"ABA" (space) message & send to 7575

افغان طوفان اور مودی کے آپشن …(آخری قسط)

اس ہفتے کے واقعات نے ان اشاروں‘ جو پچھلے وکالت نامہ میں دیے گئے تھے‘ کی تصدیق کردی ہے۔ بھارت نے افغانستان سے یو ایس آرمی کی واپسی کے اعلان کے ساتھ ہی افغان حکومت کی جگہ افغان طالبان سے اعلیٰ سطحی رابطے کئے جس کی تصدیق بھارتی وزیر خارجہ مسٹر سبرامنیم جے شنکر کی قطر میں افغان حکومت مخالف سِرے سے رابطے اور ملاقات نے کی۔ بھارتی وزیر خارجہ کی یہ ملاقات اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ افغان طوفان سے کس قدر پریشان ہے‘ کیونکہ خطے میں بھارت کے مفادات میں توسیع پسندی کا خواب چکنا چور ہو رہا ہے۔
دوسری جانب ایک بار پھر بھارتی فوج کے سربراہ جنرل منوج مُکند ناروانے اور انڈین ایئر فورس کے چیف مسٹرراکیش کمار سنگھ بھادوریہ کے اختلافات کا چرچا عام ہو گیا ہے۔جس کا سبب بھارت کے ایک فضائی اڈے پر دو ڈرون اٹیک کی خبر کے پس منظر سے اُبھر کر سامنے آیا۔جنوب مشرقی ایشیا کی تازہ صورتحال افغانستان سے امریکی فوج کا پُل آئوٹ‘ امریکہ مخالف جنگجوئوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کی خبریں‘دہلی میں اس لئے بھی تشویش کا باعث بن گئی ہیں کہ اس کے جنگی جنون کے عین عروج کے دور میں توسیع پسندی کے اقدامات کے خلاف Risk Calculusمیں یہ بڑے اضافے کا باعث بن گئی ہیں۔
اسی ہفتے انڈین اسٹیبلشمنٹ نے لمبے عرصے سے گرفتار 14''بے بس قیدیوں‘‘ کو کشمیری لیڈر بنا کر ان کی مودی سے ملاقات کروائی۔اس سے کچھ عرصہ پہلے ہی انڈین ہوم منسٹر امیت شاہ نے طنز سے بھرے ہوئے لہجے میں ان ہی لوگوں ''Gupkar Gang‘‘(People's Alliance for Gupkar Declaration یعنی جموں اور کشمیر کی کئی ریجنل سیاسی پارٹیوں کے درمیان ایک انتخابی اتحاد ہے)کے نام سے پکارا تھا۔مودی کے بھارت کا یہ ڈرامہ بھی بُری طرح سے فلاپ ہوا کیونکہ اس مشاورت میں حریت رہنمائوں سمیت عام کشمیری پارٹیز کو سائیڈ لائین کرنے کی ناکام کوشش کے علاوہ اور کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ ایک نئی بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں مکمل لاک ڈائون لگانے کے بعد بی جے پی ایک نئی سیاسی پارٹی قائم کرنا چاہ رہی تھی‘جس کا نام''اپنی پارٹی‘‘رکھا گیا۔
اسی تسلسل میں بھارت کے آپشنز سکڑنے کے کئی اور بھی ثبوت سامنے آئے ہیں۔جن پر بھارتی آزاد تجزیہ کار کھل کر بات کر رہے ہیں۔ اسے U.S Factor کا نام دیا گیا ہے۔ان ثبوتوں کا تھوڑا سا تذکرہ یہاں مناسب ہوگا۔
پہلا ثبوت: بھارت کے افغان طوفان سے جنم لینے والے نئے میٹرکس کا پردہ اس فیصلے سے بھی چاک ہوتا ہے‘جس کے مطابق انڈیا نے جلال آباد اور ہرات کے شہروں میں اپنے دو عددافغانی قونصل خانوں میں تمام آپریشنز بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔پہلے اس فیصلے کو کورونا وائرس کی وبا کا کوَر دیا گیااور عارضی اقدام بھی کہا گیا‘لیکن قطر کے خاص سفارتی نمائندے کے اس تازہ انکشاف کے مطابق انڈین آفیشلز کی دوحہ میں طالبان سے بات چیت‘ افغانستان سے یو ایس کے انخلا کے بعد پیش آنے والے سیفٹی کنسرنز کی وجہ سے ہے۔
دوسرا ثبوت :چین کے سرکاری ٹی وی CGTNکو دیے گئے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے حالیہ انٹرویو سے بھی ملتا ہے‘جس میں عمران خان صاحب نے کھل کر کہا کہ امریکہ اور بھارت نے کچھ دوسرے ملکوں سے مل کر چین کے خلاف اتحاد بنایا ہے‘جس میں شامل ہونے کے لئے پاکستان پر نا مناسب دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ساتھ ہی وزیر اعظم صاحب نے واضح کر دیا کہ پاکستان ہر قسم کے دبائو کے باوجود بھی چین سے دوستی اور سٹریٹیجک پارٹنرشپ جاری رکھے گا۔
تیسرا ثبوت: تازہ افغان طوفان کے تناظر میں پاکستان پر پھر سے دبائو اور یو ایس فیکٹر کا ذکر بدھ کے روز قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن میں عمران خان نے کھل کر مسترد کردیا۔بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر پر مذاکرات سے پہلے 5 اگست 2019ء کے بھارتی اقدامات کی ایڈوانس واپسی سے مشروط کرتے ہوئے امریکہ کو دلیرانہ پیغام ان لفظوں میں دیا'' ہم امن پراسیس میں تو امریکہ کے پارٹنر ہو سکتے ہیں‘ لیکن تصادم میں ہر گز پارٹنر نہیں بنیں گے۔‘‘
چوتھا ثبوت: جس پر بھارت میں کافی واویلا مچا ہوا ہے۔یوں ہے کہ افغانستان سے امریکہ کی فوجوں کا انخلا شروع ہونے کے بعد بھارت‘ ایشیا میں امریکہ کے بوٹوں کی موجودگی کی طاقت سے محروم ہو گیا ہے لہٰذا انڈین ڈیپ سٹیٹ کے پاس افغانستان کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں زمینی حقائق دیکھنے والی آنکھ کھلنے کے علاوہ باقی آپشن بند ہو رہے ہیں۔
پانچواں ثبوت :عالمی تناظر میں نئے افغان سٹارم پر نظر رکھنے والے کہہ رہے ہیں کہ وسیع تر کینوس کے مطابق جیسے جیسے امریکہ اور چین کے مابین محاذ آرائی کے خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ویسے ویسے ہی انڈیا کی عالمی حکمت عملی کا امتحان بڑھتا جائے گا۔دوسری جانب یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ امریکہ سے مشرق میں انڈیا سے چین اور پھر Indo-Pacificکے جھگڑوں میں تعاون کی توقعات‘ کسی طور سے بھی امریکہ سے توقعات کے مطابق نہیں۔مودی کے انڈیا نے توقع یہ لگائی ہوئی تھی کہ امریکہ بہادر انڈیا کے پاک افغان مغرب بارڈر کی جانب سے خطرات کم کرنے کیلئے فیصلہ کن ایکشن کرے گا۔
اس تازہ منظر نامے میں عمران خان کی حکومت نے زبردست سمارٹنس کا مظاہرہ کیا۔افغان عوام کے فیصلے کو تسلیم کرنے کا اعلان‘افغانستان کی صورتحال میں ملوث نہ ہونے کا اعلان‘کسی بھی مغربی ملک کے دبائو یا اُکسانے پر پاکستان کو فرنٹ سٹیٹ فائٹر نہ بنانے کا اعلان اور پاکستان کیلئے میڈ اِن پاکستان علاقائی سٹریٹیجی کو آگے بڑھانے کا اعلان۔
وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کی طرف سے''No More‘‘ ڈپلومیسی شروع کرنے کے نتیجے میں بھارت کو مزید پیچیدہ ریجنل صورتِ حال کا سامنا ہو گا۔ بعض مغربی طاقتوں کی جانب سے افغانستان میں تیسری بار جو گیم شروع کرنے کوشش کے آثار سامنے آرہے ہیں‘ وہاں انڈیا کے سکیورٹی انٹرسٹس مسلسل اس کھیل کا حصہ ہوں گے جبکہ پاکستان پہلی بار اس سیناریو میں امن کا سہولت کار بن کر اُبھرا ہے۔
بھارت کیلئے دو رنگی کا زمانہ گزر چکا ہے۔جب وہ ایک طرف دنیا کی سب سے بڑی جمہورت کہلاتا تھا اور پاکستان کو افغان مسئلے میں اشتعال کے الزام دیتا تھا۔اب جبکہ دوحہ میں بھارتی حکومت نے افغان طوفان کے غیر سرکاری فریق سے مذاکرات کیے ہیں تو اس پر ایک سوال کا جواب دینا لازم ہوگیا ہے۔سوال یہ ہے کہ بھارت کی افغان سے نہ سرحد ملتی ہے‘ نہ کلچر‘ اور نہ مذہب تو پھر امن کے اسے وہاں مذاکرات کی کیا ضرورت پڑگئی؟
اسی حوالے سے بھارت‘جو چند سال پہلے تک ایشیا کی سُپر پاور بننے کے خواب دیکھ رہا تھا‘اب خطے کے مسائل کے حل کے بجائے مسائل میں اضافے کی وجہ بن چکا ہے۔ اس نئے کردار میں بھارت اب مغرب کی ''پراکسی‘‘سے زیادہ اور کچھ نہیں کر سکتا۔ اس کے پڑوس میں دو ایٹمی طاقتوں‘پاکستان اور چین نے بھارتی ایجنڈا ایکسپورٹ کرنے کا راستہ روک رکھا ہے۔بھارت کا آخری آپشن یہ ہے کہ وہ اس پراکسی میں کس حد تک استعمال ہونے کے لیے تیار ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں