا کا سونا دے دو‘ میں پھر بھی فلسطین کا سودا نہیں کروں گا۔ فلسطین مسلمانوں کی سرزمین ہے جس کے لیے لوگوں نے شہادتیں دی ہیں۔ میں اپنے مذہب اور باپ دادا کو دھوکا دینے پر ترجیح دوں گا کہ زندہ میری کھال اتار دی جائے‘‘۔
یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا
اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے
کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح ایک نیا سورج تراش لاتی ہے
سو یہ جواب ہے میرا‘ میرے عدو کیلئے
کہ مجھ کو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ...
خلافت اور حضرت اقبال ؒ کی یاد القدس کے باسیوں سے سنئے جو آج کل دنیا بھر میں سب سے پہلے پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں۔ آذربائیجان نے بھی آرمینیا کے حملے کے بعد پاکستان کا نام لیا تھا۔