"ABA" (space) message & send to 7575

افغان طوفان اور مودی کے آپشن …(1)

بڑے زمانوں سے محاورہ یہی تھا کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یوں ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا لیکن یو ایس بہادر کی نئی انتظامیہ نے اس پرانے محاورے کو انار کلی کی طرح دیوار میں چنوا دیا۔
اگلے روز امریکی صدر جو بائیڈن کہہ رہے تھے کہ افغان اپنا فیصلہ خود کریں گے اور افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کا وقت آ گیا ہے۔ 20 سال کے جنگ و جدل کے بعد امریکہ نے چلو یہ تو سمجھ لیا کہ زور زبردستی سے کسی سرزمین پر فیصلے کی طاقت اس کے اصل مالکوں سے نہیں چھینی جا سکتی‘ چاہے وہ ویت نام ہو یا افغانستان۔ یوں لگتا ہے کہ تاریخ کے بدلتے ہوئے اس دھارے میں فلسطین اور کشمیر کے سات عشروں سے زائد زور زبردستی کی جنگ جھیلنے والے زمین کے اصل مالکان کی تقدیر بھی کروٹ لے رہی ہے۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد کیا ہونے والا ہے؟ اس پر تین طرح سے دنیا کے دارالحکومتوں میں بڑے سر پکڑ کر بیٹھے ہیں کیونکہ جس طرح روس کے خلاف امریکہ کی جانب سے لڑی گئی ''پراکسی وار‘‘ سے امریکہ کسی نامانوس اجنبی کی طرح نکل کھڑا ہوا تھا‘ آج پھر عین اُسی طرح ریجنل امن کیلئے بغیر کسی سٹریٹیجی کے امریکہ نے جلے ہوئے گائوں سے جوگی کے نکل بھاگنے کی ایشیائی تاریخ پھر تازہ کر دی ہے۔
ایشیا کیلئے بالخصوص اور دنیا کے امن کیلئے بالعموم اس صورتحال کو ''افغان سٹارم‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ اپنے ہاں کا مگر باوا آدم ہی نرالا ہے۔ سطحی بحث مباحثے‘ وقتی مفاد پرستی‘ منی لانڈرنگ کو عین حلال قرار دلوانے کی درونِ خانہ کوششیں‘ روزانہ کی بڑھک اور جگت بازی‘ آرڈر آف دی ڈے بن چکا ہے۔ اس جیسے کئی اور ذاتی مقاصد کو بھی آگے بڑھانے کیلئے حزبِ اختلاف‘ اختلاف برائے اختلاف بلکہ بذریعہ الزام والی پٹڑی پر بگٹٹ دوڑ رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال اپوزیشن کا یہ الزام ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے بھارت سے کشمیر کا سودا کر لیا ہے اس لئے اب مسئلہ کشمیر بیک برنر پر ڈال دیا گیا ہے۔ دوسری جانب بھارت کے اندر ریجنل اور سٹریٹیجک امور پر نظر رکھنے والے ماہرین زیادہ تحقیقی گہرائی اور پر مغز خیالات کا اظہار کر رہے ہیں‘ جن میں سوشانت سنگھ اور Suhasini Haider قابل ذکر ہیں۔ Suhasini Haider نے ہندوستان کے سب سے بڑے انگریزی اخبار ''The Hindu‘‘ میں 24 جون کو ''The Kashmir outreach and Afghan storm‘‘ کے عنوان سے زمینی صورتحال کا حقیقت پسندانہ تجزیہ لکھا ہے۔ Suhasini بی بی سی اور IBN پر اینکر پرسن رہ چکی ہیں‘ صحافی اور لکھاری ہیں۔ اُن کا خاص تعارف یہ بھی ہے کہ وہ بی جے پی کے مرکزی رہنمائوں میں سے ایک آگ برسانے والے لیڈر شری سبرامنین سوامی کی صاحبزادی ہیں‘ جو انتہائی شدت پسندانہ اینٹی مسلم خیالات رکھتے ہیں۔
''دی ہندو‘‘ اخبار میں چھپنے والے اس تجزیے میں بھارت کی ڈیپ سٹیٹ اسٹیبلشمنٹ کے متعلق خبریں بھی شامل ہیں جن میں سے چند واقعاتی اشارے دیکھ لیتے ہیں:
پہلا اشارہ: مقبوضہ جموں و کشمیر کو ری آرگنائز کرنے کے نام پر پانچ اگست 2019ء کے دن انڈین آئین کے آرٹیکل 370 کی ترمیم کا ڈرامائی فیصلہ صرف دو سال گزرنے کے بعد ہی ڈانواں ڈول ہو رہا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مودی حکومت اپنے اعلان کردہ مقاصد میں سے کچھ کو ری تھنک کررہی ہے۔ پانچ اگست کے فیصلے پر پرائم منسٹر مودی اور ہوم منسٹر امیت شاہ نے تین مخصوص مقاصد بتائے تھے۔ مقبوضہ کشمیر میں ملک کے دوسرے حصوں سے ترقیاتی منصوبوں اور سرمایہ کاری کی بھرمار‘ آزاد خطہ جموں و کشمیر اور چین کے قبضے میں کشمیر‘ جسے بھارت ''ایکسائی چِن‘‘ کہتا ہے‘ انہیں ری کلیم کرنا اور جموں و کشمیر سے سیاسی خاندانوں کی حکومت ختم کرنا شامل تھا۔
دوسرا اشارہ: یہ ہے کہ دو سال میں مودی حکومت اپنے یہ تینوں مقاصد آگے بڑھانے میں ناکام رہی ہے کیونکہ سکیورٹی کے نام پر بڑے پیمانے پر کشمیری لوگوں کی تنگ دستی سامنے آئی ہے۔ پانچ ہزار سے زیادہ لوگوں کو وجہ بتائے بغیر گرفتار کر لیا گیا۔ کسی بھی جمہوریت میں لگنے والا انٹرنیٹ کا سب سے لمبا شٹ ڈائون کیا گیا۔ فوج کی تعیناتی عروج پہ ہے۔ عام کشمیری کی حالت زار یہ ہے کہ اس نے روزانہ سکیورٹی فورسز کی دھمکیوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ بچوں کے سکول کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی آن لائن تعلیم کے ذرائع بند ہیں۔ کشمیری شہریوں کی آمدنی کے وسائل کم سے کم تر ہو رہے ہیں۔ ان مشکلات کا صرف تصور کیا جا سکتا ہے جو انسانی برداشت سے باہر ہیں۔ اسی لئے اب تک مودی سرکار سرمایہ کاروں کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں پیسہ لگانے کی طرف مائل کرنے میں بری طرح ناکام جارہی ہے۔
تیسرا اشارہ: مودی حکومت نے خاص طور سے اس بات پر زور دے رکھا تھا اور ایکسٹرنل افیئرز کے منسٹر ایس جے شنکر نے بڑے پیمانے پر دوسرے ملکوں کا وزٹ کیا اور ہر جگہ یہ وضاحت کرنے کی ناکام کوشش کی کہ مقبوضہ کشمیر کو محاصرے میں لینے کا بھارتی فیصلہ خالصتاً ''انٹرنل‘‘ تھا اور اس فیصلے کی وجہ سے انڈیا کے پڑوسی ممالک سے تعلقات پر سرے سے کوئی اثر نہیں پڑا۔ بھارتی وزیر خارجہ ملک سے باہر جا کر یہ دعویٰ بھی کرتے رہے کہ بھارت کے بڑے بزنس مینوں سے 400 سے زیادہ ''میمورنڈم آف انڈرسٹینڈنگ‘‘ ہو چکی ہیں‘ جن کے ذریعے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ نئی یونین ٹیریٹری میں فوری سرمایہ کاری کریں گے۔ اس میدان میں بھی بھارت کو منہ کی کھانا پڑی۔
اسی تناظر میں امیت شاہ کا ایک تازہ دعویٰ بھارتی پارلیمنٹ میں اس کے خطاب کے دوران سامنے آیا جس میں اس نے کہا کہ وہ آزاد جموں و کشمیر اور ایکسائی چِن کے علاقوں کی واپسی کو یقینی بنانے کیلئے بہت سی زندگیاں قربان کرنے پر بھی تیار ہیں۔ دوسری جانب بڑے بھارت نواز تجزیہ کار بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ زندگیاں قربان کردینے والی تجویز چائنا کی لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر اپریل2020ء سے جاری زوردار قبضے کی وجہ سے پہلے سے بھی زیادہ مشکل دکھائی دیتی ہے کیونکہ بھارت نے عوامی جمہوریہ چین کے فوجی اقدامات اور اینٹی سٹیٹس کو کی بحالی کا مقصد حاصل کرنے کیلئے سفارتی زور لگایا مگر بھارت کوئی نتیجہ خیز اقدام کرنے میں ناکام رہا۔ اس کے بعد بھارت کو مجبوراً فوجی مذاکرات کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا‘ جس میں ناکامی کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے خطرے کا تاثر بھی شامل ہو چکا ہے۔
اس حقیقت کا اعتراف انڈین آرمی چیف جنرل منوج مکند ناروانے کی طرف سے جاری تبصروں اور خبروں پر کی گئی وضاحت کے دوران سامنے آیا۔ انڈین آرمی چیف نے کہا کہ چین کی ایل اے سی کے ساتھ مستقبل میں اگر کوئی بھی تنازع پیش آ گیا تو انہیں پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر two front situation کو ہر قیمت ذہن میں رکھنا ہوگا۔
ان بیانات کا تقابلی جائزہ لیں جو پاکستان کے اندر سے سیاسی بے روزگار اور ان کے پروموٹرز دے رہے ہیں‘ انڈین آرمی چیف کے بیان کے ساتھ‘ جس سے صاف ظاہر ہے کہ مقبوضہ کشمیر 1971ء کے بعد بھارت کیلئے ہر حوالے سے دردِ سر ہے۔ اسی لئے انڈین لیڈرشپ ایل او سی سے کولڈ سٹارٹ تھیوری کو واپس لپیٹنے پر مجبور ہوئی۔ افغانستان سے یو ایس آرمی کی ناکا م واپسی‘ گلوبل کے ساتھ ساتھ بہت بڑا ریجنل ایونٹ بھی ہے۔ بھارت اس میں اپنی پسپائی یوں دیکھتا ہے! (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں