"ABA" (space) message & send to 7575

اسلاموفوبیا…(2)

مغرب تو اسلاموفوبیا کے وجود سے ہی انکاری تھامگر کینیڈا کے پرائم منسٹر جسٹن ٹروڈو ان لوگوں میں ہرگز شامل نہیں رہے ۔ اسی لیے انہوں نے کینیڈین پارلیمان کے فلور پر کھڑے ہو کر وہ کام کر دکھایا جس کی اس سے پہلے کوئی مغربی لیڈر ہمت نہ کرسکا۔لفظوں کا قیمہ کئے بغیر جسٹن ٹروڈو نے مسلمانوں کے بجائے مغرب میں موجود اسلاموفوبیا کے مریضوں کو مخاطب کیا۔پرائم منسٹر جسٹن ٹروڈوکی طرف سے اُٹھائے گئے تین اہم سوال یہ تھے۔
پہلا سوال:ہم اس تشدد کو کیسے ایکسپلین کریں جو ایک بچے کو ہسپتال پہنچا دیتا ہے؟
دوسرا سوال: ہم ان خاندانوں کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسلاموفوبیا اصلی نہیں ہے ‘ خاص طور پر جب ہم اُس مسلمان عورت کی بات سنتے ہیں جو بس سٹاپ پر کھڑی ہوتی ہے تو اسے بار بار پیچھے مُڑ کر اس ڈر سے دیکھنا پڑتا ہے کہ کوئی اس کا حجاب کھینچ لے گا یا اسے تکلیف پہنچائے گا؟
تیسراسوال: اگر آپ اُن ماں باپ کی بات سنیں جو اپنے بچوں کی منتیں کرتے ہیں کہ وہ روایتی لباس نہ پہنا کریں ‘ اس ڈر سے کہ اُن کے روایتی لباس کی وجہ سے ان کوہراساں کیا جائے گا یا ان پہ حملہ کردیا جائے ؟
کینیڈا والے لندن شہر میں لاہور کی مسلم فیملی پر جو قیامت ڈھائی گئی اس کے بعد ابھی تک پوری مغربی دنیا میں کسی کے پاس پرائم منسٹر جسٹن ٹروڈو کے ان سوالوں کا جواب نہیں ہے۔جسٹن ٹروڈو کے ان سوالوں کی تصدیق کے لیے آئیے مغرب کے تازہ اسلاموفوبک کرائم ڈیٹا پر نظر ڈال کر ان سوالوں کا مختصر جواب دیکھ لیں۔
پانچ اپریل2014ء کے روز آسٹریلیا کے سا ت شہروں میں'' ری کلیم آسٹریلیا‘‘ نامی ایک اسلاموفوبک احتجاجی گروپ نے ریلیاں نکالیں ۔اس گروپ میں بہت سے neo-naziبھی شامل تھے ۔ ''United Patriots Front‘‘بھی ایک اور ایسی ہی تنظیم ہے جو مسلمانوں کے گھروں کے سامنے ہر طرح کی اشتعال انگیزی میں سپیشلائز کرچکی ہے۔
9فروری 2017ء کے دن لیری پکرنگ نامی ایک معروف سپیکر نے کہا کہ اگر میں اور کوئی مسلمان ایک سٹریٹ سے اکٹھے گزر رہے ہوتے ہیں تو میں کانپ جاتا ہے حالانکہ اسی سال میںev.Tomy Kalathoor Mathew Rنامی ایک پادری کو صرف حلیے کی وجہ سے سکھ یا مسلمان سمجھ کر اُس کی گردن میں چھرا گھونپ دیا گیا۔
11مئی2017 ء کوچار مسلمان عورتوں کو سڈنی میں برسرِ عام بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پولیس نے اس واقعے کو bias- motivated کہہ کر دبانے کی کوشش کی حالانکہ یہ اسلاموفوبیا کی واردات تھی۔
29مئی 2017ء کے دن ایک سکول کی کئی مسلمان لڑکیوں کو کیرئیر ایکسپو سے یہ کہہ کر نکال دیا گیا کہ ان کا مسلم لباس دوسروں کے لیے بہتintimidating ہے۔
29اپریل2019ء کے دن مسلمانوں کو دل آزاری کے ذریعے سے اشتعال دلانے کے لیے ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں Rasmus Paladinنامی ایک نسل پرست نے مقدس کتاب کا نسخہ نذر آتش کرنے کی مذموم حرکت کی ۔
ستمبر2019ء کے دن اسی شہر میں ایک اور نسل پرست گورے نے جان بوجھ کر ٹارگٹ کرکے عاشورہ محرم کے ایک جلوس میں گاڑی گھسادی۔ 16مارچ2019ء کے دن اسلاموفوبیا کے ایک مریض نے اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہوئے Queenslandمیں واقع مسجد کے گیٹ پر اپنی گاڑی دے ماری ۔اسی سال 11ستمبر کے دن برسبین کی ایک مسجد کی دیوار پر سربین اینٹی مسلم گانے کے الفاظ لکھے گئے۔ 2019ء میں20نومبر کے دن یہیں پر اسلاموفوبیا کے ایک اور مریض نے مسلمانوں کو گالیاں دیتے ہوئے ایک حجاب پہنے مسلمان حاملہ خاتون کو پہلے گھونسا مار کر نیچے گرایا پھر اس کے پیٹ پر پائوں رکھ دیا۔
12ستمبر2020ء کے دن ٹورنٹو میں 58 سالہ محمد اسلم کو چھری سے وار کرکے اس وقت قتل کردیا گیاجب وہ مسجد کے باہر بیٹھ کر نمازیوں کی تعداد کو کورونا کی وجہ سے کنٹرول کر رہا تھا۔ 23ستمبر2010ء کے دن فرانس میں مسلم قبرستان میں 30قبروں کی بے حرمتی کرکے ان پر swastikaکا نشان بنایا گیا۔
یہ واقعات اسلاموفوبیا کے مرض میں مبتلا شدت پسندوں کی طرف سے اس بڑی تعداد میں ہوئے ہیں جنہیں درج کرنے کیلئے کالم نہیں بلکہ ایک پوری کتاب بھی ناکافی ہوگی۔دوسری جانب واہگہ بارڈر کے اُس پار اسلاموفوبیا کو ریاستی سرپرستی اور تحفظ حاصل ہے۔یہی حال اسرائیلی قابض فوجیوں کے ہاتھوں محصور فلسطینیوں کا بھی ہے۔یہ کوئی نئی باتیں نہیں بلکہ بھارت میں اسلاموفوبیا کی انتہا30جنوری1948ء کوتب ہوئی جب نسل پرست ہندو ناتھورام گوڈسے نے موہن داس کرم چند گاندھی کو اس الزام کی بنیاد پر قتل کردیاکہ گاندھی جی نومولود مسلم ریاست پاکستان کو اس کے حصے کا خزانہ ٹرانسفر کرنے کے لیے بھوک ہڑتال پر تھے۔
رواں سال چند ہفتے پہلے مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کا اجلاس ہوا ۔اس اجلاس سے وزیر اعظم عمران خان نے بھی خطاب کیا۔اس خطاب کے بارے میں نیو یارک کے ایک اخبار میں رپورٹ چھپی جس میں یہودی ماہرین نے پاکستانی وزیر اعظم کے خطاب کو یہ کہہ کر خطرے کی گھنٹی قرار دیا کہ عمران خان مسلم بلاک بنانے کی راہ پر چل پڑے ہیں۔یہودی ماہرین کے مطابق یہ تو شاید ممکن نہ ہو‘ تاہم اس تقریر کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔پروفیسر ریون ریولین کے مطابق ایسے شخص کی تقریر کو سنجیدگی سے لیا جارہا ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔امریکی تھنک ٹینک پاکستان کی نئی قیادت کو مختلف تناظر سے دیکھتے ہیں ‘وہ یہ کہ اگر پاکستان معاشی بحران سے نکل گیا تو مستقبل میں امریکہ اور اسرائیل کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔اسی طرح ایک اور یہودی سکالر جاش لائبرمین نے کہا کہ لگتا ہے او آئی سی کا اعلامیہ عمران خان نے لکھا ہے۔جنوبی ایشیا میں ایسا لیڈر اُبھرا ہے جو خداداد صلاحتیں رکھتا ہے ۔کولمبیا یونیورسٹی میں بھی گزشتہ دنوں ایسے مذاکرے کا اہتمام ہوا جس میں پاکستان کی نئی قیادت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ مذاکرے میں اکثریتی رائے تھی کہ ماضی کے برعکس موجودہ حکومت کے ساتھ معاملات طے کرنے اور اپنی بات منوانے میں مشکل ہوگی۔ اسحاق یاہوکے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطین اور کشمیر اہم مسئلے ہیں جنہیں حل کئے بغیر امن کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا۔شکاگو کے ربی ابراہیم کے خیالات بھی ایسے ہی تھے جبکہ انڈین امریکن پروفیسر اجے کمار شرما کے مطابق بھارت امریکہ اور اسرائیل کے لیے عمران خان کی تقریر پریشانی کا باعث بنے گی کیونکہ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ کوئی جاندار قیادت انہیں للکارے ۔پاکستان کی خوش قسمتی کہ اسے نڈر اور پڑھا لکھا رہبر ملا جو مغرب کو سمجھتا ہے اور ان کی زبان میں جواب دینا جانتا ہے۔
ایک سوال ہم سے بھی بنتا ہے ‘یہی کہ اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے طوفان کو روکنے کے لیے ہم کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟کیا صرف نعرے بازی اور افواہ سازی سے اسلاموفوبیا کی یلغارکا مقابلہ کیا جاسکتا ہے؟یا یہ ایک سنجیدہ موضوع ہے!!
ایک میں ہوں اور مرے احوال پر یلغار ہے
انقلاباتِ زمانہ کی عجب رفتار ہے
بے سرو پا ہے خطیبِ شہر کارنگ ِکلام
چند بے عنوان باتوں پر اسے اصرار ہے (ختم)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں